امثال الحدیث
مؤلف:مفتی محمد کریم خان
ناشر: ہجویری بک شاپ، گنج بخش روڈ، لاہور
قیمت:200 روپے، صفحات: 270
احادیث کی کتب میں ہمیں بہت سی ایسی احادیث ملتی ہیں جن میں اللہ کے آخری نبیؐ نے مختلف مثالوں کی مدد سے اخلاق کریمہ کی تعلیم کی ہے اورمختلف باتوں کی وضاحت فرمائی ہے۔مثال بیان کرنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی غیر واضح اور غیر محسوس حقیقت کو مخاطب کے فہم سے قریب لانے کے لئے کسی ایسی چیز سے تشبیہ دی جائے جو واضح اور محسوس ہو، دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہئے کہ جو چیز عام نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے مثال کے ذریعے سے گویا اس کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے۔ مثلاً زیر تبصرہ کتاب میں درج ایک حدیث اس طرح سے ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:’’ نیک ہم نشیں کی مثال خوشبو والے کی طرح ہے۔ اگر تو اس سے کچھ نہ بھی خریدے تو عمدہ خوشبو کو اس سے پا ہی لے گا اور بُرے ہم نشیں کی مثال بھٹی دھونکانے والے کی طرح ہے، اگر تو اس کی سیاہی سے بچ بھی جائے تو اس کا دھواں تجھے ضرور پہنچے گا۔‘‘ پانچ ابواب پر مشتمل اس کتاب میںاحادیث صحاح ستہ کی کتب سے منتخب احادیث کو شامل کیا گیا ہے۔ احادیث کے طالب علم اور عام قارئین کے لئے یہ کتاب یقینا مفید ثابت ہوگی۔
سلطان الوھم(کلاں، خورد)
مصنف:سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہوؒ
مترجم:حافظ حماد الرحمان
پبلشرز:سلطان الفقر پبلیکیشنز ،لاہور
سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒنے تصوف پر بہت سی تصانیف فارسی میں تحریر فرمائیں جن میں سے مورخین 140 تصانیف کا ذکر کرتے ہیں لیکن آپ ؒ کی اولین سوانح حیات مناقب سلطانی میں صرف تیس کتب کے نام ملتے ہیں ، گویا مناقب سلطانی کی تصنیف کے وقت ہی بہت سی کتب زمانہ کی نذر ہو چکیں تھیں۔ ان میں سے 33کے قریب تصانیف کے تراجم دستیاب ہیں جن میں سے سلطان الوھم سب سے اہم تصنیف ہے۔سلطان الوھم کلاں اور خورد کا قلمی نسخہ جیکب آباد میں سید سلطان شاہ لائبریری سے 1977ء میں دریافت ہوا۔ یہ ایک خطی نسخہ ہے۔ سلطان الوھم سلطان العارفین حضر ت سخی سلطان باہوؒ کی فقر کے اہم مقام ’’وھم‘‘ پر بہت ہی مدلل تصنیف مبارکہ ہے۔ آپ ؒ نے اپنی اس تصنیف مبارکہ میں وھم کی حقیقت کو کھول کر طالب مولیٰ کے لئے بیان فرمایا ہے۔ فقراء نے اپنی تصانیف میں وھم کا ذکر کیا ہے لیکن سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہوؒ نے اپنی تصانیف مبارکہ میں دیگر صوفیاء کرام سے مقابلتاً وھم کا ذکر زیادہ تفصیل سے فرمایا ہے۔ترجمہ بڑا آسان اور رواں ہے ، قاری بڑی آسانی سے بات سمجھ جاتا ہے، راہ سلوک پر چلنے والوں کے لئے یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔
اللہ کے نام کے کرشمے
مصنف: پروفیسر محمد حبیب الرحمان کنجاہی
پبلشرز: یونیک ڈسکوری لاہور
اللہ تعالیٰ کے نام کی بے شمار برکات ہیں یہی زیر تبصرہ کتاب کا موضوع ہے، مصنف نے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نام سے ساری کائنات اور جاندار پیدا کئے ہیں۔ کتاب کے تیرہ ابواب ہیں اور ان کے عنوان سے ہی اظہار ہو جاتا ہے کہ مصنف کیا کہنا چاہتا ہے جیسے اللہ کے نام کی برکات، چھ دن میں تخلیق، رزق دینے والا وغیرہ، اہم بات یہ کہ مصنف نے اپنی بات کو دلائل اور سائنسی نقطہ نظر سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
بی کھوکھو کی ناک
مصنف:محمد سلیم الرحمن
ناشر:القاپبلیکشنز12-kگلبرگ2لاہور
قیمت:95
بچوں کا ادب اور ’’بی کھوکھو کی ناک‘‘ محمد سلیم الرحمن اور ان کے خیال کی مدد سے بنایا گیا گائوں اڑ اڑا اڑا دھوں پور اور وہاں کی رہنے والی بی کھوکھو۔ کتنی دلچسپ، کتنی سفاک، کتنی بے یارو مددگار، کتنی معصوم۔ ایسا کردار جو بچوں کے تخیل میں جگہ بنا سکتا ہے۔ دلچسپ، انگلی پکڑ کر چلاتا ہوا۔ الجھائو سے پاک، واقعاتی بھرمار سے صاف۔ محمد سلیم الرحمن نے بی کھوکھو کی کہانی بناتے ہوئے لمبے جملوں سے احتراز کیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملے استعمال کیے ہیں۔ بچپن کے ہم عمر جملے۔ ان کے ہاں کہیں یہ خیال ضرور موجودہوگا کہ لمبے جملوں، مشکل ترکیبوں سے بچے بدک جائیں گے۔ اس لیے آسان زبان استعمال کی ہے۔ ’’بی کھوکھو‘‘ سے ملیے۔
’’اتنی نک چڑھی کہ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتی۔ مگر یہ کیا؟ بی کھوکھو کی چڑھی ناک کو کیا ہو رہا ہے؟ ارے یہ ناک ہے یا شیطان کی آنت! بی کھوکھو کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اس دلچسپ کہانی میں پڑھیے۔‘‘یہ وہ تحریر ہے جو بی کھوکھو کی کہانی کے بیک فلیپ پر درج ہے۔ بی کھوکھو نک چڑھی ہی تو ہے جو کسی سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتی۔ اڑ اڑا اڑا دھوں پورمیں کوئی بی کھوکھو کے گھر سے آگ جلانے کے لیے ماچس کی تیلی لینے تک کا روادار نہیں۔ سنی اَن سنی کر دیتی ہے۔ کبھی اس کے کان کوے کاٹ جاتے ہیں، کبھی کتے۔ اس کا علاج آخر اجگڑ بجگڑ ہی کرتا ہے۔ اجگڑ بجگڑ جادوگر اپنے جادو کی مدد سے بی کھوکھو کو جوانی واپس لانے کا نسخہ بتاتا ہے ۔ وہ اس نسخے کے استعمال سے اپنی ناک لمبی کر بیٹھی ہے۔ کان غائب کروا لیتی ہے۔ لمبی ناک اس کے لیے وبال جان بن جاتی ہے۔ آخر اجگڑ بجگڑ کو رحم آتا ہے اور وہ اس کی ناک واپس اصلی جگہ پر آجاتی ہے۔ کان دوبارہ نکل آتے ہیں۔ اجگڑ بجگڑ کا سنہری مولی کے استعمال کا نسخہ کتنا دلچسپ اور کیسا تیر بہ ہدف ثابت ہوتا ہے یہ اور اس طرح کی دلچسپ باتیں ’’بی کھوکھوکی ناک‘‘ کا حصہ ہیں۔
اس کہانی کی زبان بڑی سادہ ہے۔ بچوں کے لیے لکھی گئی زبان، بچپن جیسی خوبصورتی، رموز و اوقاف سے مزین، اعراب کا استعمال، بچوں کے لیے مشکل الفاظ کی فرہنگ، ٹھیک ہی تو ہے اگر بچے شروع سے زیر زبر کا استعمال سیکھ جائیں گے تو انہیں زبان کے بولنے میں اطمینان اور اعتماد حاصل ہوگا اور یہی وہ چیزیں ہیں جو زندگی کو خوبصورت کر دیتی ہیں۔ کہانی کار نے اس دلچسپ کہانی میں ایک سطح پر بچوں کی فطرت پر اچھا اثر ڈالنے کا اہتمام بھی کیا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر کسی کی زندگی بی کھوکھو جیسی خودغرضی میں گزر رہی ہے تو اسے کہیں نہ کہیں ضرور اجگڑ بجگڑ سے پالا پڑ سکتا ہے اور اس کی زندگی مصیبتوں کی نذر ہو سکتی ہے۔ خوش خلقی اچھی چیز ہے۔ آپ خوش، آپ کا خدا خوش۔
امرت سر 30 کلومیٹر
مصنف: حسنین جمیل
قیمت: تین سو روپے،صفحات: دوسو چھپن
ناشر : الحمد پبلی کیشنز، لیک روڈ لاہور
حسنین جمیل کی تازہ ترین تخلیق ’’امرت سر تیس کلومیٹر‘‘ مختصر افسانوں پر مشتمل ہے۔اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد افسانہ نگاری کے میدان میں حسنین جمیل کا مستقبل تابناک دکھائی دیتا ہے۔ان کے افسانوں کی زبان آسان اور سادہ ہے جبکہ ان کا ہلکا پھلکا انداز پڑھنے والوں کو بوجھل محسوس نہیں ہوتا۔اکیس کہانیوں پر مشتمل ان کا یہ افسانوی مجموعہ ان کی دوسری طبع شدہ تخلیق ہے۔ اس سے قبل 2005 میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’کون لوگ‘‘ کے عنوان سے سامنے آیا تھا۔یوں لگتا ہے کہ حسنین جمیل نے بھی بہت سے دیگر لکھنے والوں کی طرح یہ افسانے روزمرہ زندگی اور مشاہدات سے اخذ کیے ہیں جیسے پہلا افسانہ ’’امرتسر تیس کلومیٹر‘‘ اور دوسرا ’’بے چارے لوگ‘‘ ہے جس میں معاشرے کے المیوں اور تلخیوں پر قلم آرائی کی گئی ہے۔
جبکہ کچھ افسانوں جیسے ’’پھر وہی کہانی۔۔۔‘‘ میں ان کا تخیلاتی رنگ سامنے آتا ہے۔ان کی دو تخلیقات کے درمیان آٹھ سال کا فاصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ لکھنے سے پہلے طویل تپسیا کے قائل ہیں۔وہ جس طرح ادب کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑے ہوئے ہیں اور ادبی اجلاسوں اور بیٹھکوں میں شرکت کرتے ہیں ، اس سے ادب کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ان کی تحریر میں موجود نکھار اور پختگی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ آنے والے وقت میں وہ افسانوں کا ایک نمایاں نام بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ نقاد رشید مصباح ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حسنین جمیل کی پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر گہری نظر ہے۔ انہوں نے 1977 سے لیکر 2007 تک ہونے والے چار بڑے سیاسی قتلوں کو اپنے افسانے’’صلیبیں‘‘ کا موضوع بناتے ہوئے اس طرف ا اشارہ کیا ہے کہ جابر طبقے غریب کے لیے آواز بلند کرنے والے اپنے طبقے کے افراد کو بھی سولی پر چڑھا دیتے ہیں۔ظلم اور و حشت کی انتہا اس افسانے کی رگ رگ میں سمائی ہے۔’’رام اور سیتا‘‘ انسانی رشتوں کی اہمیت آشکارا کرتا ہے اور معاشرہ ان رشتوں کو کس طرح بے دردی سے پامال کرتا ہے ، حسنین جمیل نے بڑی تفصیل سے اس افسانے میں وضاحت کی ہے۔
رشید مصباح کے بقول حسنین جمیل کے افسانے ظلم اور جبر کے خلاف ایک بلند آواز ہیں جسے کبھی دبایا نہیں جاسکتا۔انہوں نے ان مسائل کو اپنے افسانے کا موضوع بناکر جنہیں ہماری لکھاری بھولتے جارہے ہیں، ایک بڑا اہم کام کیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ حسنین جمیل آنے والے دنوں میں ان سے بھی زیادہ اہم اوران سے بھی زیادہ جاندار افسانے تخلیق کریں گے کہ وہ تخلیقی جذبے سے بھرے ہوئے ہیں اور سماج کو تبدیل کرنے کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں۔
تبصرہ نگار حسنین جمیل کے بارے میں مذکورہ رائے سے مکمل طور پر متفق ہے۔ امید ہے کہ حسنین جمیل آئندہ بھی اسی طرح کے اچھوتے اور جاندار افسانے تحریر کرتے رہیں گے اور قارئین کو مایوس نہیں کریں گے۔ دعا ہے کہ اللہ ان کے قلم کو مزید طاقت عطا کرے۔