غزل
وہ شور تھا کہ لفظ نہیں ہے زبان پر
آواز قتل ہونے لگی حرف دان پر
میں حالت ِ خمیر میں سب دیکھتا رہا
کیا کیا گزر رہا تھا مری ایک جان پر
طعنہ نہیں ہے تیرے لیے کوئی فاحشہ
شجرے کا بوجھ ہوتا ہے ہر خاندان پر
اک شکل آئنے کی سواری پہ لاد لی
اک شخص کو سوار کیا اپنے دھیان پر
یہ کون شاہراہ پہ کرتا ہے یوں خرام
گزرے جو تو زمانہ گزارے جہان پر
اب موج مجھ سے دست گریبان ہو نہ ہو
میں اپنا پنجہ گاڑ چکا ہوں چٹان پر
(دانیال زمان۔ خوشاب ،پنجاب)
غزل
کنارہ ڈھونڈلو اور پانیوں سے دور رہو
شکستہ ناؤ ہے طغیانیوں سے دور رہو
میں درد و رنج کا مارا ہوں اس لیے مجھ سے
کنارہ کر کے پریشانیوں سے دور رہو
لپک رہے ہو کسی شعلہ فام کی جانب
یہ دل فریب سی تابانیوں سے دور رہو
پہاڑ کاٹ کے رستہ نکالتے جاؤ
مِرے عزیز! تن آسانیوں سے دور رہو
قریبِ مرگ ہوں آؤ نہ اب عیادت کو
بلا جواز پشیمانیوں سے دور رہو
شکستہ گھر سے نکلنے میں عافیت جانو
دلِ تباہ کی ویرانیوں سے دور رہو
یہ بندگی کا تقاضا ہے اس لیے صادقؔ
خدا کی مان لو من مانیوں سے دور رہو
(محمد ولی صادق۔ؔ کوہستان ،خیبر پختونخوا)
غزل
تھے کہاں کے، کہاں پر اتارے گئے
کھینچ کر ہم زمیں پر جو مارے گئے
جو اتارے گئے تھے ہمارے لیے
سب کے سب چاند، سورج، ستارے گئے
ناؤ احساس کی ڈگمگا سی گئی
اور ہاتھوں سے ندیا کے دھارے گئے
عشق لپٹا ہی سارا خساروں میں ہے
فائدہ کیا ہوا گر خسارے گئے
اور کچھ بھی تو ہم سے نہیں بن پڑا
اپنے ارماں کے سر ہی اتارے گئے
جو عقیدت کے اپنے دلوں میں رہے
سلسلے وہ ہمارے تمہارے گئے
عاشقوں کے لیے ہم ہوئے سربکف
موت کے منہ میں جتنے بھی سارے گئے
یاد آئیں تو آنسو چھلکنے لگیں
وہ زمانے کہ تجھ بِن گزارے گئے
آگ کا ایک دریا ہے کرنا عبور
اور حسرتؔ یہ بازی جو ہارے، گئے
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)
غزل
مری آنکھیں سمندر ہیں پہ طغیانی نہ پاؤ گے
کہ ان میں تم کبھی اشکوں کی ارزانی نہ پاؤگے
کسی کی یاد کی دنیا بسا رکھی ہے اس دل میں
سو اس گھر میں کبھی چاہ کر بھی ویرانی نہ پاؤ گے
سنو!کارِ محبت میں مشقت در مشقت ہے
کسی پل کوبھی اس میں تم تو آسانی نہ پاؤگے
کھلے گا راز تم پر جب مسلسل ہجر جھیلو گے
کہ ہو گے جان بلب لیکن کہیں پانی نہ پاؤگے
کبھی جو نازِ ہستی تھے وہ اب حیواں سے بدتر ہیں
کہ ان لوگوں میں جو فطرت ہو انسانی،نہ پاؤ گے
ذرا سی بات پر شہروں کے لونڈے تو بپھر جائیں
طبیعت گاؤں کے بچوں کی ہیجانی نہ پاؤ گے
کروں جب شکرِ باری تو سکونِ قلب ملتاہے
کبھی دیکھو جو دائم کو تو ارمانی نہ پاؤ گے
(ندیم دائم۔ ہری پور)
غزل
کمانے کی دھن سے لگتا ہے انقلاب کی پرورش کریں گے
یہ فدویانِ نگر،دہر کے جناب کی پرورش کریں گے
شگوفے کا خوف بے وجہ تو نہیں،وہ بھی جانتا ہے اک دن
بناوٹوں سے فرار گلچیں،گلاب کی پرورش کریں گے
ابھی تو سرگوشیوں کو بہلانے کا کہا ہے سماعتوں نے
اگر یہ چپ ہوگئیں تو شاید خطاب کی پرورش کریں گے
رکھا ہے صندوق نامناسب جگہ پہ جس کے اوپر لکھا ہے
ذرا ادب صدقہ کیجیے اک کتاب کی پرورش کریں گے
مہاتما ہو گئے ہو تو پھر خدا پرستوں کے شہر جانا
یقیں کو پچکار کر تمہارے سراب کی پرورش کریں گے
سخن کے اژدر نے خامہ داروں کی جلد نیلی کی زہر اُگلا
سروں کے یہ بھیڑیے کہاں اس رباب کی پرورش کریں گے
کپاس کے پھول پر نہ کَس بے حجاب ہونے کا طنز ایسے
یہ بے لبادہ ہی تو ہمارے نقاب کی پرورش کریں گے
بلک رہا ہے جو جاگتی آنکھ کے سہانے سے جسم و جاں پر
نجانے کتنے ہی رتجگے اب اس خواب کی پرورش کریں گے
کوئی بھی آزار دے دے توحوصلہ وری اوج پر ہے ساگرؔ
جفا سے اس ہجر تک ہر اک انتخاب کی پرورش کریں گے
(ساگرحضورپوری۔سرگودھا)
غزل
شدتِ غم یہ کہیں مار نہ ڈالے مجھ کو
اس مصیبت سے، کوئی ہے، جو نکالے مجھ کو
یا خدا تجھ کو ترے چاہنے والوں کی قسم
اس طرح چھوڑ نہ دنیا کے حوالے مجھ کو
تیرا ہونے سے میں انکار نہیں کرسکتا
چاہے وہ قتل کرے، مار ہی ڈالے مجھ کو
غوطہ زن مجھ سا زمانے میں نہیں تھا کوئی
ساتھ لے ڈوبے مگر ڈوبنے والے مجھ کو
اس نے ارشادؔ مجھے دل میں چھپا رکھا ہے
کیسے ممکن ہے کوئی ڈھونڈ نکالے مجھ کو
(ارشاد عرش۔ ممبئی، بھارت)
غزل
ہے غم کی بارشوں سے یہی حال دوستو
اِک دن بھی اب لگے ہے مجھے سال دوستو
بادل غموں کا جس طرح مجھ پر برس پڑا
اپنے سناؤں اب کسے احوال دوستو
ساون کی بارشوں سے ہو جیسے تباہ گھر
یہ دل بھی اس طرح ہوا پامال دوستو
دنیا سے رفتگاں ہوئے ہیں نامور بہت
ہوتا ہے کیا اگر گیا اقبال دوستو
(اقبال جعفر۔وادیٔ دُرگ)
غزل
بادلوں کے موسم میں جس طرح سویرا ہے
خواہشوں نے ایسے ہی آدمی کو گھیرا ہے
ڈس رہے ہو تم جس کو تم کو قید کرلے گا
سانپ ہو اگر تم تو وہ بھی اک سپیرا ہے
شہر کی فصیلوں سے ہر گلی و کوچے میں
جس طرف نظر جائے ہر طرف اندھیرا ہے
فکرِ نو سے ہی ہوگی روشنی دریچوں میں
یاس کا یہاں سایا جس قدر گھنیرا ہے
جال پھینک دیتا ہے ہر طرف محبت کا
لگ رہا ہے میرا دل آج کل مچھیرا ہے
تیز تر ہواؤں سے راہ کے چراغوں کا
جل بجھی سی لو جیسا حال آج میرا ہے
ہم کہاں کے دانا ہیں ہم کہاں سے بہتر ہیں
اب بھی ذہنِ انساں پر نفرتوں کا ڈیرا ہے
آ گیا اگر شیرازؔ وصل کا کبھی لمحہ
ہجر کی مصیبت نے فوراً آن گھیرا ہے
(شیراز جعفری۔ سکھر، سندھ)
غزل
پوچھ مت! جب وہ میرے گھر آئی
روشنی چشم و دل میں در آئی
درد ہیں، دکھ ہیں، آنکھ بھر آئی
زندگی! سکھ کہاں پہ دھر آئی؟
چاند نے اس سے پھیر لی آنکھیں
اور وہ افلاک سے اتر آئی
نعتیہ شاعری سنانے کو
شاعرہ بال کھول کر آئی
خاک چمکائے گی وہ بھاگ ترے
جو ترے ساتھ بھاگ کر آئی
راستہ واپسی کا بھول گئی
ہر وہ کلفت جو میرے گھر آئی
قہقہے اشک بن گئے باصرؔ
بات جب اپنی ذات پر آئی
(عبداللہ باصرؔ۔گوجرانوالہ)
غزل
اپنی آنکھوں کے آب میں رکھا
ہم نے اس کو حجاب میں رکھا
جام منہ سے لگا کے دیکھو تو
سارا نشہ شراب میں رکھا
ہائے کیا ہی حسین لمحہ تھا
میں نے بس خودکوخواب میں رکھا
میرے ہاتھوں دیا ہوا اک پھول
اس نے اپنی کتاب میں رکھا
اک طرف آگ اک طرف پانی
میں نے خود کو حساب میں رکھا
اس نے پوچھی جو داستاں میری
دل کا قصّہ جواب میں رکھا
ہم بھی کیا سخت جان تھے ارسلؔ
ہم نے خود کو عذاب میں رکھا
(ارسلان شیر ۔کابل ریور، نوشہرہ)
غزل
جب سے تم کو دیکھا ہے
دل میں کچھ کچھ ہوتا ہے
نظر نظر سے بات ہو پھر
جھٹ پٹ سنگم ہوتا ہے
دن بھر آ نکھ میں رہتا ہے
رات کو دل میں سوتا ہے
کل کو وہی تو کاٹے گا
آ ج تو جو کچھ بوتا ہے
ہجر کے موسم میں ساجدؔ
لہو لہو دل روتا ہے
( محمد نواز ساجد قریشی۔ موضع حسوکے، فیصل آباد)
غزل
ہیں درمیان فاصلے، یہ جانتے بھی تھے
پر ساتھ پھر بھی رہنے کے وعدے کیے بھی تھے
جو راستہ کٹھن تھا، وہی دل کو بھا گیا
منزل کے ورنہ اور کئی راستے بھی تھے
گزرا جو وقت سنگ تیرے وہ کمال تھا
ہاں زندگی میں اور کئی مشغلے بھی تھے
یہ کیا؟ تو پہلی بات ہی سن کر کھڑا ہوا
میں نے سنانے تم کو کئی واقعے بھی تھے
روکا تھا اس کو ہم نے مگر وہ نہیں رکا
رکنے کے لیے ہم نے دیے واسطے بھی تھے
نیّرؔ مصیبتوں میں تو بیگانے کیا ملیں
وہ بھی نہیں ملے جو مجھے جانتے بھی تھے
ضامن نیّر۔ اسکردو، بلتستان
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.