تکلیف سے بے کل مریض ڈاکٹر کے روبرو ہے، مگر ڈاکٹر کو علاج سے قبل مریض کے خون کے مختلف نمونوں کی رپورٹس کا انتظار ہے، جن پر مرض کی تشخیص کا انحصار ہے۔ یہ منظرنامہ اکیسویں صدی کا ہے۔
تو ماضی قریب اور قبل از مسیح کی صدیوں میں معالجوں کا امراض کی تشخیص کے مناظر کیا رہے ہوں گے۔
مرض کی شناخت اور اس کی چارہ گری کے ان مناظر کے مشاہدے کے لیے تاریخ کے صفحوں کو پلٹنا ہوگا۔
معلوم گذری صدیوں کے طبی تاریخی حوالوں کے مطابق انسانی جسم کو لاحق ہونے والی بیماریوں اور حادثات کی نوعیت میں کوئی نمایاں تبدیلی نظر نہیں آئی۔ بس ان روگ کے نام اور ان کے طریقۂ علاج اپنے اپنے دور کی مناسبت سے جداگانہ رہے۔
معالجوں کے باقاعدہ پیشے کے وجود میں آنے سے پیشتر قبل از مسیح، جنگلوں میں رہنے والا انسان اپنے درد کا مداوا خود ہی کرتا تھا۔
قدرت کے عطا کیے شعور کے مطابق شفایابی کے لیے وہ مختلف وسیلے استعمال میں لاتا رہا۔ ان وسیلوں میں سرفہرست زمین پر اگنے والی ہزارہا جڑی بوٹیاں ہیں، جن سے شفایابی کا علم اسے گزرتے وقت کے ساتھ ملنے والی آگہی اور شعور کی پختگی پر ہوتا رہا۔
مزید کئی صدیاں بیتنے پر یہ علم ارتقاء کی کئی اور منزلیں طے کرتا رہا، اور یوں معالجوں کی جماعت تو وجود میں آچکی تھی، پر یہ ایک مستند ادارے کی شکل اختیار نہ کر سکی تھی۔
ان ادوار کے معالج یہی جڑی بوٹیاں مریض کو علاج کے طور پر تجویز کرتے تھے۔ مگر تشخیص کا انحصار معالجوں کے اپنے تجربے کی بنیاد پر تھا۔ یہ قدیم اطباء اپنے مریض کی ظاہری حالت، جسمانی ساخت، نبض کی رفتار اور اس کے دباؤ سے مرض کی تشخیص پر دسترس حاصل کرچکے تھے۔
نیز قدیم مصر میں مردہ جسم کو ’’ممی‘‘ کے عمل سے گزارنے کے لیے جسم کی جراحت کے دوران بھی اطباء کو سیکھنے کا کچھ موقع ملا۔
دوا کے طور پر تجویز کئے جانے والے اجزاء میں جڑی بوٹیوں کے علاوہ گھریلو استعمال کی اشیاء بھی شامل تھیں، اور ان کا حصول بھی آسان تھا۔ لہٰذا کچھ طریقہ علاج گھریلو ٹوٹکوں کے طور پر بھی معروف ہوگئے۔ اور یہ تیر بہدف بھی تھے۔
حکماء کی دوائیں اور گھریلو ٹوٹکوں کو بطور علاج اختیار کرنے کے دوران تاثیر کی مدت طویل ہونے پر ہر درد کا مداوا فوراً چاہنے والی بے چین اور جلد باز انسانی فطرت جا دو ٹونے کی طرف مائل ہوجاتی۔
مریض اور تیمارداروں کا مرض کے بارے میں یہ منفی طرز عمل ہزاروں سالوں سے آج تک کسی نہ کسی روپ میں موجود ہے۔
بابائے طب کہلانے والے یونان کے معروف فلسفی اور مستند طبیب ’’بقراط‘‘ نے امراض کے مشاہدے اور دور دراز کے سفر کے بعد تجربے کی بنیاد پر فنِ طب کو اوہام پرستی اور جادو ٹونے سے نکال کر عملی اساس فراہم کی۔
بقراط کے زمانے تک ہر بیماری کو اپالو دیوتا کے تیر یا آسیب کا اثر قرار دیا جاتا تھا۔ بقراط نے ان توہمات کو یکسر نظرانداز کرکے بیماری کو طبعی قرار دیا۔ مثال کے طور پر مرگی کو ’’مقدس بیماری‘‘ قرار دیا جاتا تھا۔ جس کے دوران انسان کو کسی دیوتا یا آسیب کے قبضے میں بتایا جاتا تھا۔ بقراط نے مرگی اور دوسرے کئی امراض کو صحیح عقل و توضیح پیش کی، جس سے فنِ طب کو صحیح عملی اساس فراہم ہوئی، اور اس طرح فنِ طب کو دیو مالا اور توہم پرستی سے ہمیشہ کے لیے نجات مل گئی۔
فن طب کی اسی لازوال خدمت کی بنا پر دنیا کی مختلف یونیورسٹیاں اپنے فارغ التحصیل طلباء سے ’’حلف بقراط‘‘ لیتی ہیں۔ اسِ حلف کے بغیر کوئی بھی طبیب اپنے پیشے کے میدان میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ اس حلف کے بعد کوئی بھی طبیب کسی قسم کا غیر اخلاقی کام نہ کرنے کا پابند ہوجاتا ہے۔
گزرے وقتوں میں نسل انسانی کچھ مہلک وبائی بیماریوں سے نبرد آزما رہی، یہ بیماریاں حتمی علاج دریافت ہونے تک کے عرصے میں آبادی کا ایک بڑا حصہ چاٹ چکیں۔ ان بیماریوں کے عالم گیر اثرات بھی مرتب ہوئے۔
اِن مہلک بیماریوں کے تناظر میں دیکھیں گے، کہ اُن وقتوں میں کراچی کے باشندوں پر کیا گذری، اس دور کی انتظامیہ نے اس کے سدباب کے لیے کیا اقدامات کیے اور نتیجے میں رونما ہونے والے حالات نے شہر کے سماج پر کیا اثرات نقش کیے۔
طاعون
چودھویں صدی عیسوی کے وسط میں اِس بیماری نے ایشیا، افریقہ اور یورپ میں لاکھوں زندگیاں نگل لیں۔ ایشیا سے ہونے والی جہاز رانی کے سبب یہ بیماری یورپ اور افریقہ تک پھیل گئی۔ یورپ میں اس وبا نے لاکھوں زندگیوں کے چراغ گل کردیے، جہاں اسے ’’سیاہ موت‘‘ کا نام دیا گیا۔
طبی ماہرین نہ اس بیماری کی وجوہات کا پتا چلا سکے، اور نہ اِس کا علاج دریافت کر سکے۔ بیماری میں مبتلا ہوجانے پر یقینی موت کے ڈر، خوف اور افراتفری کے عالم میں عجیب و غریب طریقہ علاج رواج پاتے رہے، جو بالاخر موت پر ہی منتج ہوئے۔
1896ء میں اِس بیماری نے کراچی کا رخ کیا، علاج نہ ہونے کے سبب متاثرہ مریضوں کو صحت مند افراد سے دور لیاری، رنچھوڑ لائن، رام باغ اور سول لائن جیسی ویران بستیوں میں قرنطینہ کیمپوں تک محدود کردیا گیا۔
1897ء میں اس بیماری نے کراچی سے نکل کر ٹھٹھہ، حیدرآباد اور سکھر تک تباہی مچا دی۔ اس بیماری سے بچاؤ کے طریقے اور موثر علاج کے نہ ہونے کے سبب کراچی سمیت پورے سندھ میں تقریباً دو لاکھ افراد موت کا شکار ہوگئے۔
بعدازآں تحقیق سے ثابت ہوا کہ اس بیماری کے جراثیم چوہوں کے بدن پر چپکے ہوتے ہیں، اور یہیں پروان چڑھتے ہیں۔ لہٰذا اس بیماری کی روک تھام کے لیے چوہوں کو پکڑنے کی مہم چلائی گئی۔
ساٹھ کی دہائی تک کراچی میں اس بیماری کے آثار بڑی حد تک ختم ہوچکے تھے، مگر خطرہ ضرور تھا۔ لہٰذا حفظ ماتقدم کے طور پر ’’کے ایم سی‘‘ کی انتظامیہ چوہوں کو پکڑنے کے لیے مفت پنجرے تقسیم کرتی رہی۔ انتظامیہ کے اہل کار ہر ہفتے آتے، چوہوں سے بھرے پنجرے لے جاتے اور خالی پنجرے دے جاتے۔
ہیضہ
اہل کراچی 1896ء میں تباہی مچانے والی طاعون کی وبا کو ابھی بھولے نہ تھے کہ 1903ء میں ہیضے کی وبا نے اپنے خونی پنجے دراز کردیے اور شہر ایک عجیب سناٹے میں ڈوب گیا۔ موت ہر وقت ایک مرتبہ پھر ہر شخص کو اپنے اوپر سوار ہوتی محسوس ہوئی۔
ہیضے کی وبا نے شہر میں ہراس پھیلا دیا، جو بستر سے لگا اس نے جینے کی آس ختم کردی۔ ایک افراتفری کا عالم تھا، کئی لوگ اس بیماری سے بچنے کے لیے جنگلوں کی طرف نکل گئے، مگر اجل نے انہیں وہاں بھی آ گھیرا۔ ان بدقسمت افراد کو دوا دارو تو اپنی جگہ، پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ ہو سکا۔ کیا شہر کیا جنگل ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔
اس بیماری میں مبتلا کئی ایسے مریض بھی اسپتالوں میں لائے گئے جو اس بیماری کی شدت سے بول چال سے قاصر ہوگئے تھے۔ چپ سادہ لینے والے یہ مریض دو تین گھنٹوں میں زندگی کی بازی ہار جاتے۔ اپنے پیاروں کے یوں بچھڑنے پر تیمارداروں کا ماتم اور دلدوز چیخیں ماحول کو رنجیدہ کردیتیں۔
چیچک
بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں ’’چیچک‘‘ نامی وبائی بیماری نے کراچی کے باشندوں کو شدید متاثر کیا۔ جلد خصوصی طور پر چہرے پر نمودار ہونے والی پھنسیاں خشک ہو کر جلد پر چھوٹے سے گڑھے چھوڑ جاتی تھیں۔
اُن دنوں چیچک کا حفاظتی ٹیکا بازو کے گوشت میں براہ راست انجیکٹ نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ آدھے انچ کے دائرے میں لگی چھوٹی چھوٹی سوئیوں کو دوا کے محلول میں ڈبو کر بازو کی چمڑی پر دباؤ سے گھمایا جاتا، جس کے نتیجے میں کھال ادھڑ جاتی اور دوا جسم میں داخل ہوجاتی۔ بازو پر اس زخم کے مندمل ہوجانے کے بعد بھی تاحیات رہنے والے دو گول نشان اس بات کی گواہی تھے کہ اس شخص کو چیچک کا حفاظتی ٹیکا لگ چکا ہے۔
ان نشانات کے حامل کئی شخص آج بھی حیات ہیں۔
ٹی بی
یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بیسویں صدی کے پہلے نصف یعنی 1940ء تک ٹی بی لا علاج مرض تھا۔ ممکن ہے قدیم دور میں اس کا علاج ہو، لیکن وہ طریقہ علاج ان حکیموں کے ساتھ ہی دفن ہو چکا۔ مگر اب اس کا علاج دریافت ہو چکا ہے۔
ٹی بی کے مرض کے لاعلاج ہونے کی گواہ ماضی قریب کی وہ فلمیں ہیں، جن میں اس مرض کے حامل شخص کو دھیرے دھیرے موت کی آغوش میں پہنچتا ہوا پیش کیا جاتا تھا۔
مرض کے ابتدائی اسٹیج کے حامل کچھ مریض شہر سے دور کھلی آب ہوا، مناسب خوراک اور دیکھ بال کے سبب زندگی کی طرف واپس لوٹ بھی آتے تھے۔
ٹی بی کے ان مریضوں کو دوسرے لوگوں سے دور رکھنے، انہیں صاف سنہری آب و ہوا اور صحت مند ماحول مہیا کرنے کے لیے ایک اسپتال کا قیام ضروری سمجھا گیا۔
آبادی سے دور مطلوبہ پلاٹ شہر کی ایک مخیر شخصیت کراچی میونسپلٹی کے وائس چیئرمین، جناب ’’دیپ چند بھنداس اوجھا‘‘ نے اس اسپتال کے لیے وقف کیا، جو 25 ایکڑ رقبے پر مشتمل تھا۔ جس پر مقامی حکومت نے ایسے مریضوں کے علاج کے لیے 1938ء میں اسپتال تعمیر کروایا، جس کا نام ’’اوجھا ٹی بی سینی ٹوریم‘‘ رکھا گیا، جہاں آج تک ان مریضوں کا انتہائی توجہ سے علاج کیا جاتا ہے۔
ملیریا
سرعت کے ساتھ انسانی آبادی کے ایک بڑے حصے کو موت کے منہ میں دھکیلنے والی اس بیماری کو آج سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، کیوں کہ آج اس کا علاج انتہائی سہل سے، مگر آج سے تقریباً ایک صدی قبل کراچی میں انگریزوں کی آمد سے پہلے یہاں صفائی ستھرائی کے انتہائی فقدان کے سبب ملیریا جان لیوا روپ کی صورت موجود تھی۔
اس کی ہلاکت خیزی کو ہم اس طرح دیکھ سکتے ہیں کہ، دوسری جنگ عظیم کے دوران جنگلوں میں ڈیوٹی دینے والے فوجیوں کی بڑی تعداد اس مرض کے سبب ہلاک ہوگئی۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے میں دیگر عوامل کے ساتھ اس مہلک بیماری نے بڑا اہم رول ادا کیا، جہاں جنگ کے تمام شریک ممالک کے تربیت یافتہ فوجیوں کی یوں ہلاکت نے ان کے اعصاب توڑ کر رکھ دیے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں کراچی شہر آنکھوں کی بیماری کی لپیٹ میں آگیا۔ اس حملے کی سدباب کے لیے لی مارکیٹ کے علاقے ٹمبر مارکیٹ کے ساتھ ایک ڈسپنسری کھولی گئی، جسے وسعت دے کر آنکھوں کی بیماریوں کے علاج کے ایک بڑے اسپتال کی صورت دی گئی۔
چوںکہ اس اسپتال کے قیام میں ڈاکٹر ’’کے این اسپنسر‘‘ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اس لیے آنکھوں کے اس پہلے بڑے اسپتال کو موصوفِ ڈاکٹر کی خدمات کے اعتراف میں ’’اسپنسر آئی اسپتال‘‘ کا نام دیا گیا۔
The post کراچی کے باشندوں پر کیا گزری! appeared first on ایکسپریس اردو.