Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

فلائٹ ایم ایچ 17 کو کس نے مار گرایا؟

$
0
0

 گزشتہ ہفتے ملائشیا کا ایک مسافر بردار طیارہ مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقے میں گر کر تباہ ہوا جس میں 295 افراد سوار تھے۔

ملائشیا ایئر لائنز کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق طیارے پر 173 ہالینڈ کے شہری، 27 آسٹریلوی، 44 ملائیشیائی ( 15 عملے کے ارکان)، 12 انڈونیشیائی اور 9 برطانوی مسافر سوار تھے۔ دیگر مسافروں کا تعلق جرمنی، بلجیم، فلپائن اور کینیڈا سے تھا۔ہلاک ہونے والوں میں ہالینڈ کے مشہور محقق یوئپ لانگ بھی شامل ہیں جو آسٹریلیا میں ایڈز پر ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔

واقعے کے فوری بعد یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشنکو نے اس طیارے کی تباہی کو حادثے کے بجائے ’دہشت گردی‘ کا واقعہ قرار دیا۔ ان کا اشارہ روس نوازعلیحدگی پسندوں کی طرف تھا کیونکہ طیارہ ان کے زیرکنٹرول علاقے سے گزررہاتھا اور کہا کہ اصل ذمہ دار روس ہے جو علیحدگی پسندوں کی پشت پر ہے اور انھیں اسلحہ فراہم کررہاہے۔یوکرین کی قومی سلامتی اور دفاعی کونسل کے اطلاعاتی مرکز کے ترجمان آندرے لیسنکو کا کہنا ہے کہ ملائیشیا کا مسافر طیارہ یوکرینی فضائی دفاعی نظام کی رینج میں نہیں تھا اور حادثے کے وقت یوکرین کے جنگی طیارے بھی فضا میں پرواز نہیں کررہے تھے۔ اقوام متحدہ میں متعین یوکرینی سفیر یوری سرگیف نے کہا کہ اگر روس نے علیحدگی پسندوں کو میزائل نظام نہ دیا ہوتا تو یہ حادثہ بھی پیش نہ آتا۔

دوسری جانب علیحدگی پسندوں نے واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی جبکہ روس نے بھی اپنے آپ کو اس معاملے سے بری الذمہ قراردیاہے۔ روسی حکام ذمہ داری یوکرین پر ڈال رہے ہیں۔روسی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ ’’ 17 جولائی کو رشین فیڈریشن کی مسلح افواج کا فضائی دفاعی نظام علاقے میں کام نہیں کررہا تھا اور دونتسک کے علاقے میں روسی فضائیہ کے طیاروں نے کوئی پروازیں نہیں کی تھیں‘‘۔

وزارت دفاع نے مسافر طیارے کی تباہی میں یوکرین کے ممکنہ طور پر ملوث ہونے کے حوالے سے کہا ’’علاقے میں یوکرین کی مسلح افواج کے یونٹ موجود تھے اور وہ طیارہ شکن میزائل سسٹمز بَک ایم 1 سے مسلح تھے۔‘‘ وزارت دفاع کے مطابق: ’’بَک ایم 1 نظام 160 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اپنے فضائی اہداف کا سراغ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور تیس کلومیٹر کے فاصلے پر فضا میں ان کو نشانہ بنا سکتا ہے۔مزید برآں دونتسک کے علاقے کی فضائی حدود میں یوکرین کی فضائیہ کے مختلف اقسام کے میزائلوں سے لیس طیارے اڑتے رہتے ہیں اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے‘‘۔

صدر اوباما نے امریکی انٹیلی جنس کے حوالے سے ایسے شواہد ملنے کا اشارہ دیا ہے کہ جن سے پتا چلتا ہے، اس طیارے کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سے مارگرایا گیا ہے، ان کی اطلاع کے مطابق اس میزائل کو یوکرین میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے زیرکنٹرول علاقے سے چھوڑا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ تیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرنے والے طیارے کو خاص میزائل سے ہی تباہ کیا جاسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ روس نواز علیحدگی پسندوں کے ماضی میں یوکرین میں سرکاری طیاروں پر حملوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ انھوں نے روس سے فنی تربیت پائی تھی کیونکہ وہ خاص آلات اور تربیت کے بغیر جنگی یا مسافر طیاروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور یہ تربیت اور آلات بھی روس کی جانب سے آرہے ہیں۔ انھوں نے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے روسی صدر ولادی میرپوتین سے کہا کہ وہ واقعے کے ذمے داروں کا تعین کریں اور ان کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔

ملائشیا کے وزیرِ اعظم نجیب رزاق نے بھی اس واقعے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ یادرہے کہ ملائشیاء کو چند مہینوں کے دوران یہ دوسرے صدمے سے گزرناپڑاہے۔ رواں برس آٹھ مارچ کو ملائشیا کی پرواز ایم ایچ 370 کوالالمپور سے بیجنگ جاتے ہوئے لاپتہ ہوگئی تھی اس میں 239 افراد سوار تھے۔ اس طیارے کا کہیں سراغ نہ مل سکا۔

معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم نیٹو کے سیکریٹری جنرل آندرس فوگ راسموسین نے بھی مسافر طیارے کی تباہی اور روس کی جانب سے یوکرین کے علاحدگی پسندوں کو جدید ہتھیار مہیا کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔

ایم ایچ 17کی تباہی اس گندے کھیل کا نیا مرحلہ شروع ہونے کا اعلان کررہی ہے جو ایک عرصہ سے وسطی ایشیائی ریاستوں میں کھیلا جارہاہے۔ روس اور امریکا کے درمیان کھیلاجانے والا یہ کھیل اس خطے میں بالادستی کا ہے۔ امریکا جو نائن الیون کے بعد ایک بڑا منصوبہ لے کر افغانستان میں اتراتھا، جب افغان طالبان نے اس کے منصوبے کو تباہ وبرباد کرڈالاتو امریکی حکام نے روس کے ارد گرد وسطی ایشیائی ریاستوں کو روسی اثرورسوخ سے نکالنے اور اپنا باجگزار بنانے کی کوششیں شروع کردیں۔ اس کے لئے نعرہ ’’جمہوریت‘‘ ہی کا لگایاگیا۔ جمہوریت کے پردے میں اس پورے خطے پر امریکی سازشوں پر روس نہ صرف پوری باریک بینی سے نظررکھے ہوئے ہے بلکہ وہ ہرمحاذ پر مقابلہ بھی کررہاہے۔

روس اور امریکا کے درمیان جنگ کا یہ میدان یوکرین دنیا کا تیسرا سب سے بڑا زرعی پیداواری ملک ہے۔ یہاں گندم کی پیداوار وافر مقدار میں ہوتی ہے۔ یوکرین میں قدرتی گیس کی کمی ہے، جسے روس پوری کرتا آیا ہے۔ یوکرینی گندم روسیوں کے کھانے کا اہم حصہ ہے۔ روسی خلائی مہم کی ترقی میں بھی یوکرین کا ایرو اسپیس اہم کردار ادا کرتا آیا ہے۔ یوکرین کی آزادی کے بعد بلیک سی کو لے کر روس اور یوکرین کے درمیان کشمکش چلتی رہی ۔

روس بحریہ کے لیے بلیک سی میں ایک مستقل ٹھکانہ چاہتا تھا۔ بالآخر1997ء میں روس اور یوکرین کے درمیان ہوئے ایک معاہدہ میں بلیک سی کے 81 فیصد حصہ کو روسی بحریہ کے استعمال کے لیے دیدیا گیا۔ اس معاہدے سے ایک طرف جہاں روس اپنے مشن بلیک سی میں کامیاب ہو گیا وہیں یوکرین کو سب سڈی کے تحت قدرتی گیس اور دیگر اقتصادی مدد حاصل ہونے لگی۔ آنے والے برسوں میں یوکرینی حکومت کا روس کی طرف جھکاؤ بڑھتا جا رہا تھا کہ 2004ء میں مغرب کی نمائندگی کرنیوالی اپوزیشن لیڈر یولیا تموشینگو کی قیادت میں ’اورنج ریوولیوشن‘ کا آغاز ہوا۔

اس انقلاب کا بنیادی مقصد برسر اقتدار حکومت کو اکھاڑ پھینکنا، آئینی اصلاحات کرنا اور بدعنوانی سے پاک حکومت قائم کرنا تھا۔ تقریباً 2 سال کے بعد تموشینگو یوکرین کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔4 سال کے دور حکومت میں تمو شینگو کا مغرب دوست ایجنڈا چلتا رہا۔ یوکرین کو روس سے الگ کر یورپی یونین کے ممالک کے ساتھ اقتصادی تجارتی معاہدے کا خاکہ تیار کیا گیا۔

اس دوران یوکرین میں لسانی تنازعات بھی ابھرنے لگے۔ روس سے تعلقات بھی خوشگوار نہ رہے۔ 2008ء میں روس نے گیس کی سپلائی روک دی نتیجتاً یوکرین میں اقتصادی بحران پیداہوا۔ حکومت پر دباؤ بڑھا، تمو شینگو پر بدعنوانی کے الزامات لگے اورپھر تمو شینکو 2010ء کے انتخابات ہارگئیں، وکٹر یانکووچ صدر منتخب ہوگئے۔

نئی حکومت نے بدعنوانی کے الزام میں تمو شینکو کے خلاف مقدمہ چلایا اور انھیں7 سال قید کی سزا ہوگئی۔ لیکن اپوزیشن اور دائیں بازو کے سخت گیر حلقے نے یوکرینی حکومت پر یورپی یونین کے ساتھ معاہدے کا دباؤ برقرار رکھا جسے نومبر 2013ء میں عمل میں آنا تھا، لیکن سوویت یونین کے زمانے سے روس سے دوستی رکھنے والے صدر وکٹر یانگووچ نے نہ صرف یورپی یونین کے ساتھ کسی بھی قسم کے معاہدے اور اتحاد سے انکار کر دیا بلکہ روس کے ساتھ کاروباری معاہدہ کیا جس کے بعد یوکرین میں احتجاج شروع ہوا۔

یوکرین کی موجودہ حکومت امریکا نواز ہے جبکہ جس علاقے میں یہ طیارہ گرا ہے ، وہاں سرگرم علیحدگی پسندوں کی پشتی بانی روس کررہاہے۔ ایم ایچ 17کی تباہی کے فوراً بعد امریکا اور روس اس واقعہ میں مفادات حاصل کرنے میں لگ گئے ہیں۔ طیارہ مار گرائے جانے کی خبر کی تصدیق بھی نہیں ہو پائی تھی کہ یوکرین کے افسروں نے روس پر الزام لگانا شروع کر دیااور میڈیا میں خبریں دینا شروع کر دیں کہ باغیوں کے ہاتھ یہ میزائل گزشتہ دنوں ہی لگا تھا۔

یوکرینی حکام نے یہ دعویٰ بھی کیاہے کہ انھوں نے ایک فون کال انٹرسیپٹ کی ہے جس سے ثابت ہوتاہے کہ یہ میزائل حملہ باغیوں کی طرف سے ہی ہواہے۔ تاہم ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ اس علاقے میں طیاروں کا روٹ چالیس ہزار فٹ بلندی پرتھا لیکن یوکرینی حکام نے طیارے کے پائلیٹ کو 33ہزارفٹ پر سفر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

امریکا اور یوکرین کی کوشش ہے کہ مرنے والے لوگوں کی حکومتوں کو اپنے ساتھ ملا کر روس کو دباؤ میں لایا جائے اور یوکرین کے خلاف سرگرم علیحدگی پسند تحریک کی سرکوبی کی جائے۔ سردجنگ ختم ہونے کے بعد یوکرین دونوں قوتوں کے درمیان پہلا بڑا محاذ ثابت ہورہا ہے۔ یوکرین اور روس کی لڑائی کو بین الاقوامی لڑائی میں بدلنے کی کوشش کامیاب ہوتی نظرآرہی ہے، دوسرے لفظوں میں روس کے خلاف چال کامیابی سے ہم کنار ہوچکی ہے اور اب روس کو بہرحال بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کرناپڑے گا تاہم روس ایسے دباؤ کو کبھی خاطر میں نہیں لایا۔ شاید اس بار بھی ایسا ہی ہو۔

کریمیا کی کہانی
سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے کریمیا یوکرین کے ساتھ ہی سوویت یونین کا حصہ تھا ، 1991ء میں یوکرین نے سویت یونین سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تو کریمیا بھی اس فیصلے میں شریک ہوگیا۔ تاہم دونوں ریاستوں کے درمیان ایک بڑا فرق ہے۔یوکرین لسانی اعتبار سے بھی روس سے بالکل الگ ملک بن گیا کیونکہ یہاں78 فیصد یوکرینی زبان بولنے والے تھے جبکہ روسی زبان بولنے والے محض 17فیصد۔ کریمیامیں روسی نژاد اکثریت میں ہیں یعنی ان کی تعداد75فیصد سے زیادہ ہے۔

کریمیا کویوکرین میں خودمختار حیثیت حاصل تھی۔ چونکہ اس سال فروری میںیوکرین روس مخالفوں کے پاس چلاگیا، اس لئے خودمختارریاست کریمیا نے فوراً روس کے ساتھ الحاق کرلیا۔1991ء کے بعد یوکرائن اور کریمیا کے درمیان دوریاں پیدا ہونے کی ایک سبب یوکرین میں ایسے طبقہ کا زورپکڑنابھی ہے جو یوکرائن کو صرف یوکرائنی لوگوں کا ملک دیکھنا چاہتے ہیں حتیٰ کہ وہ دوسری زبان والے یہاں سے اپنی اصل جگہ چلے جائیں۔ وہ دوسری زبان بولنے والوں کو یوکرین کا شہری ماننے سے انکار کرتے ہیں۔

اِدھر بھی باغی، اُدھربھی باغی
یوکرین میں کل کے باغی آج حکومت میں اور کل کے حکمران آج باغی بن چکے ہیں۔ یہاں اس وقت امریکا نوازباغیوں کی حکومت ہے، انھوں نے جمہوریت کے علم اٹھاکر چندماہ پہلے روس نواز حکومت کا دھڑن تختہ کیاتھا۔ گزشتہ نومبر میں یورپی یونین اور یوکرین کے مابین دور رس اثرات کا حامل ایک سیاسی وتجارتی معاہدہ ہونے والاتھا۔ جس کے بعد یوکرین یورپی یونین کا رکن بن جاتا۔ جرمنی سمیت بعض ملک اس کے لئے طویل عرصہ سے کوشاں تھے۔ تاہم عین وقت پر اس وقت کے صدر یانکووچ نے یوٹرن لیا اور روس سے 15ارب ڈالرز کی امداد حاصل کرلی۔ اس کے نتیجے میں حکومت مخالف تحریک شروع ہوگئی۔حکومت نے تحریک سے نمٹنے کے لئے سخت اقدامات کئے۔

ان اقدامات کے باوجود تحریک زوروں پر رہی، 19 اور 20 فروری 2014ء کو پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ کے دوران 70 سے زیادہ افراد ہلاک اور تقریباً 500 زخمی ہو ئے۔ اس واقعہ کے بعد 23 فروری کو یوکرینی پارلیمنٹ نے بذریعہ مواخذہ صدر وکٹر یانکووچ کو نہ صرف ایوان اقتدار سے نکال باہر پھینکا بلکہ انھیں روس کی طرف فرارہونے پر مجبور کردیا۔ روس نوازلوگوں نے اس انقلاب کا جواب کریمیا میں دیا اور وہاں کی سرکاری عمارتوں، پارلیمان ، ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر قبضہ کرلیا۔

بین الاقوامی مبصرین کی ٹیم کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟
جب بین الاقوامی مبصرین اور ماہرین پر مشتمل یہ ٹیم ہیلی کاپٹر کے ذریعے گرابوف پہنچی جہاں یہ طیارہ گر کر تباہ ہوا تھا تو باغیوں نے ان کے کام میں رکاوٹ ڈالنے اور ان کی رسائی محدود کرنے کی کوشش کی۔حالانکہ یورپ کی سلامتی اور تعاون کی تنظیم نے کہا تھا کہ باغیوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ جائے حادثہ کو محفوظ بنا کر وہاں سے لاشیں نکالنے کی اجازت دیں گے۔

باغی بین الاقوامی تفتیش کاروں اور یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم کے نگران اہلکاروں کو جائے وقوعہ تک ’بحفاظت رسائی‘ دینے اور یوکرینی حکام سے تعاون کی ضمانت بھی دیں گے۔یورپ کی سلامتی اور تعاون کی بین الاقوامی تنظیم او ایس سی ای کے ترجمان بوسیورکیو نے کہا کہ ’جب ایک مبصر مجوزہ علاقے سے آگے جانے لگا تو ایک مسلح افراد نے اپنی رائفل سے ہوا میں فائر کیا۔ وہ بظاہر نشے میں نظر آ رہا تھا۔‘یوں 25 ارکان پر مشتمل مبصروں کی ٹیم صرف ایک گھنٹے میں واپس آ گئی۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>