اسلام آباد: برطانیہ کے سب سے بڑے طبی فلاحی تحقیقی ادارے ویل کم ٹرسٹ کے سربراہ پروفیسر جرمی فیرر نے جب گذشتہ سال یہ کہا تھا کہ اینٹیبایوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے والے جراثیم کا بڑھتا ہوا خطرہ درحقیقت ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس پر بھر پور توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے، تو کسی نے اس پر بھرپور توجہ نہیں دی تھی۔
مگر جب سے طبی حلقوں میں یہ احساس بڑھنے لگا ہے کہ مستقبل میں اُن امراض کا علاج بھی ناممکن ہو جائے گا جن کا علاج آج ممکن ہے۔ اس احساس نے عالمی سطح پر لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، جس کا اظہار سوشل میڈیا کی سنجیدہ ویب سائٹس اورصفحات پر ہو رہا ہے۔
عہدہ سنبھالنے کے بعد پروفیسر جرمی فیرر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر اس ضمن میں ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو ’’اینٹی بایوٹکس‘‘ کا یہ سنہری دور عن قریب ختم ہوجائے گا، اب بھی وقت ہے کہ ہم اینٹی بایوٹکس کو بہتر طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں لیکن اس میدان میں مزید تحقیق اور سرمایہ کاری ہونی چاہیے۔
ان کا یہ بیان برطانیہ کی چیف میڈیکل آفیسر ڈیم سیلی ڈیوس کے اُس بیان کی تائید بھی ہے جو انہوں نے 2013 میں دیا تھا کہ اینٹی بایوٹکس کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت ایک ٹائم بم کی طرح ہے۔ انہوں نے اس خطرے کو دہشت گردی کے برابر خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جی ایٹ ممالک کے وزرائے سائنس نے لندن میں (جون 2013 میں ہونے والے ایک اجلاس کے دوران) ادویات کے خلاف مزاحمت کرنے والے انفیکشن کے مسئلے پر جو بات چیت کی تھی، وہ بہت ہی اہم ہے۔
یاد رہے کہ 1998 میں برطانیہ کے ایوان بالا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اینٹیبایوٹکس کے خلاف مدافعت سے لاحق خطرات انسانیت کو اینٹیبایوٹکس سے پہلے والے زمانے میں لے جائیں گے۔ پینیسلین 1928 میں دریافت ہوئی لیکن اس کا وسیع تر استعمال 1950 کی دہائی میں شروع ہوا ۔
اس طرح اینٹیبایوٹکس کے استعمال کو ایک صدی سے بھی کم عرصہ ہوا ہے تو دوسری جانب انسان سے بھی قدیم موذی امراض مسلسل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ بیکٹریا کے دو بڑے انفیکشنز ہی اس مسئلے کی عمدہ مثال ہیں۔
مثلاً دنیا بھر میں تپ دق کی دواؤں کے خلاف مزاحمت اب تک مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ٹی بی کے جراثیم کی ادویات کے خلاف مزاحمت کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے اس مرض کے علاج میں اب دو سال کا وقت لگتا ہے۔ گو یہ بات اتنی خطرناک نہیں تاہم بعض پریشانیاں آج بھی اس سے کہیں زیادہ بدتر ہو چکی ہیں، مثلاً پانچ سال قبل جنوبی افریقہ نے خبر دی تھی کہ وہاں جراثیم کی دواؤں کے خلاف قوت مدافعت انتہائی حد تک بڑھ گئی ہے۔
طبی حلقوں کے مطابق اچھی بات یہ ہے کہ عوامی سطح پر لاحق طبی خطرات راتوں رات نہیں پھیلتے بل کہ ان کے لیے تنبیہی علامات کافی عرصہ پہلے سے ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں مگر بری بات یہ ہے کہ ان پر توجہ نہیں دی جاتی، اسی طرح جنسی طور پر منتقل ہونے والے مرض سوزاک کی شرح میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور اب اس کا علاج بھی اب مشکل ترین ہو چکا ہے۔
بیکٹیریا کی نئی نسل جدید طب کے لیے خطرناک ثابت ہو گی؟
ماہرین طب کا یہ بھی کہنا ہے کہ عالمی سطح پر نئی نسل کے بیکٹیریا کی دواؤں(تھرڈ جنریشن اینٹیبایوٹکس) پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ طبی ماہرین کے ایک عالمی کمیشن نے آگاہ کیا ہے کہ جدید طب یا ادویہ کو سب سے زیادہ ایسے بیکٹیریا یا جراثیم سے خطرہ لاحق ہو چکا ہے جو دواؤں کے خلاف مدافعت پیدا کرتے ہیں۔
یہ تحقیق حال ہی میںطبی جریدے دالانسٹ میں شائع ہوئی ہے۔ جریدے میں شائع رپورٹ میں ماہرین نے نئی نسل کے بیکٹیریا کے خطرے سے نمٹنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ عالمی تعاون پر زور دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم اینٹی بایوٹک یا بیکٹیریا کو ختم کرنے والے دور کے بعد والے دور میں قدم رکھ چکے ہیں، اب ہم اس کو مانیں یا نہ مانیں۔ مستقبل قریب کے چند برسوں میں اگر بیکٹیریا کے خطرناک اثرات سے بچنا ہے تو فوری طور پر عالمی سطح پر سرگرم ہونا پڑے گا اور موجودہ اینٹی بایوٹک ادویات کے استعمال میں کمی اور دوا ساز کمپنیوں کو بیکٹیریا مخالف نئی دوائیں بنانے کے لیے خصوصی مراعات دینا ہوں گی جب کہ برطانوی ڈاکٹر پیٹر سوئن یارڈ نے اس حوالے سے برطانوی اخبار ’’دی انڈیپنڈنٹ‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مریض کی توقعات میں تبدیلی کی بھی ضرورت ہے۔
اب ہمیں لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر قسم کی بیماری کے لیے گولی ہی کھائی جائے۔ اینٹیبایوٹکس سے جتنا بچا جاسکتا ہے، بچنا چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ما بعد اینٹی بایوٹک‘‘ زمانے میں یہ ممکن ہو گا کہ سرسام یا نمونیا جیسی بیماری کا علاج اینٹی بایوٹک سے نہ ہو سکے اور مریض فوراً دم توڑ دے جب کہ آج اس کا علاج ممکن ہے۔
انہوں نے روایتی اینٹی بایوٹک دواؤں میں فوری طور پر کمی کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر چھوٹے موٹے مرض کے لیے اینٹی بایوٹک لینے سے پرہیز کرنا چاہیے ورنہ مستقبل میں اس کے خطرناک ترین اثرات سامنے آئیں گے۔ اس ضمن میں اس تحقیق کی اشد ضرورت ہے کہ اینٹی بایوٹک دواؤں کے خلاف مدافعت کی صلاحیت والی نسل کے بیکٹیریاکس طرح پیدا ہو رہے ہیں۔ ماہرین نے متبنہ کیا ہے کہ ایسی صورت حال میں مؤثر اینٹی بایوٹک ادویات کے بغیر چھوٹی موٹی سرجری سے لے کر کینسر کی کیمو تھراپی تک کا علاج ناممکن ہو جائے گا اور یوں ترقی یافتہ ممالک میں اموات کی شرح دوبارہ وہیں پہنچ جائے گی جہاں بیسویں صدی کے شروع میں تھی۔
انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یوں علاج پر آنے والے اخراجات میں زبردست اضافہ ہو گا کیوںکہ لوگوں کو نئی اور زیادہ مہنگی دواؤں کا استعمال کرنا پڑے گا اور بیماری سے صحت یابی کے لیے زیادہ مدت تک اسپتال میں بھی رہنا پڑے گا۔ سوئیڈن کی اپسالا یونی ورسٹی کے پروفیسر اوٹوکار نے جریدے لانسٹ میں لکھا ہے کہ اینٹی بایوٹک دواؤں کے خلاف مدافعت، پیچیدہ ماحولیاتی مسئلہ ہے جو نہ صرف انسانوں کو متاثر کرتا ہے بل کہ یہ زراعت اور ماحولیات سے بھی الگ نہیں ہے۔ ہمیں اس مسئلے کے تحت الزام تراشی کرنے اور ایک دوسرے کو شرم سار کرنے کی بجائے ایک ٹھوس سیاسی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
مستقبل کی اینٹی بایوٹکس غاروں سے آئیں گی؟
یونی ورسٹی آف ایکرون امریکا کے پروفیسر ہیزل بارٹن نے چند سال پہلے کہا تھا کہ اب غاروں میں پائے جانے والے بیکٹیریا ہی نئی اینٹی بایوٹکس بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔
غاروں کا تصور آتے ہی ہمارا ذہن شاید ہی جراثیم یا جراثیم کش ادویات کی طرف جائے لیکن یہ ممکن ہے کہ غاروں کی سنسان اور گھٹی ہوئی فضا سے اب ہمیں اینٹی بایوٹک کے خلاف مدافعت رکھنے والے بیکٹیریا کا توڑ ملے گا۔ اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ اینٹی بایوٹکس ادویات بیکٹریا کو کیسے ہلاک کرتی ہیں؟ اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اینٹی بایوٹک ایک کیمیاوی چابی ہوتی ہے جو بیکٹریا کے جسم میں موجود تالے میں فٹ ہو جاتی ہے۔
اس کے بعد کیمیائی عمل کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو بالآخر بیکٹریا کی موت پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ اینٹی بایوٹکس کا سالمہ (خلیہ) انتہائی پیچیدہ ہوتا ہے۔ ایڈز اور دوسرے وائرس کے خلاف کام کرنے والی ادویات سے بھی کہیں زیادہ پیچیدہ؛ یہ ہی وجہ ہے کہ ان ادویات کو تجربہ گاہ میں تیار کرنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔
چناں چہ اب کیمیادان ان کی تلاش کے لیے فطرت سے رجوع کرتے نظر آئیں گے۔ گذشتہ ساٹھ برسوں میں جتنی بھی اینٹی بایوٹکس مارکیٹ میں آئی ہیں ان میں سے ننانوے فی صد کو فنجائی اور بیکٹیریا جیسے دوسرے خورد بینی جان داروں سے ہی حاصل کیا جاتا رہا ہے مگر اب یہ ذخیرہ تقریباًخالی ہونے کو ہے، اس لیے سائنس دان زیادہ سے زیادہ انوکھے ماحول کی تلاش میں ہیں۔
پروفیسر ہیزل بارٹن کا کہنا ہے ’’میں نے غاروں میں سے ہزاروں بیکٹیریا اکٹھے کیے جن میں سے ایک ہزار نئی اقسام کے بیکٹیریا بھی شامل ہیں چوں کہ یہ بیکٹیریا انتہائی نادر ہیں، اس لیے یہ نئی اینٹی بایوٹکس کی دریافت میں بھی بے حد مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہم نے ان کا تجزیہ کیا ہے۔
صرف ایک نمونے میں سے38 اینٹی بایوٹک مرکبات برآمد ہوئے ہیں، جن میں سے ایک تو بالکل نئی اینٹی بایوٹک دوا ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ اس دریافت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک کْل ایک سو اینٹی بایوٹکس دریافت ہوئی ہیں جب کہ غار سے حاصل شدہ صرف ایک نمونے میں سے اب تک کل دریافت شدہ اینٹی بایوٹکس کا ایک تہائی برآمد ہوا۔ غاروں میں رہنے والے بیکٹیریا اینٹی بایوٹکس سے اتنے مالامال کیوں ہیں؟ اس کا شافی جواب ہے ‘‘تنہائی، مکمل تنہائی‘‘۔ غار ہی ان کو اس طرح کا الگ تھلگ اور دنیا سے کٹا ہوا ماحول فراہم کرتے ہیں۔
جہاں خورد بینی جان دار لاکھوں سال سے سورج کی روشنی اور غذائیت کے بغیر رہتے چلے آرہے ہیں، ان جان داروں نے مسلسل فاقوں سے سمجھوتہ کرنا سیکھ لیا تھا۔ زندگی گزارنے کے لیے وہ متنوع قسم کی سرگرمی سے گزرتے رہے جوِ زمین پر رہنے والے دیگر جان داروں سے بہت مختلف ہوتی تھی۔ یہ خورد بینی جان دار باقی دنیا سے دور پھلتے پُھولتے اور ارتقائی منازل طے کرتے ہیں چوں کہ غاروں میں اپنی بقا کے وسائل انتہائی محددو ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے مقابلہ بھی اتنا ہی سخت ہوجاتا ہے۔
خوردبینی جان داروں کے دانت اور پنجے نہیں ہوتے جن سے وہ دشمنوں کو مار سکیں لیکن یہ گوشہ نشیں اپنے مخالف جان داروں کو ہلاک کرنے کے لیے مختلف قسم کے کیمیائی مادوں کا استعمال چابک دستی سے کرتے ہیں اور اب نئے کیمیاوی مادوں سے ہی اینٹی بایوٹکس ادویات بنائی جا سکتی ہیں۔ یہ دیکھنے کے لیے چار ہزار میں سے ترانوے بیکٹیریا کا تجزیہ ہو چکا ہے اور یہ دیکھا گیا کہ ان پر اینٹی بایوٹک ادویات کا کیا اثر ہوتا ہے؟ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یہ بیکٹیریا انسانی دنیا سے دور تھے اور ان کا انسانوں کی بنائی ہوئی ادویات سے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا لیکن اس کے باوجود ان کے اندر حیرت انگیز طور پر آج کل استعمال ہونے والے تقریباً تمام اینٹی بایوٹکس کے خلاف مدافعت موجود تھی۔
اس کے علاوہ صرف یہ جان دار خود درجنوں اینٹی بایوٹکس پیدا کر سکتے ہیں بل کہ ان کے اندر درجنوں اینٹی بایوٹکس کے خلاف مدافعت بھی پائی جاتی ہے۔ صرف ایک نمونے کے اندر چودہ مختلف اینٹی بایوٹکس کے خلاف مدافعت موجود تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ادویات کے خلاف مدافعت بیکٹیریا کی فطرت میں موجود ہے۔ اس لیے ہمیں اینٹی بایوٹکس کے استعمال میں بے حد احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ اس کا ایک یہ مطلب بھی ہے کہ دنیا میں ایسے غیر دریافت شدہ مقامات (غاریں) موجود ہیں جہاں سے نئی ادویات کی کلید کیمیا دانوں کو مل سکتی ہے۔