Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

افریقا میں رقم ہوتی استحصال کی نئی داستان

$
0
0

فلورا چرمی، موزمبیق کے ایک پس ماندہ علاقے میں اپنے پانچ بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔

اس کا ایک ایکڑ کا زرعی پلاٹ اس کے بچوں کا پیٹ بھرنے کا واحد ذریعہ تھا۔ اس نے اپنی زمین پر کیلے کے درخت بھی اگا رکھے تھے اور اناج کے علاوہ پھلیاں، شکرقندی اور دیگر چیزیں بھی کاشت کرتی تھی۔ ایک روز وہاں ایک بڑا ٹریکٹر آیا، جس نے پہلے فلورا کے کیلے کے درختوں کا صفایا کیا اور پھر باقی زمین کو بھی ادھیڑ کے رکھ دیا۔ یہ کام ایک چینی کارپوریشن نے کیا تھا، جو وہاں 50,000 ایکڑ کا ایک بہت بڑا فارم بنارہی تھی۔ یہ علاقہ دریائے لمپوپو کے دہانے تک پھیلا ہوا ہے۔

فلورا کا کہنا ہے:’’یہ تباہی پھیلانے سے پہلے کسی نے مجھ سے بات تک نہ کی۔ ٹریکٹر آیا اور سب کچھ برباد کرگیا۔ ایسا دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی ہوا، مگر کسی کو معاوضے کے نام پر کچھ نہیں دیا گیا۔‘‘

مقامی سول سوسائٹی کے کئی گروپس کا کہنا ہے کہ اس بربادی کی ذمے دار ’’وان بائو افریقا ایگری کلچرل ڈیولپمنٹ کمپنی‘‘ ہے، جس نے موزمبیق کی حکومت کی سرپرستی میں یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ یہ حکومت ماضی میں بھی ہمیشہ اپنے لوگوں کے گلے کاٹتی آئی ہے۔ اسے صرف اپنے ملک میں بڑی بڑی سرمایہ کاریوں سے غرض ہے، چاہے غریب عوام کا کتنا ہی استحصال کیوں نہ ہو۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے بڑے فارم قائم ہوئے جن میں چند لوگوں کو کسی نہ کسی طرح ملازمتیں بھی مل گئیں، مگر ان کی یہ حالت ہے کہ وہ ہفتے میں سات دن جانوروں کی طرح کام کرتے ہیں اور انہیں کوئی اوور ٹائم نہیں ملتا۔ دوسری جانب وان بائو کمپنی کے ترجمان نے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کمپنی مقامی کاشت کاروں کو اچھا چاول اگانے کی تربیت اور مشورے دے رہی ہے۔

عالمی زراعت کی یہ ایک اہم کہانی ہے، جس میں صحرائے صحارا کے جنوبی خطے میں واقع خطہ تاریخی اعتبار سے کرۂ ارض کا سب سے ’’بھوکا مقام‘‘ قرار دیا جاتا ہے، مگر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ خطہ دنیا کو خوراک کی فراہمی کا ایک بہت بڑا مرکز بننے والا ہے۔

2007  سے مکئی، سویا بین، گندم اور چاول کی قیمتوں میں ہونے والے غیرمعمولی اضافے نے سرمایہ کاروں کو اس شعبے کی طرف راغب کیا اور وہ سوچنے لگے کہ ان ملکوں میں جہاں لیبر سستی ہے زمینیں خرید کر یا لیز پر لے کر زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے، جہاں کی حکومتیں بھی ہر حال میں تعاون کرتی ہیں اور جائیداد کی ملکیت کے حقوق کو نظر انداز کیا جاتا ہے، اسی لیے انہوں نے افریقا پر توجہ دی، جہاں لاکھوں ایکڑ زمین قابل کاشت ہونے کے باوجود بے کار پڑی ہے اور پانی بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔

دنیا میں خوراک کی قلت ہمیشہ سے موجود ہے اور افریقی ملکوں میں یہ کمی کچھ زیادہ ہی ہے۔ اس ضمن میں عالمی سطح پر خوراک کی پیداوار بڑھانے کے لیے متعدد کوششیں کی گئیں، جس کے بعد 1960  اور 2000 کے درمیانی عرصے میں اناج کی پیداوار دگنی ہوگئی۔ لیکن یہ نتیجہ حاصل کرنے کے لیے اچھی کھاد، اچھے بیج استعمال کیے گئے اور آب پاشی کے نئے طریقے دریافت کیے گئے، مگر افریقا میں یہ سبز انقلاب نہ آسکا۔ اس کی وجوہ میں ناقص بنیادی ڈھانچا، محدود مارکیٹیں، کمزور نظم و نسق اور آپسی جھگڑے شامل تھے، جن کی وجہ سے مفلسی اور بھوک نے اس براعظم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

بہرحال اب بہت سی مشکلات دور ہورہی ہیں۔ گذشتہ عشرے میں صحرائے صحارا کے جنوبی خطے میں واقع افریقا کی معاشی ترقی پانچ فی صد سالانہ کے قریب ہوچکی ہے۔ اس کے قومی قرضے بھی کم ہورہے ہیں اور یہاں وقت پر انتخابات بھی کرائے جارہے ہیں جس سے جمہوری نظام مضبوط ہورہا ہے۔

صحرائے صحارا کے جنوبی خطے میں واقع افریقی ملکوں میں ترقی کہاں تک پہنچ چکی ہے، اس کی ایک ادنیٰ سی مثال یہ ہے کہ ان علاقوں میں بسنے والے ہر تین افریقیوں میں سے ایک کے پاس اپنا موبائل فون ہے۔ وہ اپنے چھوٹے پیمانے کے کاروبار چلانے کے لیے موبائل فون بینکنگ میں استعمال کرتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں رقوم کی ترسیل کے لیے بھی موبائل فون کا استعمال عام ہے۔ افریقی زراعت میں 25 سال تک کوئی سرمایہ کاری نہ کرنے کے بعد ورلڈبینک اور ڈونر ملکوں نے پیش رفت کی ہے۔

اب یہ براعظم ایک ایسی لیباریٹری کے طور پر ابھر رہا ہے جہاں خوراک کی پیداوار بڑھانے کے لیے مسلسل تجربات ہورہے ہیں۔ اگر یہاں کے کاشت کاروں نے موجودہ ٹیکنالوجی کی مدد سے اناج کی پیداوار دو ٹن فی ایکڑ تک بڑھالی تو یہ پیداوار ایک دم چار گنا ہوجائے گی۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو نہ صرف ہماری اپنی خوراک کی ضرورت پوری ہوگی، بلکہ ہم اضافی پیداوار کو برآمد بھی کرسکیں گے۔ اس سے ایک طرف لوگوں کی آمدنی بڑھے گی اور دوسری طرف دنیا کے لیے خوراک کی فراہمی کا ایک نیا راستہ کھل جائے گا۔

بڑی زرعی کمپنیاں افریقا کی قابل کاشت زمینوں میں دل چسپی لے رہی ہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس تاریک براعظم کی خوراک کی تمام ضرورت چھوٹے کاشت کار پوری کرتے ہیں۔ تھائی لینڈ اکیلا صحرائے صحارا کے جنوبی خطے میں واقع تمام ملکوں سے بھی زیادہ زرعی پیداوار برآمد کرتا ہے۔ مگر آب و ہوا کی تبدیلی ہر وقت ایک تلوار کی طرح افریقی ملکوں کے سروں پر لٹکتی رہتی ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مستقبل کے افریقا میں کون کاشت کاری کرے گا؟ کیا فلورا چرمی جیسے غریب کاشت کار یہ کام کرسکیں گے یا وانا بائو جیسی بڑی کمپنیاں یہ کام کریں گی جو صنعتی فارم چلارہی ہیں؟

انسانی حقوق کے گروپ جو عالمی بھوک اور کاشت کاروں کے بنیادی حقوق کے لیے کام کرتے ہیں، وہ اس کام کو نئی نوآبادیاتی اور زرعی ملوکیت قرار دیتے ہیں۔ تاہم زرعی ترقی کے ماہرین کے مطابق نقد رقوم، بنیادی ڈھانچا اور ٹیکنالوجی ان غریب قوموں کو کچھ نہ کچھ سہارا دے سکتی ہے، جس کی انہیں اشد ضرورت ہے۔ اگر زراعت کے بڑے بڑے پراجیکٹس شروع کیے جائیں تو چھوٹے کاشت کار مل جل کر یعنی اجتماعی طور پر ان فارموں پر کام کرسکتے ہیں۔

یو ایس ایڈ کے گریگوری میئرز کا کہنا ہے:’’اہم بات یہ ہے کہ زمین کی ملکیت کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ اس سے عالمی غربت میں کمی ہوسکتی ہے اور یہ اس صدی کا بہترین کارنامہ ہوگا۔‘‘

ارجنٹائن کے ایگرونومسٹ (زرعی معیشت کے ماہر) Miguel Bosch شمالی موزمبیق میں لگ بھگ 25,000ایکڑ پر مشتمل ایک تجارتی سویابین فارم کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ جگہ کاشت کاروں کے لیے جنت ہے۔ میں نے برازیل اور ارجنٹائن میں بھی کئی سال تک فارمنگ کی ہے، مگر ایسی شان دار زمین میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔

زرخیز زمین، سویابین اور چاول کی بڑھتی ہوئی مانگ اور بڑی زمینوں کو چھوٹا کرنے کی حکومتی خواہش نے پرتگال کی سابق کالونی کو مرکز نگاہ بنادیا ہے۔ 2013 میں یہ قوم کرۂ ارض کی تیسری سب سے غریب قوم تھی جس کے پانچ سال سے کم عمر کے لگ بھگ نصف بچے غذائیت کی کمی کا شکار تھے۔ مگر حال ہی میں شمالی موزمبیق میں ملنے والے اعلیٰ قسم کے کوئلے اور قدرتی گیس کے ذخائر، کان کنی اور جنگلات کی دولت کی وجہ سے اس علاقے کی تقدیر بدل رہی ہے۔ اب موزمبیق کی معیشت ترقی کرے گی۔

واضح رہے کہ اس ملک کی معاشی ترقی کی شرح 2013میں7 فی صد سالانہ کے قریب تھی۔ اب متعدد بڑے بڑے انفرااسٹرکچر پراجیکٹس سامنے آرہے ہیں، دوسری قومیں بھی قرض دے رہی ہیں، اس ملک کے سیاسی لیڈروں کے ساتھ تعاون ہورہا ہے اور وہ بھی پہلے سے زیادہ متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔ جاپان موزمبیق میں سڑکیں اور پل تعمیر کررہا ہے۔

پرتگالی کمپنیاں یہاں بندرگاہیں اور ریلوے لائنیں بچھارہی ہیں۔ چین پہلے ہی ایک نیا ایئرپورٹ، پارلیمنٹ کی عمارت، قومی فٹ بال اسٹیڈیم تعمیر کرچکا  ہے۔ اس کے علاوہ دارالحکومت موپوتو میں ایک نیا صدارتی محل بھی بناچکا ہے جو اس شہر کی وسیع و عریض خلیج پر واقع ہے۔ 2013 میں موزمبیق کے صدر ارمانڈو گوئے بوزا نے چین کا ایک ہفتے کا دورہ کیا تو انہوں نے نئے چینی صدر سے ملاقات کی اور انہیں ان نئے تعمیراتی پراجیکٹس کی فہرست دی جو ان کی ترجیحات میں شامل ہیں اور جن پر دس بلین ڈالر خرچ ہوں گے۔

موزمبیق کی آبادی اس وقت 24 ملین افراد پر مشتمل ہے جن میں سے آدھے سے بھی زیادہ 1.25ڈالر یومیہ سے بھی کم آمدنی پر گزر بسر کررہے ہیں۔ بدامنی اور لاقانونیت وہ بنیادی مسائل ہیں جن کی وجہ سے موزمبیق میں دولت کے بہنے والے چشمے کا راستہ رک رہا ہے۔ 2010 میں موپوتو میں اناج کی قیمتوں پر ہونے والے فسادات کے بعد صدر ارمانڈو نے اپنے وزیر زراعت کو برخاست کرکے ان کی جگہ وزیر داخلہ جوزے پیچو کو وزیر زراعت بنادیا تھا، جو ایک ایگرونومسٹ بھی ہیں۔ وہ دنیا بھر میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں سرمایہ کاروں کو مسلسل اپنے ہاں سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ کررہے ہیں۔

موزمبیق کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پاس 89 ملین ایکڑ قابل کاشت زمین ہے، جس میں سے 85 فی صد کے قریب ابھی تک کسی استعمال میں نہیں آئی۔ 2004 سے کوئی 6ملین ایکڑ کے قریب زمین مقامی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کو لیز پر دی گئی ہے۔ یہ جنگلات سے ہونے والی پیداوار سے لے کر بایوفیولز اور گنے کی پیداوار غرض ہر چیز کے لیے دی گئی ہے۔ اندازاً اس وقت ملک میں قابل کاشت زمین 7 فی صد کے قریب ہے، یہ شرح تمام افریقی ملکوں میں بلند ترین ہے۔

غیرملکی کمپنیوں کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے کرنا آسان ہے اور کسی بڑے زرعی فارم کو قائم کرکے کام شروع کرنا اور منافع کمانا بہت مشکل ہے، کیوں کہ قدم قدم پر مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ موزمبیق میں ہویو ہویو ملک کے لیے سویابین کی پیداوار کا سب سے بڑا مرکز تھا اور اسے نئے افریقی ایگری کلچر کی روشن مثال قرار دیا جارہا تھا، مگر اب اسی جگہ سب سے زیادہ یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا غیرملکی اداروں کے ساتھ یہ معاہدے کرکے غلطی تو نہیں کی جارہی؟

2009میں موزمبیق کی حکومت نے لگ بھگ 25,000 ایکڑ کا ایک بے کار فارم پرتگال کی ایک کمپنی کو لیز پر دیا تھا، جس پر مقامی دیہی آبادی برسوں سے کھیتی باڑی کرکے گزر بسر کر رہی تھی۔ بعد میں جب پرتگالی کمپنیوں کے منیجر وہاں پہنچے تو انہوں نے گائوں والوں کو ٹھنڈا کرنے اور ان کا غم وغصہ دور کرنے کے لیے ان سے یہ وعدہ کیا کہ وہ اس فارم سے دگنی قیمت کی زمین انہیں ان کی مرضی کی جگہ دلوائیں گے جہاں اسکول، کلینک اور نئے کنویں تک ہوں گے۔ مگر ان میں سے کچھ ہی وعدے پورے ہوسکے۔

نہ اسکول تعمیر ہوئے اور نہ کلینک حالاں کہ کمپنی نے اپنے ہاں بیمار ہونے والوں کو قریبی اسپتال لے جانے کے لیے ایک ایمبولینس بھی خریدلی تھی، مگر وہ صرف اس کمپنی کے ملازمین کے لیے تھی۔ جن لوگوں کو سہانے خواب دکھاکر اس علاقے سے بے دخل کیا گیا تھا، ان میں سے صرف 40 افراد کو معمولی اجرت پر چوکیدار وغیرہ کی ملازمت دے دی گئی، باقی سیکڑوں بے گھر ہوگئے۔ جن لوگوں کو زمینیں دی گئیں وہ یا تو ان کے گھروں سے بہت دور ہیں یا دلدلی علاقوں میں ہیں جہاں بہ کثرت جھاڑ جھنکار ہیں۔ متاثرین میں سے ایک کا نام البرٹو ہے۔

میں اس 52 سالہ کاشت کار البرٹو سے ملا جو ہویو ہویو کی حدود سے باہر دو درجن افراد کے ساتھ سویابین کی تھریشنگ میں مصروف تھا۔ ان دو درجن افراد کا تعلق رومن کیتھولک فرقے سے تھا۔ ان افراد کے ساتھ عورتیں بھی کام کررہی تھیں۔ سات ایکڑ کا وہ پلاٹ ابھی تک چرچ کے کنٹرول میں تھا۔ میں نے البرٹو سے بات چیت کی تو اس نے بتایا:’’ہم چھوٹے کاشت کار ہیں، سویا کی پیداوار ہی ہمارا سب کچھ ہے۔ ہم اپنا پیٹ بھرسکتے ہیں اور اپنے بچوں کو اسی کی آمدنی سے اسکول کالج بھی بھیج سکتے ہیں، تاکہ وہ پڑھ لکھ کر انجینئر یا ڈاکٹر بن سکیں۔ ہمارے لیے اس زمین کی بڑی اہمیت ہے، اگر ہمارے پاس زمین نہیں تو کچھ بھی نہیں، یہی زمین ہماری زندگی کی ضامن ہے۔‘‘

یہاں کی دیہی آبادی 16سال سے حالت جنگ میں تھی۔ یہ لوگ غریب ضرور ہیں لیکن بے ہمت نہیں۔ پرتگال کی کمپنیاں جب یہاں پہنچیں اور انہوں نے ہویو ہویو کو لیز کرایا تو اس کے بعد ہی فارم پر مسائل کھڑے ہونے لگے۔ ان کے آلات اور مشینیں خراب ہونے لگیں۔ امریکا سے درآمدشدہ ٹریکٹر اسٹارٹ ہی نہیں ہوتے تھے۔ جب میں نے ایک کاشت کار سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے عجیب انداز سے مسکراتے ہوئے کہا:’’مجھے تو کچھ پتا نہیں، مگر یہ کالے جادو کا کمال بھی ہوسکتا ہے۔‘‘

وہیںروانڈا کی 36سالہ میری مکاروکاکا بھی اپنے بچوں کے ساتھ کام میں لگی ہوئی تھی۔ روانڈا ہی کا 60 سالہ جوزف نندیکوٹ بھی وہاں کام کررہا تھا۔ وہ سب بھی پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ گویا سبھی اس فیصلے سے ناخوش تھے کہ حکومت نے انہیں ان کی زمینوں سے محروم کردیا اور ان کی زمینیں غیروں کے حوالے کردیں جو بڑے فارم قائم کرنے کے نام پر اصل میں انہیں بھوکا مارنے اور اپنے لوگوں کے لیے اناج وصول کرنے آئے تھے۔

حکومت نے ایک زرعی میگا پراجیکٹ تیار کرنے کے لیے برازیل اور جاپان سے معاہدہ کیا تھا جس کے تحت شمالی موزمبیق میں لگ بھگ 35 ملین ایکڑ زمین کو گھاس پھوس اور جھاڑ جھنکار سے صاف کرکے صنعتی پیمانے کی سویا بین کی پیداوار کے لیے تیار کرنا تھا۔ یہ علاقہ سویابین کی دنیا کو برآمد کا سب سے بڑا علاقہ بننے والا تھا، جس کی پیداوار چین اور یورپ کے مویشیوں کے لیے مخصوص کی گئی تھی۔ اس وسیع و عریض فارم پر برازیل کے زرعی تاجر کام کرتے اور یہاں مقامی کاشت کاروں کی تربیت کے لیے ٹیکنیکل سینٹرز قائم ہونے تھے، جہاں انہیں اپنی زرعی پیداوار کو بڑھانے کے طریقے بھی سکھائے جاتے۔ لیکن 2013 میں جب برازیل کے کاشت کاروں نے اس خطے کا دورہ کیا تو انہیں یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوئی کہ وہاں پہلے سے لوگ رہ بھی رہے ہیں اور کام بھی کررہے ہیں۔

سینٹ مارٹ اس خطے میں کاشت کاروں کے ساتھ کام کرتا ہے۔ اس کا تعلق امریکا کی غیرمنافع بخش تنظیم سے ہے۔ اس کا کہنا ہے:’’انہوں نے جو زمین دیکھی وہ تو اچھی تھی، مگر ان پر جگہ جگہ لوگ آباد تھے۔ انہیں برازیل میں جو کچھ بتایا گیا تھا، حقیقت اس کے برعکس تھی۔ ترقیاتی ماہرین کا کہنا ہے:’’یہاں کی لیزڈ زمین پہلے ہی کان کنی یا لوگنگ (عمارتی لکڑی) کے لیے لیز کی جاچکی تھی اور کچھ زمین جنگلی حیات کے لیے مختص تھی۔ کچھ زمینیں جو حکومت نے کارپوریشنز کو دیں، ان پر چھوٹے کاشت کار پہلے سے کام کررہے تھے۔

کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ کچھ تجارتی کمپنیوں کو لوگوں کا خیال ہو، ورنہ اکثر کمپنیاں صرف اس بات پر توجہ دے رہی ہیں کہ وہ کم سے کم اجرت پر زیادہ سے زیادہ کام کروائیں اور سستی زمینیں خریدیں تاکہ ان کی جیبیں بھرسکیں۔ گویا اس علاقے میں انڈسٹریل ایگری کلچر کے لیے کام ہورہا ہے، مگر اس کی وجہ سے غریب کاشت کاروں کا مزید استحصال ہوگا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر حکومت صحیح پالیسیاں بنائے تو چھوٹے کاشت کار زیادہ بلکہ بہت زیادہ پیداوار دے سکتے ہیں، جیسے ویت نام کے چاول کے چھوٹے کاشت کار یا کینیا کے چھوٹے ڈیری فارمرز جو اپنے اپنے ملک کی قومی ضرورت کا 70فی صد دودھ فراہم کرتے ہیں۔

موزمبیق میں زراعت کی شعبے میں مردوں کے ساتھ خواتین کاشت کار بھی بہت کام کرتی ہیں۔ اگر انہیں بھی زمین، قرض اور کھادیں فراہم کی جائیں تو اناج کی پیداوار میں 30فی صد تک اضافہ ہوسکتا ہے، لیکن موزمبیق کی حکومت اس پر توجہ نہیں دے رہی۔ حالاں کہ چھوٹے کسانوں کے ذریعے فراہم کی جانے والی اناج کی پیداوار میں گذشتہ چند سال میں بہتری آئی ہے، اس کے باوجود 37 فی صدآبادی آج بھی غذائیت کی کمی کا شکار ہے۔

پھر ملک کا جنوبی حصہ تو مسلسل خشک سالی اور سیلاب کی زد میں رہتا ہے۔ حالاں کہ موزمبیق کے پاس معدنی دولت موجود ہے، اس کے باوجود یہ دنیا کی سب سے بھوکی قوم ہے، مگر حکومت کی نظر میں اس کا حل بڑے کاشت کار یا صنعتی زراعت ہی ہے۔ وہ یہ سمجھتی ہے کہ انڈسٹریل ایگری کلچر ہی میں تمام مسائل کا حل ہے۔

ہویو ہویو سے چند میل دور ارمانڈو انفانسو نامی ایک ریٹائرڈ اسکول ٹیچر کا سویا بین کا فارم ہے۔ وہ کئی سال سے فاضل وقت میں اپنی زمین پر سبزیاں کاشت کررہا تھا۔ اس کا وہ چھوٹا سا پلاٹ آج 64ایکڑ میں بدل چکا ہے۔ اب وہ سویابین برآمد کرنے کے لیے اگاتا ہے۔ اس کے لیے اس نے ’’افریقن سینچری ایگری کلچر‘‘ نامی ایک کمپنی سے معاہدہ کیا ہے جو اسے عمدہ بیج کے ساتھ فالتو جھاڑیوں کو میکانیکی طور پر صاف کرنے کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے۔

بدلے میں وہ اپنا تمام سویا بین ایک مقررہ قیمت پر اسی کمپنی کو فروخت کرتا ہے جس میں سے کمپنی کی جانب سے فراہم کردہ خدمات کی لاگت منہا کرلی جاتی ہے۔ ابھی تک فریقین معاہدے پر عمل کررہے ہیں اور ان کا کام بھی ٹھیک چل رہا ہے۔ ارمانڈو کا کہنا ہے:’’میرے خیال میں تمام مسائل کا حل درمیانہ درجے کے کاشت کار ہیں۔ بڑے فارم بہت زیادہ زمین گھیرلیتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو لوگ رہیں گے کہاں؟ اگر ہر فرد کو 12ایکڑ سویابین کی پیداوار ملے تو اس کی آمدنی بھی اچھی ہوگی اور وہ اپنی زمین سے بھی محروم نہیں ہو گا۔‘‘

برآمدات میں پولٹری اور اعلیٰ فصلیں جیسے تمباکو اور چھوٹی مکئی کی فصلیں بہتر رہیں گی جو یورپ ایکسپورٹ کی جاسکیں گی۔ اب موزمبیق کے کاشت کار اپنی مرغیوں کو کھلانے کے لیے سویابین اگارہے ہیں، تاکہ ان کی چکن انڈسٹری بھی ترقی کرے۔

ریشل گروبیلرلندن میں ایک مالی ادارے میں اچھی جاب کرتا تھا، مگر اس نے وہ جاب چھوڑ دی اور ’’افریقن سینچری‘‘ نامی ادارہ چلانے یہاں آگیا۔ یہ ادارہ 900سے زیادہ کاشت کاروں کے ساتھ کام کررہا ہے جن میں چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کاشت کار شامل ہیں۔ یہ لوگ لگ بھگ 2,500ایکڑ پر کام کرتے ہیں۔

ریشل کا کہنا ہے:’’اس وقت موزمبیق میں صورت حال یہ ہے کہ ایگری کلچرل انڈسٹری میں آپ کو جاب تو فوراً مل جائے گی، مگر اس کے بدلے میں آپ کو اپنی زمین سے محروم ہونا پڑے گا۔ مگر اس جاب میں تن خواہیں بہت کم ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہم ہمت کریں تو مذکورہ طریقے پر عمل کرکے اپنی پیداوار بڑھا سکتے ہیں۔ ہاں، اگر بڑے پیمانے کے فارم صحیح انداز سے کام کریں تو مقامی آبادی بھی ان سے مستفید ہوسکتی ہے۔‘‘

موزمبیق کے ایک سابق سرجن ڈرائز گائوز نے 14سال پہلے موپوتو کے باہر 30 ایکڑ کے ایک فارم پر کیلے کے درخت لگائے تھے۔ پہلے اس فارم پر ترش پھل اگائے جاتے تھے، مگر پھر یہ دیوالیہ ہوگیا اور گائوز کو مل گیا۔ ڈرائز نے آہستہ آہستہ فارم پر کیلے اگانے کا کام شروع کیا اور اتنی ترقی کی کہ اس وقت یہ موزمبیق میں کیلے کا سب سے بڑا فارم ہے جو 3,500 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ اس فارم پر 2,800 ملازمین کام کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں موزمبیق کیلے درآمد کرتا تھا، مگر ڈرائز گائوز کے فارم کی مدد سے یہ ملک کیلے برآمد کرنے کے قابل ہوگیا۔

فارم نے ترقی کی تو گائوز نے سڑکیں بنوائیں، ایک اسکول اور ایک کلینک قائم کیا، کنویں کھدوائے اور 34میل طویل بجلی کی لائنیں ڈلوائیں جس سے نہ صرف آب پاشی میں سہولت ہوئی، بلکہ انہوں نے قریبی دیہات کو بھی بجلی سپلائی کی جہاں ان کے ملازمین رہتے تھے۔ ان کے ملازمین کی کم سے کم تن خواہ بھی اس زمانے کی کم سے کم اجرت سے دس فی صد زیادہ تھی۔ اس کے ٹریکٹر ڈرائیورز اور پلانٹیشن منیجر دگنی سے بھی زیادہ تن خواہ وصول کرتے تھے۔

گائوز کا خیال ہے کہ یا تو بڑے فارم قائم کیے جائیں یا چھوٹے، وہ درمیانہ درجے کے فارمز کے خلاف ہے۔ چھوٹے فارموں پر چھوٹے کسان مویشی پال سکتے ہیں اور یہ پلاٹ ان کے لیے سیفٹی نیٹ کا کام بھی کرتے ہیں اور باعث فخر بھی ہیں۔ بہرحال تجارتی فارم اسی وقت لوگوں میں مقبول ہوسکتے ہیں جب وہ اپنی زبان کی پاس داری کریں، عام لوگوں سے جو وعدہ کریں، اسے پورا کریں ورنہ یہ ناکام ہوسکتے ہیں۔آج کل ہر انسان کی نظر دولت پر ہے اور دنیا کا پیٹ بھرنا کوئی پرکشش خیال نہیں ہے۔ اگر دنیا افریقا کی طرف دوڑ رہی ہے تو کس لیے؟ صرف دولت کمانے کے لیے۔ اسے نہ دنیا کی فکر ہے اور نہ دنیا والوں کی بھوک کی۔

حال ہی میں نیویارک میں زرعی سرمایہ کاروں کی ایک کانفرنس ہوئی جس میں دنیا بھر کے لگ بھگ 800 مالیاتی اداروں کے لیڈر شریک ہوئے۔

FAO کے ماہرین کے مطابق اس وقت عالمی زراعت کو نجی فنڈز، ٹیکنالوجی اور انفرا اسٹرکچر کی ضرورت ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں ترقی پذیر ملکوں میں زراعت کے شعبے میں 83 بلین ڈالرز سالانہ کی سرمایہ کاری کرنی ہوگی، تاکہ 2050  تک دو بلین سے بھی زیادہ افراد کے پیٹ بھرے جاسکیں۔ اس کے لیے سرمایہ کاری اس طرح کی جائے جس سے کسی ایک سیکٹر کے بجائے عام طور پر سبھی کو فائدہ پہنے، لوگوں کے زمین کی ملکیت کے حقوق بھی محفوظ رہیں، مارکیٹیں بھی فروغ پائیں اور بڑے اور چھوٹے تمام فارموں کی پیداوار میں اضافہ ہو۔

Darryl Vhugenنامی وکیل سیاٹل میں قائم ایک غیرمنافع بخش تنظیم سے وابستہ ہیں جو ترقی پذیر ملکوں میں غریب کاشت کاروں کے زمین کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے، ان کا کہنا ہے:’’اگر ایسا ہوا تو ہم یہ جنگ جیت لیں گے۔ اس سے سرمایہ کاروں کو بھی فائدہ ہوگا اور مقامی آبادیوں کو بھی اور قوموں کو یہ فائدہ ہوگا کہ اس کے افراد کو روزگار ملے گا، انفرا اسٹرکچر سامنے آئے گا اور خوراک کی فراہمی کی یقین دہانی بھی ہوجائے گی۔‘‘

دنیا بھر کی خوراک کی ضرورت پوری کرنے کے لیے پروسوانا پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے جس پر دن رات تیزی سے کام ہورہا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ وہاں کے عام لوگ اس پراجیکٹ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ وہ تو اپنی روزی کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے جسم پر لباس کے نام پر چیتھڑے ہیں۔ فاقہ کشی نے ان کا حال خراب کررکھا ہے۔ انہیں نہ زرعی ترقی کا پتا ہے اور نہ کسی بڑے منصوبے کا، وہ کسی نہ کسی طرح اپنے بچوں کے پیٹ بھرنا چاہتے ہیں۔

چوں کہ اس ملک میں بڑے اور تجارتی فارمز کے قیام کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، اس لیے چھوٹے کاشت کار اپنا مگر چھوٹا کام کرنے کے بجائے بڑے فارم پر ملازمت کرنا پسند کرنے لگے ہیں۔

موزمبیق کے کاشت کاروں کا مستقبل کیا ہوگا، اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔ یا تو وہ بھی دوسروں کی طرح صنعتی زراعت کے سامنے ڈٹ جائیں گے یا پھر ہتھیار ڈال کر انڈسٹریل فارمرز بن جائیں گے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ جس طرح دنیا اب جدیدیت کی طرف بڑھ رہی ہے، ایسے میں صنعتی زراعت ضروری ہے۔ ویسے بھی چھوٹے کاشت کار تن تنہا کچھ نہیں کرسکیں گے، ہاں اجتماعی کام اور کوششیں انہیں اپنا وجود برقرار رکھنے میں مدد دے سکتی ہیں۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>