اسلام آباد: دنیا بھرمیں غذا کو کوڑے دانوں میںپھینکنے کا سب سے زیادہ رجحان امریکی معاشرے میں ہے مگر اب یہ رجحان یورپی ممالک سے ہوتا ہوا اسلامی ممالک میں بھی پہنچ چکا ہے اور دل چسپ امر یہ ہے کہ ان ممالک میں سعودی عرب اب سرفہرست ملک بن چکاہے۔
اس کے بعد خلیجی ریاستوں کا نمبر آتا ہے۔ سعودی عرب کے دو مقدس شہروں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میںغذا کی بے حرمتی کا یہ عمل رمضان المبارک کے دوران اس قدر زیادہ ہو جا تا ہے کہ غذا کے احترام سے متعلق مسلمانوں کوجو احکامات ہمارے دین نے دے رکھے ہیں، وہ سب ہوا میں اڑُتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اگر ہم صرف اس بات پر غور کر لیں جو حضرت عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرما تی ہیں کہ ایک دن تا ج دار ِ عر ب حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو آپ نے ایک روٹی کا ٹکڑا زمین پر پڑا ہُوا دیکھا ، آپ نے اس کو اٹھایا، صاف کیا اور نوش فرما لیا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا کہ اچھی چیز کا احترام کیا کرو ، روٹی جب کسی سے بھا گتی ہے تو لوٹ کر نہیں آتی۔ ( اچھی چیز سے یہ بھی مرا د ہے کہ اللہ کی دی ہو ئی دوسر ی اشیاء کی بھی قدر کیا کرو ) اور جو چیز زیادہ معلوم ہو وہ کسی حق دار کو دے دیا کر و۔ آپ ﷺ یہ ارشاد ہمیں بہت کچھ سوچنے کی دعوت دے رہا ہے۔
موجودہ عہد میں خوراک کی کمی اور خوراک کی بے قدری دو الگ الگ اصطلاحات بن چکی ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان جو ایک خاص طرح کا تعلق بنتا جا رہا ہے وہ اب سوچنے والوں کو مزید سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ مسلمانوں کو کیا ہوتا جارہا ہے؟ مثلاً خوراک کی کمی اب صرف ترقی پذیر ممالک کا مسئلہ نہیں رہی بل کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی لاکھوں لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ برطانیہ میں 40 لاکھ کے قریب افراد آج بھی مناسب خوراک تک رسائی نہیں رکھتے۔
امریکا میں 3 کروڑ پچاس لاکھ افراد ایسے خاندانوں سے منسلک ہیں جن کی خوراک ناکافی ہے۔ یورپ میں 4 کروڑ 30 لاکھ افراد مناسب خوراک سے محروم ہیں اور عجیب بات یہ بھی ہے کہ یہ سب افراد اُن ہی معاشروں میں موجود ہیں جہاں جدید سپر مارکیٹیں لاکھوں ٹن قابل استعمال بہترین خوراک کو کچرے میں بدل رہی ہیں۔ اب کچھ ایسا ہی عمل سعودی عرب میں بھی نہایت غیر محسوس طریقے سے شروع ہو چکا ہے، جس کو پوری دنیا سے آئے ہوئے حجاج کرام اور عمرہ زائرین واضح طور پر محسوس کرتے ہوئے یہ سوچنے لگتے ہیں کہ جہاں اسراف ہوگا وہاں خیرو برکت ہر گز نہیں ہوگی اوربلاشبہ قلت و ذلت اسراف ہی کی بدولت پیداہوتی ہے۔
سعودی عرب کے کثیرالاشاعت انگریزی اخبار عرب نیوز نے 4 جولائی 2014 کو جو لیڈ اسٹوری شائع کی ہے، وہ کنگ سعود یونی ورسٹی کی تیار کردہ ایک تحقیقاتی رپورٹ پر مبنی ہے۔ اخبار کی سرخی کچھ یوں تھی ’’Massive wastage unacceptable‘‘ اخبار کے مطابق سعودی عرب میں روزانہ 4 ہزار 500 ٹن قابل استعمال غذا ضائع ہورہی ہے۔ گو کہ سعودی عرب میں رمضان المبارک کے علاوہ باقی مہینوں میں مجموعی طور پر قریباً 6 ارب سعودی ریال خرچ کیے جاتے ہیں مگر رمضان میں سعودی شہری صرف غذا کی مد میں 20 ارب سعودی ریال خرچ کر دیتے ہیں اور یوں اس خوراک کا 45 فی صد پیٹ میں جانے کے بہ جائے کچرے دانوں میں چلا جاتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق سعودی عرب میں روزانہ 4 ملین لذیذ ڈشوں کا 30 فی صد کچرے کی نذر ہوجاتا ہے ۔ اشاعت کے مطابق رواں رمضان کے پہلے تین دنوں میں مکہ میونسپلٹی کے اہل کاروں کو 5000 ہزار ٹن خوراک اٹھا کر کوڑے دانوں میں پھینکنا پڑی اور ان تین دنوں میں اضافی طور پر 28000 ہزار بھیڑیں ذبح کی گئیں۔ مکہ شہر میں میونسپلٹی کو ہنگامی طور پر شہر کے وسط میں حرم کے نزدیک 45 ویسٹ کمپریسر لگانے پڑے اور صفائی کے لیے 8 ہزار اہل کاروں کی ڈیوٹیاں لگانی پڑیں۔
سعودی وزارت کامرس اینڈ انڈسٹری نے خوراک کے 45 فی صد ضیاع پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ تیار کی جانے والی غذا میں سے 80 فی صد خوراک غیرمعیاری ہوتی ہے۔ کنگ سعود یونی ورسٹی کی تیار کردہ اس تحقیقاتی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ چار ملین ڈشوں میں سے تیس فی صد ڈشوں کا کچرے میں چلا جانا انتہائی غیر ذمہ درانہ رویہ ہے جو ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے کیوں کہ سعودی عرب کا شمار دنیا بھر میں خوراک درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ اگر یہ شرح اسی طرح برقرار رہی تو سعودی قوم خوراک ضائع کرنے والی قوموں میں سرفہرست شمار ہونے لگے گی۔
مکہ میونسپلٹی نے دوسرے مہینوں کی نسبت رمضان المبارک میں غذا کی صفائی کو ایک انتہائی مشکل کام قراردیا ہے تو دوسری جانب اسلامی امور کی وزارت نے سعودی شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ افطار کے وقت کم سے کم مقدار میں خوراک پکائیں یا خریدیں تاکہ ملک بھر میں صفائی کے نظام کو بلا تعطل جاری رکھا جاسکے۔ وزارت نے مغربی سعودی صوبوں میں روزانہ 10 ہزار افطار ڈشز کی مفت تقسیم کا بھی ایک پروگرام شروع کیا ہے تاکہ خوراک کی زیادتی کے رجحان کو روکا جاسکے۔ میونسپلٹی نے اعلان کیا ہے کہ اب یہ منصوبہ بندی بھی ہو رہی ہے کہ ضائع ہونے والی خوراک کو کھاد میں تبدیل کرنے کے لیے ایک بڑی فیکٹری لگائی جائے تاکہ روزانہ 24 ہزار ٹن خوراک کا کوئی مناسب بندوبست ہوسکے۔
سعودی میونسپلٹی کے ایک آفیسر نے اس ضمن میں بتایا کہ رمضان میں لوگ اپنی مقررہ ضرورت سے زیادہ خوراک خریدلیتے ہیں اور باقی بچ جانے والی خوراک کو ریفریجیٹرمیں محفوظ کرنے کے بہ جائے سحری سے پہلے ہی کوڑے دانوں میں پھینک آتے ہیں۔ اس کے علاوہ رمضان المبارک میں دیگر مہینوں کی نسبت لوگ جب زیادہ خیرات کرتے ہیں تو اس میں غذا کا ایک بہت بڑا عنصر بھی شامل ہوتا ہے اس وجہ سے بھی خوراک کچرے دانوں کی زینت بنتی ہے۔ اخبار کے مطابق عالمی سطح پر اگر ضائع کی جانے والی خوراک کا اندازہ لگایا جائے تو یہ 1.3 ارب ٹن ہے جس کی سعودی ریال میں 2.8 ارب ریال قیمت بنتی ہے۔
غذا کی بے حرمتی سے بچنے کے لیے متعدد ترقی پذیر اور غریب ممالک میں ہوٹل اور کھانے کے ڈھابے والوں نے ایک احسن کام شروع کر رکھاہے جس کو مشعل راہ بنایا جاسکتا ہے۔ ایسی تمام خوراک جس کا اگلے دن خراب ہونا یقینی ہوتا ہے، اس کو پھینکنے کے بہ جائے یہ ہوٹل والے غربا میں تقسیم کردیتے ہیں۔ اسی طرح وہاں کی مقامی کونسلیں سبزیوں اور پھلوں کو ایسی جگہ جمع کردیتی ہیں جہاں سے گائیں، بھیڑیں، بکریاں اور بھینسیں اپنا ’’چارہ ‘‘حاصل کر لیتی ہیں۔ ڈھاکہ اور دہلی شہر اس کی خوب صورت مثالیں ہیں مگران مثالوں کے باوجود یہ امر افسوس ناک ہے کہ دنیا میں اب بھی ہر سات میں سے ایک فرد بھوکا سوتا ہے اور 5 سال سے کم عمر کے 20 ہزار سے زیادہ بچے ہر روز بھوک سے موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں۔
ماہرین معاشیات دنیا میں بھوک اور افلاس کی ایک وجہ، آبادی میں اضافے بتاتے ہیں تودوسری طرف اقوام متحدہ نے کہ دیا ہے کہ اس صدی کے آخر تک دنیا کی آبادی میں مزید تین ارب افراد کا اضافہ ہو جائے گا، اس اعلان سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ شمالی کوریا میں اب تک جو پچاس لاکھ افراد غذائی قلت کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں، ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہوجائے گا اور جو 51 لاکھ سے زیادہ انسان افریقی ممالک میں مرنے کے قریب ہیں ان کی تعداد بھی دوگنا ہو جائے گی۔
گذشتہ سال برطانیہ کے انسٹی ٹیوشن آف مکینیکل انجینئرنگ کی طرف سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی کْل خوراک کا نصف حصہ ضائع ہو جاتا ہے جب کہ کھانے کے لیے تیار خوراک کا ضیاع اس کے علاوہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق پیدا ہونے والی خوراک کی یہ مقدار سالانہ دو ارب ٹن بنتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق زیادہ تر خوراک ترقی پذیر ملکوں میں انفرا سٹرکچر اور ذخیرہ کرنے کی مناسب سہولیات نہ ہونے کے باعث ضائع ہوتی ہے،اس کے علاوہ ترقی یافتہ دنیا میں صارفین کی خوراک کے حوالے سے پریشانی بھی ضیاع کا باعث بنتی ہے۔
اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا میں اس وقت بھی ہر آٹھ میں سے ایک فرد ایسا ہے جس کو خوراک تک رسائی حاصل نہیں یا اسے غیر صحت مند خوراک میسر ہے۔ ان اعداد وشمار کے مطابق عالمی سطح پر 868 ملین افراد اس وقت دنیا میں موجود ہیں جن کی مناسب خوراک تک رسائی نہیں ہے۔’’گلوبل فْوڈ، ویسٹ ناٹ، وانٹ ناٹ‘‘ نامی اس رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں چار بلین ٹن خوراک پیدا ہوتی ہے، لیکن اس میں سے 30 سے 50 فی صد تک استعمال ہی نہیں ہوتی۔ یورپ اور امریکا میں اْس خوراک کا قریب نصف حصہ ضائع کر دیا جاتا ہے جو لوگ استعمال کے لیے خریدتے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق خوراک کے زیاں کا ذمہ دار ایک بڑا ملک برطانیہ بھی ہے جہاں 30 فی صد تک اگائی جانے والی سبزیاں محض اس وجہ سے نہیں کاٹی جاتیں کہ وہ دیکھنے میں اچھی نہیں لگتیں اور امکان یہ ہوتا ہے کہ سپر مارکیٹیں اس سبزی کو فروخت نہیں کریں گی۔ رپورٹ کے مطابق یورپ اور امریکا میں اْس خوراک کا قریب نصف حصہ ضائع کر دیا جاتا ہے جو لوگ استعمال کے لیے خریدتے ہیں۔ انسٹی ٹیوشن آف مکینیکل انجینئرنگ کے شعبۂ توانائی اور ماحولیات کے سربراہ ڈاکٹر ٹِم فوکس کے مطابق ’’دنیا بھر میں جس قدر خوراک ضائع ہوتی ہے وہ حیرت انگیز ہے۔
یہ ہی خوراک دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ان لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کر سکتی ہے جو آج بھی بھوک کے شکار ہیں۔‘‘ ڈاکٹر ٹِم فوکس کا مزید کہنا ہے ’’ یہ ایک طرح سے زمین، پانی اور توانائی کے ذرائع کا بھی زیاں ہے، جو ایسی خوراک کی پیداوار، اسے پراسیس کرنے اور اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں استعمال ہوتے ہیں‘‘۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خوراک کی جس قدر مقدر ضائع ہوتی ہے اسے اگانے کے لیے 550 ارب مکعب میٹر پانی سالانہ استعمال ہوتا ہے۔ اس ادارے کا اندازہ ہے کہ سال 2050 تک خوراک اْگانے کے لیے پانی کی سالانہ ضرورت 10 سے 13 ٹریلین کیوبک میٹر تک پہنچ جائے گی۔
ٹم فوکس کے مطابق ’’ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ 2075 تک دنیا کی آبادی 9.5 ارب تک پہنچ جائے گی، جس کا مطلب ہے کہ آج کے مقابلے میں اس وقت تین ارب لوگ زیادہ ہوں گے جن کے لیے خوراک مہیا کرنا ہوگی۔‘‘ فوکس کہتے ہیں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتیں، اقوام متحدہ جیسی ترقیاتی ایجنسیاں اور ادارے مل کر لوگوں کی ذہنیت کو بدلنے کی کوشش کریں اور کسانوں، خوراک تیار کرنے والے اداروں، سپر مارکیٹوں اور صارفین میں خوراک کو ضائع کرنے والے رویوں کی حوصلہ شکنی کریں کیوں کہ کھاتے پیتے گھر کا ہر فرد تقریبا 60 سے 80کِلو سالانہ غذائی اجناس ضائع پھینک کر غریبوں کے منہ میں ہاتھ ڈال کہ نوالہ نکالنے کا مجرم بنتا جا رہا ہے۔
دنیا بھر کی غذائی اجناس کی پیداوار کا تخمینہ3.8 سے 4 ارب ٹن سالانہ ہے اور برطانوی ذرائع کے مطابق ضائع ہونے والی غذاء کا تخمینہ تقریباً 1.9ارب ٹن ہے یعنی تقریباً نصف فی صد غذا ہماری غفلت سے کوڑے کا ڈھیر بن جاتی ہے۔