کُلیاتِ مشیرکاظمی
شاعر: مشیرکاظمی ، جمع وترتیب: ثقلین کاظمی، ناشر: ترتیب پبلی کیشنز، 2 شاہ راہِ ایوانِ تجارت، لاہور۔ صفحات: 336، قیمت: 500 روپے
پاکستان کے عسکری معرکوں کو عنوان بنائے کوئی تقریب ہو، ہمارے فوجی جوانوں کے کارناموں کو یاد کرنے کا کوئی موقع یا ملک کی خاطر جان لٹانے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد ہونے والا کوئی اجتماع، ایک ملی نغمہ قومی جذبات کا عکاس بنا سماعتوں میں آنسو گھول دیتا ہے یوں کہ بہتی آنکھوں کو روکنا ممکن نہیں رہتا اور ’’اے راہِ حق کے شہیدو! وفا کی تصویرو!‘‘ کے الفاظ فضا میں ابھرتے ہی دل پگھلتے لگتے ہیں۔
یہ کلیات اس مقبول عام رزمیے کے خالق مشیرکاظمی کے کلام کا مجموعہ ہے، جسے مشیرکاظمی کی وفات کے چھیالیس برس بعد ان کے صاحب زادے ثقلین کاظمی نے مرتب کیا ہے۔
مشیرکاظمی کے کلام کی تین جہتیں ہیں، جن میں سب سے نمایاں قومی نظمیں اور سماج کے دُکھوں پر شاعری ہے، اس کے ساتھ فلمی نغمات اور منقبت، سلام اور مرثیہ ان کے قلم کی جولان گاہ رہے، حیرت انگیز طور پر وہ اردوشاعری کی مقبول ترین صنف غزل سے دوردور ہی رہے، کلیات میں ان کی صرف ایک غزل شامل ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہ طور سخن ور وہ صرف قومی فریضے اور مقصدیت کو پیش نظر رکھتے تھے، اور فلمی گیت انھیں کسب معاش کے لیے لکھنا پڑے۔ ان کی وطن پرستانہ شاعری کا ایک ایک لفظ گواہی دے رہا ہے کہ انھوں نے کوئی رسم نہیں نبھائی، بلکہ اپنے اُمڈتے جذبوں اور احساسات کو زبان دی ہے۔
کتاب میں مشیرکاظمی کی چند ہم عصر شخصیات کی ان کے بارے میں آراء شامل ہیں، جن میں شورش کاشمیری کی رائے ان کے ادبی قدوقامت اور قومی وسیاسی شاعری کا نمایاں نام ہونے کے باعث نہایت معتبر ہے، وہ لکھتے ہیں،’’اخلاص وافلاس کے سانچے میں ڈھلا ہوا انسان، خود ایک نظمِ متحرک، آواز میں جادو، افکار میں گداز، اور شاعری میں قرن اول کے حدی خوانوں کی اُڑانوں کا ہمہمہ، بلاشبہ مشیرکاظمی میدانِ رستخیز کا حدی خوان ہے۔‘‘ ان کے علاوہ شعروادب اور صحافت کی ممتاز شخصیات امجداسلام امجد، ناصرزیدی، الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمٰن شامی، عطاالحق قاسمی اور شعیب بن عزیز کی آرا بھی کتاب کا حصہ ہیں۔
اپنی نظموں میں کہیں وہ ’’نازاں ہے پاک فوج پہ تاریخِ ایشیا‘‘ کہہ کر اپنے قاری کو فخر کے احساس سے مالامال کرنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں تو کہیں اپنے دیس کے حالات، معاشرے کی فکری وعملی کج روی اور انیس سو اکہتر کی عسکری شکست پر نوحہ کُناں دکھائی دیتے ہیں۔ نظم ’’دوجنگیں‘‘ ہماری شکست اور ملک کے دو ٹکڑے ہوجانے کا مرثیہ ہی نہیں یہ وہ چبھتے سوال بھی اٹھاتی ہے جو اُس دور میں اٹھانا بڑی ہمت کا کام تھا جب یہ کہی گئی:
آؤ سوچیں بیٹھ کر ایسا ہوا تو کیوں ہوا
کس کی غداری سے اس خیرالامم کا خوں ہوا
پھر تاریخ اسلام میں شجاعت کے روشن حوالوں حضرت علیؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ اور طارق بن زیادؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ پوچھتے ہیں:
طارق ؒوخالدؓ کے تارے کس طرح رُسوا ہوئے
فاتح خیبرؓ کے پیارے کس طرح رُسوا ہوئے
اس کے برعکس جب وہ جنگِ ستمبر کا تذکرہ کرتے ہیں تو مصرعوں میں جوش وولولے کے طوفان لہریں مارنے لگتے ہیں۔ انھوں نے اپنا کلام وطن کے روزوشب سے یوں وابستہ کیا کہ 1975میں دنیا سے کوچ کرجانے والے اس شاعر کی نظمیں پاکستان کے ابتدائی تیس سال کی تاریخ بن گئیں۔
اپنی مذہبی شاعری میں وہ کُھل کر اپنے عقائد کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں، تاہم انھوں نے جوش ملیح آبادی کے مرثیے ’’حُسین اور انقلاب‘‘ کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے رثائی ادب میں مزاحمت اور انسانی مساوات کے رنگ بھرنے کی سعی کی ہے:
حُسینؓ درجات کا مخالف
حُسینؓ طبقات کا مخالف
وہ جاہ وحشمت کی بو سے باغی
وہ کج کلاہوں کی خو سے باغی
(حُسین سب کا)
مشیرکاظمی کے فلمی نغمے بھی اس کتاب میں شامل ہیں، جن میں ’’چاندنی راتیں، سب جگ سوئے ہم جاگے تاروں سے کریں باتیں‘‘، ’’تم زندگی کو غم کا فسانہ بناگئے‘‘،’’شکوہ نہ کر گلہ نہ کر‘‘،’’ہو لال مری پت رکھیو بھلا جھولے لالن‘‘،’’شمع کا شعلہ بھڑک رہا ہے، دل پروانہ دھڑک رہا ہے‘‘ جیسے سدابہار گیت اپنی نغمگی، لفظوں کے آہنگ اور مقبولیت کے باعث پاکستان کی فلمی شاعری کا سرمایۂ افتخار ہیں۔
’’کلیات مشیرکاظمی‘‘ صاحبِ کلام کی پینٹنگ سے آراستہ خوب صورت سرورق اور عمدہ طباعت کے ساتھ شایع کی گئی ہے۔ اپنی شعری صلاحیت ملک وقوم کے لیے وقف کردینے والے کا حق بنتا ہے کہ اس کے کلام پر مبنی کتاب ہر نجی وسرکاری کُتب خانے کی زینت بنے۔
جو ملے تھے راستے میں
مصنف: احمد بشیر ، تحقیق وترتیب: یونس جاوید ، ناشر: عکس پبلی کیشنز، لاہور ، صفحات:488 ، قیمت: 3000 روپے (عام کاغذ پر طبع شدہ)، 5000 روپے (اعلٰی درجے کے کاغذ پر طبع شدہ)
خاکہ ادب کی وہ صنف ہے جو اپنے لکھنے والے سے جرأتِ اظہار اور ناگفتنی کو گفتنی بنادینے کا سلیقہ مانگتی ہے۔ ایک خاکہ نگار کو کسی شخص یا شخصیت کی لفظوں سے تصویر بناتے ہوئے تلخ سے تلخ حقیقت کو بھی یوں بیان کرنا ہوتا ہے کہ اس کا نثرپارہ سیاہی پھینکنے کا عمل اور نثر میں لکھی ہجو نہ بننے پائے۔
’’جو ملے تھے راستے میں‘‘ احمدبشیر کے نڈر قلم سے نکلنے والے خاکوں کا مجموعہ ہے، جسے اس کتاب کی اشاعت کے پچیس سال بعد سلورجوبلی ایڈیشن کے طور پر عکس پبلی کیشنز لاہور نے بڑے اہتمام سے شایع کیا ہے، جس کے کرتا دھرتا محمد فہد کو کتاب کے مرتبہ یونس جاوید نے ’’ویل ڈن محمد فہد۔۔۔ویل ڈن‘‘ کے زیرعنوان کتاب میں شامل مختصر تحریر کے ذریعے ان کی محنت اور جنون پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔
احمدبشیر ایک بے باک صحافی، قلم کار اور دانش ور کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اردو صحافت میں فیچررائٹنگ جیسی دل چسپ اور مقبول عام صنف متعارف کرانے کا سہرا انھیں کے سر ہے۔ ان کی قلمی اور تخلیقی کاوشیں صحافتی دنیا تک محدود نہیں تھیں، انھوں نے ہالی وڈ سے فلم ڈائریکشن کی تربیت حاصل کی اور بہ طور ہدایت کار وفلم ساز ایک فلم ’’نیلاپربت‘‘ بنائی، جو پاکستان کی ابتدائی تجرباتی فیچر فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔
ان کا ایک حوالہ اداکاری سے وابستہ بشریٰ انصاری اور اسماء عباس اور ادیبہ و شاعرہ نیلم احمد بشیر جیسی نام ور بیٹیوں کا باپ ہونا بھی ہے۔ اس مجموعے میں چراغ حسن حسرت کے انٹرویو کے علاوہ مولانا حسرت موہانی، میراجی، احسان دانش، حمیدکاشمیری، ممتازمفتی، خواجہ خورشید انور، قدرت اللہ شہاب، وارث میر، میجراسحاق، کشورناہید، عبدالمجید بھٹی اور بریگیڈیئر عاطف پر خاکے شامل ہیں، جن میں احمدبشیر نے لگی لپٹی رکھے بغیر ان کی شخصیت کے سارے رنگ پیش کردیے ہیں۔
یہ خاکے پڑھتے ہوئے ہم پر بہت کچھ منکشف ہوتا ہے اور کتنے ہی راز افشا ہوتے ہیں۔ احمد بشیر کا پیش لفظ، ان پر ممتاز مفتی کی تحریر (بہ عنوان ’’غنڈا‘‘) اور یونس جاوید کا صاحب کتاب پر مضمون بھی پڑھنے کی چیز ہیں۔
یہ تینوں تحریریں احمدبشیر کی زندگی اور شخصیت کے سارے اتارچڑھاؤ اور گھاؤ ہمارے سامنے لے آتی ہیں، لیکن یہ گھاؤ دوسروں کی بیان کردہ حکایت میں ملتے ہیں یا اس کے لیے احمدبشیر کی سطروں کو ’’ڈی کوڈ‘‘ کرنا پڑتا ہے، ان کے لفظوں میں طنز ہے، شگفگتی ہے، شوخی ہے، تیکھاپن ہے، مگر کسی زخم کا نشان ہے، الم کا شائبہ نہ درد کا سایہ۔
ان خاکوں سے گزرتے ہوئے ہمیں بڑے دل چسپ اور چونکاتے انکشافات سے سابقہ پڑتا ہے، جیسے احسان دانش کے بارے میں لکھتے ہیں،’’اُس نے کاندھلے کی میونسپلٹی کی نوکری کے زمانے میں ایک گروہ مرتب بھی کیا تھا، جس کے پروگرام میں سرمایہ داروں کے سرمائے کے علاوہ ان کے بچے اُٹھا لے جانے کا بھی پروگرام تھا، تاکہ ان کو انتقاماً دوردراز علاقوں میں پرورش کیا جائے۔
اِس مقصد کے لیے اُس نے دست بدست لڑائی کے تمام فن سیکھے۔‘‘ سُر اور سنگیت میں رہتے بستے خواجہ خورشیدانور کے بارے میں کوئی سوچ بھی سکتا ہے کہ تقسیم سے پہلے کالج میں دوران تعلیم وہ،’’بعض کیمیائی اجزاء جو بازار میں دست یاب نہیں، کالج کی لیبارٹری سے اُڑا کر انقلابیوں کو دیا کرتے تھے۔
بالآخر بھگت سنگھ کے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ خواجہ صاحب بھی پکڑے گئے مگر ان کا ایک عزیز جو رشتے میں ان کا بزرگ تھا، ایک بہت بڑا افسر تھا، اُس نے خواجہ صاحب کو اِس وعدے پر چُھڑوایا کہ میں آئندہ کبھی سیاسی کام نہیں کروں گا۔‘‘ قدرت اللہ شہاب پر لکھے گئے خاکے میں شہاب صاحب احمد بشیر کے سامنے پوری ندامت کے ساتھ اعتراف کر رہے ہیں،’’میں نے ایوب خان کی خدمت اپنی سرکاری ڈیوٹی سے بہت آگے بڑھ کر انجام دی۔
میں نے اسے اس کے پسند کے مشورے دیے۔‘‘ احمد بشیر ایک صحافی کی حیثیت سے پاکستان کی سیاست کے بہت سے واقعات کے پس منظر سے آشنا تھے۔
میجراسحاق کے خاکے میں وہ راول پنڈی سازش کیس کی پرتیں اتارتے ہوئے لکھتے ہیں،’’میجراسحاق محمد کو یہ بھی معلوم تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کے کچھ اکابرین مثلاً سجادظہیر، جنرل اکبر خان کی ساس بیگم شاہ نواز کے گہرے دوست تھے۔ لیاقت علی خان کا تختہ اُلٹنے میں کچھ ان کی ذاتی دل چسپی بھی تھی۔ لیاقت علی خان نے ان کو پوری طرح نظرانداز کردیا تھا۔ وہ اس کا بدلہ لینا چاہتی تھیں۔‘‘
یہ اقتباسات ہی بتانے کے لیے کافی ہیں کہ ’’جو ملے تھے راستے میں‘‘ کے دامن میں پڑھنے والے کے لیے کیا کچھ ہوسکتا ہے۔ کتاب تصاویر کی صورت میں احمدبشیر کی زندگی کی جھلکیوں سے مزین ہے۔ عرفان اللہ صابر کے بنائے ہوئے پورٹریٹس اور اسکیچز نے کتاب کی دل کشی دوچند کردی ہے۔
پردیس سے دیس اور سفرِحجاز
مصنفہ: صوفیہ کاشف ، ناشر: عکس پبلی کیشنز، لاہور
صفحات:160 ، قیمت: 800
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل یا یوں سمجھ لیں کہ دو مختصر کتابوں کا مجموعہ ہے۔ کتاب کی مصنفہ افسانہ نویس، سفرنامہ نگار اور بلاگر ہیں، ان کی تحریریں پاکستان اور بیرون پاکستان مختلف ویب سائٹس، اخبارات اور رسائل میں شایع ہوتی رہتی ہیں۔ خامہ فرسائی کے ذریعے لفظوں سے تصویر بنانے کے ساتھ وہ بہ طور عکاس (فوٹوگرافر) تصویروں کی زبانی کہانیاں بیان کرتی ہیں، ان کی کھینچی ہوئی تصاویر برطانوی اخبار Guardian کے صفحات میں شایع ہوتی رہی ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب کتاب کا پہلا حصہ بہ عنوان ’’پردیس سے دیس‘‘ ان کی اس ہجرت کی بپتا ہے جو انھوں نے دیارغیر سے اپنے وطن کی طرف کی، اور پھر ان پر اور ان کے کُنبے پر جو گزری وہ اپنوں کی خودغرضی، اہل وطن کی بدسلوکی، سفاکی وعیاری اور ہمارے ملک میں عوام کے روزمرہ کے مسائل کی کہانی بن کر سامنے آئی۔ رواں، سادہ اور دل چسپ اسلوب اور تیکھے جملوں نے اس کہانی کو دل گداز بنادیا ہے، اور ہر صاحب دل قاری مصنفہ کی تحریرکردہ سطروں سے گزرتے ہوئے وہ کرب محسوس کرتا ہے جو انھوں نے مٹی کی محبت میں پردیس سے دیس آکر سہا۔
صوفیہ کاشف اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ گیارہ سال ابوظبی میں مقیم رہیں۔ آخر جائے سکونت کی بے رنگ اور موسموں کے بدلاؤ سے ناآشنا ساکت وجامد فضا اور اجنبی ماحول نے بے زاری طار کردی اور دل کو وطن واپسی کے لیے تڑپانا شروع کردیا، جہاں اپنے تھے، یادیں تھیں، دور تک پھیلا سبزہ تھا اور ساری رُتیں اپنی پوری دل کشی اور شدت کے ساتھ اُترتی تھیں۔ 2019 کی آٹھ جولائی کو وہ اہل خانہ کے ساتھ دل میں روپہلے سنہرے ارمان اور آنکھوں میں دھنک سے سپنے سجائے پاکستان کی طرف محوپرواز تھیں، جہاں انھیں اسلام آباد میں بسنا تھا۔ یہاں پہنچتے ہی ان کے ارمانوں اور خوابوں کو پہلی چوٹ ہوٹل پہنچ کر لگی۔
لکھتی ہیں،’’عارضی رہائش کے لیے جس ہوٹل کا انتخاب کیا تھا وہ تصاویر، کرائے اور لوکیشن کے حساب سے تو خاصا لگژری ہونا چاہیے تھا مگر پاکستان اترتے ہی ہوٹل کو دیکھا تو سب سے پہلا احساس یہ ہوا کہ لگژری کا مطلب کئی سیڑھیاں اتر کر خاصا نیچے آگیا ہے۔‘‘ یہ پہلا دھچکا تھا۔ جب انھوں نے کرائے کا مکان ڈھونڈنا شروع کیا تو انھیں زبوں حال مکانوں کے آسمان کو چھوتے کرائے طلب کرتے مالکان کے خشونت زدہ رویوں کا سامنا تھا۔ اللہ اللہ کرکے ایک گھر ملا، لیکن وہاں جو صورت درپیش آئی اس کی وجہ سے چند دنوں ہی میں اسے چھوڑ کر مصنفہ کو نئے آشیانے کی تلاش میں نکلا پڑا۔
یہ تو ان کی نقل مکانی کے مصائب کا صرف ایک پہلو تھا، گھریلو ملازمہ کی تلخ مزاجی اور بدزبانی، میڈسروس کی دھوکادہی، اسکول کا اپنی ذمے داری بچوں کے والدین پر ڈال دینا، منطق، اخلاقیات، مذہب اور ذمے داری کے احساس سے کوسوں دور سماجی رویے۔۔۔۔ایک منظم اور قوانین وقواعد میں ڈھلی زندگی گزار کر آنے والی خاتون کے لیے یہ سب نہایت اذیت ناک تھا، جس سے اکتاکر اس خاندان نے ایک بار پھر ترک وطن کا درد جھیلا اور عافیت کی تلاش میں دبئی کی راہ لی۔ یہ حصہ ان کے دوبارہ ترک وطن پر ختم ہوجاتا ہے، تاہم وہ اپنے خاندان سمیت ایک بار پھر پاکستان لوٹ آئی ہیں۔ کتاب کا یہ حصہ ہمیں آئینہ دکھا رہا ہے اور بتارہا ہے کہ کس طرح حکومت سے عام آدمی تک سب نے اپنے برتاؤ سے اس ملک کو رہنے کے قابل نہیں چھوڑا ہے۔
کتاب کا دوسرا حصہ مصنفہ کے سفرحجاز کے پاکیزہ اور معطر لمحوں کی داستان ہے، دل کش اسلوب کے باعث پڑھنے والے کو اپنے مہکتے حصار میں لے لیتی ہے۔
کتاب کی طباعت معیاری اور سرورق پر مصنفہ کی کھینچی ہوئی ہوائی جہاز کی کھڑکی کی تصویر کتاب کے دونوں حصوں کی بہ خوبی ترجمانی کر رہی ہے۔
پنجاب اور جنگ آزادی 1857-1858، اشتراک سے مزاحمت تک
مصنف: تُراب الحسن سرگانہ ، ناشر: اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، کراچی
صفحات:272 ،قیمت: درج نہیں
1857کی جنگ آزادی برصغیر کی تاریخ کا ایک منفرد باب ہے۔ بدیسی حکم رانوں کے خلاف ہندوستانیوں کی مزاحمت، ہندوؤں اور مسلمانوں کا اشتراک عمل، ہندوستان میں کسی مقصد کے لیے مختلف طبقات کے گروہوں اور افراد کا یک جُٹ ہوجانا، محض حُریت پسندی اور حُب الوطنی کے جذبات کے تحت ہندوستانیوں کا بندوق اٹھانا وہ عوامل ہیں جو اس جنگ کو انفرادیت عطا کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کی تاریخ میں ارضِ ہندوستان پر یہ عوامل روبہ عمل نہیں آئے تھے۔
اگرچہ بعض تاریخ داں آج بھی اس عظیم الشان مزاحمت کو جنگ ماننے سے انکاری اور اسے سپاہیوں کی بغاوت اور غدر کہنے پر مُصر ہیں، لیکن بھارتی مصنف اور مؤرخ سیدخورشید مصطفیٰ رضوی کی ضخیم کتاب ’’تاریخِ جنگ آزادی 1857‘‘ اور اس موضوع پر تحریر کردہ دیگر تصانیف کا مطالعہ یہ حقیقت عیاں کردیتا ہے کہ یہ ایک قومی جنگ آزادی تھی، جس میں شریک ہونے والوں کی کثیر تعداد نے بہادری، ایثار اور قربانی کی لازوال مثالیں قائم کیں۔ زیرتبصرہ کتاب اس جنگ سے اہل پنجاب سے غیرمتعلق رہنے بلکہ اس عوامی انقلاب کو کچلنے کے لیے انگریزوں کا معاون بن جانے کا تجزیہ کرتے ہوئے اس تعاون واشتراک کی وجوہات پر روشنی ڈالتی ہے، نیز اس جنگ میں پنجابیوں کا مزاحمتی کردار تفصیل سے سامنے لاتی ہے۔
اس کتاب کے مصنف ڈاکٹرتراب الحسن سرگانہ قائداعظم یونی ورسٹی اسلام آباد سے تاریخ میں ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کرچکے ہیں۔ وہ تدریس کے شعبے سے وابستہ اور کتاب میں شامل تعارف کے مطابق بہاء الدین ذکریا یونی ورسٹی، ملتان کے شعبہ تاریخ میں بہ طور ایسوسی ایٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پنجاب کو جس طرح جنگ آزادی میں اس کے کردار پر مطعون کیا اور اس پر غیرملکی حملہ آوروں کے سامنے بلامزاحمت سرنگوں ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے، یہ کتاب اِس زاویہ نظر کا علمی اور مُدلل جواب ہے۔
اپنے اس مطالعے کے تعارفی مضمون میں ڈاکٹر تراب الحسن سرگانہ لکھتے ہیں،’’عام طور پر کہا جاتا ہے کہ صوبہ پنجاب مجموعی طور پر نہ صرف استعماری طاقت کے ساتھ وفادار رہا، بلکہ ملک کے دیگر حصوں کی مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے اس کو اہم مدد فراہم کی، اس طرح کے مفروضے کی وجہ یہ ہے کہ اب تک ان متعدد عوامل کا تجزیہ کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے، جن سے غیرملکی انتظامیہ کے خلاف جنگ کے دوران ملک کے مختلف خطوں، طبقات اور برداریوں کے ردعمل تشکیل پائے۔‘‘ کتاب کا مقصد بیان کرتے ہوئے وہ مزید لکھتے ہیں،’’موجودہ مطالعے کا مقصد جنگ آزادی 1857-1858کے دوران پنجاب کے عوام کے متنوع کردار کا تجزیہ کرنا ہے۔‘‘
انھوں نے پوری وضاحت کے ساتھ، تاریخی حقائق، دستاویزات اور اعدادوشمار کی مدد سے یہ تجزیہ کیا ہے۔ دوران جنگ مسلمانانِ پنجاب کی اکثریت کی خاموشی اور انگریزوں کا مددگار بن جانے کا ایک سبب بیان کرتے ہوئے مصنف کہتے ہیں،’’انگریزوں نے پنجاب میں حکم رانی مسلمانوں سے نہیں چھینی تھی، بلکہ 1849میں، جب انگریزوں نے پنجاب کا الحاق کیا تو سکھ حکم راں تھے۔ مزید یہ کہ، پنجابی مسلمان انگریزوں کو نجات دہندہ کے طور پر دیکھتے تھے، نہ کہ فاتح یا غاصبوں کی حیثیت سے، کیوں کہ سکھ حکومت، بالخصوص رنجیت سندھ کے بعد کا دور، پنجاب کے مسلمانوں کے لیے ایک آزمائش تھا۔‘‘
اس مطالعے کے لیے انھوں نے تاریخی کتب اور سرکاری دستاویزات کے ساتھ پنجابی کی رزمیہ شاعری سے بھی مدد لی ہے، جو پنجابی حُریت پسندوں کی انگریز کے خلاف جنگ آزمائی کی حکایات پر مبنی ہے۔ یہ کتاب احمدخان کھرل شہید اور جنگ آزادی لڑنے والے پنجاب کے دیگر جاں بازوں کا دمکتا کردار سامنے لانے کے ساتھ انگریز سے وفاداری نبھاتے اور اپنے سے غداری کرتے افراد اور خاندانوں کا کچھا چٹھا بھی کھولتی ہے۔
بلاشبہہ جنگ آزادی کے دوران پنجاب کے کردار اور اس کردار کے اسباب کے سمجھنے کے لیے یہ کتاب ایک قابل قدر کاوش ہے۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.