انسان زمانہ قدیم کا ہو یا جدید ترقی یافتہ دور میں زندگی گزارنے والا، اسے اپنی صحت کے قیام اور بحالی کے بہت سے طریقے اپنانے پڑتے ہیں۔
انسانی صحت و تن درستی کا دارومدارعمدہ ماحول، بہترین آب وہوا، فطری طرز بود وباش، متوازن ومعیاری خوراک اور تعمیری معمولات پر ہوتاہے۔ متوازن خوراک میں اناج، پھل، سبزیاں ترکاریاں اور بیج یا بیجوں کے تیل شامل ہیں۔
تیل انسانی بدن کی خوبصورتی ملائمت اور تراوت کالازمی حصہ ہیں۔ مختلف اقسام کے تیل ہماری روز مرہ خوراک کا حصہ بھی ہوتے ہیں۔
ہمارے گھروں میں کھانا بناتے وقت کوکنگ آئل، بناسپتی یا دیسی گھی، سرسوں کا تیل یا زیتون کے تیل میں سے کوئی ایک لازمی استعمال کیا جاتا ہے۔
زمانہ قدیم میں سمجھدار معالجین مختلف امراض سے چھٹکارا پانے کے لیے مختلف تیلوں سے بدن پر مالش کرواتے تھے۔ جسمانی و اعصابی دردوں کمر درد، چوٹ، موچ اور گھنٹیا سے نجات دلانے کے لیے تلوں کا تیل، روغن زیتون اور کئی دوسرے تیل بڑے اعتماد سے استعمال کرائے جاتے تھے۔
موجودہ دور میں خون گاڑھا ہونے سے پیدا ہونے والی بیماریاں جیسے امراض قلب، کولیسٹرول، یورک ایسڈ، ذیابیطس، امراض گردہ، جگر کی بیماریوں اور فالج، برین ہیمریج وغیرہ مسلط ہونے کے ڈر سے معالجین قدرتی تیل کے استعمال کا مشورہ دینے لگے ہیں۔
تیلوں میں چکنائی پائی جاتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق چکنائیاں دوقسم کی ہوتی ہیں۔ ایک مفید چکنائی دوسری مضر چکنائی۔ مفید چکنائی انسانی بدن کی حرارت سے پگھل جاتی ہے جسے ’انسیچوریٹیڈ فیٹس‘ کہاجاتا ہے۔
دوسری مضر صحت چکنائی کو ’سیچوریٹیڈ فیٹ‘ کہا جاتا ہے۔ دیسی گھی، سرسوں، زیتون، مونگ پھلی، بادام اورسویابین وغیرہ کا تیل انسانی صحت کے لیے مفید خوردنی تیل سمجھے جاتے ہیں۔ جبکہ ناریل اور سورج مکھی وغیرہ کے تیل سیچوریٹیڈ فیٹس ہونے کے سبب کسی حد تک مضر صحت خیال کیے جاتے ہیں۔
دیسی گھی سے متعلق ایک تو جدید طب سے وابستہ معالجین نے غلط فہمیاں بہت زیادہ پھیلا دی ہیں، دوسرے دیسی گھی خاصا مہنگا بھی ہے۔ عام آدمی کی قوت خرید سے ہی دور ہے۔ دیسی گھی دماغی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے، بدن کو فربہ اور خوبصورت بنانے اور قوت مدافعت بڑھانے کا بہترین قدرتی ذریعہ ہے۔
دیسی گھی وٹامن ڈی کا بہترین قدرتی ماخذ بھی ہے۔ ایسے بچے جن کی جسامت کمزور ہو، مناسب نشوونما نہ ہو رہی ہو تو بچے کے بدن پر دیسی گھی کی مالش کرکے تھوڑی دیر ’سن باتھ‘ یعنی دھوپ میں لٹانے سے بچے کی نشوونما میں بہتری اور جسامت میں مضبوطی آنے لگتی ہے۔
اسی طرح زیتون کا تیل بھی ہمارے ملک کی پیداوار نہ ہونے کے باعث مہنگا پڑتا ہے اور اس کے خالص ہونے پر بھی سوالیہ نشان اپنی جگہ ہے۔ منافع خور تاجر مبینہ طور پر عام کوکنگ آئل کو ہی زیتون کی خوشبو اور رنگ دے کر فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔
بدنصیبی ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہماری مقامی اجناس جیسے سرسوں، مونگ پھلی، مکئی، سورج مکھی وغیرہ کی کاشت اپنی ضرورت سے بہت کم ہے۔
حالیہ شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہم اپنی ضرورت کا 75 فیصد خوردنی تیل بیرون ممالک سے درآمد اور صرف 25 فیصد تک مقامی تیل استعمال کرپاتے ہیں۔ حالانکہ ایک زرعی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ سرسوں، سویابین، مکئی، سورج مکھی اور مونگ پھلی وغیرہ کی کاشت کے لیے ہماری زمینیں اور آب وہوا بھی موزوں ہے۔
لاپرواہی اور بے دھیانی کی وجہ سے ملک کے قیمتی زرمبادلہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ حکومتی اور محکمانہ ذمے داران سے ہماری گزارش ہے کہ سرسوں، سویابین، مکئی، سورج مکھی اور مونگ پھلی وغیرہ کی کاشت پر بھرپور توجہ دے کر نہ صرف ہم اپنی ملکی خوردنی ضروریات پوری کرسکتے ہیں بلکہ برآمد کر کے ملکی زرمبادلہ میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
یوں تو تلوں کی کاشت بھی ہمارے ہاں وسیع بنیادوں پر ہو سکتی ہے اور ہو بھی رہی ہے لیکن طبی ماہرین تلوں کا تیل پکانے کے لیے تجویز نہیں کرتے۔ تلوں کے تیل کا زیادہ استعمال بیرونی طور پر بدن کو گرمانے، جسمانی واعصابی دردیں بھگانے، چوٹ، موچ، کمر اور جوڑوں کے درد سے پیچھا چھڑانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ماہرین کے خیال میں تلوں کا تیل ثقیل ہوتا ہے جو نظام ہضم کی کارکردگی کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
اگر سرکاری سطح پر مقامی طور سرسوں، سورج مکھی، مکئی، بنولہ، مونگ پھلی اور سویابین کی کاشت پر توجہ دی جائے تو ملکی زر مبادلہ بچانے کے ساتھ عوام الناس کو جان لیوا اور موذی امراض سے بھی محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
سرسوں کے تیل کے حوالے سے ایک وضاحت ضروری ہے کہ سرسوں کی کئی اقسام ہیں، جن میں رایا دیسی سرسوں، توریا تارامیرا اور گوبھی سرسوں کینولا آئل شامل ہیں۔
دیسی عام سرسوں جسے رایا بھی کہا جاتا ہے کے تیل میں 50 فیصد تک تیزابی مادے ہونے کی وجہ سے یہ تیل کھانے کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔ اس سے کھانا بدمزہ اور تلخ سا ہو جاتا ہے، جسے کھانے میں دقت پیش آ تی ہے۔کینولا آئل جسے گوبھی سرسوں کا نام دیا جاتا ہے اس کا تیل کھانے کیلیے بہترین سمجھاجاتا ہے۔ گوبھی سرسوں کینولا آئل میں تیزابی مادوں کی مقدار بھی کم ہوتی ہے، یوں اس میں پکایا ہوا کھانا ذائقے اور لذت سے بھرپور ہوتا ہے۔
کینولا آئل تندرستی برقرار رکھنے کے لیے بھی بہترین مانا جاتا ہے۔ یہ نہ جمنے والی چکنائی ہے اور خون کی نالیوں میں جمتا نہیں اور نہ ہی خون گاڑھا کرنے کا سبب بنتا ہے۔
سورج مکھی کے تیل میں اگر چہ جمنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے تاہم کیمیائی پروسس سے گزار کر اسے بھی خوردنی معیار کے لائق بنایا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں صابن سازی کی صنعت میں سورج مکھی کے تیل کا استعمال کرکے ہم ملکی زرمبادلہ بچاسکتے ہیں۔
زیتون کے تیل کو کھانوں میں شامل کرنا صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔ زیتون کا مزاج گرم خشک ہے اور یہ دل ودماغ، اعصاب اور جگر و معدے کو تقویت دیتا ہے۔ لیکن پاکستان کی مقامی فصل نہ ہونے کے سبب کافی مہنگا پڑتا ہے۔
تاہم صاحب استطاعت زیتون کے تیل کو اپنی خوراک میں شامل کرکے لاتعداد مہلک اور جان لیوا امراض سے محفوظ ہوسکتے ہیں۔ زیتون کے تیل اور روغن بادام کے استعمال سے متعلق دھیان رہے کہ انہیں آگ پر پکانے سے ان کے مفید صحت مند اجزا جل جاتے ہیں اور یہ خاطر خواہ صحت بخش ثابت نہیں ہوتے۔ زیتون کے تیل اور روغن بادام کو سبزیاں ابال کر شامل کرنے سے ہی ان کے صحت بخش اجزا سے مکمل استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح دودھ، پھلوں کے جوسز یا شوربے والے سالن میں حسب ضرورت وگنجائش شامل کرکے ان کے بھرپور فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
روغن بادم بدن ودماغ کی خشکی ختم کرنے کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔ جسم پر مالش کرنے سے بدن کے مسام کھلتے ہیں اور جلدی خلیات میں آکسیجن کی جاذبیت بڑھ کر صحت وتوانائی کا سبب بنتی ہے۔ بادام روغن نیم گرم دودھ میں ملاکر پینے سے قبض سے نجات ملتی ہے اور بے خوابی کے مرض کاخاتمہ ہوجاتا ہے۔
مونگ پھلی کا تیل بھی انسیچوریٹیڈ خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ ملکی غذائی ضروریات کے تحت تجارتی طور پر مونگ پھلی کی کاشت بھی بڑھانی چاہیے، اس سے صحت افزا خوردنی تیل بھی عام دستیاب ہوسکتا ہے اور ملکی زر مبادلہ کی بچت بھی کی جاسکتی ہے۔
مونگ پھلی کے تیل کو طبی ماہرین صحت بخش اور قلب دوست خیال کرتے ہیں۔ یہ دل کی حفاظت کرتا ہے اور مجموعی صحت برقرار رکھنے میں بھی کلیدی کردار کا حامل ہے۔ ناریل کا تیل جمنے والا اور خون کو گاڑھا کرنے والا ہوتا ہے۔
ناریل کے تیل کو کھانے میں شامل نہیں کرنا چاہیے۔ یہ جلد کی خوبصورتی اور بالوں کی نشوونما کے لوازمات میں بھاری مقدار میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔کدو کا تیل دماغی خشکی، دماغی کمزوری، ذہنی امراض میں بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔ نیند نہ آنے کی صورت میں روغن کدو شیریں کے چند قطروں سے سر کی چوٹی پر مساج کریں تو بھرپور نیند آتی ہے۔
ہمارے گھروں میں السی اور السی کاتیل بھی موسم سرما میں وافر استعمال کیاجاتا ہے۔ السی کولیسٹرول، یورک ایسڈ اور جسمانی واعصابی کمزوری دور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ آملے دھنیا اور سیکاکائی کے تیل بالوں کی حفاظت، مضبوطی اور نشوونما کے لیے عام استعمال کیے جاتے ہیں۔ روغن ارنڈ یاکیسٹر آئل کا استعمال بھی ہمارے ہاں عام کیا جاتا ہے۔
کیسٹر آ ئل عام طور پر قبض دور کرنے کے لیے مائیں بچوں کو دودھ میں ملاکر پلاتی ہیں۔ طبی ماہرین کے نزدیک کیسٹر آئل ایک بے ضرر اور مفید دوا ہے جو بچوں، بزرگوں اور جوانوں کے لیے یکساں مفید ہے۔
قارئین کو یاد رکھنا چاہیے کہ بہترین اور فوری نتائج کے حصول کے لیے جملہ تیلوں سمیت کسی بھی نباتاتی دوائی کا استعمال کسی ماہر کے مشورے سے کریں۔ سیلف میڈیکیشن اور سنے سنائے ٹوٹکے صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
The post تیل کے مختلف استعمال اور طبی فوائد appeared first on ایکسپریس اردو.