THE LEADER محمدﷺ
مصنف: حمیداللہ حمیدی،قیمت:3000 روپے، صفحات:416
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ لاہور(03014208780)
امام الانبیائ، صاحب لولاک، احمد مجتبیٰ،خاتم النبین حضرت محمد مصطفیﷺ تمام عالموں کی واحد ہستی ہیں جن کی سیرت و کردار پر سب سے زیادہ کتب منصہ شہود پر آئیں ، یہی نہیں کہ نبی پاکﷺ کی سیرت پر مسلم اکابرین اور دانشوروں نے قلم اٹھایا بلکہ غیر مسلم بھی آپ کی سیرت بیان کرنے میں پیش پیش رہے ۔
محمد شفیق خاں پسروری کہتے ہیں ’’ مصنف نے رسول پاکﷺ کی سیرت اور طریقت سے ایک خاص انداز کو سامنے رکھا ہے اور آپﷺ کی حیات مبارکہ سے ’’ قیادت و سیادت ‘‘ سے دنیا بھر کے لیڈروں کے لیے راہنمائی عطا کرنے کی جہد مبارکہ کا جتن ہے ۔
جناب حمیداللہ حمیدی نے سیرت مبارکہ پر بہت مطالعہ کیا ، قرآن و حدیث سے بھی خوب استفادہ کیا اور دنیا والوں کی بہتری ، لیڈروں کی اصلاح اور بہتری کے لیے ’’ رسول پاکﷺ کو بحیثیت قائد‘‘ پیش کر کے بتا دیا کہ قائد اور رہبر اعظم کس طرح کا ہوتا ہے اور کس طرح کا ہونا چاہیے!‘‘ پروفیسر امجد علی شاکر کہتے ہیں ’’ آنحضور ﷺ نے قیادت و سیادت کا ایک نیا اسوہ نمونہ اور تصور و اسلوب دیا ہے ۔
مصنف آنحضور ﷺ کی ذات اقدس میں وہی اعلیٰ ترین صفات دیکھتے ہیں اور جذب و جنون سے بیان کرتے ہیں یہ کتاب محبت کا سفر نامہ ہے اس کا ایک ایک ورق روشن ہے آئیے روشنیوں کی اس منور دنیا کا مشاہدہ کریں اور اس کی روشنیوں سے دلوں کے چراغ روشن کریں ۔‘‘
علامہ ہشام الٰہی ظہیر کہتے ہیں ’’ یہ کتاب سیرت النبی ﷺ سے ماخوذ ہے لیکن اس کا اسلوب بہت منفرد ہے نبی کریم ﷺ کے چیدہ چیدہ واقعات نبی کریمﷺ کا انداز تعلیم و تعلم ، نبی کریم ﷺ کا نیک اعمال کی طرف راغب کرنا، خود نبی کریم ﷺ کے بارے میں مشاہیر کی آراء اور اسی طرح سیرت کو عصر حاضر پر منطبق کرنا یہ اس کتاب کی ایسی خصوصیات ہیں جو اس کو دیگر کتب سیرت سے ممتاز کر دیتی ہیں ۔
مصنف کا اسلوب نہایت دلنشین ہے، قلم کی روانی اور اردو کا سلیس انداز بہت خوب ہے۔ ‘‘ معروف دانشور اوریا مقبول جان کہتے ہیں ’’حمیداللہ حمیدی صاحب نے اس ذات والا صفات پر قلم اٹھا کر اپنے قلم اور تحریر دونوں کو معطر کیا ہے۔
کتاب کا نام THE LEADER یعنی اصل رہنما رکھ کر پوری محنت اور شوق کو ایک ایک حرف میں سمو دیا ہے ، انھوں نے اس کامل انسان کی ذات اعلیٰ کو انسانی زندگی کے ہر ذاتی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی پہلوئوں کے حوالے سے دیکھا ہے اور عشق رسول میں اپنا قلم ڈبو کر لکھا ہے۔ ‘‘ انتہائی شاندار کتاب ہے ہر فرد کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
رسول اﷲ ﷺ کے مشیرکرام
مصنف : عبدالعزیز الشناوی ،صفحات : 173،قیمت : 1960روپے
ناشر : دارالسلام انٹر نیشنل ،لوئر مال ، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ ، لاہور
برائے رابطہ : 042-37324034
اصحاب رسول کی سیرت و کردار کو اجاگر کرنے والا یہ مجموعہ عرب مصنف عبدالعزیز الشناوی کا مرتب کردہ ہے اسے انگریزی میں عبدالاحد علیگ نے ایڈٹ کیا ہے اور یہ Advisors of the Prophet کے عنوان سے شائع ہواہے۔
یوں تو آج تک ایسی لاکھوں کروڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں جن میں اصحاب رسولﷺ کے فضائل ومناقب مختلف انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام میں ہر صحابی کا اپنا مقام و مرتبہ ہے تاہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں کچھ ایسے تھے کہ جن سے رسول مقبولﷺ مشاورت فرمایا کرتے تھے گویا یہ رسول مقبولﷺ کے مشیر تھے۔ دنیوی اعتبار سے دیکھا جائے تو وزیر کا مقام ومرتبہ مشیر سے بلند تر ہوتا ہے۔
اسی مصنف کی ایک دوسری کتاب around The Prophet The Ministers کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ اس کتاب میں ان صحابہ کرام کا ذکر کیا گیا ہے جوکہ رسول مقبولﷺ کے وزیر تھے۔ جیسا کہ سیدنا ابوبکر صدیق ، سیدنا عمر فاروق ، سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی رضی اللہ عنھم ہیں۔
یہ چاروں خلفا رسول مقبولﷺ کے وزیر بھی تھے اور مشیر بھی۔ ان خلفا کا ذکر چونکہ مصنف اپنی دوسری کتاب میں کر چکے ہیں اس لئے مصنف نے اپنی کتابof the Prophet Advisors میں ان کا ذکر نہیں کیا ہے۔
یہ بات معلوم ہے کہ مشورہ کرنا ایک عظیم عمل ہے قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے نبی علیہ السلام سے بھی فرمایا کہ ’’ اے نبی آپ اپنے صحابہ کرام سے مشورہ کیا کریں۔
کتاب میں درج ذیل صحابہ کرام کے احوال شامل کیے گئے ہیں، عبداللہ بن زید بن ثعلبہ،سعد بن الربیع، عبداللہ بن جحش ، سلمان الفارسی، عبداللہ بن رواحہ ،حباب بن منذر، اسید بن خذیر، اسامہ بن زید، سعد بن معاذ، نوفل بن معاویہ، سعد بن عبادہ، مالک بن سنان رضوان اللہ علیہ اجمعین۔ یہ سب وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہیں جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مواقع پر مشاورت کیا کرتے تھے اور انہیں آپﷺ نے مختلف ذمہ داریاں بھی سونپیں۔
رسول کریمﷺ نے عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کو سریہ نخلہ کا قائد بنا کر بھیجا چنانچہ وہ مکہ مکرمہ کے مشرق میں واقع نخلہ کی طرف لشکر لے کر گئے، سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو جنگ موتہ میں سپہ سالار بنایا گیا اور سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو رومیوں کی سرکوبی کرنے والے لشکر کا امیر مقرر کیا گیا کیونکہ ان کے والد سیدنا زید رضی اللہ عنہ 8 ہجری میں جنگ موتہ میں رومیوں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے تھے چنانچہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ مہم سر کی۔
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ غزوہ بنو قریظہ کے بعد اسیر یہودیوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے جج بنائے گئے تو انھوں نے اپنے قبیلے بنو اوس کے حلیف بنو قریظہ کے یہودی مردوں کے قتل کا فیصلہ کرکے اسلامی حمیت کا مظاہرہ کیا۔ سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جنہیں نیند میں اذان کے الفاظ اور جملے القا کیے گئے۔
سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے وقت ایک اسلامی لشکر کے سالار تھے جب طائف کے محاصرے کے دوران شدید مزاحمت کے باعث قلعہ فتح نہیں ہو رہا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت نوفل بن معاویہ الدیلی سے مشورہ طلب کیا تو انہوں نے اپنی رائے دی کہ اگر اپ ان ثقفیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں تو وہ آپ کو ضر ر نہیں پہنچائیں گے۔
اس حکیمانہ مشورے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرہ اٹھا لیا اور پھر ایک وقت آیا کہ جب خود اہل طائف کا وفد مدینہ پہنچا اور وہ مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ انہی راست باز اور پاکباز اصحاب رسولﷺ کی سیرت و کردار کا ’’ ایڈوائزر آف دی پرافٹ ‘‘ میں احاطہ کیا گیا ہے۔ انگریزی خواہ اصحاب اس کتاب کے مطالعہ سے اپنی زندگی سنوارنے کیلئے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔
تاریخ بیت المقدس
مصنف: عبدالقدیر،قیمت:1000روپے،صفحات : 184
ناشر: فیکٹ پبلی کیشنز ، علی پلازہ ، ٹیمپل روڈ،لاہور (03009482775)
بیت المقدس وہ مقدس مقام ہے جس سے موجودہ دنیا کے تینوں بڑے الہامی مذاہب اسلام ، عیسائیت اور یہودیت کے پیروکار محبت اور عقیدت رکھتے ہیں ، یوں اس جگہ کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔ حد سے بڑھی ہوئی اسی محبت اور عقیدت کی وجہ سے تمام مذاہب کے ماننے والوں کی کوشش اور خواہش ہے کہ یہ مقدس مقام ان کے تصرف میں ہو ۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ تینوں مذاہب کے ماننے والوں کو یہاں تک آسان رسائی حاصل ہو مگر جب سے عالمی طاقتوں کی شہہ پر یہودی یہاں پر قابض ہوئے ہیں انھوں نے مسلمانوں کے اس قبلہ اول میں مسلمانوں کے داخل ہونے پر طرح طرح کی ناصرف پابندیاں لگائی ہیں بلکہ ظلم و ستم کی وہ داستانیں رقم کی ہیں کہ جنھیں الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔
33 صدی پرانا بیت المقدس بے شمار پیغمبروں کا مسکن اور مدفن ہے ۔ ساری دنیا کی تہذیب کا سرچشمہ اور روحانیت کا مرکز ہے ۔ اس مقام نے قدرت اور انسان کے ہاتھوں تکلیفیں ہی تکلیفیں برداشت کی ہیں ۔ یہ زلزلہ سے تباہ ہو کر کھنڈرات کا پہاڑ بن چکا ہے ۔ انسان اسے کئی بار پیوند زمین کر چکے ہیں، بیس مرتبہ محصور ہو چکا ہے، اٹھارہ دفعہ دوبارہ تعمیر ہوا ہے۔ ہڈریان اور بخت نصر کے عہد میں اسے مکمل تباہ و برباد کیا گیا ۔
اس شہر پر چھ ادوار مذاہب کی تبدیلی کے گزرے ہیں یعنی یہاں کے باشندے اپنا آبائی دین چھوڑنے اور نیا دین اختیار کرنے پر مجبور کیے جا چکے ہیں ۔ اس پر ایسا زمانہ بھی گزرا کہ اسے زمین کے برابر ہموار کر دیا گیا ، اس کے گلی کوچے اور عمارتیں تباہ کی گئیں اور اس کے باشندے قتل کر دیئے گئے یا جلاوطن کر دیئے گئے لیکن یہ شہر آج بھی اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے اور اس کی اہمیت پہلے سے بھی بڑھ چکی ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب ہمیں اس مقدس مقام کی تاریخ سے آگاہی دیتی ہے ۔ ابتدا میں اس علاقے کا جغرافیہ مختصراً بیان کیا گیا ہے ، اس کے بیت المقدس کے مختلف ناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے ، اس کے بعد محل وقوع اور اس مقام کی رفعت اور عظمت بیان کی گئی ہے ۔
یوں یہ کتاب صدیوں کی کہانی سناتی چلی جاتی ہے اور بات آ کر موجودہ دور پر رکتی ہے جو مسلمانوں اور یہودیوں میں وجہ تنازعہ بن چکا ہے ۔ یہودیوں کی سازشوں کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے۔ انتہائی شاندار کتاب ہے ، ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
جموں و کشمیر میں آزادی کی تحریکیں
مصنف: پروفیسر ڈاکٹر راجہ عبدالرحمن ،قیمت:1800روپے،صفحات:776
ناشر: ادبستان ، پاک ٹاور، کبیر سٹریٹ ، اردو بازار،لاہور( 03004140207)
وادی جموں و کشمیر کی داستان ایسی دلفگار ہے کہ سننے والا ہو یا پڑھنے والا دونوں خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ یہاں کے باشندے کئی دہائیوں سے ظلم و ستم کا شکار ہیں جس کا آغاز انگریز دور میں اس وقت ہوتا ہے جب انگریز نے اس وادی جنت نظیر کو معمولی قیمت پر مہاراجہ گلاب سنگھ کے حوالے کر دیا ۔
زیر تبصرہ کتاب میں اس جنت نظیر وادی کی تاریخ کا بڑا عمیق جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ پروفیسر ایم نذیر احمد تشنہ لکھتے ہیں ’’ ڈاکٹر عبدالرحمٰن راجہ کا آزاد ریاست جموں و کشمیر کے معدودے چند ڈاکٹروں میں شمار ہوتا ہے جنھیں تاریخ نویسی میں سند کا درجہ حاصل ہے ۔ آپ نے تاریخ کشمیر سے دو ادوار سکھ دور اور ڈوگرہ عہد کا انتخاب کیا ۔
ان دونوں حکومتوں پر اپنے تحقیقی مقالے میں کام مکمل کر چکے تھے ۔ اب اسے کتابی شکل دینا اور اس کی نوک پلک درست کرنا تھا ۔ یوں انھوں نے سکھوں اور ڈوگروں کے خلاف مزاحمتی تحریکوں کا حصہ بننے والے مجاہدین کا تعارف کرا دیا ، جن پر اس سے قبل کسی مصنف نے قلم نہیں اٹھایا تھا ۔
مزید برآں آپ نے 1947 ء سے موجودہ دور تک جاری و ساری آزادی کشمیر کے سیاسی و عسکری ادوار کو بیان کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے پائیدار و دائمی حل کے لیے مختلف ماہرین سیاسیات کی طرف سے پیش کئے گئے ماڈلز کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تصنیف مستند ہے ۔ اس کے بعد کے مورخین کے لئے ان کی تحاریر حوالے کے طور پر استعمال ہوں گی ۔‘‘ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
پہلے حصے میں ریاست جموں و کشمیر کا جغرافیائی و سیاسی جائزہ ، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی توسیع پسندی ، سکھا شاہی دور حکومت سے لے کر تحریک آزادی جموں و کشمیر تک کی تاریخ شامل ہے جبکہ دوسرے حصے میں حق خود ارادیت کی جدوجہد اور ماضی کی چند نامور شخصیات کا تعارف اور کردار پیش کیا گیا ہے ۔
حواشی و حوالہ جات کا خصوصی اہتمام ہے ۔ کتاب کو رنگین تصاویر سے مزین کیا گیا ہے ۔ جموں و کشمیر کی تاریخ کے حوالے سے انتہائی اہم کتاب ہے ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
کینیڈا کا سفر نامہ ’سنہری پتوں کی سرزمین اور پنجابی کہانیوں کا مجموعہ
مدثر بشیر کے ادبی اور تحقیقی کام کے معیار اور تخلیقی اُپچ کا اعتراف اب ملک کی سرحدوں سے نکل کر عالمی سطح پر ہورہا ہے۔ اب تک اُن کی پندرہ کے قریب تصنیف منظر عام پر آچکی ہیں۔ ماہ نومبر کے پہلے ہفتے میں ان کی دو کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ جن میں پہلی پنجابی انسانوں کا مجموعہ ’چھتی چوبارہ‘ اور دوسری ’سنہری پتوں کی سر زمین‘ ہے جو کہ کینیڈا کا سفر نامہ ہے جو اُردو زبان میں ہے۔ مدثر بشیر کا روزنامہ ایکسپریس سے اس حوالے سے خصوصی تعلق رہا ہے کہ اُن کی تحریریں اس اخبار کا حصہ بنتی رہی ہیں شہر لاہور سے جذباتی لگائو کا اظہار اُن کی تحقیقی تصانیف کی صورت میں ہوا۔ روزنامہ ایکسپریس کے لئے مدثر بشیر نے لاہور پر صفحات کا ایک پورا سلسلہ تحریر کیا تھا جبکہ ان کے کینیڈا کے سفرنامے کے منتخب حصے بھی سلسلہ وار ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے ناول ’کون‘ ’ریکھ‘ اور ’سمے‘ کے تراجم گورمکھی اور ہندی میں ہوچکے ہیں۔ بھارتی پنجاب میں یونیورسٹی کی سطح پر نصاب میں بھی ان کے کام کو جگہ دی گئی ہے جبکہ پاکستان اور بھارت میں ان کے ادبی کام پر پی ایچ ڈی کے مکالمے بھی لکھے جاچکے ہیں۔
اُن کے ناول ’کون‘ کینیڈا میں قائم پنجابی زبان و ادب کی ترویج کے لئے کام کرنے والی تنظیم ’ڈاہاں‘ نے شاہ مکھی پنجابی رسم الخط میں لکھی جانے والی تصانیف میں ایوارڈ کے لئے منتخب کیا گیا۔ اس ایوارڈ کے لئے مدثر بشیر کو کینیڈا مدعو کیا گیا۔ جس سفرنامے کا ہم یہاں تعارف کرائیں گے وہ ان کے ان ناولٹ ایوارڈ کے لئے منتخب ہونے کے باعث ہی سامنے آیا۔
ان پنجابی کہانیوں کی کتاب ’چھتی چوبارہ‘ سے قبل ان کی کہانیوں کے تین مجموعے ’نین پران‘ ’باباجی‘ ’چاچا جی تے میں‘ اور ’کاں واہگے بارڈ‘ ناقدین اور قارئین سے داد و تحسین پاچکے ہیں۔ ان کی کہانیوں کا چوتھا مجموعہ ’چھتیی چوبارہ‘ فکشن ہائوس لاہور نے شائع کیا ہے جس میں 28 کہانیاں شامل ہیں۔ جسیا کہ ان کے اس سے پہلے سامنے آنے والا تخلیقی کام مصنف کے اسلوب اور موضوعاتی ترجیحات کا ایک واضح تعارف قائم کرچکا ہے، ان کی کہانیوں کا یہ نیا مجموعہ عمومی طور پر لاہور شہر کے گلی کوچوں میں سانس لیتی زندگی کے رنگ دکھاتا ہے۔ مدثر بشیر اپنی کہانیوں کے ذریعے اُن مناظر کو ہمارے سامنے لائے ہیں جو ہماری اپنی زندگیوں کا حصہ ہیں لیکن ہماری توجہ سے محروم ہیں۔ ان کی تخلیقات میں ہماری مٹتی ہوئی معاشرتی اقدار اور بدلتے ہوئے رویوں کی طرف جابجا اشارے ملتے ہیں۔ قصہ مختصر ان کہانیوں کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اپنے اردگرد موجود مناظر سے ہی روبرو ہورہے ہیں، ایسے مناظر جنہیں ہم نے کبھی وہ توجہ نہیں دی جس کے یہ مستحق ہیں۔
مدثر بشیر کی دوسری کتاب اُن کی کینیڈا یاترا کے دورنا ہونے والے تجربات، مشاہدات اور تاثرات کا مجموعہ ہے۔ کسی اچھے سفرنامے کا سب سے بڑا وصف یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی مقام کے بار میں محض لمحہ حال کے تاثر تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس سے جُڑی دیگر بہت سی باتوں سے بھی روشناس کرادیتا ہے۔ مدثر بشیر نے بھی اپنے اس سفر کے دوران نہ صرف یہ کہ سامنے آنے والے مقامات کی تصویر کشی کی ہے بلکہ ان سیے جڑی تاریخ اور ثقافتی رویوں کو بھی تحقیق و جستجو کے ساتھ ہم تک پہنچایا ہے۔
اس سفرنامے کو پڑھ کر کینیڈا کے معاشرتی ماحول، لوگوں کے رویوں اور ریاست کے لوگوں کے ساتھ قابل رشک تعلق کا تفصیلی تعارف حاصل ہوتا ہے۔ مصنف نے بطور خاص اُن لوگو کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے جو بھارت اور پاکستان سے روشن مستقبل کی تلاش میں یہاں آباد ہوئے ہیں اور کس طرح اپنے نئے مسکن اور آبائی وطن سے بیک وقت تعلق نبھا رہے ہیں۔
کتاب کے آغاز میں مصنف نے ہمارے ہاں کا لکھاری اور بطور خاص پنجابی لکھاری کے نام سے اپنا ایک طویل مضمون شامل کیا ہے جس میں دور حاضر میں لکھنے والوں کو درپیش چیلنجز اور مسائل کا تجزیاتی جائزہ لیا گیا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مدثر بشیر کی یہ دونوں کتابیں فکشن ہائوس نے شائع کی ہیں اور ان کی پیشکش کا انداز ویسا ہی شاندار ہے جو کہ اس اشاعتی ادارے کا امتیاز وصوف ہے۔ تقسیم کار: فکشن ہائوس بُک اسٹریٹ 68۔ مزنگ روڈ لاہور 042-36307550,36307551 (تبصرہ : غلام محی الدین)
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.