غزل
کیا شکایت ہو کیا گلہ اس سے
واسطہ ہی نہیں رہا اس سے
عمر بھر زخم چاٹتا رہے گا
میں نے بدلہ نہیں لیا اس سے
پیار کی نذر ہو گیا آخر
رشتۂ احترام تھا اس سے
منزلیں انتظار کرتی ہیں
جب مہکتا ہے راستہ اس سے
خود کو دو نیم کرنا پڑتا ہے
میں نہیں ہو سکا جدا اس سے
بن گیا نبض آشنا ایسے
مانگنا کچھ نہیں پڑا اس سے
لگ گیا ہے زبان کو جاذب
میں نے بدلا تھا ذائقہ اس سے
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)
۔۔۔
غزل
عاشقی شہرتِ درکار تلک جائے گی
گھر سے نکلی ہے تو بازار تلک جائے گی
میں ستمگر سے تحفّظ کے لیے نکلا ہوں
میری ہجرت میرے انصار تلک جائے گی
یہ جو بچوں کی لڑائی میں بڑے کودے ہیں
بات ، خدشہ ہے کہ تلوار تلک جائے گی
پہلے پہلے وہ تراشے گا کوئی عذر ضرور
پھر یہ خواہش مری انکار تلک جائے گی
اِک زمانہ مجھے تیرا گدا جانتا ہے
میری رسوائی بھی اخبار تلک جائے گی
رنگ پھولوں نے لیے اُس کی قبا سے ساجد
تازگی بھی اُسی رخسار تلک جائے گی
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
مراد آپ سے جو پا لی یار، کافی ہے
مزید مانگنا آداب کے منافی ہے
قبول کرنے میں رہتی ہیں مشکلیں درپیش
مرا وجود تمہارے لیے اضافی ہے
کسی کے بس میں مداوا مرے دکھوں کا نہیں
خدا گواہ تری اک نگاہ شافی ہے
اب اس لیے بھی نہ واپس بلا سکوں گی کبھی
کہ میرا جرم ہی ناقابلِ ِ معافی ہے
کسی بہانے سے آزردہ کر کے چل دینا
روش یہ کیسے کسی رنج کی تلافی ہے
ہے جان و دل کے خزینے پہ دسترس جس کی
بقول اس کے چلن میرا انحرافی ہے
میں عنبرین ؔاکیلے ہی کاٹ لوں گی سفر
اگر وہ لہجہ محبت میں اختلافی ہے
(عنبرین خان۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
رتبہ و عظمت کو اپنی یوں بڑھاتے ہیں چراغ
اپنے دامن میں اندھیروں کو چھپاتے ہیں چراغ
بیوہ ماں کو خون کے آنسو رلاتے ہیں چراغ
چھوڑ کر بستہ کتابیں جب کماتے ہیں چراغ
سونے چاندی تانبے پیتل سے بنانا فن نہیں
اہل فن وہ ہیں جو مٹی سے بناتے ہیں چراغ
آج بھی میرے وطن کے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں
شام ہوتے ہی بڑے بوڑھے لگاتے ہیں چراغ
کشتیاں رستے سے ہٹ جائیں نہ طوفاں کے سبب
ہم اندھیروں میں لبِ ساحل جلاتے ہیں چراغ
دیوتا بھی آرتی کا خوب لیتے ہیں مزہ
حسن والے تھالیوں میں جب سجاتے ہیں چراغ
بے تحاشہ جذبۂ الفت میں لگ جاتی ہے آگ
وہ حنائی دستِ نازک سے جلاتے ہیں چراغ
وقتِ رخصت اشک لرزیدہ سے پلکوں پر فرازؔ
صبح دم تاروں کے جیسے جھلملاتے ہیں چراغ
(نعیم فراز۔ اکولہ، مہاراشٹر ،بھارت)
۔۔۔
غزل
غم میں خوش رہ سکو تو آ جاؤ
ہم میں خوش رہ سکو تو آ جاؤ
میری صحبت کے آرزو مندو!
رم میں خوش رہ سکو تو آ جاؤ
عشق سمّ الخیاط ہے صاحب
سم میں خوش رہ سکو تو آ جاؤ
میں سمندر ہوں، دشت زادی تم
نم میں خوش رہ سکو تو آ جاؤ
میرے ہمراہ راحتیں، کم ہیں
کم میں خوش رہ سکو تو آ جاؤ
(زبیر حمزہ ۔قلعہ دیدار سنگھ)
۔۔۔
غزل
ستم شعار تغافل شعار ہیں کچھ لوگ
تمہاری بزم میں بااختیار ہیں کچھ لوگ
منافقین بھی ہوں گے یقینِ کامل ہے
صفوں میں اپنی مگر جاں نثار ہیں کچھ لوگ
ہمیں پتہ ہے حقارت سے دیکھنے والے
تری نگاہ میں عالی وقار ہیں کچھ لوگ
امیرِ شہر بتا کیا خطا ہوئی اُن سے
ترے غضب کا مسلسل شکار ہیں کچھ لوگ
غموں کی دھوپ کا احساس بھی نہیں ہوتا
ہمارے حق میں ابھی سایہ دار ہیں کچھ لوگ
بس ان کو آگ لگانے میں لطف آتا ہے
ہمارے حلقے میں اڑتے شرار ہیں کچھ لوگ
مری خوشی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں
اے شمسؔ تحفۂ پروردگار ہیں کچھ لوگ
(التمش شمس آکولوی۔ بھارت)
۔۔۔
غزل
یہ جو بے چینی ہے سمندر میں
تیرا چہرہ ہے دیدۂ تر میں
دل پہ بھی تیرا نام لکھا ہے
اور تیرا ہی نام ہے سر میں
باپ کا سایہ جب سے اٹھ گیا ہے
جی نہیں لگتا اپنے ہی گھر میں
میں ہوں، اور یہ گھٹن بھرا ماحول
قید ہیں دونوں اک ہی منظر میں
خوب بر تر ہیں تین سو تیرہ
بات ہے کچھ الگ، بہتر میں
جیت کر ہار جاتا ہوں ہر بار
کوئی دشمن ہے میرے لشکر میں
میرے رب کی عطا ہے یہ عزت
ورنہ لاکھوں ہیں عیب، اذفرؔ میں
(علی مان اذفر۔ مریدکے)
۔۔۔
غزل
گھاؤ جتنے گہرے ہوں میں بھول جاتا ہوں سبھی
جانِ جاں، جانِ جگر کو مسکراتا دیکھ کر
سانس کی ترتیب بے ڈھب ہونے لگتی ہے مری
تیرا آنچل تیرے رخ پر سرسراتا دیکھ کر
پھیکا سازینہ لگے الغوزہ، بربط پر مجھے
جب کبھی جاناں کو سن لوں گنگناتا دیکھ کر
دور ہر اک غم کرے ایسی مری دمساز ہے
تھام لے مشکل میں مجھ کو ڈگمگاتا دیکھ کر
ماند پڑ جاتی ہے اجلی ماہ تابی ہر کرن
دیپ ان آنکھوں میں روشن جھلملاتا دیکھ کر
(شہزاد نیاز۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
تمہارے دل میں ہمارا مکان ہے کہ نہیں
ہم ایسے خاک نشینوں کی شان ہے کہ نہیں
میں دیکھتا ہوں کہ بوسہ دیا تھا خواب میں جو
تمہارے گال پہ اس کا نشان ہے کہ نہیں
تمہارے ساتھ رہا جب تلک، نہیں سوچا
زمین ہے کہ نہیں، آسمان ہے کہ نہیں
یہ لوگ کچھ بھی کہیں اِن پہ دھیان مت دینا
تجھے پتا ہے کہ تُو میری جان ہے کہ نہیں
میں تم سے دور رہا اس لیے کہ دیکھ سکوں
کوئی تمہارے مرے درمیان ہے کہ نہیں
(امتیاز انجم۔ اوکاڑہ)
۔۔۔
غزل
کہیں قیام نہیں پیش ہے سفر کیسا
مجھے تلاش ہے اپنی میں ہوں بشر کیسا
بہت طویل سفر ہے چلے چلو چپ چاپ
یوں بات بات پہ کرنا اگر مگر کیسا
بجا ہے دکھ نہیں تجھ کو بچھڑنے کا مجھ سے
تو پھر یہ سرخ سی آنکھیں یہ دیدہ تَر کیسا
تو صرف اتنا بتا مجھ کو نامہ بَر میرے
وہ دیکھنے میں تجھے آیا ہے نظر کیسا
اگر خدا کا نہیں خوف و ڈر ترے دل میں
تو پھر زمانے کا رکھتے ہو دل میں ڈر کیسا
کوئی کسی کا یہاں حال پوچھتا ہی نہیں
میں آگیا ہوں کہاں پَر یہ ہے نگر کیسا
ہو چل پڑے تو چلو صبر حوصلے کے ساتھ
یوں مڑ کے دیکھنا راحلؔ اِدھر اُدھر کیسا
( علی راحلؔ ۔بورے والا، پنجاب)
۔۔۔
غزل
حرف در حرف محبت کے جلاتے ہیں چراغ
راہ ظلمت میں زمانے کو دکھاتے ہیں چراغ
روشنی بانٹ رہے ہیں یہ جلا کر خود کو
سوچئے کیسا سبق ہم کو سکھاتے ہیں چراغ
حسرتِ دید میں آنکھوں کو جلائے جو شخص
وصل میں اس کو مرے یار جلاتے ہیں چراغ
ظلمتِ شب میں سہارا بنے جن لوگوں کا
صبح ہاتھوں سے وہی لوگ بجھاتے ہیں چراغ
راہ سے بھٹکے ہوئے پائیں سراغِ منزل
آؤ ہم آج منڈیروں پہ جلاتے ہیں چراغ
راستے زیست کے آسان نہیں ہیں پھر بھی
راہ امید کی کرنوں سے سجاتے ہیں چراغ
جن کی آنکھوں کو میسر نہیں کوئی منظر
خال و خد سے وہ ترے یار جلاتے ہیں چراغ
ان کے ہی دم سے ہے رونق شفیؔ میرے گھر کی
صحن میں کھیلتے ہیں شور مچاتے ہیں چراغ
(ملک شفقت اللہ شفی۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
تیری تصویر دل میں سجاتا رہا
رات ساری میں آنسو بہاتا رہا
تیرا شاید کسی لمحے دیدار ہو
سب دیے آس کے میں جلاتا رہا
بیوفا چھوڑ کر فرقتوں میں مجھے
ساتھ غیروں کے خوشیاں مناتا رہا
اور وہ تجھ سے اچانک بچھڑنا مرا
میرے غمگین دل کو دکھاتا رہا
یوں اکیلا میں تنہائی میں بیٹھ کر
پتھروں سے جی اپنا لگاتا رہا
وہ تری بیوفائی کی میں ہر جگہ
رو رو کر داستانیں سناتا رہا
ظلم سہتا رہا میں ترے پیار میں
سب محبت کے وعدے نبھاتا رہا
(نعمان حیدر حامی، ضلع بھکر)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.