(آخری حصہ)
ڈاکٹر طاہرؔ تونسوی کامرتب کردہ ِ سید مسعود ؔحسین رضوی کے مرزا غالبؔ کی شعریات پر مبنی مضامین کے مجموعے ’’غالب‘ؔ‘ میں سید مسعود لکھتے ہیں، ’’مرزاغالبؔ کے قریبی دوستوں میں مرزا احمد بیگ طپاںؔ اور مرزا ابوالقاسم ؔخان کے نام نمایاں ہیں۔
مرزا ؔنے اپنا حقِ دوستی ادا کرتے ہوئے اپنے ان دونوں دوستوں کو شاعرانہ خراجِ تحسین پیش کیا، مگر یہاں بھی مرزاؔ نے حسبِ معمول اپنی انفرادیت کو اس طرح قائم رکھا کہ ایک ہی غزل میں دونوں کے ذکر کو ایسے سمیٹا کہ پڑھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکیں۔ مذکورہ غزل ان کی قادرالکلامی کا نایاب نقش ہے ۔‘‘
غزل
دیکھنے میں ہیں گرچہ دو، پر ہیںدونوں یار ایک
وضع میں گر ہوئی دوسر، تیغ ہے ذوالفقارایک
ہم سخن و ہم زباں ہیں قاسمؔ و حضرت طپاںؔ
اک طپشؔ کا جاںنشین، درد ؔکا یادگار ایک
نقدِ سخن کے واسطے ایک معیارِآگہی
شعر کے فن کے واسطے مایۂ اعتبار ایک
ایک وفا و مہر میں تازگیٔ بساط ِدہر
لطف و کرم کے باب میںزینتِ روزگار ایک
گلکدۂ تلاش کو ایک ہے رنگ ایک بو
ریختہ کے قماش کو پود ہے ایک تار ایک
مملکتِ کمال میں ایک امیرِ نامور
عرصۂ قیل قال میں خسروِنامدار ایک
گلشن ِاتفاق میں ایک بہارِ بے خزاں
میکدہ ِآفاق میں بادہِ بے خمار ایک
زندہ شوقِ شعر کو ایک چراغ ِ انجمن
کشتۂ ذوقِ شعر کو شمعِ سرِمزار ایک
دونوں کے دل حق آشنا، دونوں رسولؐؐ پر فدا
ایک محبِ چار یار، عاشقِ ہشت و چار ایک
جانِ وفا پرست کو، ایک شمیم ِنو بہار
فرقِ ستیزہ مست کو ابرِترنگ بار ایک
لایا ہے کہہ کے یہ غزل، شائبۂ ریا سے دور
کر کے دل و زبان کو غالبِؔ خاکسار ایک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
درج بالا مشہورِزمانہ شعر کا پس منظر بیان کرتے ہوئے محمد حسین آزاد اپنی کتاب ’’آب حیات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’لکھنئو میں منعقدہ مشاعرے میں جب ایک نوعمر لڑکے نے یہ شعر پڑھا تو مشاعرے میں موجود امام بخش ناسخ ؔنے کہا،’’میاں لڑکے! جوان ہوتے نظر نہیں آتے۔‘‘ خدا کا کرنا کہ کچھ روز بعد اس لڑکے کے گھر میں آگ لگ گئی اور وہ اس آگ میں جل کے مرگیا۔‘‘ معروف محقق کالی داس گپتا رضاؔ کے ادبی مضامین پر مشتمل، صابر دت کی مرتب کردہ کتاب’’سہو و سراغ‘‘ میں مذکورہ شعر کے حوالے سے کالی داس گپتا لکھتے ہیں،’’یہ شعر دہلی کے معروف ہندو شاعر امہتاب رائے تاباںؔ دہلوی کا ہے جس کا ذکر منشی دیبی پرساد کے تحریر کردہ تذکرے بعنوان ’’تذکرۂ آثارالشعرائے ہنود‘‘ میں موجود ہے۔ خواجہ میر دردؔ کی صدارت میں منعقد ہونے والے دلی کے ایک مشاعرے میں یہ شعر پڑھا گیا، جو دراصل یوں ہے:
؎شعلہ بھڑک اٹھا میرا اس دل کے داغ سے
آخر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
آب حیات میں بیان کردہ واقعہ محض لفظی قصہ ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
’’گڈریا‘‘ جیسے لازوال افسانے اور تلقین شاہ جیسے ناقابل فراموش ریڈیائی کردار کے خالق اور زاویہ جیسے مثالی ٹی وی پروگرام کی میزبانی کرنے والے اشفاق احمد ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ افسانہ نویسی اور ڈرامانگاری کی تاریخ ان کے بغیر ادھوری تصور کی جاتی ہے۔ اگرچہ ان کی اولین اور نمایاں شناخت افسانہ نگاری ہی رہی، تاہم ایک اعلٰی پائے کے تخلیق کار ہونے کی حیثیت سے اظہارخیال کا جو پیرایہ ان کے سامنے آیا اس کا انہوں نے بھرپور استعمال کیا۔ ان کے چاہنے والے شاید ان کی شخصیت کے اس پہلو سے ناواقف ہوں کہ انہوں نے پنجابی زبان کی طرح اردو میں بھی شاعری کی۔ اسلام آباد کے لوک ورثہ سینٹر میں موجود ان کی ذاتی ڈائری سے پتا چلتا ہے کہ ان کے شعری اثاثے میں غزلیں، نظمیں اور قطعات بھی شامل ہیں۔ شاعری میں انہوں نے بعض جگہ اپنا تخلص اشفاق اور بعض جگہ شقو استعمال کیا ہے۔ ان کی ایک غزل کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
غزل
غم خانۂ ہستی میں ہوں مہماں کوئی دن اور
کر لے ہمیں تقدیر پریشاں کوئی دن اور
ارباب مسرت یہ گزر جائے گی مدت
شاداں کوئی دن اور کہ گریاں کوئی دن اور
اس ماہ رہائی کی مجھے بھی تو ہے امید!!
یہ دہر ہے میرے لیے زنداں کوئی دن اور
جب ہم نہ رہے کس پہ ستم گاری یہ ہوگی
لے خوب ستا گردش دوراں کوئی دن اور
جو جاتے ہیں دنیا سے کوئی ان کو خبر دے
اب دنیا میں شقو ؔبھی ہے مہماں کوئی دن اور
جامعہ پشاور کے شعبۂ اردو سے شائع ہونے والے تحقیقی مجلے ’’خیابان‘‘ کے’’نوادرِ اقبال نمبر ۲۰۰۲ئ‘‘ شامل ایک مضمون ’’اقبال پنی بہن کی نظر میں‘‘ کے مطابق اقبال کی سب سے چھوٹی ہمشیرہ نے علامہ اقبال کی بیٹی منیرہ اور بیٹے جاوید اقبال کو دیئے گئے اپنے ایک ریڈیو انٹرویو (جو بعدازآں روزنامہ احساس لاہور کے یکم مئی کے شمارے میں تحریری صورت میں بھی شائع ہوا) میں اپنے والد شیخ نورمحمد سے متعلق بتایا،’’ہمارے والد اگرچہ ان پڑھ تھے مگر فارسی اور عربی سے لگاؤ کے باعث شاعری کا بہترین ذوق رکھتے تھے۔ تاہم ان کی شعر گوئی کا انکشاف اس وقت ہوا جب ہماری والدہ امام بی بی کے انتقال کے بعد انہوں نے ایک روزمجھے بلوایا اور اردو میں موزوں کیے گیے چند اشعار لکھنے کا کہا، جس کا مجھے صرف ایک شعر یاد رہ گیا:
؎یہ تنہا زندگی پیری میں نصف الموت ہوتی ہے
نہ ہو جب ہم سفر اپنا نہ ہو جب رازداں اپنا‘‘
طرحی مشاعرے، شعروسخن کی تاریخ کا یادگار باب تصور کیے جاتے ہیں۔ ان مشاعروں کی بدولت نہ صرف شعراء کی سخن وری کی صلاحیت جلا پاتی ہے بلکہ طرحی مصرعہ پر گرہ لگانے کے ایسے باکمال مظاہر سامنے آتے ہیں کہ طبع سلیم اش اش کر اٹھے۔ یہاں ذکر مقصود ہے ایک ایسے ہی طرحی مشاعرے کا جس کا طرح مصرع تھی:
؎بقول درد ؔمیں سو سو طرح سے مر دیکھوں
دیگر شعراء کے علاوہ اس مصرع پر طبع آزمائی کرنے والوں میںاپنے زمانے کے دو معتبر، معروف اور ہردل عزیز شاعر احمد فرازؔ اور محسن ؔنقوی بھی شامل تھے۔ کس نے زیادہ بہتر انداز میں اس مصرع کو نبھایا اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہوئے دونوں حضرات کی غزلیں پیش خدمت ہیں:
غزل
ہوس تو ہے کہ بلندی پہ تیرا گھر دیکھوں
نظر اٹھاؤں تو اپنے شکستہ پر دیکھوں
کسی طرح تو یہ تنہائیوں کا کرب کٹے
بلا سے اپنے ہی سائے کو ہم سفر دیکھوں
کچھ اس لیے بھی اندھیروں نے ڈس لیا مجھ کو
مجھے یہ شوق تھا رنگِ رخِ سحر دیکھوں
وہ لمس وہم سہی اس سے دل تو بہلاؤں
وہ جسم خواب سہی اس کو عمر بھر دیکھوں
فرازِعرش نہیں گر تو شاخ دار سہی
کسی طرح تو بلندی پہ اپنا سر دیکھوں
دھواں دھواں میری سانسیں ہیں زخم زخم بدن
خیال تھا کبھی اخلاصِ چارہ گر دیکھوں
وہ کنجِ لب ہوں اگر ’’وا‘‘ میرے لیے محسنؔ
’’بقول درد ؔمیں سو سو طرح سے مر دیکھوں‘‘
غزل
اسی خیال سے تاروں کو رات بھر دیکھوں
کہ تجھ کو صبح قیامت سے پیشتر دیکھوں
اس اک چراغ کی لو چبھ رہی ہے آنکھوں میں
تمام شہر ہو روشن تو اپنا گھر دیکھوں
نظر عذاب ہے پاؤں میں ہو اگر زنجیر
فضا کے رنگ کو دیکھوں یا بال و پر دیکھوں
جدا سہی مری منزل بچھڑ نہیں سکتا
میں کس طرح تجھے اوروں کا ہم سفر دیکھوں
مجھے خود اپنی طبیعت پہ اعتماد نہیں
خدا کرے کہ تجھے اب نہ عمر بھر دیکھوں
فرازؔ!! گر وہ کریں وعدۂِ مسیحائی
’’بقول درد میں سو سو طرح سے مر دیکھوں‘‘
سخن وری میں مستعملہ موضوعات کو روزمرہ کے شعری انداز میں نبھانا ایک کہنہ مشق شاعر کے لیے کوئی خاص بات نہیں، مگر معمول سے ہٹ کر انتہائی عامیانہ نوعیت کے موضوعات کو منفرد شاعرانہ سلیقے سے ادا کرنا خاصا محنت طلب اور ہمت آزما کام ہے۔ یہ شاعر کی جودت طبع، حسن تخیل اور ندرت کلام پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح معمولی عنوان کو بھی اپنے زورقلم سے خاص الخاص بنا کر پیش کرتا ہے۔ رئیس المتغزلین جگرؔ مرادآبادی کے فن شعرگوئی کا ہر صاحب ذوق معترف ہے۔ ان کے شعری اثاثے میں ایک سے بڑھ کے ایک بے مثال اور باکمال شاہ کار موجود ہیں، لیکن ذیل میں ہم ان کی ایک ایسی نظم پیش کر رہے ہیں جس سے ان کے شعری کمالات کا ایک اور تحیرآمیز پہلو سامنے آتا ہے۔ ڈاکٹر احمر رفاعی اپنی کتاب ’’جگر مرادآبادی۔ فن اور شخصیت‘‘ میں لکھتے ہیں،’’جگرؔ صاحب ہر عام وخاص موضوع کو کمال ہنرمندی سے نبھانا جانتے تھے۔ اس بات کا اندازہ ۱۶ دسمبر ۱۹۶۰ء کو ’’مادرِوطن‘‘ نامی رسالے میں ’تکیہ‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی ان کی اس نظم سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے ’’تکیے‘‘ کے کار آمدی خصائص کو بیان کیا ہے:
تکیہ
عکس ِرُوئے نگا رہے تکیہ واہ کیا پُربہار ہے تکیہ
ہم سے پوچھو نہ دست صنعت کا طُرفہ اک شاہکار ہے تکیہ
روح پرور بھی، خواب آور بھی جیسے آغوشِ یار ہے تکیہ
جب اسے دیکھیے کسی کے لیے ہمہ تن انتظار ہے تکیہ
راحت ِجان ِہر امیر و فقیر رحمت ِکردگار ہے تکیہ
مذہب ملک و قوم سے آزاد کیا وسیع الشعار ہے تکیہ
اک جہاں کو پیام ِخواب مگر آپ شب زندہ دار ہے تکیہ
دردمندان ِشامِ فرقت کا مونس و غم گسار ہے تکیہ
شب کی بے تابیاں ہیں محو اس میں درد کا پردہ دار ہے تکیہ
داستانیں ہیں اس میں لاکھ دفن اک جہانِ مزار ہے تکیہ
راز جو چاہیے بیاں کیجے!! لائقِ اعتبار ہے تکیہ
شب کی تنہائیوں کے عالم میں مونسِ جانِ زار ہے تکیہ
اس کی توصیف سب بجا لیکن ! کاہلی کا شکار ہے تکیہ
اس کے مداح ہیں جگرؔ جیسے قابلِ افتخار ہے تکیہ
ماہنامہ ’’نقوش‘‘ کے شخصیات نمبر جلد دوم میں علی گڑھ کے فارغ التحصیل، اردو زبان کے عالم، شاعر اور ماہرانشاء پرداز مولوی محمد داؤد عباسی کا شخصی خاکہ قلم بند کرتے ہوئے محموداحمد عباسی بیان کرتے ہیں، زمانۂ طالب علمی میں مولوی دائود کے عزیزوں میں علی حسین عباسی نامی ایک انتہائی معمر بزرگ بھی شامل تھے۔ بزرگ دمے کے پرانے مریض تھے لہٰذا کھانسی،کھنکار اور بلغم و تھوک سے ہمہ وقت واسطہ رہتا تھا۔ ان کے انتقال کر جانے پر داؤد عباسی مغموم ہوئے اور ان کی وفات پر اپنی طرز کا انوکھا قطعہ تاریخ لکھا:
قطعۂ تاریخ ِرحلت
مرگئے ہیں بڑے میاں جب سے دل میں اٹھتی ہے ان کے غم سے ہوک
تھے بڑے نیک بخت اور دیںدار کرتے رہتے تھے سب سے نیک سلوک
جنتی ہونے میں نہیں ان کے دوست دشمن کسی کے دل میں شکوک
سب نے لکھی ہیں ان کی تاریخیں ہوگئی اک فقط مجھی سے چوک
اس لیے آج میں نے بھی اپنی شاعری کی گھڑی کو دی ہے کوک
جب سے یہ دھن ہوئی ہے بھول گیا کس کو کہتے ہیں پیاس کیا ہے بھوک
بولا ہاتف کہ ہو گئے بے گھر آج کھانسی، کھنکار، بلغم، تھوک
ہندوستان سے تعلق رکھنے والے رشید حسن خان کا نام تدوین و تنقید کی دنیا میں مستند حوالے کے طور پر جانا اور مانا جاتا ہے۔ انہوں نے اردوادب کی کئی کلاسیک اور اہم کتابوں کے معیاری متن ترتیب دیے جو کہ ان کا ایک بڑا ادبی کارنامہ ہے۔ ان کی حیات و خدمات پر کتابیں مرتب کرنے والوں کی نگاہوں سے ان کی شخصیت کا یہ پہلو پوشیدہ رہا کہ بطور رشیدؔ ؔشاہجہاںپوری وہ شعر گوئی کا بھی اعلٰی ذوق رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ دیگر ادبی مصروفیات کے باعث اپنی سخن وری کو خاطر خواہ توجہ نہ دے سکے اور اردو شاعری ان کے فیض سے محروم رہی، تاہم بطور یادگار ان کی کہی گئی اکلوتی نظم قارئین کی نذر کی جاتی ہے جو انہوں نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں لکھی اور وہ علی گڑھ میگزین میں شائع ہوئی:
تم مجھ کو بہت یاد آتے ہو
جب شام و سحر کی رعنائی عرفان کی طالب ہوتی ہے
جب نَظّاروں کی رنگینی نظارے کی جاذب ہوتی ہے
جب جلوہ فروشی فطرت کی نظروں کی محاسب ہوتی ہے
اے منظرِدل، مقصودِنظر، تم مجھ کو بہت یاد آتی ہو
جذبات کی محشرسامانی جب ہوش پہ غالب ہوتی ہے
جب دل کی اطاعت عقل کے مذہب میں بھی واجب ہوتی ہے
جب ہوش و جوانی کے ہاتھوں ہر بات مناسب ہوتی ہے
اے ہوش و خرد کے غارت گر، تم مجھ کو بہت یاد آتے ہو
جب فلسفیوں کی حدِنظر دنیائے کواکب ہوتی ہے
جب رات کی خاموشی دن کے ہنگاموں پہ غالب ہوتی ہے
جذباتِ پریشاں میں جس دم ترتیبِ مناسب ہوتی ہے
اے وجہِ سکون ِ قلب و جگر، تم مجھ کو بہت یاد آتے ہو
جب شاہدِ فطرت کی رغبت گویائی کی جانب ہوتی ہے
جب عقل بہ صد پیمانِ ارادت دل کی مصاحب ہوتی ہے
جب سازِنفس کی خاموشی مضراب کی طالب ہوتی ہے
اے جانِ تمنا رہ رہ کر، تم مجھ کو بہت یاد آتے ہو
جب فکرِسخن میں طبع رسا خلوت میں مراقب ہوتی ہے
جب فطرتِ شاعر ہستی کے جلووں سے مخاطب ہوتی ہے
جب شکرگزاری قدرت کی احساس پہ واجب ہوتی ہے
اسباب نہیں معلوم مگر، تم مجھ کو بہت یاد آتے ہو
The post نوادراتِ سخن (آخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.