ہرچند کہ ابتدائی تین اقساط میں راقم نے شعوری کوشش کی کہ روہیل کھنڈ اُردو لغت مؤلفہ رئیس ؔ رامپوری کے ذخیرۂ الفاظ نقل کرتے ہوئے ان کے معانی وجائے استعمال پر اپنی معلومات کے مطابق کچھ عرض کروں، مگر جابجا ایسے الفاظ وتراکیب بھی ملے جو اِس مختصر مگر اہم لغت میں شامل نہیں، حتیٰ کہ بعض تو بجائے خود ہمارے یہاں عمومی طور پر مستعمل ومشہور ہیں۔
اس حقیقت کے پیش نظر، بعض الفاظ وتراکیب علیٰحدہ سے شامل کیے ہیں، نیز لغت مذکور سے استفادہ کرتے ہوئے انھیں ہم آہنگ کیا ہے، خواہ ترتیب میں پچھلے مواد کی نسبت فرق واقع ہوگیا۔
اَٹریا: بالا خانہ، کوٹھا، چھت کے اوپر بنا ہوا کمرا، چھت کے اوپر کا مکان، بلند مکان، مثال: ’’فُلاں تو اَٹریا پر پتنگ اُڑا رہے تھے‘‘۔ محترم ذاکرعلی خاں کے سفرنامہ حج کا عنوان تھا: ’’میاں (یعنی اللہ) کی اَٹریاتلے‘‘ (مطبوعہ 2005ئ، ناشر: علی گڑھ مسلم اولڈبوائز ایسوسی ایشن،کراچی)۔ ان کی اس منفرد کتاب کا ایک اقتباس بطور تبرک پیش خدمت ہے:
’’میاں (یعنی اللہ میاں) تمھاری اَٹریا تو اَٹریا ہے، مگر اِس گیّالے (گھر کے آنگن کا کنواں یعنی یہاں چاہ زمزم: س ا ص) کا بھی جواب نہیں، جس سے ہزارہا سال سے لاتعداد پیاسے سیراب ہورہے ہیں‘‘۔ (ص 24)۔ {ضمنی مگر اپنی جگہ اہم نکتہ یہ ہے کہ خدائے بزرگ وبرتر کو اللہ میاں کہنا بھی اسی روہیل کھنڈی کی دین ہے۔ ہمارے استادگرامی، استاذالعلماء مفتی محمد اطہرنعیمی صاحب (دیگر علمائے اہل سنت کے مؤقف کے برعکس) ’میاں‘ کہنا جائز سمجھتے ہیں، مگر اعلیٰ حضرت احمد رضاخاں بریلوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے اسے بربِنائے احتیاط رَد کیا ہے: س ا ص}۔
اُونا: نوعمر، کم عمر خوبصورت لڑکا۔ اسے چمونا بھی کہتے ہیں۔
آخ خا: کسی کی آمد پر بہ یک وقت حیرت، خوشی اور استقبال کی ملی جُلی کیفیت کا اظہار۔ پرانے لوگوں کی تحریروتقریر میں یہ عام تھا، مگر آج شاید بہت سے لوگوں کے لیے نامانوس ہو۔ مشہور ٹیلیوژن ڈراما سیریل ’انکل عُرفی‘ کے مزاحیہ کردار ’’حسنا ت بھائی‘‘ (جمشید انصاری مرحوم) کا تکیہ کلام تھا، ’’اوخ خو‘‘ جو غالباً اسی کا بِگاڑ تھا۔ (اگر مرحوم ان سطور کی تحریر کے وقت زندہ ہوتے تو اُن سے براہ راست استفسار کرتا، ویسے یہ بات انھوں نے مجھے بھی بتائی اور کہیں انٹرویو میں بھی کہ حسنات بھائی کا مخصوص لب ولہجہ کراچی کی دہلی کالونی میں کچھ افراد کی بول چال سن کر اَپنایا تھا: س اص)۔
آنا کانی: عام لغوی معنی میں ٹال مٹول سے مراد ہے، لیکن رامپور میں اس کا مطلب ہے کسی بات کا انکار کرتے ہوئے درپردہ اقرار کرنا یا اُس کے لیے آمادہ ہونا، جیسے:
میری رئیس ؔ اِک بات پہ اُن کی
آنا کانی یاد آئی ہے
بِٹنا: رامپوری بولی میں ٹپکنے سے مراد ہے جیسے ’اُس کی ناک بِٹ رہی ہے‘۔
بَزَریا: بازار کی تانیث وتصغیر، جیسے رامپور کے ایک محلے کا نام ہے، ہمت خاں کی بزریا۔
بِلَل لا: چُلبُلا۔ بدایوں، بریلی، پِیلی بھِیت، شاہجہاں پور میں مستعمل۔ یہی لفظ جب پنجابی میں ’’وِلَل لا‘‘ بنتا ہے تو اس کے معنی بدل جاتے ہیں ;وہاں اس سے مراد نکمّا، بے پروا، احمق، کسی بھی کام کا اہل نہ ہونا لیا جاتا ہے، نیز اس کے لیے ’’جَجّا‘‘ بھی بولا جاتا ہے(س ا ص)
بھَٹّخ مارکر موکلا کھولنا:’’بھَٹّخ مارکر موکلا کھول دیا‘‘ یعنی گھونسہ مار کر دیوارمیں رَوزَن (چھوٹا) کھول دیا۔
بھَسِینڈے: بَیہہ کی سبزی
بھَنڈیلا: بھانڈ
پَینٹھ: کسی خاص دن (غالباً پیِر کو ) لگنے والا بازار۔ (جیسے ان دنوں ہمارے یہاں اتوار بازار، پیر بازار، منگل بازار، بدھ بازار، جمعرات بازار اور جمعہ بازار لگتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ المعروف دوشنبے میں پِیر کے دن لگاکرتا تھا اور اسی نسبت سے اس شہر کا یہ نام پڑگیا: س ا ص)
بَنّیت: رامپوری اردو میں اس سے مراد ہے، ’بننے ‘ والا یعنی بناوٹ یا تصنع دکھانے والا شخص۔
بھَکّر: رامپوری اردو میں گائے (بقر) کا گوشت۔
بھمبا قڑا/بھمبھاقڑا/بھمباخڑا/بھقّارا: یعنی بھمباکا بمعنی بڑا چھید یا آر پار سوراخ: رامپوری اردو میں۔
بَہوڑا: رامپور میں شادی کے موقع پر دلھن کو رخصت کرتے ہوئے اُس کے گھروالے جوکھانا ہمراہ بھیجتے ہیں، اُسے بہوڑا ۔یا۔ بہوڑے کا کھانا کہتے ہیں۔
بھُول بھُلکڑ: رامپوری میں عادتاً بھولنے والے کو کہتے ہیں۔
پَٹ کرنا: اُلٹا کردینا، نقصان پہنچانا، برباد کردینا۔ پٹ بمعنی کِواڑ اور آڑہے۔
پدّی: بہت چھوٹے سے پرندے پِدّے کی مادہ (رامپوری میں مادین)۔ (یہی غالباً پودنہ اور پودنی ہیں جن کی ایک حکایت ادبِ اطفال میں زمانہ قدیم سے چلی آتی ہے: س اص )۔ ہرچند کہ یہ بہت عام ہے، مگر انکشاف یہ ہے کہ ’’چہ پدّی، چہ پدّی کا شوربہ‘‘ یعنی آپ کیا اور آپ کی بِساط کیا (تحقیر اً کہتے ہیں) ، رامپوریوں کی ایجاد ہے۔
پَسَرنا: پھیلنا، دراز ہونا، لیٹنا، سستی کرنا اور بچوں کا ضد کرنا عام لغوی معانی میں پسرنا کہلاتا ہے، جبکہ رامپور میں ان معانی کے ساتھ ساتھ ہارمان لینا بھی مراد ہے۔
پکّی پیسی اور چھتّیسی: یعنی بہت تیزطرار، (بقول رئیس ؔ رامپوری ’ترار‘) بہ آسانی قابو میں (رامپوری کے لحاظ سے قبضے میں) نہ آنے والی عورت;یہ زنانہ بولی ہے۔ زنانہ بولی کی چند دیگر مثالیں: اُٹھَّل کو گُٹھّل، پلیتھن کو پلیسن،’چَوکا‘ (سِل بَٹّہ: ویسے عام لغات میں بمعنی دہانہ) جیسے ’چَوکا اُٹھا کے ماروں گی‘۔
پندھرواڑہ: پندرہ دن کا وقفہ۔ (یہ ہمارے یہاں کی زنانہ بولی میں عام رہا ہے: س اص)
پھَپَّس: بظاہرموٹا، فربہ مگردرحقیقت کھوکھلا یعنی کمزور، ناتواں شخص جیسے اُس میں ہوا بھری ہوئی ہو۔ (یہ بھی ہمارے یہاں کی زنانہ بولی میں عام ہے: س اص)۔ اس کا مترادف پھُسپھُسا ہے۔
تِری: رامپور میں تِری سے مراد چال بازی، دھوکہ، مکر ، فریب ہے اور اِسی سے ’’تِری بِری‘‘ یعنی جُدا جُدا، منتشر منتشر بھی بنا ہے۔
’’تشریف کا ٹوکرا‘‘: رامپور میں (اور باقی یوپی میں بھی: س اص)، طنزاً یا مذاقاً کہتے ہیں کہ اپنی تشریف کاٹوکرا اِدھر (اُدھر) رکھیے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ اس طرح گویا اُن کی آمد کو بڑی بات قرار دیا جاتا ہے۔
تَلَیّا: تالاب (یہ لفظ ہمارے یہاں یعنی یوپی کے دیگر علاقوں میں بھی عام ہے اور یہ تالاب کی تصغیر ہے۔ مشہور محاورہ ہے:’’اوچھی تلیّا میں اونچا اونچا پانی‘‘: س ا ص)
تمبَل: (اسم مذکر) عربی کے ’طبل‘ کا پشتو مترادف، پختونوں کا قومی ساز جو خصوصاً چاربیت گاتے ہوئے جوش وخروش سے بجایا جاتا ہے۔ خیراللغات (پشتواردو لغت) کے اندراج کے مطابق اس سے مراد ’طبلہ‘ ہے اور رامپور میں یہی مفہوم لیا جاتا ہے۔
تَمخیرا: تمباکو فروش ، تمباکو کا بیوپاری۔
تَمنیا: (اسم مؤنث): پاجامہ (یا چھوٹی شلوار)، خصوصاً بچوں کا۔ رامپور میں یہی مفہوم رائج۔
تَندر: اچانک آفت، مصیبت، جیسے ’’اُس غریب پر تو تَندر ٹوٹ گیا‘‘۔
تندی (اسم مؤنث): روہیل کھنڈ میں اس سے مراد ہے ، ’’کھوپڑی‘‘ ، جبکہ پشتو میں ماتھے کو ’’تندے‘‘ کہتے ہیں۔ (اُسی کا بگاڑ ہے: س اص)
تَن فَن: ایک دم بہت غصے کی کیفیت میں لڑنے کے لیے تیار ہوجانا، جیسے وہ تو بات سنتے ہی تن فن ہوگیا یعنی تن کر پھَن مارنے کو تیار ہوگیا۔ (اس سے معلوم ہوا کہ پشتو کا، مخلوطی آوازیں ادا نہ کرنے کا عمومی مسئلہ یہاں بھی برنگ ِدیگر کام کرگیا، پھے منھ سے نہیں نکلتا، اس لیے فے بنادیا: س ا ص)
تِنّی بِنّی: ایک دم غصے میں بھرجانا، جیسے ’’وہ اُس کی بات سنتے ہی تِنّی بِنّی ہوگیا‘‘۔ لغوی اعتبار سے ’تِنّی‘ کا مطلب ہے چاول کی ایک قسم، مگر بِنّی کے معنی مذکور نہیں یعنی یہ تابع مہمل ہے: س ا ص۔
تھَتّل: کسی رقیق چیز کا جم کر بظاہر ٹکڑے ٹکڑے معلوم ہونا، جیسے ’’وہاں خون کے تھتل کے تھتل پڑے ہیں۔‘‘
تھُڑوتھُڑو: بدنامی، رُسوائی (میرے خیال میں یہ تھُو تھُو ہی کی ایک شکل ہے: س ا ص)
تیر کرنا: حلق کے ذریعے نگلنا، یعنی کھالینا، گزر بسر کرنا۔ مثالیں:’’اُس نے ابھی چند لقمے ہی تیر کیے تھے کہ میں نے اُس کا ہاتھ روک دیا‘‘ اور ’’وہ تو بے حد کڑوی غذا بھی تیر کرگیا‘‘۔ اردولغات میں ’تیرکرنا‘ کے معانی چھُپانا، غائب کرنا اور اُڑا لینا درج ہیں۔
تیہا: غصہ، جوش، غضب، تیزی۔ لغات میں بھی درج ہے، جیسے ’’بڑا تیہا دکھارہا ہے‘‘۔
ٹاما: دھوکا۔
ٹپ ٹوئیاں: قیاس، اَٹکل، اندازہ کرنا، جیسے ’’وہ تو آج تک ٹپ ٹوئیاں مار رہا ہے۔ یہ درحقیقت ٹامک ٹوئیاں کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
ٹُنچ ٹُنچ بولنا: دخل دَرمعقولات اور باربار، مسلسل (یہ غالباً ’’پٹر پٹر ‘‘ ہی کی ایک مختلف شکل ہے: س ا ص)
ٹپّر: ( پشتو میں ٹاٹ)، رامپور میں متشدّد بولتے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی کا مال دبالے اور واپس دینے سے انکار کرے تب کہتے ہیں کہ ’’فُلاں نے تو ٹپّرا الٹ دیا۔ یا۔ لُوٹ لیا۔ دیگر استعمالات: ٹپّر لُوٹ گیا یعنی نقصان ہوگیا، ٹپّر لوٹ دیا یعنی فائدہ ہوگیا۔ عام لغات کے اندراج کے مطابق، پرانے چھپّر پر ڈالا جانے والا نیا چھپّر ٹپّر کہلاتا ہے اور یہ ہندی الاصل ہے۔
ٹِپّس: (ہندی: مؤنث) عام لغات میں اس سے مراد ہے، ہتھوڑا، وسیلہ، تھوڑا سا تعلق، نیز مضبوط قدم، اڈّہ، بنیاد وغیرہ جبکہ رامپور میں ٹپّس لڑانے سے مراد ہے اپنے مطلب کے حصول کے لیے کوئی ڈھنگ نکالنا جیسے ’’اس نے تو اپنی ٹپّس لڑائی اور اُس جماعت میں شامل ہونے میں کامیاب ہوگیا‘‘۔
ٹِپنا: دیکھنا، نظر آنا، جیسے ’’ارے اسے تو اچھا خاصا ٹِپ رہا ہے۔ (یہ ہمارے یہاں بھی بولا جاتا ہے، ٹِپائی دینا یعنی دکھائی دینا، جیسے تمھیں ٹِپائی نہیں دیتا کہ سامنے کون کھڑا ہے: س اص)
ٹِپَنّا: کاغذ کا پُرزہ، جیسے’’اُس نے تو ٹِپَنّا تھما دیا اور چلتا بنا‘‘۔
ٹُٹروں ٹُوں: اکیلا، تنہا، بے یارومددگار، جیسے ’’وہ تو اپنے گھرمیں ٹُٹروں ٹُوں بیٹھا ہوا تھا‘‘۔ (یہ اصل میں کبوتر کے لیے تھا کہ اکیلا بیٹھا ہوا آوازیں نکال کر گویا اپنا غم غلط کرتا ہے۔ ہمارے یہاں بھی بولا جاتا ہے، نیز اس کا ایک رُوپ یہ بھی ہے: ٹُٹروں ٹُرُوں: س اص)
ٹِٹکاری: ہلکی سی ڈانٹ، جیسے ’’وہ تو ایک ٹِٹکاری کا بھی نہیں‘‘۔ علاوہ اَزیں گھوڑے کو ہنکانے کے لیے بھی ٹِٹکاری دی جاتی ہے۔ (یہ لفظ یقیناً منفرد ہے، مگر مفہوم کے لحاظ سے ’’ہُش‘‘ یعنی چُپ کرانے کے لیے نکالی جانے والی آواز کے قریب معلوم ہوتا ہے یا جیسے ’’ہائیں‘‘ جو مصنوعی غصہ ظاہر کرنے کے لیے بولا جاتا ہے: س ا ص)
ٹَخّو: خوف یا حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں تب کہتے ہیں کہ ’’دِیدے ٹخ ہوکر رہ گئے‘‘۔یا۔’’بے چاری ٹخ دِیدہ رہ گئی‘‘۔ یہ پشتو کا ’’ٹغ‘‘ یعنی ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا ہے جسے زنانہ بولی میں ٹَخّو بنالیا گیا اور یہ عورتوں میں گالی کے طور پر بھی مستعمل ہے۔
ٹِخ ٹِخ: ٹِخ ٹِخ کرنا یعنی بکواس کرنا، زیادہ بولنا۔ عام لغوی معنی میں گھوڑے یا گدھے کو ہانکنے کی آواز۔
ٹَٹّر: متواتر، بغیر رُکے بات کرنے رہنا۔ یہ وہی ’’ٹر ٹر کرتے رہنا‘‘ ہے جو بقول مؤلف رئیس رامپوری، عید کے دوسرے دن کے لیے بولے جانے والے لفظ ’ٹر‘ ۔یا۔’ٹرو‘ کے طور پر بھی مستعمل ہے۔ (میرے والد گرامی مرحوم بھی روانی میں ٹر ٹر کی بجائے ٹَٹّر ہی کہا کرتے تھے: س ا ص)۔ نیزمینڈک کی آواز کا مخصوص نام، لچر اور پوچ بات
ٹُربہادر: چیلنج، کلمہ تحقیر۔ جب رامپور میں کوئی شخص بڑھ چڑھ کر بات کرے یعنی بڑے بول بولے، ہیکڑی کی بات کرے یعنی ہیکڑی دکھائے تو کہا جاتا ہے، ٹُربہادر، یعنی چیلنج دیتے ہیں کہ تجھ میں اتنا دم کہاں، ایسی ہمت کہاں کہ جو کہا کر دکھائے۔
ٹریانا: آڑی ترچھی چال والا، جیسے ’’فُلاں کی چال تو دیکھو، کیسا ٹریاتا ہوا جارہا ہے‘‘۔ اصل میں اس کا پس منظر یہ ہے کہ پَربند یعنی پر بندھے ہوئے کبوتر کی اُڑان کو ٹریانا کہا جاتا ہے جو ظاہر ہے کہ بے تُکی ہوتی ہے۔
جَنے: جانے، جیسے جَنے کیا کے رے آ ہے (جانے کیا کہہ رہا ہے): رامپور، بریلی، بدایوں میں مستعمل۔
چھیپئے: کپڑوں پر چھپائی کا کام کرنے والے۔
خَب صورتا (خوب صورتا: خوب صورت کی تحریف)
خفطی یعنی خبطی: بریلی میں بولاجاتا ہے، مگر خاکسار سہیل نے یہاں کراچی میں ایک قدیم بہاری گھرانے کے یہاں بھی سنا جو قیام پاکستا ن سے بھی مدتوں پہلے سندھ میں آکر آباد ہوا تھا۔
خِلَل لا: چھچھورا، ہر بات ہنسی میں اُڑانے والا۔
رے آہے: رَہا ہے۔
’کٹ گھر‘ یعنی کُوڑا گھر، بریلی میں ایک بدنام محلہ جہاں کے مکین بہت تیز طرار تھے۔
کلا اُڈّو: رامپور، مرادآباد وبریلی میں کلمہ تحقیر یعنی بے ہنگم آدمی، ہُوش۔
کَے: کتنے۔
گڑو‘ لنا: بچوں کا Walker، بریلی میں یہ لفظ ہے جبکہ (میرٹھ، ہاپڑ، اُلدھن، بلندشہر، گلاؤٹھی، لکھنؤ وغیرہ سے متعلق) ہمارے گھرانے میں میں گڈو‘لنا ہے۔
گھِرّی: دھاگے کی رِیل۔
گھُئیّاں: اَرویاں (اَروی سبزی)
گھیر: محلّہ (رامپوری)
لڑیت: لاڈ پیار۔
لیو اور دئیو: لو اور دو (رامپور، بریلی، بدایوں، پیلی بھیت، شاہجہاں پور میں مستعمل)
مِیانی: شلوار کی رُمالی (ہمارے گھرانے میں بھی مستعمل ہے: س اص)
یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ پشتو کے اثرات نہ صرف روہیل کھنڈی، رامپوری پر نمایاں ہیں، بلکہ پوربی میں بھی پشتو، فارسی، دری وغیرہ کے الفاظ، کسی نہ کسی صورت، ملتے ہیں۔
اس حیرت انگیز دریا جیسے موضوع کو خاکسار نے کُوزے میں سمونے کی کوشش کی ہے جس کا مقصد اس سے متعلق اہل ذوق اور اہل علم کی توجہ مبذول کرانا ہے۔
چار اقساط پر مبنی اس اہم مضمون کی بنیاد ’’روہیل کھنڈ اُردو لغت‘‘ مؤلفہ رئیس رامپوری کا نادر ہدیہ ہے جو مجھے ایک فیس بک دوست جناب ذیشان احمد (مقیم لاہور) کے توسط سے موصول ہوا، جس کے لیے بندہ صمیم قلب سے شکرگزار ہے۔
متعدد دیگر الفاظ وتراکیب ، بزرگ معاصر محترم شہاب الدین شہابؔ نے سُجھائے اور سمجھائے، جبکہ بعض کی نشان دہی خُردمعاصر، عزیزم نویدالظفر سہروردی نے کی اور واٹس ایپ حلقے ’بزم زباں فہمی‘ میں شامل ہمارے فاضل خُرد معاصرین نوید رضاخان اور حافظ عبدالرحمٰن واصف ؔنے بھی ایک مخصوص لفظ کی بابت ہماری معلومات میں اضافہ کیا۔ میں ان تمام حضرات کا ممنون ہوں۔ اختصار وجامعیت کے پیش نظر، لغت کے دیگر مندرجات کو آیندہ کے لیے اُٹھا رکھتا ہوں۔ بشرط ِ خیروعافیت اگلا موضوع اسی سے متصل ہوگا: اردو اور پشتو کے لِسانی روابط۔
The post زباں فہمی نمبر195؛ روہِیل کھنڈی/رام پوری اردو (حصہ چہارم ، آخری) (sunday magazine -08) sub head 7 appeared first on ایکسپریس اردو.