یہ ان پر دل کا دوسرا شدید دورہ تھا، ان کے ساتھ ایمبولینس میں اپنا جوان بیٹا ، بیٹی اور بیوی بھی بیٹھی ہوئی تھی جو سخت تکلیف اور کرب میں مبتلا اپنے خاندان کے واحد کفیل کے چہرے کو دیکھ رہے تھے۔
ان کی آنکھیں اشک بار تھیں جس قدر تیز رفتاری کے ساتھ ایمبولینس شہر کے مرکزی ہسپتال کی طرف دوڑتی چلی جا رہی تھی اس قدر مریض کے ساتھ بیٹھے افراد کے بس میں ہوتا تو ایمبولینس کو ہوا کے پر لگا کر پلک جھپکنے میں ہسپتال پہنچا دیتے، لیکن شہر کی مرکزی شاہراہ میں داخل ہوتے ہی ایمبولینس کے ڈرائیور نے حسب معمول سائرن کا بٹن آن رکھاتھا ، مگر اس کے باوجود اسے مجبوراً گاڑی روکنا پڑی کیونکہ لوگوں کا ایک جم غفیر سڑک پر دھرنا دیے ہوئے بیٹھا تھا ۔
اور ٹائر جلا کر شہر کی مین شاہراہ کو بند کر رکھا تھا ۔ سڑک پر گاڑیوں کی قطاریں لگ گئی تھیں ۔ معلوم ہوا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور اور بلنک کے خلاف لوگ اُمڈ آئے تھے اور احتجاجاً روڈ بلاک کر رکھا تھا ۔ گاڑی رش میں پھنس کر رہ گئی جسے نکالنے میں ڈرائیور کو بھی کافی وقت لگ گیا جونہی گاڑی متبادل راستے پر روانہ ہوئی پچاس سالہ صاحب گل نے زندگی کی آخری ہیچکی لی اور اس کے دل کی دھڑکنیں ہمیشہ کے لیے رُک گئیں ۔
یہ صرف ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران رونما ہونے والے حادثے کا ذکر ہے اس طرح کے کئی بے شمار مظاہروں، دھرنوں اور جلوسوں سے ملک میں کتنے مریضوں، طلباء وطالبات، ملازمت پیشہ افراد، بچوں،جوانوں، دیہاڑی اور مزدوری کرنے والے محنت کش لوگ اور خواتین کوکئی طرح کی تکالیف اور مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے ۔
اس کا اندازہ ہم مذکورہ واقعہ سے بخوبی لگا سکتے ہیں ۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ’’اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی؟‘‘ اس طرح ہمارے ملک اور معاشرے کی سیاست، جمہوریت، حکمرانی اور دیگر سماجی اور سرکاری اداروں کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں ۔
ہمارے اپنے پسندیدہ ظالم اور اپنے پسندیدہ مظلوم ہیں ۔ ہماری سیاست کے طریقے نرالے ، جمہوریت کے انداز مختلف اور طرز حکمرانی منفرد ہے ۔ جس طرح ملک کے سیاسی ، سماجی اور سرکاری اداروں کا طریقہ اور کردار مختلف رنگ اور شکل اختیار کرتا جا رہا ہے ، اسی طرح ہمارے لوگوں کا احتجاج ، مخالفت اور مذمت کرنے کے طور طریقے اور راستے بھی طرح طرح کی شکلیں اختیار کرتے جا رہے ہیں ۔
اب تو یہ ہماری سیاست کی ایک ’’پکی روایت‘‘بن چکی ہے کہ جس چیز کا رواج بڑھتا جاتا ہے اس کے ساتھ کلچر جیسے پہلودار لفظ کا لاحقہ لگا دیا جاتا ہے جیسا کہ ’’کلاشنکوف کلچر‘‘ اور’’موبائل کلچر‘‘ نے تو اب ہمارے ہاں باقاعدہ عام اصطلاحات کی شکل اختیار کی ہوئی ہے ۔
عام وخاص چھوٹوں بڑوں کے مُنہ سے ان اصطلاحات کا استعمال دیکھنے اور سننے میں آتا ہے اور اب ایک اور چیز نے باقاعدہ ایک رواج اور کلچر کا روپ دھار لیا ہے جس میں مظاہرہ، دھرنا، جلوس، ریلی، ہڑتال، پہیہ جام ہڑتال، قلم چھوڑ ہڑتال، بھوک ہڑتال، خودسوزی، ملین مارچ اور روڈ بلاک کرنا ایک معمول بن گیا ہے ۔ کوئی اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرتا ہے تو کوئی اپنی کمزوری بے بسی اور محکومی کا مظاہرہ احتجاج کی صورت میں کرتا ہے ۔
یہ رویہ دنیا کے ہر ملک اور معاشرے میں آج سے نہیں بلکہ ہزاروں سال سے اپنا وجود ثابت کر چکا ہے اور ان مظاہروں نے بڑے بڑے جاہ وجلال اور شان وشوکت رکھنے والے بادشاہوں اور حکمرانوں کو تخت سے تختہ تک پہنچایا ہے، ہزاروں لاکھوں مزدوروں اور اپنے حقوق کے طلب گاروں کو تلواروں، بندوقوں اور پستول کی گولیوں سے بھی چھلنی ہونا پڑا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ لوگ اپنے سیاسی، انتظامی اور بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے سیاسی جدوجہد یا مزاحمت اور احتجاج کا راستہ ترک کر کے ایک مخصوص مراعات یافتہ طبقہ اور حکومتی اداروں کو اپنی من مانی کرنے دیں لیکن بقول میرتقی میر کہ
’’عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیئے‘‘
پھر ایک ایسے ملک اور معاشرے میں جہاں ریاستی اور انتظامی اداروں میں کسی کو اپنی بات کھل کر بیان کرنے کے لیے اپنے مسائل اور مطالبات کے حق میں نمائندگی کا اختیار حاصل نہ ہو تو وہاں اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ لوگ سخت احتجاج اور مزاحمت کا راستہ اپنائیں لہذا جہاں بھی اجتماعی طور پر لوگوں کو اپنے کسی ریاستی سیاسی اور انتظامی ادارے کے نمائندوں اور کارکردگی سے شکایت بڑھ جاتی ہے تو ان کے پاس سوا ئے احتجاج کرنے کے کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہتا ۔
’’پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے‘‘
لہٰذا مجبوراً وہ لوگ مظاہروں، ہڑتالوں اور دھرنوں پر اتر آتے ہیں جو ہر کسی کا بنیادی انسانی اور جمہوری حق ہے اور جہاں لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہو ، کرپشن، لوٹ کھسوٹ، ظلم ناانصافی اور دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہو وہاں تو پھر
’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘
احتجاج کرنا کوئی عیب یا کوئی بری بات نہیں مگر اس کی اصل روح اور اجتماعی مقاصدکو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ مقاصد کیا ہیں؟جو سیاسی جماعت یا تنظیم اپنے نمائندوں اور کارکنوں کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر لاتی ہے اس سے اس کے اپنے سیاسی مفادات ترجیحات اور پس پردہ محرکات ہوتے ہیں، مظاہرہ کرنے کے اپنے اپنے طریقے اور راستے ہیں اور سب سے بڑھ کر مظاہرین کو اس بات کا شعور ہونا چاہیئے کہ وہ کون سے اہم بنیادی، سماجی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے مظاہرہ کر رہے ہیں ۔
اور اس مظاہرہ کا نتیجہ کیا نکلے گا ؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں میں سیاسی، سماجی اور جمہوری سوچ کتنی ہے؟ اور احتجاج کرنے سے عام لوگوں کی زندگی اور کاروبار پر پڑنے والے منفی اور مثبت اثرات کے بارے میں علم وآگاہی کتنے فیصد لوگوں کو ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ ملک کو فرنگی سامراج کے چنگل سے آزاد کروانے کے دور سے لے کر آج تک ہمارے لوگوں نے ظلم ، ناانصافی، طبقاتی نظام، رشوت، کرپشن، وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، اختیارات کے ناجائز استعمال کے علاوہ وقتاً فوقتاً رونما ہونے والے مختلف نوعیت کے قومی، مذہبی اور سیاسی واقعات کے بارے میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تقریباً پچھتر سالہ احتجاجی سیاست، اشتعال انگیزی اور مزاحمتی تحریکوں نے کتنے لوگوں کی تقدیر بدلی؟ آئے روز آپ کو کسی سڑک،چوک، سرکاری دفاتر،پریس کلبوں،صوبائی وقومی اسمبلیوں کے سامنے کوئی نہ کوئی احتجاجی مظاہرہ دیکھنے کو ملے گا ۔
پولیس کے خلاف، واپڈا کے خلاف،حکومت کے خلاف، امریکا کے خلاف، سرکاری اداروں اور افسروں کے خلاف لوگ جمع ہو کر ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھاکر بجائے اس کے کہ متعلقہ ادارے اور دفتر کے سامنے مظاہرہ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں ہر کسی نے آسان جگہ ڈھونڈ لی ہے اور وہ ہے پریس کلب تاکہ کل کے اخبارات اور ٹی وی چینلز میں ان کی تصویریں اور ویڈیوز بھی آئیں اور خبر بھی۔ یعنی مسئلے کے حل پر اپنی پروجیکشن کوزیادہ ترجیح دیتے ہیں ہونا تو یہ چاہیئے کہ جس ادارے کے کسی افسر اور کارکردگی کے خلاف مظاہرہ کیاجاتاہو لوگ وہاں جاکر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں لیکن اس کے خلاف دوچار بینرز اور پلے کارڈز اٹھا کرسڑک چوک اور بالخصوص پریس کلب کے سامنے نعرہ بازی اور مظاہرہ شروع کردیتے ہیں۔
کبھی سرکاری افسر کو برطرف کرنے کبھی اسے دوبارہ بحال کرنے ، حکومت کی جانب سے جاری منصوبوں پر کام بند کرنے اور کبھی اسے دوبارہ جاری رکھنے پر ۔ کبھی کسی گلی اور سڑک پر مین ہول کو بند کرنے یہاں تک کہ اب تو مسجد کے پیش امام کی تبدیلی اور برطرفی کے لیے بھی مظاہرے کیے جاتے ہیں ۔ حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے جبکہ حکومت مخالف جماعتیں اپنی قوت سڑکوں پر دکھاتی ہیں ۔
اس طرح سیاسی مظاہروں کے علاوہ ملک میں سماجی اور ذاتی نوعیت کے مظاہروں کا رواج بھی جڑ پکڑتا جا رہا ہے ۔ اور ہر کسی نے یہ سہل راستہ ڈھونڈ نکالا ہے کہ معمولی نوعیت کے مسئلے کے حل کے لیے چند بندوں کو تیار کر کے مظاہرے پر اکسا دیا جاتا ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں سڑک یا کوئی چوک بند کر کے سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو طرح طرح کی مشکلات اور تکالیف میں مبتلا کر دیا جاتا ہے ، سڑکوں اور چوراہوں پرکھڑے ہو کر مظاہرہ کرنے سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے لوگوں کو آنے جانے میں دقت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، راہ گیروں اور مسافروں میں مریض ، کمزور اور ادھیڑعمر کے لوگ بھی ہوتے ہیں کئی لوگوں کا ضروری کام ہوتا ہے، کئی لوگ اپنے دفاتر میں عوام کے ضروری کام نمٹانے کے لیے بروقت پہنچنا چاہتے ہیں ۔
کئی لوگوں کی عدالتوں میں نازک اور حساس نوعیت کے مقدمات زیرسماعت ہوتے ہیں جس کے لیے بروقت پہنچنا انتہائی ضروری ہوتا ہے لیکن راستہ میں کوئی مظاہرہ اور احتجاج کی وجہ سے پھر انہیں سخت جسمانی اور ذہنی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ خصوصاً خواتین اور سکول کالج کے طلبہ اور معصوم بچوں کو اس دوران جس خوف اور پریشانی سے گزرنا پڑتا ہے وہ ایک الگ تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے اس کے ردعمل میں بچے اور عام لوگ مظاہرہ کرنے والوں کو جو بددعائیں دیتے ہیں اس کا اثر تو ضرور ہو گا کیونکہ
’’دل سے جو آہ نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘
آج تک ہزاروں لاکھوں مظاہرے ہوئے دھرنے دیے گئے، ٹائر جلائے گئے، سڑکیں بند کی گئیں، جلوس نکالے گئے، بڑے بڑے احتجاجی جلسے منعقد کیے گئے، نعرہ بازیاں ہوئیں، توڑ پھوڑ اور اشتعال انگیزیاں ہوئیں مگر ان مظاہروں جلسوں، جلوسوں، ریلیوں اور دھرنوں سے عام آدمی کی زندگی اور اس کے کاروبار پرکتنا مثبت اثر پڑا اس سے ہمارے کتنے مسائل حل ہوئے اور کتنے مسائل اور مشکلات پیدا ہوئیں لوگوں میں سیاسی اور سماجی شعور کتنا بڑھ چکا ہے اور وہ کون کون سے سرکاری ادارے ہیں جنہوں نے ان مظاہروں کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہو ؟ کاش کہ ان سوالات پر ہم سوچیں اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے جن راستوں اور طریقوں کی ضرورت ہے انہیں اپنائیں ۔
دوسروں کے دکھ درد کو سمجھیں زیادہ تر احتجاجی مظاہروں میں پرجوش مظاہرین قومی سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں ۔ یہ نہیں سوچتے کہ یہ نقصان ہم کس کا کر رہے ہیں اور اس کا خمیازہ پھر کون بھگتے گا؟ اس پر رقم کسی سرکاری آفسر یا وزیر کی جیب سے تو نہیں لگے گی وہ بھی ہمارے قومی خزانے سے خرچ ہو گی جو ہمارے ہی خون پسینے کی کمائی یعنی مختلف ٹیکسز ہی کے پیسے ہوتے ہیں ۔
The post احتجاجی مظاہرے، ہڑتالیں appeared first on ایکسپریس اردو.