جب پاکستان بن رہا تھا
مصنف : منیر احمد منیر، قیمت:700 روپے، صفحات:164
ناشر: آتش فشاں، 78 ستلج بلاک، علامہ اقبال ٹائون، لاہور (0333-4332920)
قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے یونیورسٹی گرائونڈ لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’ کرہ ارض پر کوئی قوت ایسی نہیں جو پاکستان کو ختم کر سکے، یہ قائم رہنے کے لئے بنا ہے۔‘‘ بابائے قوم نے یہ خطاب اکتوبر 1947 میں کیا تھا اور ان کی یہ بات وقت نے ثابت کر دی ۔
قائد اعظم کو یہ کیوں کہنا پڑا کہ پاکستان رہنے کے لئے بنا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے بنانے میں جتنی مشکلات پیش آئیں ، بننے کے بعد اس سے بھی بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ۔ سب سے بڑا مسئلہ تو لٹے پٹے مہاجرین کی آبادکاری کا تھا ۔ مہاجرین کے ساتھ کیا بیتی یہی داستان دل فگار یہ کتاب سناتی ہے ۔
دہلی سے امرتسر تک مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ۔ زیر تبصرہ کتاب میں چشم دید حوالوں سے رونگٹے گھڑے کر دینے والی اس تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ معصوم بچوں کو نیزوں پر اچھالا گیا ۔ کیتھل کے نوجوان یعقوب کی ناک کرپان سے چھید کر اس میں نکیل ڈالی گئی ۔ بے آبروئی سے بچنے کے لیے مسلمان لڑکیوں نے کنوئوں میں کود کر جانیں دے دیں جو بلوائیوں کے ہتھے چڑھ گئیں ان کے برہنہ جلوس نکالے گئے ۔
ایک مقام پر نوجوان برہنہ مسلمان لڑکیاں زمین میں گاڑ دی گئیں ۔ ان کی گردنیں لٹکی ہوئی تھیں، کتے اور گدھ ان کے جسموں سے گوشت نوچ رہے تھے۔ ایک جگہ مردہ عورتوں کے ننگے جسم مکانوں کے چھجوں سے لٹکا دیے گئے ۔
پستان ان کے کٹے ہوئے۔ شرم گاہوں میں سنگین چبھوئی ہوئی ۔ مسلمان اپنی عورتوں کو سکھوں کی گولیوں کی بوچھاڑ کے آگے کر دیتے وہ خوشی خوشی شہید ہو جاتیں ، اس خیال سے کہ بے آبرو ہونے سے موت بہتر ۔ سکھ مسلمانوں کی لاشوں پر ڈانس کرتے اور کہتے: یہ ہے تمھارا پاکستان ۔ معصوم بچوں کو نیزوں پر اچھالا گیا ۔ ضلع انبالہ کے کورالی مہاجر کیمپ میں فاقہ کشی کا شکار کر کے اور ذہنی و جسمانی اذیتیں دے دے کر چھ ہزار مسلمانوں کو سکھ مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا ۔
اس کے برعکس جب پاکستانی پنجاب کے ضلع لائل پور میں پانچ ہزار سکھوں نے مسلمان ہونے کی خواہش ظاہر کی تو پنجاب گورنمنٹ نے اس کی اجازت نہ دی کہ اسلام ایسی تبدیلی مذہب کے حق میں نہیں ۔ دوسری طرف سردار پٹیل ہندو فرقہ پرستوں کی پیٹھ ٹھونکتا رہا ۔ قائد اعظم لاہور کے والٹن کیمپ گئے۔ ایک خاتون سامنے آ گئی ۔ تین سالہ بچہ اس کے بازووں میں ۔ اس کے دونوں ہاتھ کٹے ہوئے ۔ قائد اعظم نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں، کہیں آنسو نہ ٹپک پڑیں ۔ واپس آگئے ۔ اس قدر اثر لیا کہ گورنر ہائوس میں گاڑی میں سے قدم باہر رکھتے ہی دھڑام سے گر گئے ، پھر سٹریچر پر ڈال کے انھیں اوپر لے جایا گیا ۔
کتاب میں پندرہ شخصیات کے تاثرات قلم بند کئے گئے ہیں آخر میں نوابزادہ لیاقت علی خان پر ایک مضمون اور ان کی تقریر شامل کی گئی ہے ۔ پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے انتہائی شاندار کتاب ہے ۔ منیر احمد منیر صاحب کی پاکستان کے حوالے سے تحریریں ہمیشہ ہی شاندار رہی ہیں ، ان کی اس خدمت کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ مجلد کتاب کو موزوں عکس کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
تضحیک اللغات
مصنف: زاہد مسعود، قیمت:400 روپے، صفحات:136
ناشر: بک ہوم ،46 مزنگ روڈ، لاہور (03014568820)
مزاح نگاری بہت مشکل فن ہے بالخصوص اردو ادب میں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دکھوں کی ماری اس قوم کو ہنسانا جوئے شیر لانے کے برابر ہے ۔ جو لکھاری اس نیک کام میں لگے ہوئے ہیں ان کا دل دوسروں سے بہت بڑا ہے کیونکہ وہ خود بھی مسائل اور دکھوں کا شکار ہیں مگر پھر بھی خوشیاں بانٹ رہے ہیں جو بہت بڑی نیکی ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب مزاح نگاری میں بالکل جدا مقام رکھتی ہے کیونکہ مصنف نے مزاح کرتے ہوئے بھی حروف تہجی کی ترتیب بنائی ہے یعنی پہلا موضوع الف سے شروع ہوتا ہے اور آخری ی پر ختم ہوتا ہے ۔ ممتاز ادیب عطاء الحق قاسمی کہتے ہیں ’’زاہد مسعود مزاح گو ہی نہیں مزاح نگار بھی ہے۔
خدا کا شکر ہے اس نے اپنا یہ ہنر قہقہوں میں نہیں اڑایا بلکہ اس کے دوام کا اہتمام بھی کیا ہے۔ زاہد مسعود اخبار میں کالم بھی لکھتا تھا میں نہیں جانتا کہ اس نے اپنے کالم میں یہ ہنر آزمایا ہے یا نہیں کیونکہ وہ اخبار مجھے ( مفت ) نہیں ملتا تھا ۔
البتہ اس کی کتاب ’تضحیک اللغات‘ کے چند صفحات میری نظر سے گزرے ہیں ۔ وہ پڑھتے ہوئے تین وجوہ کی بنا پر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے ۔ ایک تو یہ کہ موضوع نیا تھا ۔ دوسرا اس میں طنزو مزاح کی بھرپور چاشنی تھی اور تیسرے یوں کہ ہمارا مزاحیہ ادب آہستہ آہستہ بیوہ یا رنڈوا ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ ہمارے بڑے مزاح نگار ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے ہیں یا وہ مزید نہیں لکھ رہے ہیں ۔
ان کی جگہ چند نوجوان لے رہے ہیں ان میں ایک خوبصورت اضافہ زاہد مسعود بھی ہے۔‘‘ ڈاکٹر امرینہ خان کہتی ہیں ’’ زاہد مسعود نے تلخ عصری حقائق کے علاوہ اقدار کی پائمالی اور ایسے انحطاط پذیر رویوں کو موضوع بنایا ہے جنہوں نے سماج کو اخلاقی سطح پر زد پہنچائی ہے ۔
یوں زاہد مسعود نے ’ تضحیک اللغات‘ کے ذریعے ایک بار پھر معیاری مزاح نگاری کا پرچم بلند کیا ہے ۔ زاہد مسعود کے اسلوب میں محض ’’ تفریح‘‘ نہیں ایک خاص مقصدیت ہے جس کی پرتیں اس کتاب کے مطالعے سے ہی کھل سکتی ہیں ۔‘‘بہت دلچسپ اور پر لطف کتاب ہے ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو مصنف کے تصویری خاکے کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
’’الصلوۃ والسلام علی رسول اللہ ‘‘
رسول اللہﷺ کے ساتھ محبت کاایک حق اور تقاضہ یہ بھی ہے کہ آپﷺ پر درودوسلام پڑھا جائے۔ نبیﷺ پر درود وسلام بھیجنا ایک بہت عظیم عمل ہے ۔
اس کی عظمت اور تقدس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ خالق کائنات اور اس کے فرشتے بھی نبیﷺ پر درود بھیجتے ہیں اور اللہ اپنے نبی کے امتیوں سے بھی کہتا ہے کہ اے ایمان والو تم بھی درود و سلام بھیجا کرو ۔ دارالسلام انٹر نیشنل کی شائع کردہ پیش نظر کتاب ’’ الصلوۃ والسلام علی رسول اللہ ‘‘۔۔۔ کے نام سے واضح ہے کہ اس میں نبی رحمتﷺ پر درودوسلام اور اس سے متعلقہ فضائل بیان کئے گئے ہیں ۔
یہ گرانقدر کتاب شیخ الاسلام شمس الدین ابوعبداللہ ابن قیم الجوزیہ کی عربی تالیف ’’جلاء الافھہام فی الصلاۃ والسلام علی خیرالانام ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ شیخ الاسلام ابن قیم کے تعارف میں اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ وہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کے شاگرد خاص ہیں ۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری مرحوم نے کیا ہے ۔
قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ سیشن جج ریاست پٹیالہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ قاضی سلیمان صرف جج ہی نہیں بلکہ خصائل حمیدہ کا مجموعہ تھے ۔ آپ کی شہرہ آفاق کتاب’’ رحمۃ للعالمین ‘‘ ہے جس نے آپ کوہمیشہ کے لئے زندہ وجاوید کر دیا ہے۔ قاضی سلیمان مرحوم کے سلیس ، شستہ ترجمہ نے کتاب کو چار چاند لگا دیے ہیں اور اس کی علمی افادیت میں اضافہ کر دیا ہے۔
’’ الصلوۃ والسلام علی رسول اللہ ‘‘ اپنے موضوع پر بامقصد ، منفرد ، خوبصورت ، دلکش اور جامع کتاب ہے ۔ یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلے باب میں ایسی بیالیس احادیث درج ہیں جن میں رسولﷺ پر درود شریف بھیجنے کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ۔
دوسرے باب میں فضائل درود کی مزید احادیث بیان کی گئی ہیں ۔ تیسرے باب میں درود شریف کی تشریح ، درود شریف کے معنی ، درود شریف کی قسمیں ، صلوٰۃ اور رحمت میں فرق ، وجہ تسمیہ محمدﷺ ، اخلاق وعادات نبوی ، نبیﷺ کی تعظیم ، اسم محمد واحمدﷺ میں فرق، تورات اور انجیل میں اسم مبارک کا ذکر ، ازواج مطہرات کا ذکر ، ذریت کا معنی ومفہوم ، قرآن مجید میں بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل کا ذکر ، حمید و مجید پر درود شریف کے اختتام کا بیان ہے۔
چوتھے باب میں درود خوانی کے مقام ومحل کا بیان ہے۔ پانچویں باب میں درود شریف کے فوائد وثمرات اور فضائل بیان کئے گئے ہیں ۔ چھٹے باب میں بھی درود وسلام کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے موضوع پر یہ گراں قدر کتاب نہایت ہی منفرداور لاجواب ہے کہ آج تک کسی نے اس انداز میں فضائل درود کے بارے میں نہیں لکھا ۔ اس کتاب میں وہ حدیثیں جمع کر دی گئی ہیں جو حضور اکرمﷺ پر صلوٰۃ و سلام کے سلسلے میں بیان کی گئی ہیں ۔
علاوہ ازیں درود شریف کے اسرار ‘ اس کے فضل و شرف اور جن حکتموں اور فوائد پر یہ مشتمل ہے ، ان کی وضاحت کی گئی ہے اور ان مقامات کا ذکر کیا گیا ہے جہاں جہاں درود پڑھنا مسنون و مستحب ہے ۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ نبی اکرمﷺ پر درود وسلام بھیجنا اللہ تعالی کا حکم ہے ۔ درود شریف کا اہتمام رسول اللہ ﷺ سے محبت او ر والہانہ تعلق و وابستگی کا ذریعہ بھی ہے اور درود شریف پڑھنا رسولﷺ کے ساتھ محبت کی علامت اور دلیل بھی ہے۔
کتاب کی خوبیاں بیان سے بالا ہیں ۔ ان خوبیوں کا اندازہ کتاب پڑھنے والا ہی کر سکتا ہے ۔ یہ کتاب ہر گھرکی ضرورت ہے۔ دینی کتابوں کی اشاعت کے عالمی ادارہ ’’ دارالسلام انٹرنیشنل ‘‘ نے یہ کتاب نہایت دیدہ زیب سرورق اور خوبصورت پیپر پر شائع کی ہے ۔
کتاب کی قیمت 850 روپے ہے۔ یہ گرانقدرکتاب دارالسلام کے مرکزی شوروم لوئرمال نزد سیکرٹریٹ سٹاپ سے طلب کی جا سکتی ہے ۔ یاکتاب براہ راست منگوانے کے لئے درج ذیل فون نمبر 042-37324034 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے وزراء
نام مصنف : عبدالعزیز الشناوی
ناشر : دارالسلام انٹرنیشنل، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ ، لوئرمال لاہور
صفحات : 183، قیمت : 1960روپے ، برائے رابطہ : 042-37324034
نام تو ہمارے ملک کا پاکستان ہے لیکن ہمارا پیارا وطن ۔۔۔ مسائلستان بن چکا ہے وجہ یہ کہ اول تو ہمیں کوئی اچھا حکمران نہیں ملتا اور اگر کوئی اچھا حکمران مل جائے تو اسے وزیر اور مشیر اچھے نہیں ملتے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ ہمارا ملک مسلسل مسائل ومصائب کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے اور اصلاح احوال کی امید نظر نہیں آرہی ہے ۔
اسی ضرورت کے پیش نظر دینی کتابوں کی اشاعت کے عالمی ادارہ نے زیر تبصرہ کتاب ’’ The Ministers Around The Prophet ‘‘ شائع کی ہے ۔ یہ کتاب جس طرح اپنے نام کے اعتبار سے منفرد ہے اسی طرح یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے بھی لاجواب ہے ۔ اس کتاب کو عرب مصنف عبدالعزیز الشنّاوی نے مرتب کیا ہے جبکہ عبدالاحد (علیگ) نے اسے ایڈیٹ کیا ہے۔ جیسا کہ نام سے واضح ہے کہ یہ اپنے موضوع پر ایک منفرد اور لاجواب کتاب ہے ۔
یوں تو رسول ﷺ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے حالات مع اسانید کتب میں محفوظ وموجود ہیں ۔ تاہم اس کتاب میں رسول مقبولﷺ کے ان خوش قسمت گیارہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے احوال رقم کیے گئے ہیں جنھوں نے مختلف اوقات میں نبی کریمﷺ کے وزراء کی حیثیت سے فرائض انجام دیے ہیں ۔
ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں : سیدنا ابوبکر صدیقؓ ، سیدنا عمر بن الخطابؓ ، سیدنا علیؓ بن ابی طالب ، سیدنا حمزہؓ بن عبدالمطلب ، سیدنا ابوذر غفاریؓ ، سیدنا عبداللہؓ بن مسعود ، سیدنا مقدادؓ بن عمرو ، سیدنا حذیفہؓ بن الیمان، سیدنا عمارؓ بن یاسر، سیدنا بلال ؓ بن رباح ، سیدنا عبداللہؓ بن مسعود ، سیدنا حمزہؓ ابن عبدالمطلب ، سیدنا جعفرؓ بن ابی طالب رضی اللہ عنہم اجمعین جیسے کبائر صحابہ کرام کے نام شامل ہیں ۔
سیدنا مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ مقداد بن اسود کے نام سے زیادہ معروف ہیں کیونکہ وہ اسود بن عبد یغوث زْہری کے متبنٰی تھے جبکہ ان کا نسبی تعلق قبیلہ قضاعہ سے تھا ۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کے لشکر میں صرف دو گھوڑے تھے، ایک مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ کا اور دوسرا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا ۔ کفار کے مقابل آنے سے پہلے نبیﷺ نے مشاورت کی تو مقداد رضی اللہ عنہ نے اپنے جذبہ جہاد کا یوں اظہار کیا: ’’اے اللہ کے رسول! آپ اللہ کی رہنمائی کے مطابق آگے بڑھیں ، ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔
آپ کے دائیں بائیں، آگے پیچھے لڑیں گے ۔‘‘ مقداد بن عمرورضی اللہ عنہ کو نبی کریمﷺ نے ایک علاقے کا امیر بھی بنایا تھا ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قبیلہ ہذیل سے سابقون الاولون میں سے تھے ۔ یہ وہی ہیں جنھوں نے میدانِ بدر میں زخمی ابوجہل کا سر قلم کیا ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو قرآن مجید پر اس قدر عبور تھا کہ نبیﷺ نے فرمایا : جو کوئی قرآن مجید کو تازہ بتازہ سْننا چاہے جیسے کہ وہ نازل ہوا ، وہ ابنِ مسعود سے سن لے ۔‘‘ عمِ رسول سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو آپﷺ نے پہلے سریّہ ’’العیص‘‘ کا کمانڈر مقرر فرمایا تھا ۔
غزوہ بدر میں سردار قریش عتبہ بن ربیعہ انھی کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا ۔ معرکہ احد میں حمزہ رضی اللہ عنہا کافروں کو واصل جہنم کرتے جا رہے تھے کہ جبیر بن مطعم کے غلام وحشی نے، جو گھات لگائے ہوئے تھا، انھیں تاک کر نیزہ مارا جس سے حمزہ رضی اللہ عنہ شہادت پا گئے اور سید الشہداء کہلائے ۔
خلفائے راشدین میں سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ، سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا علی رضی اللہ عنھم کے احوال حیاتِ صحابہ کے اس گلدستے میں شامل کیے گئے ہیں ۔
ان کے علاوہ غِفار قبیلے کے جندب بن جنادہ کا تذکرہ ہے جو ابوذر غِفاری رضی اللہ عنہ کے نام سے معروف ہیں ۔ وہ اصحابِ صفہ میں سے تھے اور علم کے لحاظ سے عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے ہم پلہ تھے ۔ سیدنا حذیفہ بن یمان عبسی رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے جو اپنے والد کے حِسل کے ساتھ یمن میں سیدنا جعفر بن ابی طالب کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے ۔
وہ نبیﷺ کے راز دار تھے ۔ یہ سب وہ اصحابِ رسول ہیں جنھیں رسول اللہﷺ مختلف ذمہ داریاں سونپتے رہے ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نبیﷺ نے 9ھ میں امیرِ حج مقرر کیا ۔ ابوبکر، عمر اور علی رضی اللہ عنھم کو آپ نے مختلف سرایا (جنگی مہمات) کی قیادت سونپی ۔ بلال بن رِباح رضی اللہ عنہ موذن رسول تھے ، انھیں آپﷺ مختلف ذمہ داریاں تفویض کرتے رہے ۔
سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کو غزوہ موتہ میں لشکر کی قیادت کا فریضہ سونپا ۔ زیرِ نظر کتاب ان مقدس ہستیوں کے احوال و واقعات اختصار کے ساتھ بیان کرتی ہے ۔ انگریزی خواں حضرات، خصوصاً طلبہ و طالبات ان کی سیرت سے خوب استفادہ کر سکتے ہیں ۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.