انسان اور غارکا رشتہ لاکھوں برس پرانا ہے، کہ ابتدائی انسان کی اولین پناہ گاہ اور ٹھکانہ غار ہی ہوا کرتا تھا جو نہ صرف ایک خوب صورت کہانی ہے بلکہ غار اپنے اندر ایک طویل انسانی تاریخ بھی رکھتی ہے ۔
انسان نے غار ہی میں افزائش نسل کے راز سیکھے، اپنے احساسات اورجذبات کے اظہارکے لئے مختلف پیرائے دیئے۔ تصویری زبان سے تحریری زبان تک آئے ، شاعری ، مصوری اور نقش گری سیکھی ۔ مجموعی طور پر تاریخ بھی انسان کی اپنے تحفظ ذات کی ایک طویل کہانی ہے ۔
ایک زمانہ ایسا بھی گزر چکا ہے جب انسان کے پاس اٹھنے بیٹھنے اور سونے کے لئے گھاس، درختوں کے پتے اور جنگلی جانوروں کی کھالوں کے سوا اور کوئی سامان اور بندوبست موجود نہیں تھا ۔ وہ جہاں بھی سوتا اس کا بسترگھاس، درختوں کے پتے اور شکارکیے گیے جنگلی جانوروں کی کھال ہوا کرتی تھی ۔
جسے وہ زمین پر بچھا کر اپنے لئے سونے اور اٹھنے بیٹھنے کے لیے استعمال کرتا تھا، خصوصاّ جنگلی جانوروں کی ان کھالوں میں کچھ کھالیں خوب صورت قسم کے جانوروں کی تھیں جن کی خوب صورتی اور حسن غار کے انسان کو بہت پسند آیا اور جب اس نے پتھرکے بعد لکڑی سے آلات و اوزار بنانے کا راز سیکھا تو اس راز نے اسے گھاس سے لکڑی تک کے سفر میں سونے کے لئے چارپائی کا ہنر بھی دیا ۔
مختصراّ جب سے روئے زمین پر انسان کا ظہور ہوا ہے دوسری بے شمار مادی اور روحانی ضروریات کے باوجود انسان نے اپنے لئے ایک اچھی خوب صورت رہائش گاہ اور اس رہائش گاہ میں حسن اور جاہ وجلال پیدا کرنے کے لیے اپنے ذوق جمال کی تسکین کی خاطر آرائش و زیبائش کو تاریخ کے ہر دور میں بڑی اہمیت دی ہے ۔
جہاں تک قالین بافی اور قالین کلچر کے تاریخی پس منظرکا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ہم وثوق کے ساتھ توکچھ نہیں کہہ سکتے لیکن قیاس غالب یہ ہے کہ فن قالین بافی اور قالین کلچر کو متعارف کروانے کا اولین سہرا اگر ایک جانب مصر ، شام اور عراق کے قدیم بادشاہوں اور ہنرمندوں کے سر ہے تو دوسری جانب اسے باقاعدہ بطور پیشہ اپنانے اور اسے یہاں تک لانے کا اعزاز وسطی ایشیاء ، ایران اور ترکی سے آئے ہوئے منگولوں کو بھی حاصل ہے ۔
ان لوگوں نے جس طرح اپنے ساتھ فن تعمیرکی ایک نئی سوچ اور ایک نیا انداز اپنایا اس طرح قالین بافی اور قالین کلچرکو رواج دینے میں بھی انہی لوگوں کا بہت بڑا ہاتھ رہا اور مغلیہ دور حکم رانی میں یہاں پر قالین بافی کا رواج بڑھتا گیا۔ اگرچہ اس وقت قالین کلچر صرف حکم رانوں ، وزیروں اور بڑے بڑے سرداروں کے گھروں اور محلوں تک محدود تھا کیوں کہ جو قوم یا جو طبقہ غالب ہوتا ہے تو اس کی زبان اورکلچر بھی مغلوب اور مظلوم طبقہ پرحکم رانی کرتا ہے ۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا فن قالین سازی اور قالین کا استعمال یہاں کے مقامی کلچر کا ایک حصہ بنتا گیا، اس ضمن میں مختصراّ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں قالین بافی کو بطور فن ، فیشن اور بطور مقامی صنعت کی حیثیت دینے میں مغلوں اور ایرانیوں کا بہت بڑاکردار رہا ہے ۔
قالین بافی کے حوالے سے ماضی کی تاریخ کو چھوڑ کر جب ہم حال کی طرف آتے ہیں تو آج بھی ہمارے ہاں اس فن اور صنعت کو عام کرنے میں افغانستان اور ایران کے لوگوں کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔ آج سے کئی سال پہلے یہاں قالین بافی عام تھی اور ہاتھ ،کھڈی کے ذریعے مختلف قسم کے قالین بنائے جاتے تھے اورجب اس نے باقاعدہ ایک فیشن ، رواج اورکسی حدت تک ایک ضرورت کی شکل اختیارکر لی تو پھر اس کے لیے یہاں چھوٹے، چھوٹے کارخانے بھی بنائے گئے ۔
لیکن جس وقت افغانستان سے جنگ کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندے ہجرت کر کے پاکستان کے مختلف شہروں میں پناہ گزین ہو گئے تو یہ لوگ اپنے ساتھ دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ فن قالین سازی کا ایک نیا رجحان اور اس فن پر مکمل عبور رکھنے والے ہنرمند بھی لے آئے ۔
جنہوں نے یہاں اسے باقاعدہ ایک گھریلو صنعت کی شکل دے دی اور ا فغانستان سے بے سروسامانی اورغربت کی وجہ سے افغان قالین بنانے والوں نے کم قیمت پر قالین فروشی شروع کر دی ۔ پشاور شہر کے علاوہ ملک کے دیگر بڑے شہروں کے بازاروں میں کندھے پرقالین بیچنے والے افغان آج بھی آپ کو نظرآسکتے ہیں ۔
اس دوران ایران سے بھی قالین پشاور پہنچنے لگے کیوںکہ افغانستان میں امن نہیں تھا اور تجارت کے کچھ خاص قوانین بھی نہیں تھے اس لئے اس کاروبار نے یہاں قدم جمانا شروع کر دیئے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پشاور سے یہ کاروبار پورے پاکستان میں پھیلنے لگا اور بالٓاخر کوئٹہ اور پشاور قالینوں کے کاروبارکے معاملہ میں ایک دوسرے سے منسلک ہو گئے۔
لیکن پشاور سے زیادہ تر قالین پنجاب کی مارکیٹ تک پہنچے جبکہ سندھ اورکراچی میں جہاں کوئٹہ سے قالین پہنچائے گئے وہاں زیادہ تر قالین پشاور سے ہی لے جائے گئے ۔ ماضی میں برسراقتدار آنے والے طالبان کے دور میں تو افغانستان میں قالین کی صنعت مکمل طور پر بند ہو گئی تھی اور اس طرح افغانستان سے قالین سازی کی رہی سہی صنعت بھی پاکستان اور بالخصوص پشاور منقل کر دی گئی ۔
افغانستان سے باقاعدہ قالین سازی کی مشینیں پشاورمنتقل ہوئیں اور پشاور قالین کے کاروبار کے حوالے سے اہمیت اختیارکرنے لگا ۔ گیارہ ستمبرکے بعد پیش آنے والے حالات نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، کچھ عرصہ تک قالین سازی کی صنعت بھی متاثر ہوئی لیکن جوں جوں افغانستان میں امن قائم ہونے لگا اور وہاں ازسرنو مارکیٹ جمنے لگی تو ایسے میں قالین سازی نے ایک بار پھر وہاں کا رخ کر لیا ۔
چوں کہ اس بار افغانستان میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے گاہکوں کی اکثریت بھی مارکیٹ میں دستیاب ہونے لگی تھی جو قالین کے اچھے خاصے دام ادا کرنے کے لیے راضی تھے اس لئے قالین کے کاروبار نے وہاں قلیل مدت میں قدم جمائے اس طرح قالین بافوں کی اچھی خاصی تعداد بھی افغانستان واپس لوٹ چکی تھی ۔ قالین بافی کا ہنر پاکستان میں مقامی سطح پر بلوچستان میں پایا جاتا ہے ۔ لیکن بلوچستان کے قالین ایرانی قالینوں کے مقابلے میں اتنے معیاری نہیں ہوتے ۔
اس لئے اب بھی مارکیٹ میں ایرانی اور افغانی قالینوں کے کاروبارکو مرکزی حیثیت حاصل ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہاں قالینوں کی صفائی کے لیے جوکارخانے برسوں سے قائم ہیں اور ان کے مالکان نے یہاں لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے ۔
2014ء میں پشاور کی ضلعی حکومت یہ ارادہ ظاہرکر چکی تھی کہ ان کارخانوں کو شہر کی حدود سے باہر نکالنا چاہیئے یعنی سردرد کا علاج یہ بتایا جاتا کہ تشخیص کرنے سے پہلے سرکو تن سے کاٹ دیا جائے اور جب صورت حال یہ ہو تو یہاں قالین کی صنعت کی ترقی کا خواب کس طرح شرمندہ تعبیر ہو سکتا تھا؟
شہر کے ایک قالین فروش حاجی انورنے بتایاکہ پشاور اس وقت قالین فروشی کا بہت بڑامرکز ہے افغانستان میں مسلسل انتشار کی وجہ سے قالین کی تجارت یہاں منتقل ہو گئی ہے ماضی میں ایران کے قالین پسندکئے جاتے تھے لیکن اب افغانستان میں بننے والے قالین دنیا بھرمیں مشہور ہیں، افغانستان کے علاقے مزارشریف ، اخچہ ، انخوئی اور ہرات قالین بافی کے مشہور مراکز ہیں اور یہاں کے قالین سب سے زیادہ مہنگے ہیں ۔
قالین کی قسموں میں چوبرنگ، خال محمدی، شاخ ، مہمنہ اور بلوچی مشہور ہیں ۔ افغانیوں کی پاکستان آمد کے بعد اب پاکستان میں بھی قالینوں کا استعمال عام ہو گیا ہے اس کے علاوہ یورپی ممالک اور اندرون ملک سندھ اور پنجاب بھی بھیجے جاتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ اعلی ترین قالین سلک کا بنا ہوتا ہے جو بیلجیئم سے آتا ہے چوبی قالین کا مٹیریل عراق سے آتاہے جب کہ ڈیزائن کے حوالے سے چائنی ڈیزائن پسندکئے جاتے ہیں ۔
قالین بافی کی صنعت ترکمانستان سے آئی ہے، ترکمانی ماہرین کاکوئی جو اب نہیں اب پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاّ پشاورمیں بھی قالین بنائے جاتے ہیں، حاجی انور نے مزیدکہا کہ میں عرصہ 40 سال سے یہ کاروبارکر رہا ہوں افغانستان کی نسبت یہاں کاروبار بہت اچھا ہے اور وسیع بھی ہو گیا ہے، تاہم آج کل پورے ملک اور بالخصوص پشاور اور قبائلی اضلاع میں جو صورت حال بنی ہوئی ہے۔
اس کی وجہ سے ہمارا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے، اسی طرح پاک افغان تعلقات میں بھی کشیدگی اور ایک دوسرے پر بداعتمادی کی فضاء کے باعث کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ اگر پاکستان اور افغانستان میں حالات معمول پر آگئے تو نہ صرف قالین بافی کی صنعت بل کہ ہرقسم کی تجارت اور کاروبارکو تقویت مل جائے گی ۔
انورخان کی باتیں سن کر ہم ایک گہری سوچ میں ڈوب گئے اور فوراً ہماری نظریں حالیہ ہنگو، میران شاہ ، باجوڑ اور پشاور پولیس لائن سے اٹھنے والے دھویں پر پڑی جو شہر سے اٹھتا ہوا سوات ، ملاکنڈ، بنوں اور وزیرستان پر بادل بن کر چھا رہا ہے اگر حکومت نے ان علاقوں میں وہاں کے باشندوں کی روایات اور مزاج کے برخلاف کوئی قدم اٹھایا تو اس بار یہ آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
لہذا حکم رانوں اور مقتدر قوتوں کا اخلاقی، سیاسی اور تاریخی فرض بنتا ہے کہ وہ مصور پاکستان علامہ اقبال کے ان فارسی اشعارکو مد نظر رکھیں جن میں علامہ اقبال نے پختونوں کی سرزمین کو پورے ایشیاء کے وجود میں دل کا درجہ دیا ہے اور اگر اس دل کو امن اور سکون حاصل ہو تو پورے ایشیاء میں امن اور سکون کی فضاء قائم رہے گی اور اگر یہ دل (ملت افغانیہ) بے چینی اور اضطراب میں مبتلا ہو تو اس سے پورا ایشیاء بے چین اور بے قرار رہے گا اس لیے حکم رانوں کو چاہیئے کہ وہ خیبرپختون خوا اور اس کے ملحقہ قبائلی اضلاع میں جلد بازی میں ’’کچھ کرنے‘‘ سے پہلے شاعر مشرق علامہ اقبال کی مذکورہ بات کے پس منظر اور پیش منظر کو مدنظر رکھ کر اختیاط سے قدم اٹھائیں کیوں کہ موجودہ صورت حال میں معمولی سی غلطی بھی اس پورے خطے کے لیے بہت بڑے نقصان کا باعث ہو سکتی ہے۔
The post زوال پذیر قالین کی صنعت کو کیسے سنبھالا دیا جائے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.