برن اجوکم بھارت کی ریاست منی پور کے صدرمقام، امفال میں رہتا ہے۔ پانچ برس قبل اس نے اپنی جمع پونجی سے ایک کمپنی کا آغاز کیا جو دستاویزی اور تفریحی فلمیں بنا کر نیٹ پر اپ لوڈ کرتی تھی۔ ساتھ ہی ایک یوٹیوب چینل بھی کھول لیا۔
اس کی بنائی فلموں اور یوٹیوب پروگراموں کو مقبولیت ملی اور کمپنی کا کاروبار بڑھنے لگا۔ ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں کھل رہی تھیں کہ رواں سال ماہ مئی سے منی پور میں ہندو اکثریت اور عیسائی اقلیت کے مابین خونریز جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
لڑائی کے آغاز ہی میں منی پور کی بی جے پی حکومت نے انٹرنیٹ کی فراہمی روک دی۔ انٹرینٹ پھر 140 دن تک بند رہا اور اواخر ستمبر میں کھولا گیا۔ اس دوران مگر بیچارے برن اجوکم کا پھلتا پھولتا کاروبار تباہ ہو گیا۔
اس کی کمپنی میں پہلے ستائیس افراد کام کر رہے تھے۔ انٹرنیٹ کی بندش کے باعث بہت کم لوگوں نے فلمیں دیکھیں، یوں آمدن تقریباً صفر ہو گئی۔ اسے مجبوراً ملازمین کو جواب دینا پڑا۔ اس طرح ریاستی حکومت کی انٹرنیٹ پابندیوں نے بران اجوکم کی کمپنی ختم کر دی اور اسے بیروزگار کر کے سڑک پہ لا کھڑا کیا۔
انٹرنیٹ کی بندش سے صرف برن اجوکم ہی پہ آفت نہیں ٹوٹی بلکہ بھارت میں ہزاروں لاکھوں باشندے حکمران طبقے کے مفادات کی بھینٹ چڑھ کر اپنے کاروبار یا روزگار سے محروم ہو چکے۔ بھارتی حکمران طبقے نے دراصل کوئی بھی فساد ہونے پر علاقے میں انٹرنیٹ کو بند کرنا معمول بنا لیا ہے۔
اسی لیے بھارت آج انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کا عالمی دارالحکومت کہلانے لگا ہے۔ستم ظریفی یہ کہ یہ افسوس ناک اعزاز ایسی مملکت کو حاصل ہوا جسے اس کا حمکمران طبقہ ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘قرار دیتا ہے۔
سچ یہ ہے کہ بھارت آج انتہا پسند مودی کی زیرقیادت ایک آمرانہ و ڈکٹیر مملکت میں تبدیل ہو چکا۔وہاں خصوصاً کسی بھی طریقے سے …جبراً، اسلحے اور تشدد کے بل پہ حکومت مخالف مردوزن کی زبان بندی معمول بن چکی۔
دنیا بھر میں سیاسیات ، عمرانیات اور معاشیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق افشا کرتی ہے، انٹرنیٹ بند کر دینے سے حکومتوں کو کبھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے بلکہ یہ عمل اپنا نے سے انھیں نقصان ہی ہوا۔ اس کے باوجود بھارت میں نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی کی وفاقی حکومت اور ریاستی حکومتوں نے کوئی ہنگامہ کھڑا ہونے پہ انٹرینٹ کو سب سے پہلے بند کرنا معمول بنا لیا ہے۔
بھارتی حکمران طبقے کا دعوی ہے کہ انٹرنیٹ بند کرنے سے ’’فیک نیوز‘‘پھیلنے نہیں پاتیں اور یوں دنگے فساد پہ قابو پانے کا موقع ملتا ہے۔نیز فسادی گروہ ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتے۔ یہ دعوی کسی حد تک تو درست ہے، مگر یوں لوگ انٹرنیٹ کے مثبت فوائد سے استفادہ نہیں کر پاتے جو منفی باتوں سے زیادہ ہیں۔
مثال کے طور پہ انٹرنیٹ سے فساد زدہ علاقے میں آباد لوگوں کو یہ جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ کس جگہ فساد ہو رہا ہے۔ یوں وہ اس جگہ کا رخ نہیں کرتے اور اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیاں محفوظ رکھتے ہیں۔
اسی طرح نیٹ کی بدولت اہل خانہ اور رشتے دار ایک دوسرے سے رابطہ کر کے اپنی خیرخیریت جان لیتے ہیں۔یوں وہ پریشانی کی اذیت سے دوچار نہیں ہوتے۔ نیٹ کے ذریعے وہ دنیا کے بدلتے حالات سے بھی باخبر رہتے ہیں۔ نیٹ پھر گوگل میپس کی بدولت انھیں محفوظ علاقوں تک پہنچنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ نیز انٹرنیٹ کی مدد ہی سے حکومتی ادارے بھی متعلقہ علاقوں میں فساد روک سکتے ہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 4 مئی کو کسی نے موبائل پہ ایک وڈیو فلمائی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ منی پور کے ضلع کنگپوکپی میں ہندو میتل مردوں نے دو عیسائی کوکی خواتین کو برہنہ کیا اور سرعام انھیں گھمایا پھرایا۔ بعد ازاں ان کی کی بے حرمتی بھی کی گئی۔
نیٹ پہ پابندی کی وجہ سے یہ وڈیو 78 دن بعد ماہ جولائی کے وسط میں سامنے آئی۔ اس وڈیو نے بھارت اور پوری دنیا میں لوگوں کے دل ودماغ جھنجوڑ دئیے اور انھیں احساس ہوا کہ منی پور میں ہندو اکثریت عیسائی اقلیت کے ساتھ بڑا ظالمانہ اور بہیمانہ سلوک کر رہی ہے۔
اگر انٹرنیٹ بند نہ ہوتا تو یہ وڈیو ماہ مئی ہی میں سامنے آ جاتی۔ تب ریاستی حکومت اندرون و بیرون خانہ سے پڑتے دباؤ کی وجہ سے ہندو غنڈوں اور دہشت گردوں کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کر نے پہ مجبور ہو جاتی۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکمران طبقہ عوام الناس کی جان ومال محفوظ بنانے کی فکر کم ہی کرتا ہے۔ مودی حکومت کی تو بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ بھارت کی منفی باتیں اور اس کی اپنی کوتاہیاں، غلطیاں اور خرابیاں دنیا والوں کے سامنے نہیں آنے پائیں۔
یہ کسی علاقے میں کوئی شورش جنم لینے پر انٹرنیٹ بند کرنے کی بنیادی وجہ ہے۔ مودی حکومت نہیں چاہتی کہ ’’شائنگ انڈیا‘‘ کی کوئی بُری تصویر بیرون ممالک جائے اور بھارت کا تصّور متاثر کر دے جو بقول نریندر مودی کے مستقبل کی معاشی سپرپاور ہے۔
سچ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام اپنا لینے سے بھارت میں جو بھی ترقی ہو رہی ہے، اس کے ثمرات بڑے شہروں تک محدود ہیں جہاں تقریباً چالیس کروڑ بھارتی رہائش پذیر ہیں۔ جبکہ ایک ارب بھارتی دیہات وقصبات میں رہتے ہیں۔
گویا ان ایک ارب بھارتیوں تک معاشی ترقی کے ثمرات کم ہی پہنچ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے، ان دیہاتیوں کی اکثریت آج بھی غریب، ناخواندہ اور بیمار ہے۔ اس کے برعکس چینی حکومت کا معاشی ماڈل زیادہ بہتر ہے جس کی پالیسیوں سے دیہی آبادی بھی مستفید ہوئی اور غربت کے چنگل سے باہر نکل آئی۔
چین میں بھی سینسرشپ موجود ہے مگر ظلم وجبر سے زبان بندی کی جو مثالیں مودی حکومت نے قائم کی ہیں، ان کی نظیر دور جدید کی کسی مملکت میں نہی ملتی۔ ریاست جموں وکشمیر ہی کو لیجیے جہاں مسلمان پچھلے چار برس سے انٹریٹ کی بندشوں اور پابندیوں کا نشانہ بنے چلے آ رہے ہیں۔
اہل کشمیر صرف گنی چنی ویب سائٹیں دیکھ سکتے اور مٹھی بھر ایپس استعمال کر سکتے ہیں۔ مودی حکومت نے انٹرنیٹ پہ شدید پہرے بٹھا رکھے ہیں۔ جو کشمیری مودی حکومت پہ معمولی سی نقید بھی کر دے تو اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا نشانہ بن جاتا ہے۔
اسی طرح مودی حکومت کا معمول بن چکا کہ وہ سوشل میڈیا کی ویب سائٹس پہ پابندیاں لگاتی رہتی ہے۔ مقصد یہی ہے کہ حکومت مخالف پوسٹس پھیلنے نہ پائیں۔ مودی جنتا کی مسلم دشمن پالیسیوں کی وجہ سے بھارت میں ہندو غنڈے تقریباً روزانہ کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں پر حملے کرنے لگے ہیں۔
مثلاً حال ہی میں اندور شہر کی ایک گلی مسلمانوں نے عیدمیلاد النبیﷺ کے موقع پہ سجائی تھی۔ یہ سجاوٹ انتہا پسند ہندو نوجوانوں کو پسند نہ آئی اور انھوں نے مسلمانوں پر حملہ کر کے خواتین کو بھی مارا پیٹا۔
مودی حکومت پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر مسلمانوں پہ حملوں کی خبریں نشر نہیں ہونے دیتی اور ان پہ پابندی لگا دی جاتی ہے۔
جبکہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہریلا مواد کھلے عام بھارتی میڈیا میں دستیاب ہے۔ مودی جنتا کی اسی منافقت اور مسلم دشمن پالیسی کے باعث عام ہندؤں میں بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے۔ اور یہی انتہا پسند جماعتوں… آر ایس ایس اور بی جے پی کی حکمت عملی ہے تاکہ ہندو اکثریت میں مقبول ہو کر وہ ہمیشہ بھارت پہ حکومت کرتی رہیں۔
میشی چودھری امریکا میں مقیم بھارتی نژاد ڈیجٹل ٹکنالوجی کے وکیل ہیں۔ انھوںنے دنیائے ٹکنالوجی میں آزادی رائے کا حق برقرار رکھنے کی ایک خاطر ایک تنظیم’’ سافٹ وئیر فریڈم لا سینٹر‘‘(Software Freedom Law Center) قائم کر رکھی ہے۔
میشی چودھری کہتے ہیں:’’ہماری تنظیم کے ماہرین کی رو سے دنیا میں سب سے زیادہ بھارت میں انٹرنیٹ سینسر شپ کی ظالمانہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔عام لوگ بہت سی ویب سائٹس اور ایپس استعمال نہیں کر سکتے۔ یہ بھارتی عوام کو حاصل بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
برطانیہ میں ایک تنظیم ’’ایسیس ناؤ‘‘ (Access Now)کے ماہرین ان حکومتوں پہ نظر رکھتے ہیں جو انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن، آن لائن سینسر شپ اور شہریوں کی جاسوسی کرنے میں ملوث ہیں۔ اس تنظیم کی رو سے دنیا میں سب سے زیادہ بھارتی حکومت انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کرتی اور آن لائن سینسرشپ لگاتی ہے۔
پچھلے سال مودی جنتا نے ’’84‘‘بار انٹرنیٹ کو بند کیا جو دنیا میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس کے بعد کہیں دور جا کر جنگ زدہ ملک یوکرین آتا ہے جس نے22 بار انٹرنیٹ پہ بندشین لگائیں۔
یاد رہے اگست 2019ء میں جموں وکشمیر پہ زبردستی قبضہ کرنے کے بعد مودی حکومت نے وہاں انٹرنیٹ بند کر دیا تھا۔ فروری 2021ء میں کہیں جا کر محدود انداز میں انٹرنیٹ کھولا گیا۔ یہ کسی بھی جمہوری مملکت میں انٹرنیٹ کی طویل ترین بندش کا ریکارڈ ہے۔
اس سے قبل 2018ء میںمغربی بنگال کے شہر، دارجلنگ کے باسیوں کو ایک فساد کے بعد تقریباً سو دن تک دنیائے نیٹ سے محروم ہونا پڑا تھا۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ نریندر مودی بھارت میں ڈیجٹل انقلاب لانے کے دعوے کرتا ہے۔، دوسری طرف وہ معمولی واقعے پہ انٹرنیٹ بند کرنے میں دیر نہیں لگاتا جس سے نہ صرف کئی سرکاری کام ٹھپ ہو جاتے ہیں بلکہ ہزارہا بھارتی اپنا روزگار کھو بیٹھتے ہیں۔ایسیس ناؤ میں ایشیا ڈیسک کے انچارچ ماہر، رامن جیت سنگھ چیمہ کہتے ہیں:
’’ بھارت میں مودی جنتا نے انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کو انتظام ِحکومت (گورنینس)کا بنیادی جزو بنا دیا ہے۔ یہ عمل اب مخالفین کے خلاف استعمال ہونے والا آلہ بن چکا جس کے ذریعے انھیں نقسان پہنچایا جاتا ہے۔
اب کوئی بھی فساد ہو تو مودی حکومت سب سے پہلا کام یہ یہ کرتی ہے کہ علاقے میں نیٹ بند کر ڈالتی ہے۔چونکہ بھارت میں تقریباً سبھی لوگ موبائل سے نیٹ استعمال کرتے ہیں ، اس لیے نیٹ کی بندش سے ان کی روزمرہ زندگی جیسے مجنمد ہو جاتی ہے۔
مگر مودی جنتا آمرانہ انداز میں اپنا کام کرتی ہے اور کوئی نہیں جو اس کی راہ روک سکے، اس سے پوچھ گچھ کر سکے۔ وہ اب ایک مغرور ومتکبر ڈکٹیٹر کا روپ دھار چکی۔‘‘
The post بھارت…زبان بندی کا عالمی دارالحکومت appeared first on ایکسپریس اردو.