شہنشاہ نے لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی لیکن اب وہ گدا بن کر انہی چاہنے والوں کے دلوں پر راج کر رہے ہیں۔
شوبزکی دنیا میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جس میں گلوکاروں اور فن کاروں نے شوبزکوخیربادکہا تو وہ کسی کاروبار سے وابستہ ہوگئے یا دین کی خدمت میں جت گئے، ایسے ناموں میں جنید جمشید، نعمت سرحدی، لیاقت میجر، شاہ سوار، کھلاڑیوں میں سعید انور سمیت بہت سے نام ہیں جنہوں نے دین کی خاطر اپنے سابقہ پیشوں کو چھوڑ کر قرب الہیٰ حاصل کرنے کی ٹھانی۔
انہی نامورشخصیات میں ایک نام پشتو زبان کے معروف لوک گلوکار شہنشاہ باچا کا بھی ہے جو اپنے فن کے عروج پر گلوکاری سے کنارہ کش ہوکر قرب الہیٰ پانے کے لیے نکل پڑے، اب وہ حمد وثناء اورنعت خوانی کے ذریعے روح کی تسکین پانے کے متلاشی ہیں۔
یہ نوے کی دہائی تھی جب ہر جگہ، ہردکان، ہر ٹرک، گاڑی، بازار اورہرگھر میں شہنشاہ باچا کی گونجتی آواز سے لوگ محظوظ ہوتے رہے۔ جس طرح عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی آواز میں سوز اور ایک درد کی سی کیفیت محسوس ہوتی ہے بعینہ شہشناہ باچا بھی اسی کے پرتو دکھائی دیتے ہیں۔
کسی زمانے میں ان کے گانوں کی کیسٹس فروخت ہوا کرتی تھیں، کیوں کہ انہوںنے پشتو زبان کی عوامی صنف ’’ٹپے‘‘کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا۔ ٹپہ پہلے بھی بہت مقبول صنف تھی اورآج بھی ہے لیکن شہنشاہ باچا نے اسے اوج کمال تک پہنچایا، یہ حقیقت ہے کہ ’’ٹپے‘‘ کہنے والے شاعر ہمیشہ ہی گمنام ہوتے تھے لیکن شہنشاہ باچا نے ’’ٹپے‘‘ کے ساتھ اس کے شاعرکو بھی پہچان دلادی۔
شہنشاہ خان المعروف شہنشاہ باچا ایک متوسط کسان گھرانے میں باچاگل کے ہاں 1970ء میں نوشہرہ کی مردم خیز مٹی پشتون گڑھی میں پیدا ہوئے۔
چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی ہونے کے باعث بہت لاڈلے ٹھہرے۔ جماعت ہفتم کے بعد تعلیمی سلسلہ منقطع ہوا تو اپنے والد کے ساتھ کھیت کھلیان میں کام پر جت گئے، پھر والد کا سہارا بننے کی ٹھان لی اور روزانہ کی اجرت پرکام کرنے لگے۔
ٹریکٹر ٹرالیوں کے ساتھ کام کیا، بیلچے بھر بھر کر اس میں ڈالتے رہے اور اپنے خون پسینے سے کمائی ہوئی روٹی میں راضی بہ رضا الٰہی ہوتے، پھرآہستہ آہستہ راج مستری کے کام سے وابستہ ہوگئے اور یوں اس کام میں مہارت حاصل کرنے لگے۔
آج وہ ایک ماہر کاریگر ہیں، جس پر انہیں فخر بھی ہے کہ محنت مزدوری کرکے اپنے ہاتھوں سے کمانے اور کھانے میں جو لطف، مزا اور سکون ہے وہ کسی کمخواب یا شیش محل کے مکین ہونے میں نہیں۔
اس سمے پشتونوں کے ہردل عزیزآلہ موسیقی رباب کے تاروں سے چھیڑ چھاڑ بھی کرنے لگے اور ساتھ ہی اپنی تخلیقی ذوق کی تسکین کے لیے گاؤں میں پشتو ادبی جرگہ کے زیراہتمام مشاعروں میں بیٹھنے لگے جس کے روح و رواں اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والے معروف ترقی پسند شاعر و ادیب سید انور تھے۔
ان کے علاوہ حضرت رحیم استاد، ذوالفقار، عالمزیب ظاہر، الٰہی خان لوگے، لطیف الرحمان عامر کثرت سے ان محافل میں شریک ہواکرتے۔ شہنشاہ باچا بھی ان سے اثر لینے لگے، اس زمانے میں شہنشاہ باچا اپنے گاؤں سمیت مضافات کے دیہات میں نعت خوانی سے اپنی پہچان بنا رہے تھے۔
امامت کے فرائض بھی انجام دیتے، ہرجمعرات کی شام محلے کی مسجد میں لاؤڈ سپیکر پر مترنم انداز میں نعت پڑھتے توسارے محلے کے مرد وخواتین انہماک سے انہیں سناکرتے لیکن جب کسی وجہ سے ایسا نہ ہو سکتاتوگاؤں کی اکثرخواتین ان کو خط میں نعت نہ پڑھنے کی وجہ معلوم کرتیں اور ان سے اپیل کرتیں کہ یہ سلسلہ باقاعدگی کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔
اسی سمے سید انور نے شہنشاہ باچا میں چھپے کلاکار کو دریافت کرلیا اور ان کو اس جانب راغب کرنے کی کوشش شروع کی کہ آپ کو میرا کلام گانا چاہیے کیوں کہ آپ کی آواز میں بڑا درد اور سوز ہے۔ نہ نہ کرتے آخرکار شہنشاہ باچا مان گئے لیکن ان سے یہ معاہدہ طے پایاکہ وہ صرف ایک شرط پر ایسا کریں گے کہ اس کی ریکارڈنگ کی صرف دوکاپیاںہوں گی، ایک میرے پاس اور دوسری آپ کے پاس محفوظ رہے گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔
صدیق اکبر جو پی ٹی وی میں ملازم تھے،کے توسط سے ریاض سٹوڈیو پشاور میں غزلوں پر مشتمل کیسٹ ریکارڈکرائی گئی، جو سب کو بے حد پسند آئی لیکن کچھ عرصہ بعد حافظ انعام چوری چپکے سے اپنے لیے ایک کاپی ریکارڈ کرنے کے لیے نیو سنگم میوزک سنٹر نوشہرہ جا پہنچے، جہاں پر میوزک سنٹر کے مالک نے ہزاروں کی تعداد میں اس سے کاپیاں نکالیں اور اس نے خود کو مالامال کردیا ۔
شہنشاہ باچاکو تب معلوم ہوا جب اس کی کاپیاں بازار میں بکنے لگیں جس کے بعد یہ سلسلہ زور پکڑنے لگا۔ اس کے بعد سید انور کی شاعری پر مبنی چار پانچ کیسٹ ریکارڈ کرائے جو بے حد مقبول ہوئے۔ چوں کہ شہنشاہ باچا کو پیسوں کی کوئی پروا نہیں تھی اس لیے لوگ ان کو اپنی مرضی کی رقم دے دیتے، لیکن یہاں مسلہ یہ اٹھ کھڑا ہوا کہ ان کے والد صاحب شوبز میں آنے کے باعث اپنے بیٹے سے ناراض ہوئے اور شہنشاہ باچاکی اس کمائی کوگھرلانے پر پابندی عائدکردی۔
وہ ایک سادہ لوح انسان تھے اس لیے وہ اس فن کو پسند نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے کئی بار شہنشاہ باچاکو گھر سے بھی نکالا لیکن ان کا اکلوتا ہونا مجبوری بن جاتا، اس بنا پر وہ بیٹے کو گھر آنے کی اجازت دے دیتے،کیوں کہ وہ اپنے بیٹے کو ہرحال میں خوش دیکھنا چاہتے تھے اس لیے مجبور ہوکر انہوں نے شہنشاہ باچاکے لیے گھر میں خود ہی ایک بیٹھک بنادی جہاں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ریاض میں مصروف رہنے لگا۔
شہنشاہ باچا نے راج مستری کے کام اور شوبز دونوں کوایک ساتھ جاری رکھا۔ شکرپور شاہ عالم پل سے تعلق رکھنے والے سبحان اللہ نامی شخص ان کا کاروباری پارٹنر تھا۔ دونوں کوئی ٹھیکہ لے لیتے اور باہمی سمجھوتے سے کام جاری رکھتے اور یوں دال روٹی کاسلسلہ چلتا رہتا۔
ایک سوال کے جواب میں شہنشاہ باچا نے بتایا چوں کہ ہمارے پختون معاشرے میں موسیقی کو تو پسندکیا جاتا ہے لیکن اس فن سے وابستہ افرادکو پسند نہیں کیا جاتا، ایسا میرے ساتھ بھی ہوا کہ اپنوں نے قطع تعلق کئے رکھا یہاں تک کہ عید قربان پر کوئی بھی ہمیں اپنے ساتھ قربانی میں شامل نہیںکرتا جس کا مجھے اور میرے گھر والوں کو بہت دکھ پہنچا جس کے بعد میرا بھی جی اس جانب سے رفتہ رفتہ اچاٹ ہونے لگاکہ میری وجہ سے میرے گھروالوں کو بھی اذیت کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کے بقول، انہوں نے آڈیو اور ویڈیو کے تقریباً تین ہزار کیسٹ ریکارڈ کرائے جس میں زیادہ تر رباعیاں، ٹپے اورغزلیں شامل ہیں، جس نے پسندیدگی کے ریکارڈ توڑ دئیے۔
اسی طرح فلموں کے لیے بھی بے شمارگیت گائے، اگرچہ انہیں غزل گانے کا کوئی تجربہ نہیں تھاکیوں کہ غزل ایک مختلف چیز ہوتی ہے لیکن جب بھی گایا، سننے والوں نے اسے پسندیدگی کی سند سے نوازا۔ وہ اپنی کامیابی کا کریڈٹ اپنے سازندوں کو دیتے ہوئے کہتے ہیں، ’’مجھ سے زیادہ کمال میرے سازندوں کا رہا ،کیوں کہ وہ میری آواز کے زیرو بم کے ساتھ اپنی سرتال اتنی خوب صورتی سے ملاتے کہ خود میں بھی حیراں رہ جاتا۔‘‘
شہنشاہ باچا نے کئی ممالک کے دورے کئے جہاں ان کوکافی پذیرائی ملی۔ خصوصاً افغانستان میں ان کو بہت عزت ملی۔ وہ ناروے کے دورے پر جانے ہی والے تھے کہ حج پر جانے کا پروانہ مل گیا۔ یہ 2007ء کی بات ہے ، جب اپنے ہی گاؤں کے ان کے بچپن کے دوست محمد خلیل نے ان کے لیے حج کی درخواست جمع کرائی، ان کو بے نظیر کی شہادت کا علم حج کے دوران ہی ہوا۔ حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے مزید چار کیسٹ ریکارڈ کرائے، جس کے بعد ان کی گانے بجانے کی رغبت کم ہونے لگی۔
ایک دن جب وہی دوست خلیل ان کے پاس آئے تو شہنشاہ باچا نے اپنی بے چینی اور بے سکونی کا تذکرہ کیا کہ مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی اور میں سکون کے لیے خواب آورگولیاں بھی کھاتا ہوں، جس پر انہوں نے کہا کہ تم اللہ کی راہ میں نکل جاؤ۔ شہنشاہ باچا بھی کوئی وقت ضائع کئے بغیراسی وقت ان کے ساتھ کوئی رخت سفر باندھے بغیر لاہورجا پہنچے جہاں محمد خلیل کے بہنوئی کے ہاں رات گزارنے کا فیصلہ ہوا۔
اسی رات خلیل کے بہنوئی نے دو تین جوڑے کپڑوں کے سلوائے اور ساتھ بستر سمیت دیگر ضروری سامان کا بندوبست بھی کیا، اگلی ہی صبح رائیونڈ کی راہ لی جہاں سے چار ماہ کے لیے دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے مختلف علاقوں کی خاک چھانی۔
اس دوران ارادہ کیاکہ فن موسیقی سے چھٹکارا پانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کیسٹس ریکارڈ ہونے چاہیئں تاکہ لوگ ان کی موسیقی سے اکتا جائیں اور ایسا ہی کیا۔
اس دوران صوفیانہ کلام کی طرف رحجان بڑھا لیکن اس سے قبل نعت خوانی کی ایک دوکیسٹس بھی منظر عام پر آچکی تھیں۔
بتاتے ہیں، ’’سنگر میوزک سنٹر کے مالک سید رضا شینواری میرے پاس آئے اور کہاکہ تمہاری نعت خوانی کے باعث کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے جرائم پیشہ چار دوست جرائم سے توبہ تائب ہوچکے ہیں، اس لیے آپ نعت خوانی کا یہ سلسلہ جاری رکھیں جس سے مجھے مزید حوصلہ ملا اور دل سے نعت خوانی کی طرف آیا۔‘‘
انہوں نے ماضی کریدتے ہوئے بتایاکہ کراچی میں ایک شوکے لیے گیا ہوا تھا جہاں ایک بندے نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر روکا اور اپنے جبڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ یہ آپ کی وجہ سے اڑا ہے کیوں کہ ایک شخص نے آپ کی کیسٹ کو ٹھوکر ماری تو مجھے غصہ آیا اس کے ساتھ ہاتھا پائی ہوئی اس دوران اس شخص نے پستول نکالی اور فائر کرکے میرا جبڑا اڑا دیا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایاکہ اس فن میں، میں نے پیسے نہیں عزت کمائی،کبھی بھی پیسوں کے لیے نہیں گایا بلکہ اپنے شوق اور چاہنے والوں کے لیے گایا۔ افغانستان میں پیسوں سے بھری بوری میرے اوپر نچھاورکی گئی، لیکن میں نے اسے گنا تک نہیں اور نہ ہی اپنے سیکرٹری سے اس بابت پوچھا لیکن جب شوبز سے کنارہ کشی اختیار کر لی تو سب کچھ بیج باج دیا۔
جب 2010ء کاسیلاب آیا تو ساراکچھ اس میں بہہ گیا نوبت فاقوں تک جاپہنچی۔ اسی سمے اس وقت علاقے کے منتخب ایم پی اے پرویزخٹک کی جانب سے سامان کا بھرا ٹرک آیا اور سب لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے۔
بتاتے ہیں، ’’میںبھی اس بھیڑمیں جا پہنچا لیکن اوپر ٹرک سے سامان پھینکے جانے کے وقت جو دھکم پیل ہوئی تو اسی اثناء میں رو دیا اور اپنے رب سے التجاکی کہ ’’ اے میرے مولا اپنے سوا کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے مجھے بچا۔‘‘
شہنشاہ باچا آج کل مختلف دستار بندیوں کی تقاریب یا مدارس کے دیگر پروگراموں میں نعت خوانی کرتے نظر آتے ہی۔ اس کے علاوہ وہ اپنے اصل کام یعنی معماری سے منسلک ہیں اور حق حلال کی کمائی کو دنیاکی سب سے بڑی نعمت قراردیتے ہیں۔
انہوں نے اپنے گھرسے متصل لڑکیوں کے لیے ایک دینی مدرسہ بنا رکھا ہے جہاں علاقے کی بچیاں قرآن کریم اوردینی علوم سے مستفید ہورہی ہیں۔
ان کا ایک بیٹا بھی حافظ قرآن ہے اور بہو بھی حافظہ قرآن ہونے کے ساتھ معلمہ بھی ہیں جن کی نگرانی میں اس دینے مدرسے کاانتظام اور انصرام چلایا جا رہا ہے، جہاں اس گاؤں کے ساتھ مضافات کے علاقوں سے بھی بچیاں دینی علوم کے حصول کے لیے یہاں کارخ کرتی ہیں۔
شہنشاہ باچا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جب شہرت حاصل تھی، لوگ آنکھوں پر بٹھاتے تھے، نوٹ نچھاورکیاکرتے تھے، سب کی آنکھوں کا تارا تھا لیکن بے چین تھا، تنہا تھا، بے اطمینانی تھی، لیکن جب میں ان سب چیزوں سے بے نیازہوا، تومیں نے کچھ پایا ،مجھے لگا جیسے میں نے سب کچھ پالیا ہو۔ مجھے ایک گونہ اطمینان حاصل ہوا جس کے لیے میں برسوں سے تڑپ رہا تھا، تب میں نے فیصلہ کیا کہ اس گوہر نایاب کو اپنے رب سے لو لگانے سے ہی حاصل کرتا رہوں گا۔
The post ’’قرب الٰہی کی جستجو میں شوبز سے دور ہوا‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.