Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

صوفی تبسم ایک ہمہ گیر شخصیت

$
0
0

قلم ہاتھ میں پکڑتے ہی میری یادوں کے کواڑ آہستہ آہستہ کھلنے لگتے ہیں اور میں اُس مکتب میں آپہنچی ہوں جہاں چاروں طرف اَدب اور فلسفے کا ڈیرا تھا ۔

ایک دانا درویش اُس ڈیرے کی روح تھا اور ہم سب اُس کا ہالہ ۔ میرے لیے اُن کا کچھ کہنا حرفِ آخر تھا جن کی نظرعقابی ، جن کے لفظ خوشبو تھے ، جن کی گفتار اور کردار میں ہمیشہ مماثلت دیکھی ۔ اُن کی پیار بھری نظروں کے حصار میں رہنا ہماری خوش قسمتی تھی اُن کی تربیت ہمارا نصیب تھا ۔ یہ درویش شاعر ادیب و مفکر اور اُستاد صوفی غلام مصطفی تبسم ہمیں ہمارے دادا کی صورت ملے تھے ۔

میری چھوٹی سی عمر میں اُنہوں نے ہماری عقل و فہم کے لیے کئی دریچے وا کیے تھے ۔ وہ ہماری تربیت میں لگے رہتے۔ مہمانوں کو سلام کیسے کرنا ہے۔

اُن کے پاس تمیز سے کیسے بیٹھنا ہے، مہمانوں کا عزت و احترام کیسے کیا جاتا ہے، محبتوں کو کیسے پالا جاتا ہے، گھر کا سلیقہ کیا ہوتا ہے۔ گھر کا سکون اور خامشی کیا معنی رکھتی ہے ۔ سبز چائے کیسے بنائی جاتی ہے اور حُقہ تازہ کیسے ہوتا ہے ۔

اُنہوں نے ہمیں بتایا کہ کتاب کی کیا اہمیت ہے ، اُسے ہاتھ میں کس سلیقے سے پکڑا جاتا ہے ، اُس کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے اور پڑھ کر کہاں اور کیسے رکھا جاتا ہے ۔ غرض یہ کہ کتاب سے لے کر گھرداری کی ہر چیز کس طرح سلیقہ مندی سے اپنی اپنی جگہ رکھی جاتی ہے ۔

اُنہوں نے بتایا اچھا انسان وہ ہے جس کے اخلاق و اطوار اچھے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے عمل سے بتایا بناوٹ کی کوئی اہمیت نہیں ، دھن دولت کچھ بھی نہیں ۔ دنیا میں دولت ہے تو صرف علم کی دولت ہے جسے حاصل کرنے کے بعد اپنی روح میں اُتارنا ہے ورنہ یہ زہر بن جاتا ہے ۔

اس تربیت کے ساتھ ساتھ میری نظر اُن پر مرکوز رہتی اُن کے لکھے فقروں اور جملوں پر غور کرتی ، اُن کی شاعری کو سمجھنے کی کوشش کرتی۔ آہستہ آہستہ میرے شعور کی گرہیں کھلنے لگیں اور میں جس نے اُن کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے ہنسنا سیکھا ، ہاتھ پکڑ کر چلنا سیکھا اُن کی صحبتوں میں علم کو جذب کرنا سیکھا ۔ اب وہ یہ سب دیکھ کر خوش ہونے لگے اور پھر وہ ایک دن چپ چاپ ہمیشہ کے لیے ایک لمبے سفر پر چلے گئے …

کیوں چھین کے گلشن سے قضا لے گئی تجھ کو

تو موجۂ گل تھا کہ صبا لے گئی تجھ کو

سوچ میں ڈوبی میری عقل، کانپتی روح اور آنسوؤں سے تر پلکوں سے چند اشعار اُبھرے اور گم ہو گئے ایک سرگوشی ہوئی اور ہوا کی لہروں میں کہیں کھو گئی پھر ایک دِن دِل مضطر نے ہاتھ میں قلم اُٹھایا اور کچھ لکھ ڈالا اور پھر یہ سلسلہ ایسا چلا کہ آج تک قائم ہے۔

اُن کا عمل اُن کے افکار اُن کی کتابیں اُن کے اشعار ہمارے ورثے کے روپ میں آج بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ صوفی صاحب 4 اگست 1899 کو پیدا ہوئے ۔

صوفی صاحب نے جس شہر میں آنکھ کھولی وہ امرتسر کہلاتا تھا جس کا پانی میٹھا تھا اور اُس کی شیرینی صوفی صاحب کی باتوں میں موجود تھی ۔ یہ شہر ایسا تھا جہاں بڑے بڑے شہرت یافتہ شاعر ، ادیب، علمائ، فضلاء اور مشائخ بستے تھے ۔

صوفی تبسم نے ابتدائی تعلیم چرچ مشن سکول امرتسر سے حاصل کی ۔ ایف اے خالصہ کالج امرتسر سے کیا اور پھر ایف سی کالج لاہور سے بی اے کیا ۔ اسلامیہ کالج لاہور سے ایم اے فارسی کی سند حاصل کی اور سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے بی ٹی کا امتحان پاس کیا ۔

اُنہوں نے گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا مگر کچھ عرصہ بعد ہی انسپکٹر آف سکولز ہو گئے۔ بعدازاں سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں اُردو ، فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے اور چار سال بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں صدر شعبۂ فارسی اور صدر شعبۂ اُردو رہے اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔

صوفی تبسم نے 1931 سے 1954 تک کا زمانہ تدریسی فرائض انجام دینے میں گزارا ۔ اُنہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور کے لیے بے انتہا خدمات سرانجام دیں۔ اُنہوں نے ڈرامیٹک سوسائٹی کا اِجراء کیا ۔ شیکسپیئر کے کئی ڈراموں کا ترجمہ کیا اور پھر سٹیج بھی کروائے ۔

برصغیر کے نامور شعراء کے نام اور کلام کو نئی نسل سے روشناس کرنے کے لیے ’’دِلّی کی آخری شمع‘‘ کے عنوان سے یادگار ڈرامہ کیا جس میں اِن شعراء کو پوٹرے بھی کیا گیا تھا بلاشبہ گورنمنٹ کالج لاہور کا یہ علمی و ادبی زمانہ اپنے عروج کا زمانہ تھا۔ یہ دور D۔جی سوندھی کا تھا جو پطرس بخاری صاحب سے پہلے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل رہے۔ اپنے طویل دورِ معلمی میں صوفی صاحب اپنے شاگردوں میںبے حد مقبول رہے ۔

اُن کے شاگردوں میں ایسے نام بھی ہیں جنہوں نے اپنے اُستاد کی طرح بے پناہ شہرت حاصل کی ۔ ان میں سعادت حسن منٹو ، قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر ، تجمل حسین، اشفاق احمد، بانوقدسیہ، کشور ناہید، فیض احمد فیض، اعجاز حسین بٹالوی، جسٹس نسیم حسن شاہ ، شہزاد احمد، حنیف رامے، ڈاکٹر عبدالسلام ، پروفیسر مشکور حسین یاد اور بھارت کے سابق سیکرٹری آنجہانی ڈی پی دھر کے علاوہ بے شمار معروف لوگ شامل ہیں ۔

صوفی صاحب نے تعلیم بالغاں کے لیے جریدہ ’’دوست‘‘ کے نام سے نکالا جو اِنہی کی ادارت میں خاصا کامیاب رہا ۔ گورنمنٹ کالج میں ادیب فاضل کی شام کی کلاسیں صوفی صاحب نے ہی شروع کروائیں ۔

صوفی صاحب جب نیوہوسٹل گورنمنٹ کالج منتقل ہوئے تو وہاں پطرس بخاری صاحب بھی آتے جو اس وقت گورنمنٹ کالج کے پرنسپل اور صوفی صاحب کے دوست بھی تھے ۔ یہ علمی و ادبی حلقہ ’’نیازمندانِ لاہور‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔

جن میں پطرس بخاری کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر ، عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت، حفیظ جالندھری ، پنڈت ہری چند اختر، کرنل مجید ملک، امتیاز علی تاج اور عبدالرحمن چغتائی شامل تھے ۔ گورنمنٹ کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد صوفی صاحب سنت نگر کی حویلی منتقل ہوئے اور پھر 1964 سے سمن آباد میں رہائش پذیر رہے ، جہاں ادبی مجالس کا سلسلہ جاری و ساری رہا اور ان مجالس میں اُستاد دامن، احسان دانش، فیض احمد فیض، کشور ناہید، یوسف کامران، ڈاکٹر حمیدالدین، عابد علی عابد اور کئی نامور شخصیات سے گیلری بھری رہتی ۔

صوفی صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی علمی و ادبی کاموں میں مصروف رہے اور 1956 میں صوفی صاحب خانۂ فرہنگ اسلامیہ جمہوریہ ایران کے پہلے ڈائریکٹر مقرر ہوئے ۔ صوفی تبسم صاحب کی شخصیت اور ادارۂ خانۂ فرہنگ ایران کو لازم و ملزوم کہا جائے تو قطعی طور پر غلط نہ ہوگا چونکہ یہ دونوں یعنی شخصیت اور ادارہ ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں ۔ چونکہ شاید بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ لاہور میں موجود خانۂ فرہنگ اسلامیہ جمہوریہ ایران کا تصور اور اس کے قیام کی پہلی کاوش خود صوفی تبسم صاحب ہی کی بدولت باروَر ہوئی ۔

صوفی صاحب نے درحقیقت مملکت ِ پاکستان و ایران کے رابطوں کو اُستوار کرنے کی غرض سے اپنی تمام تر زندگی صرف کر دی تھی یہی وجہ ہے کہ بدلتے حالات اور تغیر زمانہ کے نتیجے میں خانۂ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر صاحبان تو بدلتے رہے مگر صوفی تبسم اکیڈیمی کا خانۂ فرہنگ ایران کے ساتھ تعلق کبھی ماند نہ پڑا ۔ پاکستان ، ایران دوستی کے سلسلے میں صوفی صاحب کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں ۔

صوفی صاحب زندگی بھر مسلسل علمی وادبی کاموں میں مصروف رہے ۔ سول سروسز اکیڈیمی، فنانس سروسز اکیڈیمی میں بھی معلّم کی حیثیت سے کام کرتے رہے ۔ آپ ’’ لیل و نہار‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے، کون نہیں جانتا کہ آپ کی سرپرستی میں مذکورہ ادبی و ثقافتی مجلے نے کن بلندیوں کو چھُوا ۔ وہ مقتدرہ قومی زبان سے بھی وابستہ رہے جہاںپروفیسر سید وقار عظیم اور صوفی صاحب نے کئی یادگار کام کیے ۔ مینار پاکستان کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے بھی آپ کی خدمات یادگار ہیں ۔ آپ کو پہلے چیئرمین کرکٹ کنٹرول بورڈ ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا ۔

ریڈیو پاکستان میں مشیر اعلیٰ کی حیثیت سے نہایت تندہی سے کام کیا اور زبان و بیان کے حوالے سے بے حد قیمتی سرمایہ آنے والی نسلوں کی آبیاری کے لیے فراہم کیا۔

1965 کی جنگ میں لکھے گئے صوفی صاحب کے جنگی، قومی ترانے ہمارے جذبوں کو آج بھی تروتازہ رکھے ہوئے ہیں ۔ صوفی صاحب نے امیر خسرو ، غالب ، علامہ اقبال کے فارسی کلام کے منظوم تراجم بھی کیے جو پاکستان کے معروف گلوکاران نے گائے علاوہ ازیں بہت سے انگلش شعراء کی تخلیقات کے تراجم بھی آپ کی علمی و فکری ساکھ کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔

ابتدائی دور سے ہی صوفی صاحب اُردو ، فارسی اور پنجابی تینوں زبانوں میں اپنا لوہا منوا چکے تھے اور پطرس بخاری ، ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر ، عبدالمجید سالک اور چراغ حسن حسرت کی محفلوں کی رونق سمجھے جانے لگے تھے اور اس طرح اُن کا جھکاؤ اُردو زبان کی طرف زیادہ بڑھنے لگا جس کے نتیجے میں اُنہیں برصغیر میں اُردو ، پنجابی اور فارسی میں بے حد پذیرائی ملی اور کئی اعلیٰ قومی اعزازات سے نوازا گیا ۔ جس میں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائڈ آف پرفارمنس اور تمغۂ امتیاز سے نوازا گیا ۔ جبکہ حکومت ایران کی جانب سے نشانِ فضیلت عطا کیا گیا ۔

گویا بچپن سے لے کر جوانی اور جوانی سے لے کر آخری عمر تک ہر ایک کی دِل جوئی کے لیے صوفی صاحب کے کیے ہوئے کام کو ایک حیثیت حاصل رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی ۔ جس کی بڑی وجہ اُن کی مثبت سوچ ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے اعلیٰ اقدار سے فیض یاب ہونے کے لیے راستے ہموار کرتی ہے جس کی تصدیق کے لیے اُن کی نظم ’’آنے والے شاعر کے نام‘‘ کا ایک بند پیش خدمت ہے

اے میرے دوست

تم تو ابھی اس جہاں میں بھی آئے نہیں ہو

میں نے صورت تمہاری بھی دیکھی نہیں

اور تم مجھ کو پہچانتے جانتے ہی نہیں

تم مگر میرے اشعار کو دیکھ لینا

شب کی تنہا خموش

آرمیدہ فضا میں

اے میرے دوست

تم تو ابھی اس جہاں میں بھی آئے نہیں ہو

صوفی صاحب ابتدامیں اصغر صہبائی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ اُن کے اُستادِ گرامئی قدر اُستاد حکیم فیروزالدین طغرائی نے صوفی صاحب کے ہمیشہ متبسم ہونے کی وجہ سے اُن کا تخلص تبسم تجویز فرمایا اور تب سے اصغرصہبائی ’’صوفی تبسم‘‘ کے روپ میں ہم سب کے سامنے ہیں ۔ صوفی صاحب کے شاگردوں کے بارے میں تو آپ جان ہی چکے ہیں آئیے میں اُن کے اساتذہ سے بھی آپ کا تعارف کرواتی چلوں۔

اُستاد قاضی حفیظ اللہ، محمد عالم آسی، مولوی احمد دین امرتسری، علامہ محمد حسین عرشی امرتسری، حکیم مفتی غلام رسول اور حکیم فیروزالدین طغرائی اپنے دور کی اہم ترین شخصیات ہیں جن سے وہ فیضیاب ہوتے رہے ۔ غرض صوفی صاحب جیسی شخصیت کا احاطہ ہمارے بس میں تو ہے نہیں جہاں تک ممکن ہو سکا اُن کی علمی و ادبی مصروفیات کے بارے میں آپ کی خدمت میں عرض کر چکی ۔

صوفی صاحب نے جہاں مختلف دلنواز غزلیں، ملّی نغمے ، گیت ، پہیلیاں اور مختلف موضوعات پر نظمیں لکھیں وہاں اُنہوں نے بچوں کے لیے بچوں ہی کی زبان میں کئی خوبصورت نظمیں بھی تخلیق کیں ۔ صوفی صاحب کو اپنے مزاج کی رنگارنگی اور تنوع کے باعث ہمہ جہت شخصیت کا مالک قرار دیا جاتا رہا ہے ۔

اس منفرد خصوصیت کی بنا پر آپ اپنے معاصرین میں بھی ایک ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ آخر میں یہی کہوں گی کہ ’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ سے آج کے دور کے بچوں کی محبت کو صوفی تبسم کی بچوں سے محبتوں اور تخلیقی کاوشوں کا صلہ کہہ سکتے ہیں ۔

صوفی صاحب کے اشعار پر اپنا مقالہ ختم کرتی ہوں…!

تو نے کچھ بھی نہ کہا ہو جیسے

میرے ہی دل کی صدا ہو جیسے

یوں تیری یاد سے جی گھبرایا

تو مجھے بھول گیا ہو جیسے

The post صوفی تبسم ایک ہمہ گیر شخصیت appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>