برصغیر ،ایران، افغانستان اور سنٹرل ایشیا میں ہزاروں سالوں سے، شراب سے کہیں زیادہ استعمال افیون ،چرس اور بھنگ کا ہوتا چلا آ رہا ہے۔
اس کی بنیاد ی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے موسم اور خطے Opium – Poppy افیون اور چرس ، بھنگ، یعنی Cannabis-Hashish کی کاشت اور پیداوار کے لیے مو ضوع رہے ہیں اور یہ دو نوںنشے یہاں شراب کے مقابلے میں سستے اور مقامی طور پر بہت آسانی سے میسر آنے کے علاوہ یہاں کی ہزاروں سالہ ثقافت اور تہذیب سے بھی ہم آہنگ ہیں۔
Cannabis یعنی چرس اور بھنگ کا پودا خطے کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستا ن کے بیشتر علاقوں میں خودرو ہے اور بے تحاشہ پیدا ہوتا ہے۔ پاکستا ن کے دارا لحکومت اسلام آباد میں بھی Cannabis plant اس بہتات سے ہے کہ اس کی بُو سے پورا شہر مہکتا ہے، جب کہ افیون کی کاشت کی جاتی ہے۔ اس کے پودے کا پھو ل بہت خوش نما ہو تا اس کے بیج کو انگریزی میںپوپی سیڈز کہتے ہیں اردو میں خشخش یا خشخاش کہتے ہیں۔
منشیات کے عالمی استعمال پراقوام متحدہ کی 2022 رپورٹ کے مطابق دنیا میں پانچ اقسام کی منشیات زیادہ مقدار میں استعمال کی جاتی ہے جن میں شراب کے علاوہ چرس Cannabis افیون Poppy ’جس سے مارفین اورہیروئن وغیر ہ بنتی ہے، جب کہ یورپ ، آسٹریلیا کینیڈااور امریکہ وغیرہ میں مار جونیا Marijuana اورCoca Plant جس سے کوکین بنتی ہے‘ کا استعمال زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق چرس Cannabis دنیا کے154 ملکوں میں پیدا ہو تی ہے۔
افیون 57 ملکوں میں پیدا ہوتی ہے۔ Coca Plant جس سے کوکین بنتی ہے یہ آٹھ ملکوں میں پیدا ہو تا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا بھرمیں15 برس سے 64 برس کی عمر تک کے منشیات کے عادی افراد کی تعداد27 کروڑ سے زیادہ ہے، جو اس عمر کی آبادی کا تقریباً 5.5% بنتا ہے اور اِس تعداد میں سالانہ لاکھوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس منشیات کے عادی افراد میں سے ساڑھے تین کروڑ لوگ صحت کے حوالے سے شدید طور پر متاثر ہو ئے۔ اسی طرح منشیات، خصوصاً ہیروئن جیسی منشیات کے استعمال سے دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں افراد موت سے پہلے مر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ400 بلین ڈالرکی منشیات کا غیر قانونی کاروبارہوتا ہے جس میں اہم منشیات کو کین، ہیروئن افیون ، چرس اورSanthetic یعنی لیبارٹریوں میں تیار ہو نے والی منشیات شامل ہیں۔
اس رقم کی مقدار کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اِس وقت دنیا کے 192 ملکوںمیں سے چین ، جا پان ، سوئٹزر لینڈ، امریکہ، بھارت ، سعودی عرب ، ہانگ کانگ اور جنوبی کو ریا، 8 ممالک کے زرمبادلہ کے ذخائر کا مجموعی اندازہ 400 بلین ڈالر سے کچھ زائد ہے۔
ہمارے اِس خطے میںروایتی طور پر صدیوں بلکہ ہزاروں برسوں سے اعلیٰ طبقے میں افیون اور اس سے تیارکردہ معجون کا استعمال عام رہا ہے۔ یہ درست ہے افریقہ اور عرب ملکوں میں تاریخی طور پر اشرافیہ سمیت عوام میں شراب کا استعمال زیادہ رہا مگر برصغیر ، ایران ، افغانستان اور سنٹرل ایشیا میں شاہی حکیم افیون سے دوہرا کام لیتے تھے اور ان سے کئی طرح کی ادویات اور کشتہ جات تیار کئے جاتے تھے جو عمومی صحت اور تندرستی میں غیر معمولی اضافے کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ نشے اور سرور کے حصول کے لئے بھی استعمال کئے جاتے تھے۔
مغلیہ دور میں ہمیں شہنشاہ ظہیرالدین بابر ایسا بادشاہ ملتا ہے جو شراب پیتا تھا اور اُس نے راجپوتوں کے مہاراجہ رانا سانگھا سے جنگ سے پہلے شراب سے توبہ کی اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے فتح کی دعا مانگی اور پھر اُسے فتح نصیب ہوئی۔
لیکن اس کا ولی عہد یعنی شہنشاہ ہمایوں افیون کا رسیا تھا۔ یہی صورت بعد کے بادشاہوں اور نوابین اور راجاؤں کے ہا ں رہی جب کہ عوامی سطح پر بھنگ چرس کا استعمال زیادہ رہا۔ بھنگ گرم علاقوں میں زیادہ پی جا تی ہے جو نشے کے ساتھ بدن میںگرمی کی حدت کو برادشت کرنے کی زیادہ صلاحیت پیدا کر تی ہے، جب کہ چرس کا استعمال ہر موسم میں اور ہر جگہ ہو سکتاہے۔
اگرچہ اسلا م میں نشہ حرام ہے، مگر شراب کے حرام ہو نے کا ذکر واضح اور تفصیل کے ساتھ قرآن پاک میں ہے اس لیے عام مسلمان شراب پینے سے گھبراتا ہے۔
جبکہ چرس ، بھنگ اور افیون وغیرہ کے نام سے نشے کے حرام ہونے کے حوالے سے لوگ عموماً تذبذب میں مبتلا نظر آتے ہیں اور ان نشوں کے استعمال کی گنجائش پیدا کر لی جاتی ہے حالانکہ کوئی بھی ایسی چیز جو انسان میں اچھے بُرے کی تمیز ختم کر دے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ شاید اسی لئے ہمارے ہاں خانقاہوں پر عروس کے موقعوں پر اور عام دنوں میں بھی خصوصاً بھنگ اور چرس کا استعمال کھلے عام ہو تا ہے۔
انگریز کی آمد کے بعد ہمار ے ہاں اشرافیہ میں شراب کا استعمال عام ہوا اور پھر خصوصاً اعلیٰ طبقے میں یبوروکریٹ اور اعلیٰ حکمران سب ہی شراب کو ترجیح دینے لگے۔
پاکستان میں شراب پر پانبدی 1977 ء میں بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک کے دوران خود ذولفقار علی بھٹو نے عائدکی تھی جو اس پا بندی سے چند دن پہلے پی ٹی وی اورریڈیو پر اپنی تقریر میں مذاق میں یہ کہہ چکے تھے کہ ’’ملاحلواہ کھاتے ہیں اور اگر میں تھوڑی سی شراب پی لیتا ہوں تو کیا ہوا‘‘۔ پھر جب جنرل ضیاالحق نے مارشل نافذکر کے اُن کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تو فوراً عوام کے اصرار پر نہ صرف شراب پر مکمل پا بندی عائد کردی بلکہ پورے ملک میں شراب کی دکانیں بند ہو گئیں اور شراب کو بیچنے اور پینے والوں کو مارشل لا کے تحت سزائیں دینے کا عمل بھی شروع ہو گیا۔
یہاں حکومت کی کمزوری یہ رہی کہ وہ اپنے فیصلوں پر بغیر کسی تمیز کے قانون پر عملدر آمد نہ کرواسکی نہ ہی شراب کے عادی افراد کے لیے اس قانون پر عملدر سے پہلے کو ئی ری ہیبلیٹشن ،،آباد کاری،، کا موثر پروگرام شروع کیا گیا۔
نتیجہ یہ ہو ا کہ غیر قانونی طور پر جرائم پیشہ افراد گھروں میں دیسی شراب کشید کر نے لگے اور دیسی شراب کا غیر استعمال بہت بڑھ گیاجس سے ملک میں بہت سی اموات بھی ہوئیں اور بہت سے لوگ دیسی شراب کے زہریلی ہو جانے سے نابینا بھی ہوئے۔
عالمی سطح پر یہ تبدیلی آئی کہ 1980 ء سے پہلے تک دنیا میں غیر قانونی طورپر منشیات یعنی ہیروئن ، کو کین ، چرس وغیرہ کے کاروبار کا سب سے بڑا مرکز Golden Triangle جنوب مشرقی ایشیا میں چین ، تھائی لینڈ ، لاؤس اور مینیمار ،،برما،، کا علاقہ کہلاتا تھا۔ اس علاقے کو امریکی سی آئی اے نے یہ نام دیایہ خطہ اِن چار ملکوں کی سرحدی علاقہ میں ٹراینگل یعنی مثلث کی صورت میں واقعہ 950000 مربع کلو میٹر پہاڑی رقبے پر مشتمل ہے۔
جب 1980-81 میں سابق سوویت یونین نے افغانستان میں فوجی جارحیت کی تو یہاں افغانستان کے وسیع علاقے پر حکومت کی عملداری ختم ہو گئی۔
دوسری جانب گولڈن ٹرائی اینگل کے علاقے میں عالمی دباؤ کے نتیجے میں منشیات کے اسمگلروں اور منشیات تیار کرنے والوں کے خلاف شدید کاروائی ہو ئی تو منشیات کے بہت سے عالمی کاروباری افغانستان کی جانب متوجہ ہو ئے جہاں پہلے ہی روائتی طور پر Cannabis چرس بھنگ اور Poppy افیون مقامی طور پر قدیم طریقوں سے تیار اور استعمال کی جاتی تھی۔
اب یہاں بھی ہیروئن کی تیاری شروع ہو گئی اور اسکے بعد اس علاقے کو جس کا مرکز افغانستان ہے مگر اس کی سرحدوں کے ساتھ واقع پاکستان ایران اور سنٹرل ایشیا کے سرحدی علاقے بھی منشیات کے استعمال اور عالمی سطح پر غیر قانونی طور پر خصوصاً Poppy افیون ، مارفین اور ہیروئن اور Cannabis چرس کی بڑی تجارتی گذر گاہیں بن گئے۔
یہ علاقہ جو جغرافیائی خطے کے طور پر مرکزی جنوبی اورمغربی ایشیا میں ہلال کی شکل میںواقع ہے تو اِسے Golden Crescent کا نام دیا گیا۔ 2007 ء میں یہاں منشیات کاکاروبار اپنی انتہا کو پہنچا تو اس سال یہاں افیون اور ہیروئن کی پیداوار 9000 ٹن تک جا پہنچی۔ اسی طرح چرس کی پیداوار 2500 ٹن تھی اور 80% منشیات دنیا کے دیگر ملکوں میں سپلائی کی گئی۔
ان سرگرمیوں میں انٹرنیشنل ڈرگ مافیا شامل رہا یعنی1981-82 ء میں گولڈن ٹرائینگل منشیات کے کار وبار میں پیچھے رہ گیا اورمنشیات کا نیا مرکز Golden Crescent آگے نکل گیا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ طالبان کے دور میں انہوں نے منشیات کے خلاف فتویٰ جاری کیا تو اس کاروبار میں کافی کمی آئی تھی۔ یہاں سے دنیا کو منشیات کی اسمگلنگ کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانستان ایک لینڈ لاک ملک ہے یعنی اس ملک کے پا س سمندر اور ساحل نہیں ہے۔
اس کی سر حد کے ساتھ سنٹرل ایشیا سے روس تک اورپاکستان اور ایران میں 1980-81 ء کے بعد سے خصوصاً ہیروئن متعارف ہوئی اور یہاں اس کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ عالمی رپورٹ illegal drug Trading in dallars in Pakistan کے مطابق افغانستان سے منشیات کی تجارت براستہ پاکستان کا سالانہ ہجم 30 بلین ڈالر سے زیادہ ہے اس رقم میں سے2 بلین ڈالر پاکستان میں کمائے جاتے ہیں۔
میں 1984-85 ء میں بلوچستان یو نیورسٹی سے ایم اے سوشل ورک کر رہا تھا تو اس دوران فیڈل ورک کے لیے میڈیکل سوشل ورک کا شعبہ منتخب کیا۔
چونکہ سوشل ورک کے دیگر مضامین کے علاوہ ہمیں Psychiatry سائیکیٹری اور Psychology یعنی نفسیات کے مضامین بھی پڑھائے جاتے تھے اس لیے صوبے کے سب سے بڑے اور مرکزی ہسپتال سنڈے من سول ہسپتال کے Psychiatry اور Psychology کے شعبے میں ،میں نے تقریباً ڈھائی سال ڈاکٹر عبدلمالک اچکزئی جیسے سینئر ڈاکٹر کی نگرانی میں کام کیا اور اس دورا ن منشیات کے عادی اور انتہائی متاثر افراد یا مریضوں کی300 کیس ہسٹریاں بنائیں۔
پھر 1988-89 ء میں مغربی جرمنی کی ’جرمن ایڈ پروگرام‘ کی جانب سے پاکستان میں منشیات کی روک تھام کے لیے ایک منصوبہ شروع کیا گیا جس میں پاکستان میں مجھ سمیت کوئی 50 افراد کو ٹرینرTrainar اور بعد میں ہم 12 افراد کو ماسٹر ٹرینر کی ٹرینگ دی گئی۔ ہم نے اپنے متعلقہ صوبوں میں ایک سال تک بطور Prevention Resource Person منشیات کی روک تھام کے لیے کام کیا۔
یوں مجھے اس شعبے سے متعلق کافی معلومات حاصل ہوئیں۔ جہاں تک ہیروئن کا تعلق ہے تو یہ نشے کی دنیا میں تاریخ کا سب سے خطرناک نشہ ہے، جس کے صرف ایکبار استعمال سے انسان اس کا عادی ہو جاتا ہے جس کے بعد انسان کی عزتِ نفس، غیرت سب اس نشے کے حصول کے لیے ختم ہو جاتی ہے۔ انسان ہیر وئن کے حصول کے لیے سب کچھ کر گذرتا ہے۔
واضح رہے کہ 1981 ء میں پہلی بار پاکستان ایران سرحد پر واقع پاکستانی شہر تفتان سے پہلا ہیروئن کا عادی ملا تھا۔ 1985 ء تک ملک میں ہیروئن کے عادی افراد کی تعداد 30 لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔ 1984-85 ء میں ایک ایسا کیس بھی آیا کہ دنیا ہل کر رہ گئی تھی یہ ایک چھ سالہ بچہ تھا۔ غالباً اُس کانام جاوید تھا۔ اس کی ماں چوڑیاں بیچتی تھی۔ اس بچے کو چمن سے کوئٹہ ہیروئن اسمگل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور اسے ہیروئن کا عادی بنایا گیا تھا۔
1977 ء تک ہمارے ہاں شراب کی فروخت عام تھی اور اس پر کوئی قانونی پابندی نہیں تھی۔ ملک بھر میں ملکی وائن فیکٹریوں میں تیار ہو نے والی وسکی، برانڈی ، بیئر فروخت ہو تی تھی اوریہی شرابیں بیرون ملک سے بھی منگوائی جاتی تھیں۔
ان شرابوں پر 200% سے300% ٹیکس اور ڈیوٹیاں عائد تھیں اس لیے عام مستوط طبقے کے لوگ ملک میں تیار ہو نے والی شراب بھی نہیں پی سکتے تھے۔ جو اس کے عادی ہو جا تے تھے اُن کی زندگیاں تنگ دستی اور ذلت میںگزرتی تھیں۔ آبادی میں مجموعی طور پر ایک فیصداشرافیہ ہے جن میں سے مرد وں میں دس سے بیس فیصد لوگ اعلیٰ ملکی اور غیر ملکی شرب پیتے تھے اور جہاں تک تعلق متوسط طبقے کا تھا تو اس میں شراب نوشی اس لئے نہایت ہی کم تھی کہ متوسط طبقہ مالی اعتبار سے اس کے خراجات برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ وہ چرس اور بھنگ کو اس لیے استعمال نہیں کرتے تھے کہ اِن نشوں کے استعمال کو معاشرے میں گھٹیا اور کمتر سمجھا جا تھا۔
چرس اور بھنگ نچلے اور غریب طبقے کے لوگ استعمال کر تے تھے اور بالغ اور مردوں کی آبادی میں کو ئی 4% فیصد لوگ چرس اور بھنگ پیتے تھے اور لا علمی میں مذہبی طور پر آج بھی چرس اور بھنگ کے استعمال کو گناہ تصورنہیں کرتے۔ 1977 ء تک ہمارے ہاں افیون کا استعمال اشرافیہ میں بہت ہی کم رہ گیا تھا البتہ ہمار ے حکیم طبیب ادویات میں افیون کا استعمال کرتے تھے۔
واضح رہے کہ 1975-76 ء تک ایلوپتھی یعنی میڈیکل کی ادویات میں الکوہل کی طرح افیون کا استعمال WHO عالمی ادارہ صحت کی جانب سے قانونی تھا مگر اسی دوران WHO نے ایلوپیتھی ،،میڈیکل ،، کی ادویات میںافیون کے استعمال پر پابندی عائد کردی۔ اُس زمانے کے لوگوں کو یاد ہو گا کہ اُس وقت کھانسی زکام وغیرہ کی مشہور ادویات کوڈوپرائین ، کوریکس ایسی ادویات تھیں کہ جن میں افیون شامل ہو تی تھی اور بہت سے لو گ اِن ادویات کے عادی بھی ہو چکے تھے۔
یوں 1977 ء کے مارشل لا کے نفاذ پر جب فوری طور پر اور سختی سے شراب پر پابندی عائد کی گئی تو نہ صرف غیرقانونی طورپر تیار ہو نے والی شراب کا استعمال بڑھ گیا تو ساتھ ہی بھنگ اور چرس ’جس کے استعمال کو معاشرتی اعتبار سے اعلیٰ اور متوسط طبقہ برا تصور کرتا تھا‘ اِن طبقات کے لوگوں نے بھی چرس ،بھنگ کا استعمال شرو ع کر دیا کیونکہ دیسی شراب بعض اوقات زہریلی ہو جاتی تھی اور اس سے اموات واقع ہو تی تھیں۔
منشیات کے استعمال کے یہ رحجانات 1977 ء سے 1981 ء ہمارے ہاں یونہی رہے اور باوجود شراب پر پابندی عائد ہونے کے معاشرے میں منشیات کے استعمال سے اجتماعی طور پر کارکردگی یعنی افراد کے کام کرنے کی صلاحیتوں پر کو ئی خاص فرق نہیں پڑا۔ لیکن1981-82 ء میں جب سابق سوویت یونین کی جانب سے افغانستان میں فوجی جارحیت کی گئی تو منشیات کی تیاری اور کاروبار کے عالمی نظام کا 70% Golden Triangle سے سنہری مثلث سے سنہری ہلال یعنی گولڈن کریسنٹGolden Crescent کو منتقل ہو گیا اور ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں ہیروئن کی تیاری بڑے پیمانے پر ہو نے لگی۔ 1984-85 ء تک پاکستان میں ہیروئن کے عادی افراد کی تعداد 30 لاکھ سے تجاویز کرگئی۔
واضح رہے کہ 1981 کی مردم شماری میں پا کستان کی آبادی 8 کروڑ42 لاکھ تھی جو1985 ء میں9کروڑ 71 لاکھ ہو چکی تھی اس آبادی میں 35 لاکھ افغان مہاجرین کو شمار نہیں کیاگیا تھا، یوں اُس وقت آبادی کے تنا سب سے ہمارے ہاں منشیا ت کے عادی افراد تقریباً 3% تھے اور اگر ان نشے کے عادی افراد کو 15 سال سے64 سال کی آبادی کے تناسب سے لیں تو اُس وقت یہ تنا سب پانچ سے چھ فیصد تھا۔
آج پاکستان میں سرکاری طور پر منشیات کے عادی افراد کی تعداد76 لاکھ بتائی جاتی ہے جو15 سے64 سال کی عمر کے گروپ میں ہیں مگرغیر سرکاری عداد شمار کے مطابق اب یہ تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے اور اس میں خواتین کا تناسب 15% بتا یا جا تا ہے۔
2017 ء کی مردم شماری کے مطابق0 سال تا14 سال عمرکی آبادی کاتناسب 40.3 فیصد اور 15 سال سے64 سال آبادی کا تناسب 56 فیصد اور65 سال سے زیادہ عمر کی آبادی کا تناسب 3.7%تھا۔ اس وقت ہماری آبادی تقریباً25 کروڑ ہے جس میں سے ایک کروڑ افراد منشیات کے عادی ہیں۔ یعنی کل آبادی کا 4% منشیات کا عادی ہے اور اگر اس تناسب کو15 سال تا 64 سال آبادی کے تناظر میں دیکھیں تو یہ تناسب 7% سے کچھ زیادہ بنتا ہے۔
یوں اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کسی بری طرح منشیات کی دلدل میں دھنس ہوا ہے اس تعداد میں سے ستر فیصد سے زیادہ ہیروئن کے عادی ہیں جن میں سے نصف ہمیں پورے ملک میں کوڑا دانوں گندے نالوں میں بے سود پڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اِن ہی کے بارے میں معروف شاعر احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا(تُوجنہیں رستم و سہراب کہا کرتا تھا۔۔۔وہ جواں میں نے یہاں خاک بسر دیکھے ہیں) ۔( میں نے کوڑوں پہ پڑے دیکھے ہیں رخشنداں نجوم ۔۔۔میں نے لتھڑے ہوئے کیچڑ میں قمر دیکھے ہیں ) یعنی ہیروئن کے عادی 35 لاکھ افرادجو کوڑادانوں اور گندے نالوں کے کناروں پر دکھائی دیتے ہیں اور ہیروئن کے عادی باقی تقریباً30 سے35 لاکھ خواتین و حضرات وہ ہیں جن کے والدین رشتہ دار کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ہیروئن کے نشے کی اس دلدل سے باہر نکل آئیں۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہیروئن کے عادی ایک ہزار افراد میں سے ایک ہیروئن چھوڑنے میں کامیاب ہو تا ہے۔
یوں جن والدین اور رشتہ داروں کے لڑکے لڑکیاں منشیات کے عادی ہیں اور ابھی کچرا دانوں اورگندے نالوں کے کناروں پر نہیں ہیںوہ اپنے وسائل سے اِن کے نشے کے اخراجات پورے کرتے ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ پھر اِن کے لڑے لڑکیاں انہی کچرادانوں اور گندے نالوں کے کناروں پر پہنچ جاتے ہیں۔
ہیروئن کالفظ جرمن زبان کے لفظ ہیورش سے نکلا ہے جس کے معنی نہایت طاقتور ہے کے ہیں۔ ساٹھ ستر برس قبل جرمن سائنسدانوں نے کینسر کی دوابنانے کے لیے افیون پر تجربات شروع کئے تو ہیروئن ایجاد کی مگر اس کے اثرات منفی بھی تھے اور اس سے کینسر کا علاج تو نہیں ہوسکتا ہے، البتہ اس کے استعمال سے اس کی تکلیف وقتی طور پر ختم ہو جا تی ہے۔
پھر ہم نے دیکھا کہ افیون ہی سے تیار کردہ مارفین وہ دوا ہے جو بعض ملکوں میں آج بھی انتہائی درد ،دل کے دوروں میں مریضوں کو ڈاکٹروں کی جانب سے استعمال کرائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ 10 کلو افیون سے 10 کلو مارفین تیار کی جاتی ہے اور پھر 10 کلو مارفین سے 1 کلو ہیروئن تیار کی جا تی ہے۔ اب اگر ہم معاشرے کی عام سطح پر منشیات خصوصاً ہیروئن کے اجتماعی منفی سماجی اقتصادی ، ثقافتی ، خاندانی اور نفسیاتی اثرات کا جائزہ لیں تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ ہماری 25 کروڑ آبادی میں سے چھ سے سات کروڑ افراد براہ راست متاثر ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ایک گھرانہ یا خاندان اوسطاً پانچ سے چھ افراد پر مشتمل ہے۔
یوں اگر 25 کروڑ کے ملک میں ہیروئن کے عادی افراد جن خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں تو یہ تعداد اس لحاظ سے سات کروڑ آبادی بنتی ہے جو براہ راست نفسیاتی ،مالی اور سماجی طور پرمتاثر ہو رہی ہے۔ پاکستا ن میں ماضی کی طرح آج بھی مشیات کے عادی افراد کی بحالی کے منصوبے اور پروگرام جاری ہیں مگر ان کی کامیابی کا تناسب 0.5 فیصد سے بھی کم ہے۔ دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مقابلے میں منشیات کے غیر قانونی کاروبار میں کرپشن اور طاقت کا رحجان بہت زیادہ ہے اس لیے 40 برس سے زیادہ عرصے میں ہم ملک میں منشیات کے کاروبار کو نہیں روک سکے۔ شراب ہمارے ہاں مذہبی طور پر حرام ہے اور اگر ملتی ہے تو وہ بہت مہنگی ہے اس لیے شراب پاکستان میں عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہے۔
ہیروئن کا نشہ درمیانی سطح پر استعمال کرنے والے افراد یومیہ 200 سے 500 روپے اپنے نشے پر خرچ کر تے ہیں جب کہ چرس پینے والے 50 روپے سے 100 روپے روزنہ چرس پر خرچ کرتے ہیں۔ پھر جہاں تک تعلق چرس کا ہے تو اس کی یہ قیمت بھی اس لیے زیادہ ہے کہ چرس کا استعمال غیر قانونی ہے اور اس کا کاروبار کرنے والے ایک بڑی رقم رشوت میں دیتے ہیں ورنہ چرس ، بھنگCannabis ہمارے ہاں خود رو ہے اور اس کی پیداوار پر کو ئی خاص خرچ نہیں آتا، ہیروئن استعمال کرنے والے کی زندگی اوسطاً 35 برس ہے جب کہ چرس پینے والے عام سگریٹ نوش افراد کی طرح اوسطاً 66 برس تک ہے یعنی وہ عام لو گوں کی طرح کی صحت مند رہتے ہیں۔
چرس پینے والے عموماً دبلے پتلے ہو تے ہیں اس کے استعمال سے بھوک زیادہ لگتی ہے چرسی ،چرس کے نشے سے بے خود ہو کر اپنی ٹینشن بھی کم کر لیتے ہیں۔ چرس کا نشہ شراب کی طرح بد مست نہیں کرتا بلکہ مزاج میں دھیما پن پیدا کرتا ہے لیکن اس کا سب سے منفی پہلو یہ ہے کہ چرس اور بھنگ دماغ کو کمزور کرتے ہیں۔
نشہ کو ئی بھی ہو یہاں تک کہ تمباکو نوشی بھی انسانی صحت کے لیے مضحر ہے لیکن ہمارے ہاں چونکہ ہیروئن ، آئس اور ایسے دوسر ے نشے اب ہمارے ملک کو کمزور کر رہے ہیں کہ 2 ارب ڈالر سالانہ کی بلیک منی جو منشیات کی غیر قانونی آمدنی یا،، سرمایہ،، جب ہمارے ہاں گردش کر رہا ہے تو اس کے منفی اثرات تعلیم ،صحت اور سیاست سمیت تمام شعبوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ایسی ہی صور تحال کو دیکھتے ہوئے دنیا کے کئی ملکوں نے اپنے ہاں چرس ،بھنگ Cannabis کے استعمال کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا ہے۔
اِن ملکوں میں کینیڈا ، جارجیا، مالٹا، میکسیکو، ساوتھ افریقہ ، تھائی لینڈ اور یوروگوائے شامل ہیں۔ اسی طرح چرس امریکہ کی23 ریاستوں اور آسٹریلیا کے دارالحکومت کی حدو د میں قانوناً جائز نشہ ہے اور دنیا 52 ملکوں میں ادویات کے طور پر چرس،بھنگCannabis کا استعمال قانوناً جا ئز ہے۔ یہ حکمت عملی نوجوانوں کو ہیروئن کے مہلک نشے سے بچانے میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔ اس طرح ایک جانب تو ہیروئن کے عادی افراد کی آباد کاری کے جو پروگرام اِس وقت جاری ہیں وہ بہت کامیاب ہو رہے ہیں۔ ان ملکوں میں جب ہیروئن کے عادی افراد چرس استعمال کرتے ہیں تو ہیروئن ترک کرنے میں مدد ملتی ہے۔
اگر وہ ہیروئن ترک نہ بھی کر سکیں تو بھی ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت جو لاکھوں ہیروئن کے عادی افراد ہیں اگر یہ متواتر اسی طرح ہیروئن استعمال کرتے رہیں گے تو وہ زیادہ سے زیادہ مزید دس سال تک زندہ رہیں گے۔ یوں اگر نئے منشیات کے عادی افرا د کو ہیروئن کے بجائے صرف چرس میسر ہو تو مستقبل قریب میں ہیروئن کا نشہ کرنے والے ختم ہو جائیں اور اِن کی جگہ جو چرس پینے والے افراد سامنے آئیں گے وہ عام تمباکو نوشوں کی طرح ہو نگے بلکہ مالی اور اقتصادی طور پر چرس بطور نشہ استعمال کر نے کے اخراجات بھی سگریٹ کے اخراجات کے مقابلے میں کم ہو نگے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بیرون ملک کئے جانے والے اس تجربے کے نتیجے میں ہیروئن کے مکمل خاتمے کا مقصد حاصل ہو پاتا ہے یا نہیں۔ اگر اس کے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں تو یہ دنیا کے دوسرے ملکوں کے لئے بھی مثال بن جائے گا۔
The post پاکستان نشے کی لعنت میں کیسے ڈوبا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.