Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

جینا اسی کا نام ہے

$
0
0

ہاں! رات بہت بھیگ چلی ہے۔ اچھا ہے سُکون سے سوئی رہے۔ لگتا ہے سڑکیں بھی محوِخواب ہیں۔ سارا دن بے شمار بڑے چھوٹے مشینی جانور ان کے سینے کو روندتے رہتے ہیں کہ بس۔ سنسان سڑکیں مجھے اس لیے بھی اچھی لگتی ہیں کہ چلو کچھ تو آرام کرلیں یہ۔۔۔۔صبح پھر سے کچلے جانے کے لیے۔ ہاں یہ پاگل پن ہے۔۔۔۔ سو ہے۔۔۔۔! آپ کو اس سے کیا لینا ہے!

ابھی سی ویو سے ہوتا ہوا شارع فیصل کے اسٹار گیٹ سے ایئرپورٹ جانے والی سڑک پر داخل ہوا ہوں، کچھ ہی دور آگے تین لوگ گھاس پر چادر اوڑھے سو رہے ہیں۔ نہ جانے کون ہیں وہ، کیوں سو رہے ہیں یہاں، گھر کیوں نہیں چلے جاتے! میں جانتا ہوں، ہوں گے کوئی مزدور، جو سارا دن اپنا لہو پسینے کی صورت میں نچوڑ کر چند روپے اپنی گرہ میں باندھے اچھے دنوں کے خواب دیکھ رہے ہوں گے، نہیں معلوم! ان کے خواب کب تعبیر پائیں گے؟ اور پائیں گے بھی کہ نہیں؟

بہت دن سے اس کا اصرار تھا گھر آنا، تقریب ہے، تم ضرور آنا، اتنا سا وقت بھی تم نہیں نکال سکتے! اور میں اسے ہاں کہہ چکا تھا۔ سو آپ آزردہ ہوں۔۔۔۔ آپ کا جی چاہے نہ چاہے آپ کو ماننا پڑتا ہے، ہارنا پڑتا ہے، خود کو مارنا پڑتا ہے، بس یہی ہے زندگی!

بہت خوش حال ہے وہ، ڈیفنس کے اس گھر کو اس نے اتنا سجایا ہوا تھا کہ مت پوچھیے۔ آج اس کی بیٹی کی منگنی تھی، سو مجھے جانا پڑا۔

’’آگئے تم۔‘‘

’’ہاں! آگیا، تم سے وعدہ جو کرلیا تھا۔‘‘

’’بہت اچھا کیا تم نے مجھے بالکل بھی امید نہیں تھی کہ تم آؤ گے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’اب تو تم بالکل پاگل ہوگئے، دیوانے ہوگئے ہو ناں، اس لیے۔‘‘

میری مسکراہٹ ہی اس کا جواب تھی۔ سو تقریب شروع ہوئی۔ تقریب کیا تھی، کیا نہیں تھا اس میں! ناچ بھی، گانا بھی، کھانا بھی اور نہ جانے کیا کچھ، مخلوط رقص، ہلا گلا اور نہ جانے کیا کچھ۔ مجھے خاموش دیکھ کر اس نے سرگوشی کی:

’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘

’’کچھ نہیں۔‘‘

’’اچھا نہیں لگ رہا کیا؟‘‘

’’بہت اچھا لگ رہا ہے۔‘‘

’’تو پھر۔۔۔۔ ؟‘‘

’’تم جاؤ! اپنا کام کرو، میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘

بالآخر مجھے تلخ ہونا ہی پڑا۔

کیا لوگ ہیں یہ، بالکل نرالے، جوش میں ہوش کھو بیٹھنے والے، ہر دم زندگی سے خوشیاں نچوڑنے والے، ہی ہی ہا ہا کرنے والے مست، جیسے چاہو جیو والے، دنیا کا مزہ لے لو دنیا تمہاری ہے، ہر دم تازہ دم۔ ہاں مجھے اچھے لگتے ہیں یہ۔ ہر بات منہ پر کہہ دینے والے۔ آپ کو بُرا لگے تو سوری کہہ دینے میں دیر نہیں کرتے، لڑنے پر آئیں تو مرد و زن کی تمیز ختم ہو جائے، بس ایسے ہیں وہ، ایسے ہی ہیں۔

ہاں مجھے میرے بہت سے سنگی بیلی کہتے ہیں، کیوں نہیں چھوڑ دیتا تُو انھیں۔ میرا ایک ہی جواب ہوتا ہے میں تمہیں چھوڑ سکتا ہوں، انھیں بالکل نہیں چھوڑ سکتا۔ ہاں آپ مجھ فقیر سے لاکھ مرتبہ اختلاف کیجیے۔ وہ بھی کرتے ہیں۔

آپ کو تو اس لیے چھوڑا جاسکتا ہے کہ آپ انھیں گم راہ کہتے ہیں۔ جب اپ کسی کو گم راہ کہیں تو آپ خود کو صراط مستقیم پر سمجھتے ہیں، اور جو سیدھے راستے پر ہوں ان کی فکر کیا کرنی۔ جب آپ انھیں جہنمی کہتے ہیں تب آپ جنتی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، تو پھر جنتیوں کی کوئی کیا فکر کرے۔

اس لیے بس اس لیے میں آپ کو چھوڑ سکتا ہوں، انھیں نہیں، بالکل بھی نہیں۔ کسی قیمت پر نہیں۔ میرے اندر سے آواز آتی ہے: انھیں نہیں چھوڑنا۔ اب بتائیے میں کیا کروں؟

آپ بہت اچھے ہیں، ہونا بھی چاہیے، لیکن ایک بات بتائیے، بس آپ خود اچھے ہیں یہی کافی ہے؟ انھیں اپنے جیسا بنانے کا کبھی آپ نے سوچا؟ ہاں مجھے معلوم ہے، اس میں جان جاتی ہے آپ کی۔ ان کے ساتھ مجھے باتیں کرتا دیکھ کر دنیا والے کیا کہیں گے! ڈر لگتا ہے آپ کو ان سے راہ و رسم بڑھانے سے۔ آپ اپنی دنیا میں خوش رہیے پھر۔ مجھے کیوں منع کرتے ہیں آپ۔۔۔۔ ؟

مجھے لگتا ہے ہم سب نے اپنی زندگی کو خانوں میں بانٹ لیا ہے، چلیے! یوں کہہ لیجیے ہم سب اپنے جزیروں میں جی رہے ہیں۔ میں اسے جینا نہیں سمجھتا۔ یہ جینا ہے، بس اپنے لیے جینا۔

بڑا زعم ہے ہمیں کہ ہم بہت اچھے ہیں، نہ جانے کیسی سوچ ہے یہ، ہم بہت اچھے اور سب بُرے، واہ کیا بات ہے۔ ہاں ہم جب اردگرد دیکھتے ہیں، ہم اپنے لیے اچھے دوست منتخب کرتے ہیں، کرنے بھی چاہییں، کسی نے کیا ہی اچھی بات کی تھی: ’’بھائی تو ہمارا ہوتا ہے۔ انتخاب تو نہیں ہوتا۔ جیسا بھی ہو نبھانا پڑتا ہے۔ خون کا رشتہ جو ہوتا ہے اس سے۔ دوست ہم خود بناتے ہیں۔‘‘

اپنی پسند سے، دوست بنانا بہت آسان ہے اور دوستی نبھانا، جانتے ہیں آپ۔

یہ بابا لوگ بھی عجیب ہیں جی، بہت انوکھے، مجھ فقیر بے کار و بے مصرف کو تو انہوں نے بچپن سے ہی گھیرا ہُوا ہے، ہر دم پیچھا کرتے ہوئے، جہاں جاتا ہوں وہیں کوئی آن کھڑا ہوتا ہے جی۔ تو ایک بابا جی سے میری بہت دوستی تھی، بہت پیار کرتے تھے وہ مجھ سے، وہاں چلے گئے جہاں ہم سب نے بھی جلد یا بہ دیر جانا ہی ہے جی۔ ایک دن کہنے لگے: ایک بات بتاؤں؟ میں نے کہا: ہاں! کیوں نہیں، ضرور بتائیے۔ تو بولے: ایک آدمی تھا، اس نے اپنے بیٹے سے کہا: دوست بناؤ تو نبھانا بھی۔

بیٹے نے پوچھا: ابا! وہ کیسے؟

ابا نے کہا: دیکھو دوست کی پہچان آزمائش میں ہوتی ہے۔

بیٹے نے کہا: آپ تو کہتے ہیں دوستوں کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیے۔

ابا بولے: ہاں بالکل دوستوں کو کبھی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ پر وہ دوست ہی کیا جسے اپنے دوست کی فکر نہ ہو۔ دوست تو راز دار ہوتا ہے۔

بات آئی گئی ہوگئی۔ کچھ دن کے بعد بیٹے کو اُداس دیکھ کر ابا بولے: کیا بات ہے بیٹا؟

کچھ نہیں ابا جی! بس آج میں ایک دوست کے پاس گیا تھا، مجھے کچھ پیسے چاہیے تھے۔

تو پھر کیا ہوا؟

ہونا کیا تھا، وہ گھر میں موجود تھا، میرے سامنے ہی تو وہ گھر میں داخل ہوا تھا، لیکن اس کے بھائی نے آکر کہا کہ وہ گھر پر نہیں ہے، بس یہی سوچ رہا ہوں، چلو اس کے پاس بھی پیسے نہیں ہوں گے، پر وہ تو ملنے سے بھی رہ گیا۔

ابا جی مسکرائے اور بولے: ہاں اب تُو کچھ کچھ سمجھ دار ہو گیا ہے، اب چل میں تجھے اپنے دوست سے ملواتا ہوں۔ ابا جی اپنے بیٹے کو لے کر اپنے دوست کے گھر پہنچے اور دروازے پر دستک دی۔ اندر سے آواز آئی: ’’کون ہے؟‘‘

’’میں ہوں‘‘ ابا جی نے کہا۔

بہت دیر تک دروازہ نہیں کھلا تو بیٹے نے ابا جی سے کہا: ’’ابا جی! چلیے، یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ لگتا ہے۔‘‘

باپ بیٹا واپسی کے لیے مڑے ہی تھے کہ پیچھے سے آواز آئی: ’’کہاں جا رہے ہو یار تم؟‘‘ دونوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، ابا جی کا دوست دروازے پر کھڑا تھا۔ ابا جی نے اتنی دیر سے دروازہ کھولنے کا سبب پوچھا تو دوست بولا: ’’میرے عزیز دوست! جب تم آئے تو میں سو رہا تھا۔

تمہاری آواز سے میں جاگ گیا، مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم کیوں آئے ہو، دیکھو یہ سارے پیسے گھر میں تھے اس تھیلی میں رکھے ہیں، یہ درکار ہیں تو لے لو۔ میری بیٹی کے رشتے کے لیے آئے ہو تو اسے کپڑے پہنا کر تیار کر دیا ہے، بسم اﷲ کرو۔ اور اگر کہیں جھگڑا ہو گیا ہے تو تلوار میرے ہاتھ میں ہے، چلو، اب بتاؤ! کیسے آئے تھے؟‘‘

ابا جی مسکرائے اور بیٹے سے بولے: ’’دیکھا تم نے، یہ ہوتا ہے دوست۔‘‘

نہیں معلوم میں جو کچھ کہنا چاہ رہا ہوں وہ آسان ہو رہا ہے یا مزید مشکل۔ بہت چھوٹی سی عمر میں ہی میرے اندر سوالات کا سمندر طوفان بپا رہتا تھا۔ مجھے کہا جاتا: ’’فلاں بُرا لڑکا ہے اس سے دوستی نہیں کرنا۔‘‘ میرا سوال ہوتا: ’’کیوں نہیں کرنا، پھر اسے اچھا کیسے بنائیں گے؟‘‘ بہت پٹا بھی لیکن باز نہیں آیا۔ اب تک مجھے سمجھ میں نہیں آتا کیسی دانش ہے یہ کیسی دین داری ہے، کیسا فلسفہ ہے۔

اگر کہیں گندگی ہے وہاں سے ہم بہت بچ بچا کر نکلنے لگتے ہیں۔ اسے صاف کرنے کی فکر نہیں کرتے، اس لیے کہ کچھ چھینٹے آپ پر بھی پڑیں گے۔

آپ خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ ہم سب نامعلوم خوف کا شکار ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اپنے خود ساختہ جزیرے میں قید ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی کہے: ’’نہیں ہمیں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے، گندگی میں لتھڑے ہوؤں کو باہر نکالنا ہے۔‘‘ تب ہمیں یہ خوف آن گھیرتا ہے کہ ہمارے ہاتھ خراب ہوجائیں گے۔

اگر کوئی ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے تو ہم سب پر اعتماد کرنا چھوڑ دیتے ہیں، کہیں سے کوئی پتھر آئے تو ہم اپنا سر بچانے کے لیے گھر میں پناہ لے لیتے ہیں، اور پھر سمجھتے ہیں ہم تو بچ گئے۔ قلعہ بند ہو کر سمجھتے ہیں سب جائیں بھاڑ میں، چلو ہم تو محفوظ ہیں، کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں آپ؟ جب چاروں جانب آگ لگ جائے تو ہمارا گھر کیسے بچ سکتا ہے، ہم زندگی کا سامنا ہی نہیں کرنا چاہتے، اپنے خول میں بند ہو جاتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ بس یہی عقل مندی ہے، بصیرت ہے، نہ جانے کیا کچھ ہے۔ ہم کب تک ایسا کر سکتے ہیں۔۔۔۔ ؟

ہمیں سب کو گلے لگانا ہے، ہم جرم کے بہ جائے مجرم سے نفرت کرنے لگتے ہیں، جرم کے اسباب معلوم ہی نہیں کرتے، کیا مسئلہ تھا، کیا حالات تھے، یک طرفہ فیصلہ سنانے میں دیر ہی نہیں کرتے۔ آپ مجھے کوئی ایک بھی طبیب دکھائیں جو مرض کے بہ جائے مریض سے نفرت کرنے لگے۔ مریض سے تو وہ محبت کرتا ہے۔ فوری فیصلہ سنانے سے نت نئے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اور ہم نئی مصیبتوں میں گھر جاتے ہیں۔

فیصلہ سنانے سے پہلے اس کے ہر پہلو پر غور نہ کرنے کی قسم کھا لی ہم نے، ہم نے خود کو عقلِ کُل سمجھ لیا ہے۔ جب دیکھو یہی سنتے ہیں، بہت بُرا زمانہ ہے، بہت خراب ہو گیا ہے معاشرہ، سب خراب ہو گیا، سب کچھ تباہ ہو گیا، برباد ہوگیا۔

ہمیں تو بتایا گیا ہے : ’’لاتسبوالدھر فانی اناالدھر۔‘‘

’’زمانے کو گالی مت دو کیوں کہ میں خود زمانہ ہوں۔‘‘ (میں زمانے کو پھیرنے والا ہوں)

چلیے! اب ریت میں سر دے لیتے ہیں:

گلہ نہ کر کہ زمانہ کبھی نیا ہوگا

یہی جو ہے‘ یہی ہوگا‘ یہی رہا ہوگا

زندگی سے خوف زدہ ہونا چھوڑ دیجیے، اس کا سامنا کیجیے، مت پروا کیجیے کسی کی، سب کو اپنے سینے سے لگائیے، سب ایک جیسے نہیں ہو سکتے، کبھی بھی نہیں۔ تہمت سے ڈرتے ہیں ناں آپ، مت ڈریے۔ جب آپ اپنے رب کو جواب دہ ہیں، پھر آپ کو کون سا خوف ستاتا ہے؟

قلعہ بند ہو کر کبھی حالات کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، بالکل بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کسی کو بھی قید نہیں کرسکتے۔کیا آپ خیالات کو، جذبات کو، احساسات کو قید کرسکتے ہیں؟ خوش بُو کو کون قید کر سکا ہے؟ کنول ہمیشہ کیچڑ میں کھلتا ہے۔

کیچڑ نہ ہو تو کنول بھی نہیں ہوگا۔ برائی نہ ہو تو نیکی کی پہچان کیسے ہوگی، تاریکی، روشنی کی نوید ہے۔ رات سحر کی، یہی نظام کائنات ہے۔ کیا خوب صورت بات کی تھی: ’’بارش کی طرح بنیے جو پھولوں پر ہی نہیں کانٹوں پر بھی برستی ہے۔ زرخیز زمین کو ہی نہیں ریگستان کو بھی سیراب کرتی ہے۔‘‘

اگر کوئی اپنی بُری عادت سے باز نہیں آتا تو اپ اپنی اچھی عادت کو ترک کردیں گے؟

آئیے! اس پر بات کریں۔ کیا ہم اپنے جزیروں میں قید ہوجائیں یا زندگی کا سامنا کریں۔ سماج میں پھیلی ہوئی بے اطمینانی کو اطمینان میں کیسے بدلیں۔ جنھیں آپ بُرا کہتے ہیں، انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں؟ یا انھیں بھی اپنے جیسا بنانے کی سعی کریں، کیا کریں ہم؟

مجھے آپ کے خیالات کا انتظار رہے گا۔ ہمیں اس کا سامنا کرنا ہے، کیسے کریں ہم اس کا مقابلہ بتائیے؟

میں نے ایک کہانی پڑھی تھی، سناؤں آپ کو!

ایک دفعہ کا ذکر ہے کوئی قلم کار اپنا مضمون لکھنے کے لیے سمندر کا رخ کیا کرتا تھا، اس کی عادت تھی کہ کام شروع کرنے سے پہلے وہ ساحل پر چہل قدمی کیا کرتا۔

ایک روز وہ ساحل پر ٹہل رہا تھا، اسے کچھ دور کنارے پر ایک شخص رقص کرتا نظر آیا، وہ بہت حیران ہوا کہ صبح سویرے یہ کون ہے جو دن کا آغاز رقص سے کرتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے وہ تیز تیز قدموں سے اس کی جانب چل پڑا۔

وہ نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایک نوجوان تھا، نوجوان رقص نہیں کر رہا تھا، وہ ساحل پر جھکتا، کوئی شے اٹھاتا اور پھر پھرتی سے اسے دور سمندر میں پھینک دیتا۔

قلم کار نے نوجوان سے پوچھا: یہ تم کیا کر رہے ہو؟

ستارہ مچھلی کو سمندر میں پھینک رہا ہوں، نوجوان بولا۔

میں سمجھا نہیں، تم ستارہ مچھلی کو سمندر میں کیوں پھینک رہے ہو؟

نوجوان بولا: سورج چڑھ رہا ہے اور لہریں پیچھے ہٹ رہی ہیں، میں نے انھیں پانی میں نہ پھینکتا تو یہ مرجائیں گی۔

قلم کار نے کہا: یہ ساحل تو میلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اور سارے ساحل پر ستارہ مچھلیاں بکھری پڑی ہیں، ممکن ہی نہیں کہ تمہاری اس کوشش سے کوئی فرق پڑے۔

نوجوان نے شائستگی سے قلم کار کی بات سنی، نیچے جھک کر ایک اور ستارہ مچھلی اٹھائی اور اسے پیچھے ہٹتی ہوئی لہروں کے اندر پوری قوت سے اچھالتے ہوئے بولا: لیکن اس کے لیے تو فرق پڑ گیا ناں۔

کیسی لگی آپ کو۔

اپنے سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھیے۔ چلتے چلتے سنتے جائیے: میں سب سے ملتا ہوں، ان سے بھی آپ جنھیں بہت بُرا کہتے اور سمجھتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے ان کے دل کے تار کو، ذرا سا چھیڑیے، موم کی طرح پگھل جاتے ہیں وہ، اور ہم۔۔۔۔۔؟

تم دل کو ذرا سنبھال رکھنا

اک خواب تمہیں سنائیں گے ہم

The post جینا اسی کا نام ہے appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>