Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

زباں فہمی نمبر189؛ اردو اور بلوچی کا باہمی تعلق

$
0
0

(حصہ سِوم/آخری)

اردو اور بلوچی کے مشترک الفاظ: اردو کی ہم رشتہ زبان بلوچی میں بے شماراُردو الفاظ کسی نہ کسی شکل میں جُوں کے تُوں شامل ہیں یا قدرے فرق سے، گویا مماثل شکل میں۔

آب (پانی) کو بلوچی میں آپ کہتے ہیں اور آب پاشی کو آپ کاری، آبدار کو آپدار، آبکاری کو آپکاری، آب ودانہ کو رِزق روزی (جو ظاہر ہے کہ ہمارے یہاں بھی موجود ہے)، آباد کو آباد اور آبات، آباد ی کو آبادی اور آباتی، آبرو کو آبرو، آتش کو آسک، رو ح کو روح، آثار کو نِشان، اچار کو آچار اور لہرّام ، آخر کو اَخیر اور گُڈّی، آخرت کو آخرت، آخری کو اخیری اور گُڈی، آدم کو آدم، آدمی کو مَردُم اور بنی آدم (دونوں ہی اردو میں بھی مستعمل)، آدمیت کو مَردُم گِری، آدھا کو نِیم (اردو میں بھی مستعمل)، آرام کو آرام، آرزو کو اَرمان (اردو میں بھی مستعمل)، آریا (قوم کا نام) کو آریا، آڑو کو شپتالُو یعنی شفتالُو (اردو میں بھی مستعمل)، آڑھت کو آڑت، آڑھتی کو آڑتی، آزاد کو آزات، آزادی کو آزاتی، آزار کو آزار اور سکّی، آزُردگی کو آزردئی، آزُردہ کو آزردہ، آس کو اومیت یعنی امید (اردو میں بھی مستعمل)، آسان کو آسان، آسانی کو آسانی، آسائش کو آرام (اردو میں بھی مستعمل)، آستاں کو دربار (اردو میں بھی مستعمل)، آستین کو آستون ، آسراکو اومیت (یعنی امید)، آسمان کو آسمان اور آزمان، آسمانی کو آسمانی، آسودہ کو آسودگ، آشا کو اُمیت (یعنی امید جو اردو میں بھی مستعمل ہے)، آشنا کو آشناگ، آشنائی کو آشناگی، آشیر/اَشیر باد کو نیک دعائی (مماثل ہے)، آغا /آقا کو واجہ،آغاز کو شروع اور بِناء (یعنی بنیاد جو اردو میں بھی مستعمل ہے)،آغوش کو بَغَل (اردو میں بھی مستعمل) اور امباز، آفت کو بَلا (اردو میں بھی مستعمل)، آگاہی کو مالوم (یعنی معلوم)داری، آلو بخارے کو آلو بخارا، آلوچے کو آلوچہ ، آلے کو اوزار (اردو میں بھی مستعمل)، آم کو اَنب اور اَمب، آمادہ کو تیار (اردو میں بھی مستعمل) اور جَاڑی، آمدنی کو آمدن (اردو میں بھی مستعمل)، آملہ کو آملہ، آن کو شَان (اردو میں بھی مستعمل)، آن بان کو عزت وشان (اردو میں بھی مستعمل)، آنا (یعنی آمد) کو آئیگ کہتے ہیں۔ ابھی تو الف کی فہرست ہی نامکمل چھوڑنی پڑی تو سوچیں ذرا کہ آخری حرف ’ی‘ تک یہ معاملہ کس قدر دراز ہوگا۔

بلوچی اور ہائیکو: بلوچی ہمارے ملک کی اُن زبانوں میں شامل ہے جنھوں نے دیگر اصناف سخن کے ساتھ ساتھ، جاپانی صنف ِ سخن ’ہائیکو‘[Haiku] اپنائی اور اس میں بہت سرعت سے عمدہ نمونے پیش کیے۔ 1980ء کی دہائی میں نامور بلوچ شاعر پروفیسر ڈاکٹر غنی پروازؔ نے بلوچی میں ہائیکو متعارف کروائی۔ ان کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں عطا شادؔ، غوث بہارؔ، صباؔ دشتیاری، مبارک قاضی، ڈاکٹر فضل خالق، اے آر داد، اﷲ بخش بُزدار، غوث بخش صابرؔ، بشیر بیدارؔ، عثمان غریبؔ، ابراہیم عابد، ڈاکٹر علی دوست بلوچ، اسحاق محمود، نصیر احمد علیمؔ، باقر علی شاکر، ضامن مراد، آصف شفیق، بشیر کسانوی، لطیف الملک بادینی، جاوید سعید، درجان محب سمیت متعدد شعراء شامل تھے۔ متعدد بلوچی مجموعہ ہائے کلام (بشمول ہائیکو) کے علاوہ صبادشتیاری کی کتاب ’’گنگدامیں سرزمین‘‘ (حواس باختہ سرزمین) اس موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔

بلوچی کی چند ہائیکو ملاحظہ ہوں:

غنی پروازؔ: بے قرار انت دل ، موسم انت ودارانی ، دور نہ انت منزل

ترجمہ : بے قرار ہے دل ہے موسم انتظار کا دور نہیں منزل

صبادشتیاری: چونیں طوفان انت نوکیں رژن ئِ عہد ئَ ہم انسان ، حیوان انت

ترجمہ: کیسا طوفان ہے عہد جدید میں بھی انسان، حیوان ہے

ڈاکٹر علی دوست بلوچ: سردیں سیاہیں شپ یاتاں شال ئِ مہرنگئِ زردئَ گُر تگ جپ

ترجمہ:  یخ بستہ کالی رات شال کی حسینہ کی یادیں دل میں آگ لگاتی ہیں

{ شال: شال کوٹ، کوئٹہ کا قدیم نام}

عطاشاد بلوچی ہی نہیں، اردو کے بھی ممتاز شعراء میں شامل ہوئے۔ انھوں نے اردو میں ’’آب ِگُم‘‘ نامی مشہور جگہ کے متعلق یہ مقبول ہائیکو کہی تھی:

تُو آبِ گُم ہے تیری موجوں میں لیکن ایک تلاطم ہے

خاکسار نے کوئٹہ جاتے ہوئے’’آبِ گُم‘‘ سے ریل پر سوار ہونے والے، ایک انتہائی مفلس بچے کو ، عمدہ دستکاری سے بنی ہوئی ٹوکریوں میں بہت ہی سستی کھجوریں بیچتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا:

کتنی غربت ہے آبِ گُم آکر دیکھیں کس کو فرصت ہے؟

میرے بزرگ معاصر، نظم وغزل اور ہائیکو کے مشاق سخنور، پاکستان ہائیکو سوسائٹی کے بانی اور سابق سینئر پروڈیوسر پاکستان ٹیلی وژن، محترم اقبال حیدر (مرحوم) نے اپنے قیام کوئٹہ کے دوران میں وہاں کثیر لسانی (اردو، بلوچی، براہوئی، سندھی، پنجابی، فارسی، ہزارگی وپشتو) ہائیکو مشاعروں کی بِناء ڈالی جو مختلف زبانیں بولنے والے شعراء کے مابین لسانی یک جہتی کے ضمن میں بھی ایک کامیاب تجربہ ثابت ہوا اور ایک مدت کے بعد جب مارچ 2000 ء میں اس خاکسار کو ہائیکو انٹرنیشنل ’اقبال حیدر نمبر‘ (اشاعت ثانی) کی تقریب پذیرائی اور مشاعرہ بہ سلسلہ ہفتہ جاپان میں بطور خاص شرکت کے لیے کراچی سے مدعو کیا گیا تو وہاں ڈاکٹر علی دوست بلوچ سمیت متعدد مقامی شعراء سے ملاقات ہوئی، جبکہ سفیر جاپان سے ملاقات کا احوال ماقبل ، زباں فہمی میں لکھ چکا ہوں۔

کراچی کے بلوچ اردو شاعر، ادیب وصحافی: بلوچی اور اردو کے قرب میں ایک اہم کردار کراچی کے بلوچ اردو شاعر، ادیب وصحافی حضرات کا ہے۔ یہاں کچھ مشاہیر کا ذکر کرنا ضروری ہے۔

لیاری کے قدیم علاقے بغدادی سیفی لین نے عالمی شہرت یافتہ فٹ بالرز کے علاوہ علمی، ادبی وسماجی شعبوں میں پروفیسرصبادشتیاری، ن۔ م دانش اور نادرشاہ عادل جیسے معززین بھی دیے جن کی خدمات پر آج تک کوئی مبسوط کتاب نہیں لکھی گئی۔ یہاں اردو لا کالج میں چالیس سال تک (نیز کچھ عرصہ جامعہ کراچی میں) تدریسی خدمات انجام دینے والے، پروفیسر علی محمد شاہین (متوفیٰ 11فروری 2010) کا نام بھی ذہن میں آتا ہے جنھوں نے سبکدوشی کے بعد، قانون کے طلبہ کو مفت تعلیم فراہم کی اور ایک اردو اخبار میں کالم بھی لکھے۔

محمد رمضان بلوچ: ’’ایک دن جب ایک فوجی ٹیم اُس ہوٹل میں پہنچی تو دَنگ رہ گئی۔ انھیں اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ لیاری میں اتنے صاف، شفاف اور صحت مندانہ ماحول میں کھانے پینے کی ایسی جگہ ملے گی۔ اس ٹیم نے نہ صرف عبدالحق سے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا، بلکہ بہترین صفائی کا ایک سر ٹیفکیٹ بھی دے گئے جو اُس زمانے میں شہر کے صرف فائیواِسٹار ہوٹلز ہی کو جاری ہوتے تھے۔ واضح رہے کہ عبدالحق نے ہوٹل کے اندر ، سنگ مرمر کی صاف وشفاف دیواروں پر قیمتی پینٹنگز آویزاں کی ہوئی تھیں جن میں مغل بادشاہوں کو شکار کھیلتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ شاہ ایران، شاہ سعود اور شاہ حسین کی ہاتھ سے پینٹ کی ہوئی رنگین تصویریں بھی دیواروں پر آویزاں تھیں ‘‘۔ (’لیاری کی ادھوری کہانی‘: باب دوم ;’’مارشل لا کے خوف سے بے نیاز‘‘)۔

اس سادہ، رواں اور فطری تحریر میں ماضی کی ایک سنہری یاد تازہ کرنے والے، انگریزی کے صحافی، کراچی کے ہر دل عزیز بزرگ، اردو ادیب ، محترم رمضان بلوچ کے اس اقتباس کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ایرانی نژاد بلوچ ہیں اور اُن کی مادری زبان اردو نہیں۔ ہاں اُن کے روشن چہرے کے نقوش سے آبائی وطن سے تعلق کی ایک جھلک ضرور ہویدا ہے۔ اُن کی کتاب ’’لیاری کی ادھوری کہانی‘‘ بہ یک وقت آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔ شاید کراچی میں شامل کسی اور علاقے کے کسی اور مکین نے اپنا احوال (انفرادی واجتماعی) اس قدر انہماک اور محنت سے رقم نہ کیا ہوگا۔

4اگست 1944ء کو شاہ بیگ لین، آٹھ چوک، لیاری میں ایک کچے مکان میں جنم لینے والے، محنت کش عبدالغفور بلوچ کے اس فرزند کا نام محمد رمضان بلوچ رکھا گیا۔ اُن سے پہلے اس گھرانے میں ایک رحمت یعنی بیٹی اور دو برکتیں یعنی بیٹے موجود تھے، مگر اللہ کی شان کہ کوئی ہمارے بزرگ معاصر کی طرح نامور نہ ہوا۔ لیاری سے ابھرنے والے اس صحافی، ادیب اور دانشور نے جامعہ کراچی سے گریجویشن کیا اور زمانہ طالب علمی ہی سے لیاری میں تعلیمی و سماجی اصلاح کے ضمن میں بہت فعال رہے، خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کی مہم میں اُن کا کردار اہم تھا۔ وہ صوبائی حکومت کے بلدیاتی شعبے میں تیس سال سے زیادہ عرصے تک خدمات انجام دے چکے ہیں اور آج بھی کسی نہ کسی طرح اس ضمن میں متحرک ہیں۔ اُن کے قلم سے تین شاندار کتب نکل کر منصہ شہود پر آئیں اور ہمیں لیاری سے متعلق بیش بہا معلومات حاصل ہوئیں:

ا)۔ لیاری کی ادھوری کہانی ب)۔ لیاری کی اَن کہی کہانی اور ج)۔ بلوچ روشن چہرے۔

خاکسار کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ بطور صحافی، اُن کی اولین کتاب کی تقریب اجراء میں شرکت کی اور Live Rostrum News Agency کے مدیراعلیٰ کی حیثیت سے ادارے کی ویب سائٹ کے لیے بزبان انگریزی احوال رقم کیا۔

رمضان بلوچ صاحب کے بچپن تا جوانی کے دور کی بات کریں تو اُس دور کا لیاری ہی گویا اصل کراچی تھا، اس لیے کہ شہر کی حدود اس قدر وسیع نہ تھیں۔ جب ہم ایسے فرزندِلیاری، بلکہ فرزندِکراچی کی نگارشات پڑھتے ہیں تو یہ نکتہ باربار ذہن پر نقش ہوتا ہے کہ لیاری، کراچی کی ماں ہے۔ ’’لیاری کی ادھوری کہانی‘‘ میں ایسے اقتباسات دل چسپ بھی ہیں اور معلوماتی بھی:

ا)۔’’لیکن ہم کم از کم عبدالرحیم بلوچ کے بارے میں ’عینکی گواہ‘ کی حیثیت سے بتاسکتے ہیں کہ اُن کی پوری زندگی غربت کے دائرے میں گزری۔ ……….آخری سانس تک اُن کی رہائش لیاری کے بہت ہی گنجان محلّے فوٹو لین [Photo lane]میں ہی تھی۔ یہ نام کسی فوٹو اسٹوڈیو کے حوالے سے مشہور نہیں ہوا ، بلکہ فوتو نامی یہ ایک بزرگ آدمی کے نام سے موسوم ہے جو یہاں آباد ہونے والے ابتدائی لوگوں میں شامل تھے۔ فوٹولین کے سامنے جو علاقہ ہے، وہ جھٹ پٹ مارکیٹ یا بازار کے نام سے مشہور ہے‘‘۔

ب)۔ ’’تقریباً پچیس سال پہلے کی بات ہے ، جب کچھی میمن طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک غریب خاتون ختوبائی نے اپنے گھر کے سامنے بچوں کے لیے ٹافی چاکلیٹ فروخت کرنے کا ایک کھوکھا رکھ دیا جو کچھ ہی دنوں میں گاہک بچوں میں کافی مقبول ہوگیا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد، ختوبائی نے وہاں سبزیوں اور ترکاریوں کی فروخت بھی شروع کی جس کی دیکھا دیکھی اسی طبقے سے تعلق رکھنے والی چند اور خواتین نے بھی یہی کام شروع کیا۔……………..چونکہ یہ سب تبدیلیاں اچانک ظہورپذیر ہوئیں، اس لیے یہ جھٹ پٹ کے نام سے مشہور ہوا‘‘۔

میرساگر:ؔ کراچی میں اگر فقط شاعری کے معیار کو بنیاد بنا کر نئی نسل کے چُنیدہ شعراء کی فہرست مرتب کی جائے تو میرساگر یقیناً اس میں شامل ہوگا جس نے اپنی مادری زبان بلوچی سے زیادہ اردو زبان میں شعر اور ہائیکو کہہ کر قومی زبان سے اپنی محبت کا ثبوت دیا اور مسلسل دے رہا ہے۔ اُس نے ماضی میں خاکسار کی چند اُردوہائیکو بلوچی میں ترجمہ کرتے ہوئے میرے بارے میں ایک بلوچی ادبی جریدے میں مضمون لکھا تھا۔ اُس کے اردو مجموعہ کلام ’’ریگزارِ طلب‘‘ کے بعد، بلوچی شاعری کا مجموعہ ’’ہما اِنت توکہ رپتگ ئے‘‘ بھی شایع ہوچکا ہے۔ دیگر کتب میں ’’سبزیں لیڑیں نیلیں زر‘‘ شامل ہے۔

آنسہ زاہدہ رئیسی راجیؔ: اردو شاعرہ، افسانہ نگار، مضمون نگار، مترجم، سماجی کارکن اور کمپیوٹر ماہر، آنسہ زاہدہ رئیسی راجی کو اندرون ملک ہی نہیں، عالمی سطح پر بھی، شاعری کے ساتھ ساتھ، لسانی تحقیق کے باب میں امتیاز حاصل ہوا۔ وہ بلوچی زبان کے مختلف لہجوں پر تحقیق کررہی ہیں، اہل زبان اور دیگر کو بہت وقیع معلومات، آن لائن فراہم کرتے ہوئے2005ء سے اپنی زبان، ادب وثقافت کی تعلیم کے لیے www.baask.comجیسی منفرد ویب سائٹ چلارہی ہیں۔ اُن کا اردو شعری مجموعہ ’’خواب گھروندہ‘‘، بلوچی افسانوں کا مجموعہ ’’بے کسّہ ئَ من ئَ واب نئیت‘‘ اور بلوچی ناولٹ ’’پاد ئِ چیر ئِ زمین‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں، جبکہ اُن کی غیرمطبوعہ کتب میں بلوچی ناول ’’تو کہ زندئِ درورئے‘‘، بلوچی مضامین ومقالات کا مجموعہ ’’دومی پھنات‘‘، انگریزی کتب میں A Comprehensive Guide to understand Balochi language اور کمپیوٹر کی تدریس سے متعلق انگریزی لیکچرز کا مجموعہ شامل ہیں۔ اور دیگر اعزازات کے علاوہ 2014ء میں اُپسالا یونیورسٹی، سوئیڈن کی جانب سے منعقد ہونے والی انٹرنیشنل لینگوئج کانفرنس میں بطور ماہر لسان شرکت کرکے وطن عزیز کا نام روشن کرچکی ہیں۔

لیاری کے روشن چہروں میں ممتاز سماجی کارکن وصحافی جناب شبیر احمد ارمان بھی شامل ہیں جو ایک عرصے سے بلدیہ جنوبی کے رسالے ’صدائے جنوبی‘ کی ادارت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ، روزنامہ ایکسپریس میں مستقل کالم لکھتے ہیں۔ وہ ادبِ اطفال میں اپنا حصہ شامل کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان وثقافت اجاگر کرنے کے لیے بلوچی ٹیلیوژن چینل ’وَش‘ پر کئی مرتبہ انٹرویو دے چکے ہیں۔ اُن کی غیرمطبوعہ کتب میں ’’لیاری کی داستان‘‘،’’کراچی: ماضی ، حال اور مستقبل‘‘ اور ’’افکارِ اَرمان‘‘شامل ہیں۔

ظہیر ظرف جیسے جواں سال بلوچ شعراء کو بہ سرعت تمام ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوش گوار حیرت ہوتی ہے۔ خاکسار کی سفارش پر 2013ء میں پہلی بار اُردو ہائیکو مشاعرے میں شرکت کرنے والے بعض سینئر شعراء کے ساتھ اُس نے بھی بہت داد حاصل کی۔ وہ حب سے کراچی آکر بطور بلوچی مترجم اور بلاگر دو مختلف ٹیلیوژن چینلوں میںملازمت کرچکا ہے۔گُوادَر سے متعلق اُس کی بنائی ہوئی مختصر فلم نے اعزازات پائے اور ان دنوں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے تجربے کے بعد، اپنا کاروبار کررہا ہے۔

میں ان بلوچ اہل قلم کی مساعی کو خراج تحسین وعقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے ’’اردوگو‘‘ اہل قلم سے گزارش کرتا ہوں کہ و ہ بھی اپنے بعض بزرگوں کی طرح، بلوچی زبان سیکھ کر، اپنے بھائیوں کے آہنگ میں ادب تخلیق کریں۔

مآخذ

ا)۔ لیاری کی ادھوری کہانی۔ از محمد رمضان بلوچ، ناشرARM Child & Youth Welfare، لیاری (کراچی):مئی 2015ء

ب)۔ لیاری کی اَن کہی کہانی۔ از محمد رمضان بلوچ، ناشرراحیل پبلیکیشنز، اردوبازار (کراچی): دسمبر 2017ء

ج)۔ بلوچ روشن چہرے۔از محمد رمضان بلوچ، ناشرمستاگ فاؤنڈیشن، کراچی : جنوری 2019ء

د)۔’’بلوچی زبان کے مختلف لہجے‘‘ (مقالہ) از آنسہ زاہدہ رئیسی راجی ؔ ، نیز نجی گفتگو

ہ)۔  بلوچی ادب از پناہ بلوچ

و)۔  بلوچی ہائیکو نگاری کا جائزہ ازڈاکٹر محسن بالاچ،مشمولہ ہائیکو انٹرنیشنل، (شمارہ دہم بابت جون تا دسمبر 2009ء )، مدیر وناشر: سہیل احمدصدیقی

ز)۔ ۹ زبانی لغت از پروفیسر عبدالعزیز مینگل، ناشر اُردو سائنس بورڈ، لاہور۔طبع دوم: 2020ء

ح)۔ تاریخ بلوچستان از میر گل خان نصیر

ط)۔’’بلوچی اور پنجابی کے مشترک الفاظ‘‘ از نوید رضا خان

ی)۔ بلوچی زبان از پناہ بلوچ

ک)۔ بلوچی زبان وادب کا ارتقاء از ڈاکٹر شاہ محمد مری

ل)۔ بلوچستان میں اردو کا اولین مشاعرہ از آغاگل

م)۔ بلوچستان میں اردو ازڈاکٹر انعام الحق کوثر

ن)۔ بلوچی زبان واد ب از شاہ محمد مری

س)۔ لوز گنج: بلوچی، سندھی، براہوئی، اردو لغت از پناہ بلوچ

ع)۔ ’’عالمی اُردو کانفرنس کا دوسرا دن: ’’دبستان اردو اور بلوچ شعرا‘‘ کے موضوع پر گفتگواَزاختر علی اختر

ف)۔ اُردو اور بلوچی کا سنگم تحریر: داؤ د کیف

ص)۔ بلوچی اردو لغات از مٹھا خان مری

ق)۔ تذکرہ صوفیائے بلوچستان از ڈاکٹر انعام الحق کوثر

ر)۔ ریگزارِ طلب (مجموعہ کلام) از میرساگررحمان

ش)۔ اردو بلوچی لغت از مٹھا خان مری وعطا شاد

ت)۔ بلوچستان میں قیام پاکستان سے قبل کی اردوشاعرات اَز فرزانہ خدرزئی ، اسسٹنٹ پروفیسر، گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج،کوئٹہ

The post زباں فہمی نمبر189؛ اردو اور بلوچی کا باہمی تعلق appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>