کیا زمانہ تھا جب نو من تیل میسر آنے کی شرط پوری ہونے پر ہی ناچنے کی فرمائش پر عمل کیا جاتا تھا، اب تو یہ عالم ہے کہ ایک لیٹر پیٹرول پر بھی ’’جب تک ہے دَم میں ناچوں گی‘‘ کے گانے پر جسے چاہو گھنٹوں نچوالو، بلکہ سنا ہے آٹھ دس ٹھمکے تو پیٹرول کی بو سنگھا کر بھی لگوائے جاسکتے ہیں۔
پاکستان کی نئی نویلی نگراں حکومت نے آتے ہی پیٹرول کی قیمت میں سترہ اور ڈیزل کے نرخ میں بیس روپے کا اضافہ کرکے بتادیا ہے کہ ’’ہم آگئے، اب گرمیٔ بازار دیکھنا‘‘ یعنی لگتا ہے عوام کو تگنی کا ناچ نچانے کی پوری تیاری ہے، جو دراصل جیب اور مال کی تنگی پر غصے سے کی جانے والی اچھل کود پر مبنی ہوگا۔
بھئی بات یو ہے کہ نون کے وزیراعظم کی رخصتی کے بعد جو حکومت آئی ہے اسے کہا تو نگراں حکومت جارہا ہے، لیکن درحقیقت یہ نون کے بغیر صرف ’’گراں‘‘ حکومت ہے، جس کا کام ہی گرانی بڑھانا قرار پایا ہے۔ اگرچہ بتایا یہ جاتا ہے کہ یہ عارضی حکم راں انتظامی معاملات انتخابی عمل کی نگرانی کے لیے لائے گئے ہیں، مگر ابھی پچھلی حکومت کا کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا۔
اس کی عدت بھی پوری نہیں ہوتی تھی اور آنے والوں کے ہاتھ بھی کالے نہیں ہوئے تھے کہ انھوں نے آتے ہی پیٹرول اور ڈیزل کے دام بڑھا دیے، جس سے ثابت ہوا کہ یہ حکم راں نگرانی کریں گے کہ کہیں عام آدمی کے بینک اکاؤنٹ، جیب، نیفے، الماری کے خانے، میز کی دراز اور گھر کے کسی کونے کھدرے میں کوئی بچایا ہوا روپیہ محفوظ تو نہیں رہ گیا؟ جہاں تک نگراں حکومت کے عارضی ہونے کا تعلق ہے تو ہمارے ملک میں عارضی کو عارضہ ہوکر مدت طویل کرتے دیر نہیں لگتی، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگراں حکومتیں سامنے کی مثالیں ہیں، سو ہم خبردار کردیں کہ نگرانی کی لمبائی اور گرانی کی اونچائی بڑھ سکتی ہے۔
شہبازشریف صاحب اور ان کے اتحادیوں کی جماعت کو چوں کہ انتخابات میں حصہ لینا ہے، چناں چہ پیٹرول، بجلی اور گیس وغیرہ کے نرخوں میں اضافہ کرتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو آجایا کرتے تھے، ہم نے تو یہاں تک سُنا ہے کہ ایک دو بار قیمتیں بڑھاتے ہوئے شہبازشریف ’’کِھلکِھلا کَر‘‘ رو بھی پڑے تھے، بڑی مشکل سے انھیں علامہ اقبال کے بعدازمرگ فیس بک پر کہے جانے والے یہ اشعار سُنا کر چُپ کرایا گیا تھا:
تو شہباز ہے سو نہیں بھاتا تجھ کو
مری جاں مگرمچھ کے آنسو بہانا
یہ تیل اور بجلی کی قیمت بڑھانا
لُہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
جس کے بعد وہ جیب پلٹ کر رومال جھپٹتے اور آنسو پونچھ اور ہچکیاں روک کر نرخ بڑھنے کی دستاویز پر دستخط کردیتے تھے۔ وہ تو کپڑے بیچ کر آٹا سستا کرنے پر بھی تیار تھے، لیکن انھیں سمجھایا گیا مہنگائی سے نڈھال عوام ایسے کسی روح فرسا منظر کی تاب نہ لا پائیں گے، یہ سُن کر انھوں نے ارادہ بدل دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے نہیں عوام کے کپڑوں کی بات کی تھی، جو سچ کر دکھائی۔ یعنی یہ تو طے ہوا کہ وہ وعدے اور ارادے کے پکے ہیں۔
شہبازشریف کے پاس آنسوؤں کے علاوہ ایک عدد پتھر بھی تھا، جسے قیمتیں بڑھاتے ہوئے وہ دل پر رکھ لیا کرتے تھے۔ یہ عوام اور ملک کی فلاح کے لیے حقیقی اصلاحات کا وہ بھاری پتھر نہیں تھا جسے ہر حکومت چوم کر رکھ دیتی ہے، بلکہ اکثر حکم راں تو اس پتھر کو چومنے سے بھی گریزاں رہتے ہیں کہ کہیں اس عمل کی وڈیو وائرل ہوگئی تو پتھر سے چوماچاٹی کے الزام میں فحاشی کے مرتکب قرار نہ پاجائیں۔
یہ وہ پتھر ہے جسے قیمتیں بڑھاتے ہوئے جیسے ہی دل پر رکھا جاتا دل یکایک سنگ دل ہوجاتا۔ یہ پتھر مہنگائی بڑھانے کے علاوہ آئی ایم ایف سے معاہدے پر دستخط کرنے، روٹھے سیاسی اتحادیوں کو مناتے ہوئے اور نگراں وزیراعظم کی تقرری کے وقت زیربحث ناموں کے درمیان ’’اچانچک‘‘ طے شدہ نام آنے اور اسے منظور کرتے ہوئے بھی کام آتا رہا ہے۔
نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور ان کی حکومت کو انتخابات میں حصہ نہیں لینا، اور کبھی لیا بھی تو رائے دہندگان سے کیا لینا دینا، انھیں ان کا حصہ مل ہی جائے گا، لہٰذا انھیں نرخ بڑھاتے ہوئے نہ آنسو بہانا پڑتے ہیں نہ دل پر پتھر رکھنے کی ضرورت ہے۔
شنید ہے کہ ان کے پاس ایسا کوئی پتھر ہے بھی نہیں، شہبازشریف صاحب جاتے جاتے یہ پتھر بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ ہماری ان سے درخواست ہے کہ یہ پتھر اب ان کے کس کام کا؟ شریف آدمی ہیں پتھراؤ تو کریں گے نہیں، پتھر سے سر پھوڑنے جیسی حرکتیں بھی وہ نہیں کرتے، تو انھیں چاہیے کہ اس پتھر کے ٹکڑے کرکے عوام میں بانٹ دیں، پیٹ پر باندھنے کے کام آئیں گے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ شہبازشریف وہ پتھر ساتھ کیوں لے گئے؟ چھوڑ جاتے تو شاید نگراں وزیراعظم استعمال کر ہی لیتے، یوں پیٹرول اور دیگر اشیاء کے نرخ بڑھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے جب دل پر پتھر رکھتے ہوئے ان کے دل پر دباؤ بڑھتا تو شاید وہ ’’تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن‘‘ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے قیمتیں کچھ کم بڑھاتے۔
یہ سوال کرنے والے اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ سیاست کی طرح نگراں حکومت کے سینے میں بھی دل نہیں ہوتا، وہاں پہلے ہی پتھر رکھا ہوتا ہے۔ اس لیے ممکن ہے شہبازشریف نے انھیں پتھر دینا چاہا ہو لیکن جواب ملا ہو ’’نئیں چئیدا، ساڈے کول اپنا ہے گا۔‘‘
یہ تو نگراں حکومت کا پہلا تحفہ ہے، انوارالحق کاکڑصاحب نے جس طرح اپنا منصب سنبھالتے ہی پیٹرول کی قیمتیں بڑھائی ہیں اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ ان کے دورِنگرانی میں ہم پاکستانیوں کے وقتاًفوقتاً ایسے تحفے ملتے رہیں گے اور کاکڑ صاحب کے منصب سنبھالتے ہی لڑکھڑا جانے والے عوام سنبھل نہیں پائیں گے۔ پھر ہوگا بس یہ کہ موصوف تاریخ میں نگراں وزیراعظم کے بجائے گراں وزیراعظم کے نام سے یاد رکھے جائیں گے، بشرطے کہ یاد رکھنے کے لیے عوام زندہ بچ جائیں۔
The post نگراں نہیں ’’گراں‘‘ حکومت appeared first on ایکسپریس اردو.