4مئی 23ء کو بھارتی میڈیانے یہ دھماکا خیز انکشاف کیا کہ بھارت میں عسکری سائنس وٹکنالوجی کے سب سے بڑے سرکاری ادارے، ڈرڈو(Defence Research and Development Organisation) سے منسلک نہایت سینئر سائنس داں، پردیپ کرولکر کو پونہ میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ نے گرفتار کر لیا ہے۔
پردیپ پر الزام تھا کہ اس نے پاکستان کی ایلیٹ خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کو بھارتی ہتھیاروں کی حساس و اہم عسکری معلومات فراہم کر دی ہیں۔اس سے تفتیش جاری ہے۔
سن ژی جنگی حکمت عملی کا ممتاز ماہر گذرا ہے۔ ڈھائی ہزار سال پہلے چین کے بادشاہ کا مشیر تھا۔اس نے جنگی حکمت عملی کے سلسلے میں اپنے مشورے ایک کتاب ‘The Art of War’ (فنون جنگ) میں جمع کر دئیے ۔وہ ایک جگہ لکھتا ہے:’’دوران جنگ عظیم ترین فتح وہ ہے جس کے لیے لڑائی نہ لڑنا پڑے۔‘‘ ہماری خفیہ ایجنسی نے بھی بغیر لڑے ایک ایسی عظیم فتح پائی کہ دشمن حیران پریشان ہو گیا اور بھارتی حکمران طبقے کی صفوں کی کھلبلی مچ گئی۔
بھارت کی برّی فوج اور پورا دفاعی سیٹ اپ آئی ایس آئی کے وار سے ہل کر رہ گیا۔اس زبردست فتح پر آئی ایس آئی کے بہادروں کو مبارک باد جو دن رات وطن عزیز کی حفاظت و دفاع پہ مامور اور دشمن کو کمزور کرنے کی تگ ودو میں محو رہتے ہیں۔
ایک طاقتور دشمن
آئی ایس آئی کا مقابلہ ویسے بھی بڑے طاقتور عدو سے ہے۔بھارت کا دفاعی سیٹ اپ یا نظام دنیا کی دوسری بڑی سیکورٹی فورسز پر مشتمل ہے۔باقاعدہ افواج، نیم فوجی (پیراملٹری)فورسز اور پولیس فورس ملا کر بھارتی سیکورٹی فورسز ’’پچاس لاکھ‘‘ سے زائد نفری رکھتی ہیں۔پھر اس دفاعی نظام سے لاکھوں سویلین بھی منسلک ہیں جو اسلحہ سازی، جاسوسی کرنے اور دیگر متعلقہ خدمات انجام دینے میں مسلح افواج اور نیم فوجی دستوں کی مدد کرتے ہیں۔
بیرون ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے جاسوسوں سے بھارتی سیکورٹی فورسز کے لاکھوں افسروں و سپاہیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی باقاعدہ نگران سرکاری ادارے موجود ہیں۔ان اداروں سے ایک لاکھ سے زائد تربیت یافتہ جاسوس و سراغ رساں منسلک ہیں۔
نگرانی وجاسوسی کے بھارتی اداروں سے وابستہ یہ مردوزن جدید ترین آلات کی مدد سے دفاعی سیٹ اپ میں شامل لاکھوں افراد کی نجی وسرکاری سرگرمیوں پہ کڑی نظر رکھتے ہیں۔مقصد یہی کہ وہ بیرون ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ کر اہم وحساس نوعیت کی عسکری معلومات انھیں فراہم نہیں کر سکیں۔
بھارتی حکومت دفاعی سیٹ اپ کا حصہ بنے لاکھوں افراد کی نگرانی وجاسوسی پر سالانہ اربوں روپے خرچ کرتی ہے ۔یہ رقم خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں کی تنخواہوں، جدید ترین آلات کی خرید ، ملازمین کی اعلی تعلیم وتربیت اور سرگرمیوں پر خرچ ہوتی ہے۔
ڈرڈو کیا ہے؟
بھارت میں DRDO (ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن) ’’ڈرڈو‘‘ نت نئے ہتھیار بنانے کے سلسلے میں تحقیق وتجربات کرنے والا سب سے بڑا سرکاری ادارہ ہے۔اس سے پانچ ہزار سے زائد سائنس داں، انجینئر اور دیگر ہنرمند وابستہ ہیں۔جبکہ مزید پچیس ہزار مردوزن ادارے کی متنوع سرگرمیاں انجام دیتے اور سبھی کام مکمل کرتے ہیں۔یہ ادارہ ’’52‘‘لیبارٹریوں اور تحقیقی اداروں پر مشتمل ہے۔
ہر قسم کے بھارتی میزائیل، جنگی طیارے، توپیں، ٹینک، جنگی بحری جہاز،ریڈار، بکتربند گاڑیاں، بم، راکٹ غرض کہ ہمہ اقسام کا اسلحہ اسی ادارے، ڈرڈو کے ماہرین کی زیرنگرانی ایجاد وتیار ہوتا ہے۔ڈرڈو کے سائنس دانوں کو غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کی دسترس سے محفوظ رکھنے کے لیے بھارتی حکومت نے بڑا مربوط نگرانی نظام بنا رکھا ہے۔
یہ ’’ڈرونا‘‘(DRONA)کہلاتا ہے جو ڈرڈو کی حدود میں رہ کر ہی تمام اہم ماہرین کی سرگرمیوں پہ گہری نظر رکھتا ہے۔ڈرونا کے نگرانی نظام سے تین تا چار ہزار نہایت تربیت یافتہ سراغ رساں منسلک ہیں ۔یہ سبھی ڈرڈو کے سائنس دانوں اور دیگر ماہرین کی سرگرمیوں پہ چوبیس گھنٹے چوکیداری کرتے ہیں۔
وجہ یہی کہ یہ سائنس داں بہت اہم ہیں: جدید ترین اور نئے بھارتی ہتھیار بنانے کی خاطر تحقیق و تجربات کرتے ہیں۔ان کے سینوں میں حساس عسکری معلومات دفن ہوتی ہیں جو خصوصاً معاصر ممالک کی حکومتوں کے ہاتھ لگ جائیں تو وہ ان سے بے پناہ فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔مثلاً یہ کہ ایک بھارتی ہتھیار کی کمزوریاں کیا ہیں اور فوائد کیا کیا !اسی لیے ڈرڈو کے ماہرین کی سرگرمیوں کی مسلسل نگرانی ہوتی ہے۔
غیرمعمولی مہارت
یہ آئی ایس آئی کے جان بازوں کی شاندار ہنرمندی، کمال چابک دستی اور ذہانت ہے کہ انھوں نے نہ صرف ڈرونا کے انتہائی کڑے وسخت نگرانی نظام میں دراڑ ڈالی بلکہ اندر داخل ہو کر ایسے سائنس داں کو پھانسنے میں کامیاب رہے جو ڈرڈو میں اپنی اعلی قابلیت، تجربے اور بے مثال صلاحیتوں کے باعث نہایت عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
اس سائنس داں سے آئی ایس آئی کو بھارتی میزائلوں کی ڈیزائنگ اور طریق عمل کے بارے میں اہم وقیمتی معلومات حاصل ہوئیں۔اس یادگار کامیاب آپریشن سے افشا ہوتا ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسی کے مجاہد ماہرین اپنے کام میں کتنی عرق ریزی دکھاتے اور اپنے ٹاسک انجام دینے میں غیرمعمولی مہارت رکھتے ہیں۔وطن سے محبت یقیناً ان کی صلاحیتوں و ارادوں کو تقویت بخشتی ہے۔
شاطر بھارتی حکمران طبقہ
پاکستان کی بھارتی عوام سے کوئی لڑائی نہیں، ہم تو چاہتے ہیں کہ برصغیر ہندوپاک میں امن ہو اور کروڑوں بھارتی عوام غربت، جہالت اور بیماری سے نجات پائیں۔لیکن بھارت کا معتصب ،مغرور اور انتہا پسند حکمران طبقہ مسلم و پاکستان دشمن ہے۔وہ پاکستان کو بھارت میں ضم کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ بھارتی اشرافیہ مسلسل سرزمین پاک کے خلاف سازشیں کرنے میں محو رہتا ہے تاکہ پاکستان کو کمزور کیا جا سکے۔اس کاایک بڑا گھاؤنا منصوبہ دنیائے انٹرنیٹ میں پاکستان اور پاکستانی افواج کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلانا اور پروپیگنڈا کرنا ہے۔
اسی لیے ہماری ایلیٹ خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی بھی وقتاً فوقتاً بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کارروائیاں کر کے اسے خبردار کرتی ہے کہ وہ پاکستان کو ترنوالہ کبھی نہ سمجھے۔بھارت مملکت پاک سے ٹکرایا تو ہندوتوا کے نام لیوا بھی نہیں بچیں گے۔
ڈرڈو کے انتہائی سینئر اور ناقابل رسائی سمجھنے جانے والے سائنس داں کو ٹارگٹ کر کے آئی ایس آئی نے بھارتی حکمران طبقے کو یہی پیغام دیا کہ وہ اپنی معاشی ترقی سے مغرور و آپے سے باہر نہ ہو، پاکستانی دفاعی فورسز پاکستان کا دفاع کرنے میں پوری طرح چوکس وتیار ہیں۔
ڈرڈو کے سینئر سائنس داں کو پھانسنا ایلیٹ پاکستانی خفیہ ایجنسی کا ایسا کارنامہ ہے جو تادیر یاد رکھا جائے گا۔اس کے ذریعے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو یہ اہم پیغام بھی ملا کہ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے سے باز رہے۔
اگر کوئی شرانگیزی ہوئی تو بھارت میں بھی آگ وخون کا کھیل شروع ہو جائے گا…کیونکہ پاکستانی خفیہ ایجنسیاں سرزمین بھارت کے چپّے چپّے تک رسائی رکھتی ہیں۔اور اس امر کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے بھی ڈرڈو کے اعلی سائنس داں کو نشانہ بنایا گیا۔سچ یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے اس خفیہ آپریشن نے بھارتی جرنیلوں کی سٹی گم کر دی جو بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا سب سے طاقتور عنصر ہیں۔
پردیپ کے کارنامے
59 سالہ پردیپ کرولکر ڈرڈو میں اپنے تجربے اور بہترین صلاحیتوں کی وجہ سے مشہور تھا۔اسے مثالی سائنس داں سمجھا جاتا۔ نئے آنے والے نوجوان ماہرین اکثر اسے اپنی ’’آئیڈیل شخصیت ‘‘قرار دیتے۔اس کی بیوی ڈاکٹر ہے اور بیٹا موسیقار، گویا اس کا گھرانا بڑا گوناں گوں ہے۔پردیپ لڑکپن سے انتہا پسند ہندو تنظیم اور نئے مذہب، ہندوتوا کی بانی ، آر ایس ایس کا رکن چلا آ رہا ہے۔پردیپ بنیادی طور پہ الیکٹریکل انجیئنر ہے۔
اپنے شعبے میں ڈاکٹریٹ کر چکا۔ 1988ء میں ڈرڈو کا حصّہ بنا۔اس نے پھر میزائیلوں اور دیگر ہتھیاروں کی ڈیزائننگ اور ڈویلپنگ کی سائنس کا عمیق مطالعہ کیا۔اسی لیے وہ ڈرڈو کے ایجاد کردہ تمام اسلحہ جات کے منصوبوں میں شامل رہا۔ڈرڈو کی ویب سائٹ سے اس کا پروفائل ختم کیا جا چکا مگر بھارتی میڈیا میں اس کے کارناموں کا چرچا ہے۔بھارتی میڈیا کی رو سے:
٭…پردیپ بھارت کے ان گنے چنے سائنس دانوں میں شامل ہے جو افواج بھارت کی صلاحیتوں، ہتھیاروں اور دیگر عسکری آلات کے بارے میں اہم و حساس معلومات جانتے ہیں۔
٭…اس نے نومبر 23ء میں ریٹائرڈ ہو جانا تھا۔ڈرڈو میں وہ ایچ (H) گریڈ کا سائنس داں تھا جو ادارے کی درجہ بندی کے لحاظ سے اعلی ترین عہدہ ہے۔ ایچ درجے کی بھی دو کیٹگریاں ہیں: آوٹ اسٹینڈنگ اور ڈسٹینگویشیڈ (distinguished) سائنس داں۔پردیپ پہلی کٹیگری میں شامل تھا۔
٭…وہ ڈرڈو میں ’’ٹیم لیڈر‘‘اور اسلحہ جات کی تیاری کے سلسلے میں ’’لیڈ ڈیزائنر‘‘کی حیثیت رکھتا تھا۔وہ ایسا ’’ٹاسک ماسٹر‘‘تھا جو مسائل حل کرنے میں مہارت رکھتا ۔کئی ہنروں میں طاق ماہر اور ’’ہر فن مولا‘‘قسم کا افسر تھا۔
٭…2005ء میں ڈرڈو نے ایک تھنک ٹینک، جی۔ فاسٹ بنایا جو’’ گروپ آف فارکاسٹنگ سسٹم اینڈ ٹیکنالوجیز‘‘ کا مخفف ہے۔یہ گروپ بنانے کا مقصد یہ تھا کہ بھارت میں تحقیق و تجربات سے جدید ترین ہتھیار بن سکیں۔ڈرڈو کے تب چھ ہزار سائنس دانوں اور انجینئروں میں سے بارہ ماہرین منتخب کر کے گروپ کے رکن بنائے گئے۔ ان میں پردیپ بھی شامل تھا۔
٭…پردیپ پچھلے پچیس سال کے دوران ڈرڈو کی ہر لیبارٹری اور ذیلی ادارے میں کام کر چکا۔اس لیے وہ خوب جانتا تھا کہ ہر لیبارٹری میں کیونکر کام ہوتا ہے۔
٭…اپریل 2023ء تک پردیپ پونہ میں واقع ڈرڈو کی نہایت اہم لیبارٹری، ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ اسٹیبلشمنٹ انجینئرز (Research & Development Establishment (Engineers))کا سربراہ تھا۔اس ادارے میں بھارتی بری فوج، فضائیہ اور بحریہ کے لیے بننے والے تمام ہتھیار تجربوں کے مراحل سے گذرتے ہیں۔اس باعث پردیپ خوب جانتا تھا کہ نئے بھارتی ہتھیاروں کی صلاحیتیں(capabilities)،حد مار(range)،انھیں افواج میں شامل کرنے کا وقت(deployment) اور متعین شدہ جہگیں (locations) کون سی ہیں۔ سب سے بڑھ کر وہ سبھی نئے ہتھیاروں کی ’’پرابلم ڈیفینیشن اسٹیٹمنٹس‘‘ (problem definition statements )سے آگاہ تھا۔ یہ وہ انتہائی خفیہ دستاویز ہیں جن میں نئے ہتھیاروں کی خامیاں اور نقائص تفصیل سے لکھے جاتے ہیں۔
٭…پردیپ زمین سے فضا میں مار کرنے والے بھارتی میزائل ’’آکاش‘‘ کے منصوبے کا لیڈر اور سسٹم مینجر رہا۔گویا وہ آکاش میزائیل بنانے والی ٹیم کا بنیادی کردار تھا۔اس نے آکاش کو ڈیزائن کرنے اور میزائیل کی تیاری میں اہم حصہ لیا۔ میزائیل کے لانچر بھی پردیپ کی نگرانی میں تیار ہوئے۔آکاش میزائیل کی تیاری پردیپ کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔
٭…اگنی بلاسٹک میزائیلوں کی تیاری میں بھی پردیپ نے اہم کردار ادا کیا۔ اس نے ریل اور زمین سے چھوڑے جانے والے اگنی میزائیلوں کے لانچر اور گراؤنڈ سسٹم بنائے۔
٭…27 مارچ 2019ء کو پردیپ کی زیرقیادت ہی ’’آپریشن شکتی‘‘انجام پایا۔ یہ اس کا دوسرا بڑا کارنامہ مانا جاتا ہے۔اس منصوبے کے تحت خلائی سیاروں (سیٹلائٹس) کو تباہ کرنے والے میزائیل کا تجربہ کیا گیا تھا۔اس میزائیل کا ڈیزائن پردیپ ہی کی زیرنگرانی تیار ہوا۔نیز اس نے اپنی قیادت میں میزائیل لانچر صرف تین ماہ کی قلیل مدت میں تیار کر لیا تھا۔
٭… پردیپ عسکری سائنس وٹیکنالوجی کے مختلف پیچیدہ شعبوں پر دسترس رکھتا تھا۔ان میں ہائی پرفارمنس، ہائی ۔ پاور سرور۔ ڈرائیو ٹیکنالوجی، الیکٹرک پروپلویشن ٹیکنالوجی، میزائیل کینیسٹر ٹیکنالوجی، آٹونومس نیویگیشن ٹیکنالوجی برائے بے ڈرائیور وہیلز اور انٹیلیجنٹ روبوٹک مینیپولٹرز برائے خطرناک ملٹری ایپلیکیشنز نمایاں ہیں۔
ٹھرکی بڈھا
پردیپ کرولکراپنے حلقہ احباب میں’’ گھریلو مرد‘‘کی حیثیت سے مشہور تھا۔وہ عام لوگوں سے کم ہی ملتا۔ڈرڈو میں ملنے جلنے والے اسے شریف آدمی سمجھتے تھے جو زن ، زر اور زمین سے کوئی رغبت نہیں رکھتا۔صرف اس کے چند قریب ترین دوست جانتے تھے کہ وہ ایک ٹھرکی بڈھا ہے۔ خواتین کی محفل میں چہک کر اسے لطف آتا ۔اسے اپنی تعریفیں کرانے کا بھی شوق تھا۔
اب یہ سربستہ راز ہے کہ آئی ایس آئی کو کیسے معلوم ہوا کہ بھارت کا یہ سینئر سائنس داں صنف نازک میں دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ پردیپ آر ایس ایس کا رکن ہونے کے ناتے کافی مذہبی بھی تھا۔ تنظیم کے تحت منعقد ہونے والے مذہبی پروگراموں میں اکثر شرکت کرتا ۔
لہذا یہ جاننا آسان نہیں تھا کہ زن ، زر اور زمین میں سے زن اس کی کمزوری ہے۔اس امر سے افشا ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی بھارتی اسٹیبلشمنٹ میں کتنی دور تک رسائی رکھتی ہے۔حتی کہ اس نے بھارت کے چوٹی کے عسکری سائنس داں کی ایک کمزوری کا پتا لگا لیا۔
بہرحال حالات و واقعات سے آشکارا ہے کہ جب پاکستانی خفیہ ایجنسی کو پردیپ کی کمزوری کا علم ہوا تو اس نے اسے اپنے جال میں پھانسنے کے لیے جال بچھا دیا۔ اس ضمن میں سوشل میڈیا کا سہارا لیا گیا جہاں پردیپ بھی سرگرم تھا۔وہیں گھومتے پھرتے اس کی ستمبر 22ء میں زارا داس گپتا سے ملاقات ہوئی جس نے اپنے پروفائل میں بڑی پُرکشش تصویر لگا رکھی تھی۔پردیپ صاحب کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ یہ زارا دراصل آئی ایس آئی کی ایجنٹ ہے۔
اگر ایسا خیال آیا بھی تو وہ زارا کے حسن وجمال کی خیرہ کن روشنی میں زائل ہو گیا۔زارا نے اسے بتایا کہ وہ لندن میں رہتی اور پردیپ کے کارناموں کی مداح ہے جو وطن کی خاطر سرگرم ہے۔دونوں کے درمیان پہلے ای میلوں سے باتیں ہوئیں۔پھر پردیپ نے اسے اپنا وٹس اپ نمبر دے دیا۔ اب وٹس اپ ذریعہ ِجنبانی بن گیا۔رفتہ رفتہ آڈیو وڈیو کالیں بھی ہونے لگیں۔
یہ سب کچھ بعد ازاں پردیپ سے تفتیش کے دوران سامنے آیا۔غرض زارا نے نسوانی نازوادا کی مدد سے پردیپ کو گھیر لیا۔ ایسے مرد ان واروں سے بچ نکلنے کا دل گردہ نہیں رکھتے۔(گو یہ بھی امکان ہے کہ تصویر کے ذریعے اور بذریعہ ای میل جس زارا نے پردیپ کو اپنے دام میں پھنسایا ، وہ کوئی خاتون نہیں آئی ایس آئی کا گھاگ جان باز ہو)
بھارتی خفیہ ایجنسیوں کو یقین ہے کہ زارا سے سلسلہ جنبانی قائم کر کے پردیپ نے ڈینگیں مارنے کے لمحات میں بھارت کے نئے پرانے ہتھیاروں کی بابت اسے کافی کچھ بتایا ہو گا۔نیز آئی ایس آئی کی ماہر ایجنٹ نے باتوں باتوں میں بھی پردیپ سے حساس معلومات اگلوائی ہوں گی۔
اپنے کارناموں پہ فخرمند بوڑھا سرمستی و سرشاری کے عالم میں اپنی محبوبہ کو بھارتی افواج کے راز بھی بتاتارہا ۔ عشق بلاخیز چیز ہی ایسی ہے کہ اچھے بھلے انسان کو ہوش وخرد سے بیگانہ کر دیتی ہے۔
حیرت انگیز و دلچسپ بات یہ کہ ڈرڈو کے ماہرین کی نگرانی پہ مامور خفیہ ایجنسی، ڈروناکو چار ماہ بعد جا کر پتا چلا کہ پردیپ تو پاکستانیوں کے جال میں پھنس چکا۔شاید انھیں توقع نہیں تھی کہ پردیپ جیسا شریف بوڑھا ایک قتالہ کی زلفوں کا اسیر بن کر اسے پوجنے لگے گا۔مذید تعجب خیز بات یہ کہ تب بھی پردیپ کو گرفتار نہیں کیا گیا، بس اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جانے لگی۔
دراصل یہ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد پردیپ کرولکرکی سرگرمیوں کا ریکارڈ چیک کیا گیا تو منکشف ہوا کہ وہ ڈرڈو کے گیسٹ ہاؤس واقع نئی دہلی میں کچھ عورتوں سے ملاقاتیں کرتا رہا ہے۔تبھی بھارتی خفیہ ایجنسیوں کو شک ہوا کہ دہلی میں پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی کوئی ایجنٹ موجود ہو سکتی ہے۔اسے پکڑنے کے لیے ہی پردیپ اور زارا کی پیغام رسانی کو ڈھیل دی گئی۔مگر جب پاکستانی جاسوسہ ہاتھ نہ آئی تو 3 مئی 23ء کو پردیپ قانون کی گرفت میں آ گیا۔یہ بھی ممکن ہے کہ وہ زارا کو بھارتی ہتھیاروں کے متعلق اہم معلومات دینے لگا ہو۔
لہذا پانی سر پر سے گذرنے سے قبل ہی اسے کو دبوچ لیا گیا۔اس حیران کن اور عجیب وغریب واقعے سے بھارتی عوام وخواص کو سب سے پہلے یہی پتا چلا کہ وہ جس سائنس دان کو اپنا ہیرو اور آئیڈئیل مانتے ہیں ، اصل میں وہ ٹھرکی بڈھا ہے جسے کوئی بھی حسینہ اپنی انگلیوں کے اشاروں پر نچا سکتی ہے۔
پھنسانا آسان نہیں تھا
یہ بھی مگر سچ ہے کہ محض تصویر سے پردیپ جیسے کائیاں بڈھے کو پھنسانا آسان نہیں تھا۔پہلے تو آئی ایس آئی کے اس ایجنٹ یا جاسوسہ نے کمال مہارت دکھائی جس نے پردیپ سے سلسلہ ِجنبانی کا آغاز کیا۔
یقیناً پیغامات الفاظ کے روپ میں سلگتے عشقیہ جذبات و احساسات کے ایسے الاؤ تھے جنھوں نے بوڑھے کے سرد جذبوں میں محبت کی آتش بھڑکا دی۔حتی کہ وہ اپنا مقام و مرتبہ بھول کر نادیدہ محبوبہ کو وٹس اپ نمبر دے بیٹھا۔یوں عشق بلاخیز کے سامنے عقل کا چراغ بجھ گیا اور آئی ایس آئی کے ’’آپریشن بڈھا‘‘کا پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل ہوا۔
دوسرے مرحلے میں پاکستانی خفیہ ایجنسی کی جاسوسہ نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور شیریں لب ولہجے کے جال میں پردیپ کو ایسے پھنسایا کہ وہ عالم مدہوشی میں چلا گیا۔ مدہوش ہو کر ہی وہ ڈینگیں مارتے ہوئے بھارتی ہتھیاروں کی بابت اہم معلومات اپنی نئی نویلی محبوبہ کو فراہم کرنے لگا کہ اسے متاثر کر سکے۔
یہ معلومات آئی ایس آئی کے لیے بیش قیمت پراپرٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔نجانے کتنے پاپڑ بیلنے کے بعد یہ دولت ہاتھ آئی۔یقین ہے کہ دشمن کی حساس عسکری معلومات پا کر دفاع ِپاکستان مضبوط ومستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔جبکہ دشمن کا غرور وتکبر خاک میں مل گیا۔
اب یقیناً بھارتی سیکورٹی اداروں کے افسر وکارکن ’’پاکستانی حسیناؤں‘‘کے واروں سے چوکنا و محتاط ہو جائیں گے لیکن زن، زر ، زمین کے حملوں سے بچنا خالہ جی کا گھر نہیں! قوی کردار رکھنے والے بھی کسی نہ کسی کمزور لمحے خواہش ِنفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان تینوں میں سے کسی ایک کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔
رسوائی و ذلت
بھارتی میڈیا کی رو سے ستمبر 22ء تا جنوری 23ء پردیپ اور ’’زارا ‘‘عشق و محبت کی پینگ جھولتے رہے اور پھر طوفان آ گیا۔ڈروناکے ایک افسر، کرنل پردیپ رانا کو خبر ملی کہ بوڑھا سائنس داں کسی حسینہ کے ساتھ رازونیاز کی باتیں کر رہا ہے۔جب حسینہ کا وٹس اپ نمبر ٹریس ہوا تو پتا چلا کہ وہ تو پاکستان میں براجمان ہے۔بھارتی نگرانوں کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔بوڑھا عاشق اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھا ہے۔
یقنناً اس وقت کو کوس رہا ہو گا جب ’’زارا‘‘کے حسن وباتوں کا اسیر ہوا۔ لیلی کے محبوب مجنوں کو بھی اتنی رسوائی و ذلت نہیں ملی ہو گی جو زارا کے دام محبت میں الجھ کر بھارت کے اس مجنوں سائنس داں کی جھولی میں گری۔بھارتی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی فضائیہ کے ایک افسر،نخیل شنڈے (Nikhil Shende) کو بھی آئی ایس آئی نے اپنے جال میں پھنسا رکھا تھا۔
جس پاکستانی نمبر سے پردیپ کرولکر سے رابطہ کیا جاتا تھا، نخیل شنڈے بھی اسی نمبر پہ ایک خاتون سے باتیں کرتا تھا۔نخیل بنگلور کی فضائی بیس پر تعینات تھا۔ بھارتی پولیس نے اسے بھی گرفتار کر لیا۔ اس سے بھی تفتیش جاری ہے۔
پاکستانی خفیہ ایجنسی نے بھارت کی دنیائے عسکری سائنس وٹیکنالوجی کے چمکتے دمکتے ستارے کو جس عیارانہ طریق کار سے اپنے پھدنے میں گرفتار کیا، وہ علم ِجاسوسیات میں ’’ہنی ٹریپنگ‘‘(Honey trapping)کہلاتا ہے۔
اس طریقے میں نسوانی حسن وجمال کا سہارا لے کر مرد کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے تاکہ وہ حساس معلومات ، رقم یا کوئی بھی مطلوبہ شے حوالے کر دے۔اس انگریزی اصطلاح کا اردو ترجہ ’’دام ِحُسن ‘‘ہو سکتا ہے۔فارسی میں ’’دام ِشیریں‘‘کی اصطلاح مروج ہے۔ دامِ شیریں کی مدد سے دشمن کو نقصان پہنچانے کی روایت کافی قدیم ہے۔خیال ہے کہ یہ چلن پہلے پہل وادی دجلہ وفرات میں شروع ہوا کیونکہ اسی علاقے(شام، عراق اور ترکی)میں اولیّں ریاستیں قائم ہوئی تھیں۔
ان ریاستوں کے حکمران خوبصورت حسیناؤں کو بطور جاسوسہ اپنے مخالفین کے پاس بھیج کر ان سے اہم معلومات اگلواتے تھے یا کوئی ضروری مقصد پورا کر لیتے۔اس چلن کو پھر خفیہ ایجنسیوں نے اختیار کر لیا۔دام ِشیریں اپنانے والی سبھی خواتین ملک وقوم کی خاطر اپنا مشن یا آپریشن انجام دیتی ہیں۔
آئی ایس آئی نے تو جاسوسی طریق کار، دام ِشیریں کو آرٹ کا درجہ دے ڈالا ہے۔وجہ یہ کہ پہلے تو ہماری خفیہ ایجنسی کے جیالوں نے تحریر و تصویر کے سحرانگیز اشتراک سے دشمن کی ایک اہم شخصیت کو پھانسا۔پھر آواز کا جادو جگاتے ہوئے اس سے بھارتی عسکری سائنس وٹیکنالوجی کے راز اگلوانے میں کامیاب رہی۔گویا ملاقات کیے بغیر ہی آئی ایس آئی کے باصلاحیت ایجنٹوں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ آئی ایس آئی نے پردیپ کرولکر اور نخیل شنڈے کو پھانسنے کی خاطر کسی خاتون نہیں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا ہو۔یعنی ایسے آلے یا سافٹ وئیر سے مدد لی ہو جو مردانہ آواز کو زنانہ بنا دیتا ہے۔پھر تربیت یافتہ بعض مرد بڑی کامیابی سے عورت کی آواز بھی نکال لیتے ہیں۔
اگر یہی بات ہے تو خصوصاً ہمیں پردیپ بیچارے پہ ترس آتا ہے ۔گرفتاری کے بعد بھارتی تفتیش کاروں نے پردیپ کے سارے سمارٹ فون، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر اور دیگر آلات قبضے میں لے لیے۔پاسپورٹ بھی ضبط ہوئے۔ظاہر ہے، بھارتی حکومت وہ حقائق منظرعام پہ نہیں لائے گی جو پردیپ سے تفتیش کے بعد سامنے آئیں گے۔لیکن پاکستانی خفیہ ایجنسی نے بھارتی اشرافیہ کو ایسی چوٹ ضرور لگا دی جس کے زخم تادیر ہرے رہیں گے۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو یہ بھی احساس ہوا ہو گا کہ اس کا سامنا ایسے ذہین مقابل سے ہے جو کچی گولیاں نہیں کھیلا بلکہ ایسا کاری وار کرتا ہے کہ ہوش اڑا دیتا ہے۔ سن ژی کا قول ہے:
’’اگر تم اپنے دشمن کو جانتے ہو اور اپنے آپ کو بھی تو جان لو، سو جنگیں بھی ہو جائیں تو تمھیں نتیجے کی پروا نہیںہونی چاہیے۔اگر تم اپنے آپ کو جانتے ہومگر دشمن کو نہیں تو جو ایک فتح پاؤ گے، اس کے بدلے شکست بھی ملے گی۔اگر تم خود کو نہیں جانتے اور نہ دشمن کو تو جان لو، تب تمھیں ہر لڑائی میں ذلت وہار کا مزہ چکھنا پڑے گا۔ ‘‘
The post بھارتی سائنس داں آئی ایس آئی کی گرفت میں appeared first on ایکسپریس اردو.