دین اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے انسان کی تمام ضرورتوں کا لحاظ کرتے ہوئے زندگی کے تمام شعبوں کے لیے اصول اور قوانین بنایا ہے اور اسی طرح انفرادی، خاندانی اور سماجی زندگی کے ہر پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے بہترین ایک دستور پیش کیا ہے۔
انسان کی اجتماعی زندگی کی ضرورتوں میں سے ایک اہم ضرورت اس کا ایک دوسرے انسانوں سے تعلقات قائم کرنا ہے اور جب انسان اپنے ارد گرد رہنے والے انسانوں سے تعلقات قائم کرے گا تو یقیناً اس کا کسی نہ کسی کے ساتھ گہرا رابطہ قائم ہوگا، اسی قربت اور گہرے رابطے کو ہمارے معاشرے میں دوستی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے تو گویا دوستی انسان کی معاشرتی زندگی کی اہم ضرورت میں سے ایک ہے۔
لہٰذا دین اسلام نے اس رشتے اور تعلق کے حوالے سے بھی انسانوں اور خاص طور پر مسلمانوں کی بہ خوبی راہ نمائی کرتے ہوئے ان کے لیے مشعل راہ کا اہتمام کیا ہے۔
حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ہے، مفہوم: ’’مومن سراپا الفت اور محبت ہے اور اس شخص میں کوئی خیر اور خوبی نہیں جو نہ تو دوسروں سے محبت کرے اور نہ ہی دوسرے اس سے محبت کریں۔‘‘ (مشکوٰۃ، باب الشفقۃ) حضور اقدس ﷺ اپنے دوستوں اور ساتھیوں یعنی صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے انتہائی محبت فرماتے تھے اور اس حد تک شفقت فرماتے تھے کہ ہر ایک یہ محسوس کرتا تھا کہ حضور اقدس ﷺ سب سے زیادہ اسی کو چاہتے ہیں۔
اسلام میں دوستی کا معیار اسلام سے محبت، تقویٰ اور پرہیز گاری ہے کیوں کہ انسان کی فطری طور پر دوستی ان لوگوں سے ہوتی ہے جو اس کے ہم خیال ہوں اسی بنا پر یہ مثل مشہور ہے کہ آدمی اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور وقت گزارنے کا نام ہی زندگی ہے، اگر دوستی میں ایثار و قربانی اور محبت کی آمیزش نہ ہو تو یہ ایسے ہی ہے جیسے پھول تو ہو مگر اس میں خُوش بُو نہ ہو، دوستوں سے نفرت اور بیزاری انسان کو تنہائی کی ایسی دلدل میں پھنسا دیتی ہے جس میں وہ عمر بھر مقید رہتا ہے، جب انسان دوستوں میں مل جل کر رہتا ہے اور ہر معاملہ میں ان کو شریک کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں بعض اوقات اس کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچتی ہیں۔
کبھی اس کے جذبات کو ٹھیس لگتی ہے غرض مختلف قسم کی اذیتیں اور تکلیفیں اس کو پہنچتی ہیں، جب کوئی شخص ان اذیتوں کو برداشت کرتا ہے تو اس کے قلب میں اس سے جگہ پیدا ہوتی ہے، اچھے اخلاق نشو و نما پاتے ہیں اس میں تحمل و برد باری ایثار و محبت، ہم دردی و شجاعت کے اعلیٰ ترین اوصاف پیدا ہوتے ہیں وہ انسان کام یاب تصور کیا جا تا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے، مفہوم: ’’جو مسلمان لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرتا ہے وہ کہیں بہتر ہے اس شخص سے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں سے بچا رہتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
نبی اکرم ﷺ کے ارشاد پاک کا مفہوم ہے: ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے ہر آدمی کو غور کر لینا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔‘‘ (مسند احمد مشکوۃ)
دوست کے دین پر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ دوست کی صحبت میں بیٹھے گا تو وہی جذبات و خیالات اور وہی ذوق و رجحان اس میں پیدا ہوگا جو دوست میں ہے اور پسند و نا پسند کا وہی معیار اس کا بھی بنے گا جو اس کے دوست کا ہے اس لیے دوست کے انتخاب میں انتہائی غور و فکر سے کام لینا چاہیے اور قلبی لگاؤ اس سے بڑھانا چاہیے جس کا ذوق و رجحان افکار و خیالات دین اور ایمان کے تقاضوں کے مطابق ہوں۔ حضور اقدس ﷺ نے تاکید فرمائی کہ مومن ہی سے رشتہ محبت استوار کرو اور اسی کے ساتھ اپنا کھانا پینا رکھو۔
آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ مو من ہی کی صحبت میں رہ اور تمہارے دستر خوان پر پرہیز گار ہی کھانا کھائے۔
حضور ﷺ نے اچھے اور بُرے دوست سے تعلق کی کیفیت کو ایک بلیغ تمثیل میں یوں بیان فرمایا ہے، مفہوم: ’’اچھے اور بُرے دوست کی مثال مشک بیچنے والے اور بھٹی دھونکنے والے لوہار کی طرح ہے۔ مشک بیچنے والے کی صحبت سے تم کو کچھ فائدہ ضرور پہنچے گا۔ یا مشک خریدو گے یا مشک کی خُوش بُو پاؤ گے لیکن لوہار کی بھٹی تمہارے کپڑے جلا دے گی یا تمہارے دماغ میں اس کی بدبو پہنچے گی۔‘‘ (بخاری)
حضرت عمران بن حطانؒ کہتے ہیں کہ میں ایک دن مسجد میں گیا تو وہاں پر حضرت ابوذرؓ چادر سے اکیلے تشریف فرما تھے۔ میں نے عرض کیا: اے ابوذر! یہ تنہائی کیوں اختیار کی ہوئی ہے؟ آپؓ نے فرمایا: میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ بُرے دوستوں کی صحبت سے تنہائی بہتر ہے اور نیک لوگوں کی صحبت، تنہائی سے بہتر ہے اور اچھی بات کہنا خاموشی سے بہتر جب کہ بُری بات کرنے سے خاموش رہنا بہتر ہے۔‘‘
(شعب الایمان للبیہقی)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’قرآن کریم ہر ایک سے زیادہ فضیلت والا ہے، جس نے قرآن کریم کی تعظیم کی تو درحقیقت اس نے اﷲ کی تعظیم کی اور جس نے قرآن کریم کی بے قدری کی درحقیقت اس نے اﷲ تعالیٰ کے حق کی بے قدری کی۔‘‘ (تفسیر القرطبی)
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔‘‘ (التوبہ) ان لوگوں کے ساتھ رہو جو تقویٰ میں سچے ہیں، اﷲ تمہیں بھی تقویٰ عطا فرما دیں گے۔ آج کل کی دوستیوں کا معیار نیکی اور تقویٰ نہیں رہا۔
دنیاوی مفادات، بے ہودہ مجالس، لہو و لعب اور گناہوں کی جگہیں دوستی کا معیار بن چکی ہیں، وقت گزاری کے لیے لوگ جمع ہوتے ہیں جہاں وہ کسی کی غیبت، عیب گوئی، بہتان طرازی، دل آزاری اور اپنے گناہوں کو ایک دوسرے کے سامنے فخریہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔
ان حدیث مبارکہ سے معلوم ہُوا کہ اچھا دوست اﷲ رب العزت کی بہت بڑی نعمت ہے جو کسی دوسرے دوست کی پوری زندگی کے تمام پہلوؤں پر اپنی محبت کے مثبت اثرات چھوڑتا ہے اور بُرا دوست اﷲ رب العزت کے عذاب سے کم نہیں کہ اس کی موجودی ایک اچھی خاصی شخصیت کو مسخ کرکے رکھ دیتی ہے اور دوستی صرف اﷲ رب العزت کی رضا کے لیے کی جائے ناکہ ذاتی مفادات کے حصول کے لیے، خدا تعالیٰ کے محبوب بندے وہی ہیں جو خدا کے دین کی بنیاد پر باہم جُڑتے ہیں۔ قیادت کے دن جب عرش الٰہی کے سایے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا۔
اس دن جن لوگوں کو عرش الٰہی کا سایہ نصیب ہوگا ان میں ایک قسم کے افراد وہ دو آدمی ہوں گے جو محض خدا تعالیٰ کے لیے ایک دوسرے کے دوست ہوں گے، اﷲ تعالیٰ ہی کی محبت نے ان کو باہم جوڑا ہوگا اور اسی بنا پر وہ ایک دوسرے سے جدا ہوں گے۔ اﷲ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
The post اسلام میں دوستی کا تصور اور معیار appeared first on ایکسپریس اردو.