مسنون حج وعمرہ
مصنف : حافظ صلاح الدین یوسف مرحوم
ناشر : دارالسلام انٹرنیشنل، لوئر مال، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ، لاہور (04237324034)
اِسلامی عبادات میں حج کی ایک خاص اہمیت وفضیلت ہے۔ اِسے اِسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں شمار کیا گیا ہے ۔ قرآن مجید میں حج کو استطاعت کے ساتھ فرض قرار دیا گیا ہے ۔ حج کی درست اور مسنون ادائیگی کو گناہوں کا کفارہ قرار دیا گیا ہے۔
حدیث میںحج مبرور کی جزا اور صلے میں جنت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اِسی طرح عمرے کی مسنون ادائیگی پر اس کی فضیلت کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ ایک عمرہ دوسرے عمرے کے درمیان کے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے ۔
حرمِ کعبہ میں ایک مقبول نماز کا اجر دوسرے مقام کی لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔ اسی طرح حرمِ نبوی کی ایک مقبول نماز کا اجر دوسرے مقام کی ہزار نمازوں سے افضل بتایا گیا ہے۔ حج وعمرے کی یہ اہمیت وفضیلت اور اس کے دوران میں اذکار و عبادات کی یہ قدر و منزلت صرف اِسی صورت میں ممکن ہے کہ مناسک حج کو مسنون طریق پر نبوی منہج کے عین مطابق ادا کیا جائے ۔
حج کااجروثواب بے مثال ہے بیت اللہ کی زیارت اور حج وعمرہ کرنے کا ارمان ہر صاحب ایمان کے دل میں انگڑائیاں لیتا ہے۔ دنیا کے مختلف اطراف واکناف سے لاکھوں مسلمان ہر سال حج اور عمرے کی سعادت کے لیے بھاری رقوم خرچ کر کے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں۔ جبکہ لاکھوں مسلمان ایسے ہیں کہ جوزندگی میں ایک دوبار ہی اس سعادت سے مستفیدہو پاتے ہیں۔
اسی مناسبت سے سبھی کی آرزو ہوتی ہے کہ یہ مقدس فرض قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ادا ہو جائے تاکہ عبادات کے بجالانے میں کوئی کمی بیشی نہ رہ جائے۔ اس مقصد کے لئے ہر شخص کوایسی رہنما کتاب کی اشد ضرورت ہوتی ہے جس میں حج وعمرہ کے احکام ومسائل آسان زبان میں قرآن وحدیث سے بتائے گئے ہوں۔
خاص طور پر محترم خواتین ایسی کتاب کی جستجو میں رہتی ہیں جس میں حج وعمرہ کے دوران ان کے مخصوص مسائل کا دینی حل پیش کیا گیا ہو۔ ان حجاج کرام اور عمرہ ادا کرنے والے معتمرین کی ایک کثیر تعداد صرف اْردو زبان کے حوالے سے اِسلامی تعلیمات کو سیکھ سکتی ہے۔
اْردو خواں طبقے کی اِسی ضرورت کے پیش نظر دار السلام نے مسلسل محنت اور تحقیق کے بعد حج وعمرہ کے تمام ضروری، ضمنی اور ذیلی مسائل کے موضوع پر مستند مواد کے حوالے سے ’’مسنون حج وعمرہ … فضیلت واہمیت احکام ومسائل‘‘ کے عنوان سے تین مختصر مگر جامع کتب تیار کی ہیں۔ ان کتب میں حج وعمرہ کے تمام احکام و مسائل قرآن وسنت کی روشنی میں جزئیات سمیت بہ تمام وکمال بتائے گئے ہیں۔ حج وعمرہ کے دوران پڑھی جانے والی اور روزمرہ کی دیگردعائیں بھی درج کر دی گئی ہیں۔
مزید براں تمام مقدس مقامات کو نہایت ہی خوبصورت تصویروں اور نقشوں کے ذریعے بخوبی اجاگرکیا گیا ہے۔ ان کتابوں کی خصوصیات یہ ہیں کہ ان کے تمام مندرجات صرف کتاب وسنت سے ماخوذ ہیں۔ کتابوں میں بفضل اللہ تعالیٰ کسی ایک موضوع یا ضعیف حدیث کا حوالہ نہیں ملے گا، نیز تمام احادیث کی مکمل تخریج بھی کر دی گئی ہے۔
حج اور عمرے کے دوران میں پیش آنے والے تمام مسائل کی اصطلاحات کو حج وعمرے کے مناسک کی ترتیب سے پیش کیا گیا ہے۔ حج وعمرہ کی ادائیگی کے دوران پیش آمدہ مسائل کو مرحلہ وار لکھا گیا ہے۔
ان کتب میں خصوصیت کے ساتھ حج و عمرہ کے دوران پیش آنے والے خواتین کے مخصوص مسائل بھی درج کر دیے گئے ہیں۔ حج وعمرہ کے مختلف مناسک کے دوران پڑھی جانے والی مسنون دعاؤں اور اذکار کو آسان اْردو ترجمے کے ساتھ پیش کر دیا گیا ہے۔
مسنون دعائیں بھی پیش کی گئی ہیں تاکہ حرمین میں ہمارے شب و روز مسنون دعاؤں اور اذکار سے مزین ہو سکیں۔ یہ مستند کتب مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف اور دیگر علمائے کرام عمار فاروق سعیدی، مولانا عبدالصمد رفیقی مرحوم،مولانا عبدالجبار اور حافظ عبدالخالق جیسے ممتاز محققین نے ترتیب دی ہیں۔ یہ کتب تین سائز میں دستیاب ہیں۔
بڑا سائز جو کہ 176صفحات پر مشتمل ہے اس کی قیمت 1000روپے ہے۔ دوسرا پاکٹ سائز ہے جو کہ باآسانی جیب میں آسکتی ہے اس کی قیمت 440 روپے ہے، تیسری گائیڈ بک ہے جسے باآسانی گلے میں لٹکایا جا سکتا ہے اس کی قیمت 220 روپے ہے ۔ تینوں کتابوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے اور حجم کے اعتبار سے ان میں مسائل بیان کئے گئے ہیں ۔
دارالسلام ریسرچ سنٹر کی یہ کتب خود بھی پڑھئے اورعزیزواقارب کو بھی پیش کیجیے تاکہ ہر مسلمان حج وعمرہ کے فرائض مسنون طور پرآسانی اور سہولت سے ادا کر سکے اور حج وعمرہ کی عبادات کے ضائع ہونے کا ذرہ بھی احتمال نہ رہے۔
موپاساں کی چھوٹی بڑی کہانیاں
ترجمہ: شوکت نواز نیازی، قیمت: 950 روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم (رابطہ:03215440882 )
عظیم روسی ادیب لیو ٹالسٹائی نے فرانسیسی ادیب موپاساں کے بارے میں لکھا تھا:’موپاساں وہ شخص ہے جس کی نظر انسانی زندگی کے تاریک نہاں خانوں تک پہنچتی ہے اور وہ اس مقام سے انسانیت کی کشمکش کی تشریح کرتا ہے… موپاساں روحانی کرب کا شکار ہے۔
نہ صرف اس مادی دنیا کی نامعقولیت سے، اس میں خوبصورتی کی غیرموجودگی سے، بلکہ دنیا میں سچی محبت کی عدم فراوانی سے دل گرفتہ ہے۔ میں نے آج تک کسی شخص کی دل شکستگی میں اتنی مایوس کن آہ و فغاں نہیں سنی جسے اپنی تنہائی کا ادراک ہو… یہ صرف موپاساں ہی ہے جو اپنی کہانیوں میں اپنے دکھ کا بیان کرتا ہے‘۔
انیسویں صدی کے عین وسط میں پیدا ہونے والے موپاساں کی زندگی کا قصہ کچھ یوں ہے کہ پہلے فوج میں بھرتی ہوئے، فرانس جرمن جنگ میں شریک تھے، فوج سے واپس پلٹے تو بحریہ کی انتظامیہ میں ملازمت اختیار کی، بعدازاں محکمہ تعلیم میں ملازم ہوئے۔ محض 43 برس کی زندگی پائی، اس میں ادبی زندگی کے دس برس شامل تھے۔ تاہم یہ دس سال انہیں ادب کی دنیا میں حیات جاوداں دے گئے۔ آج دنیا میںکوئی فرد ایسا نہیں ہوگا جو ادب کا رسیا ہو لیکن اس نے موپاساں کے ادب کا مطالعہ نہ کیا ہو!
دس سالہ ادبی سفر میں موپاساں نے 6 ناول لکھے اور 300 مختصر کہانیاں ۔ زیر نظر مجموعہ میں 42 چھوٹی بڑی کہانیاں شامل ہیں ۔ ان میں ’چکنی‘ بھی ہے، ایک ایسی طوائف کی کہانی جو سماج کے ٹھیکے داروں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے، جن کا مقصدِ حیات اپنی سماجی اور معاشی حیثیت ( دولت، نام و نسب، مذہب اور نظریات) کو ہر حال میں برقرار رکھنا تھا۔ ایک دوسری کہانی’ لے پالک‘ بھوک و افلاس اور اولاد سے محبت کے ٹکراؤ سے تخلیق پاتی ہے۔
’ اعتراف‘ اک ایسی کہانی ہے جس میں دکھائی دیتا ہے کہ جوانی کی ایک لغزش کیسے عمر بھر کے پچھتاوے کا باعث بن جاتی ہے۔’ سودا‘ مفلوک الحال کسانوں کی اخلاقی اقدار کے موضوع پر لکھی گئی کہانی ہے۔’ موسم بہار‘ میں ایک شوہر ایک نوجوان عاشق کو محبوبہ سے شادی کرنے کے ممکنہ نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔’ حسن لاحاصل‘ نامی کہانی بتاتی ہے کہ اپنے حسن اور اپنی جوانی کو سماجی رسوم و رواج کی بھینٹ چڑھانے پر ایک عورت اپنے شوہر سے کیسے انتقام لیتی ہے؟ ’کسان‘ ایک ایسی معصوم اور بھولی بھالی دیہاتی لڑکی کی بپتا ہے جو اپنی آخری سانسوں میں اپنی پہلی محبت کی داستان اپنے شوہر کو سناتی ہے ۔
’پاگل‘ اس شخص کی کہانی ہے جو اپنی محبوبہ سے دیوانہ وار محبت میں عشق اور حسد کی تمام حدود و قیود سے نکل جاتا ہے۔’ معافی‘ میں گاؤں سے تعلق رکھنے والی ایک سادہ لوح لڑکی پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ پیرس جیسے بڑے شہروں میں لوگ جو سوچتے ہیں وہ کہتے نہیں، اور جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔
اس مجموعہ میں شامل دیگر کہانیاں بھی ایسی ہی شاندار موضوعات پر ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ موپاساں کی یہ کہانیاں پڑھ کر زندگی کی ستم ظریفی اور انسانی کمزوری پر ایک نئے انداز سے نظر ڈالنے کا موقع ملتا ہے۔
’ بک کارنر‘ قابل صد تحسین ہے کہ وہ نہ صرف ایسی شاندار کتابیں ان کے شایان شان انداز میں شائع کرتا ہے بلکہ وہ قارئین کی قوت خرید کو بھی پیش نظر رکھتا ہے۔
وازوان
مصنف: عامر خاکوانی، قیمت:1800روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم (رابطہ:03215440882 )
’وازوان‘ کیا ہے؟ ایک کشمیری دسترخوان جو روایتی کشمیری پکوانوں سے سجا ہوتا ہے۔ گوشت، پلاؤ اور سبزی کے مختلف ذائقوں کے بیس سے پینتیس کھانے۔ اس اعتبار سے یہ نام کالموں کے زیر نظر مجموعہ پر خوب سجتا ہے، اس میں بھی ایسی سدا بہار تحریریں شامل ہیں جو تیکھے، کٹیلے، کھٹ مٹھے اچھوتے ذائقے والی ہیں۔ ’وازوان‘ مصنف کے کالموں کا تیسرا مجموعہ ہے۔ پہلا ’ زنگار‘ ، ’ دوسرا’ زنگارنامہ‘ خوب پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔
جناب عامر خاکوانی نے کالم نگاری کا آغاز روزنامہ ’ ایکسپریس‘ ہی سے کیا۔ برسوں پہلے ہم دونوں رفیق کار رہے،قریباً چھ برس تک، ہفتے میں چھ دن، آٹھ سے دس گھنٹے تک ہم ایک ساتھ رہتے تھے۔ انھیں لکھتے ہوئے بھی دیکھا، دوسروں کو لکھنا سکھاتے ہوئے بھی دیکھا۔ میں نے جانا کہ ان کی ساری کوششوں اور کاوشوں کا محور و مرکز ’قاری‘ ہوتا ہے۔
وہ اپنا کتھارسس ہی نہیں کرتے بلکہ پڑھنے والے کو زیادہ سے زیادہ، نت نئی اور دلچسپ معلومات فراہم کرنے کی دھن میں لگے رہتے ہیں۔کتاب کے ابتدائی صفحات میں کسی ’ نامعلوم‘ نے مصنف کا تعارف لکھا اور صد فی صد درست لکھا کہ ان کے کالموں کی پہچان ان کا معتدل اور متوازن انداز بیان اور غیرجانبداری سے ایشو ٹو ایشو رائے دینا ہے۔
معروف کالم نگار و تجزیہ کار ہارون الرشید کے بقول:’ واقعہ یہ ہے کہ جس انشراح کے ساتھ عامر خاکوانی کالم لکھتے ہیں،عصری صحافت میں اس کی مثال کم ہو گی۔
سوچ سمجھ کر طے کیا گیا موقف، رواں اور بے ریا لہجہ۔ غیر جانبداری مگر دکھاوے کی نہیں۔ نقطہ نظر اور عقیدہ رکھتے ہیں، مگر لازماً کسی گروہ کے حامی یا مخالف نہیں۔آزاد مصنف کی یہی روش ہوتی ہے‘۔ایک دوسرے معروف کالم نگار محمد اظہار الحق لکھتے ہیں:’خاکوانی لکھتا ہے تو منطق، دلیل اور غیر جانبداری کے ساتھ نکات اٹھاتا جاتا ہے اور پڑھنے والے کو استخراج اور استدلال سے قائل کرتا جاتا ہے۔
تاثیر کا ایک بڑا سبب اس کی قوت تحریر بھی ہے، مناسب اور موافق الفاظ کا استعمال اسے خوب آتا ہے۔ زبان سادہ، سلیس اور رواں ہے۔ کالم کو ثقیل مقالہ نہیں بننے دیتا، اسی لیے اس کی تحریر خواص اور عوام دونوں کے لیے پرکشش ہے‘۔
انویسٹی گیٹو رپورٹر، اینکر پرسن اور کالم نگار رؤف کلاسرا کا خیال ہے اور درست خیال ہے کہ عامر خاکوانی کے پاس لکھنے کو بہت کچھ ہے۔
ایسی روانی اور لاجک بہت کم لکھاریوں کی قسمت میں ہے…کتابوں کے بے پناہ مطالعے نے انھیں بہت کچھ دے دیا ہے۔انھوں نے اپنے کالموں میں جتنے تراجم اور کتابوں کے ریویوز لکھے ہیں، وہ کسی اور کالم نگار کی قسمت میں نہ تھے۔
کتاب کی ابتدا میں، قریباً ساڑھے سات صفحات پر مشتمل، مصنف نے لڑکپن سے لمحہ موجود تک اپنی زندگی کی کہانی لکھی۔ آباؤ اجداد کا ذکر کیا، ان کے افغانستان کے ننگرہار سے پاکستان کے احمد پور شرقیہ میں آنے کا قصہ بیان کیا، اور پھر اپنے کیرئیر کی تفصیل لکھی۔ اور مستقبل کے عزائم کی طرف بھی اشارہ کیا۔ زندگی کی اس کہانی میں بھی سیکھنے والوں کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔
کتاب مجموعی طور پر گیارہ ابواب پر مشتمل ہے۔’عسکریت پسند/ گوریلا تنظیمیں‘،’عربی ادب/حکایات‘،’تصوف‘،’عمل خیر‘،’ سبق آموز‘،’زندگی کے رنگ‘،’سیاسی تاریخ/ان کہی کہانیاں‘،’معلومات‘،’کتابیں/مطالعہ‘،’فلموں کی دنیا‘ اور’ نقطہ نظر‘۔ قریباً تمام عنوانات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس باب میں کس نوع کی تحاریر ہوں گی۔
جناب عامر خاکوانی کے بعض کالمز پڑھتے ہوئے اختلافِ نظر ممکن ہے۔ تاہم وہ جس خلوص اور دردمندی سے اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں، اس سے سرِ مو اختلاف ممکن نہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ زیر نظر مجموعہ میں زیادہ تر کالم ایسے ہیں جن پر کسی کو بھی اختلاف نہیں ہو سکتا، وہ انسانی زندگی میں بڑی تبدیلی پیدا کرتے ہیں۔
مثبت سوچ اور امید کی نئی توانائی بھر دیتے ہیں۔ مشکل دور سے نکلنے کا راستہ بتاتے ہیں۔ بہت سے کالم زندگی کو گدگداتے ہیں، عجب سرشاری عطا کرتے ہیں۔
اس اعتبار سے میرا نہایت پختہ خیال ہے کہ یہ کتاب ہر گھر کی لائبریری میں ضرور ہونی چاہیے۔بھلے وقتوں میں، جب انٹرنیٹ کی دنیا وجود میں نہیں آئی تھی، اورکتب بینی عام تھی، بعض کتابیں ایسی ہوتی تھیں جو نسل در نسل پڑھی جاتی تھیں ۔’ وازوان‘ انھی کتابوں جیسی کتاب ہے۔ اسے نسل در نسل آگے بڑھانے اور پڑھانے کی ضرورت ہے۔
سندھو سلطنت
(دریائے سندھ کی کہانی اسی کی زبانی)
سفرنامے نثری ادب کی سب سے دلچسپ اصناف میں شامل ہیں اور شاید سب سے زیادہ پڑھے بھی جاتے ہیں ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سفرناموں کا ہدف انسانی تجسس ہوتا ہے اور یہی ان دیکھے کو جاننے اور محسوس کرنے کی خواہش انسان کو ان دیکھی دنیاؤں کے تذکروں کی طرف کھینچ لاتی ہے۔
اس تجسس کی اُنگلی پکڑ کر انسان نے نہ صرف یہ کہ دنیا کے ہر کونے کُھدرے کو چھان مارا ہے بلکہ اس نے زمین کی تہوں کے نیچے سے مٹ جانے والی تہذیبوں کے آثار تک کو دریافت کر لیا ہے اور ان نقوش گم گشتہ کی کڑیوں کو جوڑ کر وہ کہانیاں بھی زندہ کر لی ہیں جو کبھی انسانی تہذیب کی اولین آبادیوں میں رواں دواں زندگی کا حال بتاتی ہیں۔
انسانی تہذیب و تمدن کی آبیاری میں دریاؤں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دنیا کی تمام اہم تہذیبیں دریاؤں کے کناروں پر پروان چڑھی ہیں۔ انسان کے تہذیبی ارتقاء میں جن دریاؤں کا نام سرفہرست ہے ان میں سے ایک پاکستان کی سرزمین کو سیراب کرنے والا دریائے سندھ بھی شامل ہے۔
دریائے سندھ دریاؤں کی اُس قسم سے تعلق رکھتا ہے جو ایک سے زیادہ ممالک میں بہتے ہوں ۔ چین کے علاقے مغربی تبت میں کوہ کیلاش کی چٹانوں سے پھوٹنے والے قدرتی چشموں سے وجود پانے والا یہ دریا شمال مغرب کی جانب اپنا سفر شروع کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوتا ہے۔
یہاں سے یہ اپنے بائیں ہاتھ مڑتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور 3120 کلومیٹر کا طویل فاصلہ طے کرکے کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔
زیر نظر کتاب ’سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی اسی کی زبانی‘ ایک ایسا سفرنامہ ہے جس کا موضوع دریائے سندھ ہے۔
وہ تمام مقامات جہاں سے اس عظیم دریا کا گزر ہوتا ہے سفرنامہ نگار شہزاد احمد حمید نے ان کا تذکرہ کچھ اس انداز میں کیا ہے جیسے دریا خود ان کو دیکھتا ہے۔
مصنف نے طویل عرصہ تک پاکستان کی سول سروس میں خدمات انجام دی ہیں اور اس دوران اپنے شوق سیاحت کو بھی پس پشت نہیں ڈالا۔ زیر نظر کتاب سے قبل سیاحت کے موضوع پر ان کی تین کتابیں ’قراقرم کے ساتھ ساتھ‘ جو شاہراہ ریشم پر سفر کی روداد ہے، جہان سنگ کے نام سے سکردو اور دیوسائی کا سفرنامہ اور ‘ریت سے روح تک‘ کے نام سے بہاولپور اور چولستان کا سفرنامہ شائع ہو کر داد پا چکی ہیں۔
زیرنظر سفرنامہ اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس میں دریا کی گزر گاہ اور منسلک علاقوں اور ان سے وابستہ تاریخ و ثقافت کو موضوع بنایا گیا۔ 336 صفحات پر مشتمل یہ کتاب محض سیاحت سے جڑی یادوں اور محسوسات تک محدود نہیں بلکہ مصنف نے درست معلومات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے اور یوں اس کتاب کی حیثیت حوالہ جاتی ہو جاتی ہے۔
کتاب پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے ہر موضوع پر وسیع مطالعہ کے بعد معلومات کو کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ دریائے سندھ کے گرد و نواح میں پنپنے والے تہذیبی ارتقاء کو بالخصوص اس کتاب کا حصہ بنایا گیا۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ دریائے سندھ کے منبع کے بارے میں جو ابہام پائے جاتے ہیں تحقیق کے بعد ان کی تصحیح کی جائے۔
انہوں نے کتاب کے آغاز میں اس سوال سے بحث کی ہے کہ جب دریائے سندھ آج کے بھارت میں بہتا ہی نہیں تو پھر لفظ ہند بھارت کی سرزمین کے لئے کیوں مستعمل ہوا۔
غرض اس کتاب میں جس معاملے پر بات کی گئی ہے اس کے لئے تمام میسر معلومات اور حوالہ جات کو استعمال میں لایا گیا۔ کتاب اس انداز میں لکھی گئی ہے جیسے دریا اپنی کہانی خود بیان کر رہا ہے۔
کتاب کے پہلے باب کا عنوان ’میں (سندھو) کون ہوں؟‘ اس کے بعد دریا کا کے پہلے پڑاؤ ’کشمیر‘ پر باب ہے ۔ تیسرا باب پتھروں کا جہاں‘ پھر کے پی کے اور اس کے بعد پنجاب جس کے بعد دریا کے ساتھ جنوبی پنجاب اور آخر میں وادی مہران۔ بُک ہوم‘ وہ اشاعتی ادارہ ہے جس نے ہمیشہ اعلیٰ درجے کی کُتب قارئین تک پہنچائی ہیں۔ یہ کتاب بھی بُک ہوم نے شائع کی ہے۔
پیشکش کا معیار شاندار ہے۔ اس مجلد کتاب میں مصنف کی اپنی کھینچی ہوئی تصاویر بھی شامل ہیں۔ یہ بات بجا طور کہی جا سکتی ہے کہ یہ کتاب خطے کی تاریخ، تہذیب و تمدن، معاشرتی ارتقائ، زبان و ثقافت، حیوانی اور نباتاتی زندگی غرض ہر لحاظ سے ایک مکمل تصویر پیش کرتی ہے اور یہ کسی سفرنامے کا سب سے اہم وصف ہوتا ہے۔
اپنی سرزمین سے وابستگی کو صحیح معنوں میں محسوس کرنے کے لئے ایسی کتابیں حد درجہ میں معاون ثابت ہوتی ہیں ۔ ملک کے مایہ ناز صحافی اور دانشور حسن نثار نے اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے ’’دریائے سندھ کی کہانی اسی کی زبانی‘‘ پڑھتے ہوئے مسلسل سوچتا رہا کہ یہ شہزاد کی لکھی سطریں ہیں یا دریائے سندھ کی لہریں؟ شاید اسے کوزے میں دریا بند کرنا کہتے ہیں۔
جسے آپ کتاب میں دریا بند کرنا بھی کہہ سکتے ہیں‘‘۔ کتاب کی قیمت 2400 روپے ہے۔ بک ہوم 46 مزنگ روڈ، بُک سٹریٹ لاہور پاکستان 042-37231518, 04237231518، bookhomepulishers@gmail.com،
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.