دورِ قدیم کے جہلاء بچیوں کو زمین میں زندہ دفن کر دیتے تھے اور دور حاضر کے جہلاء اس کو ماں کے پیٹ میں ہی اس کو ختم کرا دیتے ہیں، بیٹیوں کی وجہ سے اسقاطِ حمل کے جرم میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے، بچی کی ولادت پر اسے اور اس کی ماں کو زندہ جلا دیتا ہے۔
بیٹی جیسے معصوم رشتے کی پیدائش پر اس کی ماں کو طلاق دے دیتا ہے کبھی یکے بعد دیگرے بیٹیوں کی پیدائش عورت کا جرم قرار دیتا ہے۔ افسوس! مسلم معاشرے میں مشرکانہ اور جاہلانہ ذہنیت رواج پانے لگی ہے کہ بچیوں کو اپنے لیے باعث عار سمجھا جانے لگا ہے۔
بیٹی کے بارے اہم اسلامی احکامات:
بیٹی اﷲ کا انمول تحفہ ہے، اسلام ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ بچی کی پیدائش کو منحوس نہ سمجھا جائے بل کہ اس پر شکر ادا کرتے خوش ہونا چاہیے، اس کا اچھا اسلامی نام رکھا جائے، اس کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے، عمدہ تعلیم سے آراستہ کیا جائے، گھریلو کام کاج کا خُوگر بنایا جائے، نسبت اچھی قائم کی جائے، نکاح جلدی کیا جائے، عزت و احترام اور پیار و محبت کا رشتہ ہمیشہ قائم رکھا جائے اس کی ضرورتوں کو جہاں تک ممکن ہو پورا کیا جائے۔
بیٹی اﷲ کی عطا ہے:
مفہوم آیت:’’صرف اﷲ ہی زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے۔ وہ چاہے تو جڑواں جڑواں بیٹے اور بیٹیاں دے اور چاہے تو کچھ بھی نہ دے۔ بے شک! وہ ذات علم والی، قدرت والی ہے۔‘‘ (سورۃ الشوری)
بیٹی کو منحوس سمجھنا سراسر جہالت ہے:
اولاد کے تذکرے میں رب تعالیٰ نے بیٹیوں کا ذکر پہلے فرمایا۔۔۔۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس وقت کے جہلاء بیٹی کو منحوس سمجھتے تھے۔ مفہوم آیت: ’’جب ان کو بیٹی خوش خبری دی جاتی ہے تو ان کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور ان کا دل غم سے بھر جاتا ہے۔ اسے اپنے لیے بُرا (باعث شرمندگی) سمجھ کر لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور دل ہی دل میں یہ سوچتا ہے کہ اس کو ذلت برداشت کر کے اپنے پاس رہنے دوں یا اسے زمین میں گاڑھ دوں۔ ان لوگوں نے کتنی بُری باتیں از خود ہی بنا رکھی ہیں۔‘‘ (سورۃ النحل)
جہلائے عرب کا رواج:
عرب کے بدو، گنوار اور اجڈ جو بیٹیوں کے پیدا ہوتے ہی ان کو زمین کی تاریکیوں کے حوالے کر دیتے تھے۔ جہلائے عرب کی فرسودہ سوچ کی منظر کشی کرتے ہوئے حضرت عبداﷲ بن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’جب عورت کے ہاں زچگی کا وقت قریب آتا تو زمین میں گڑھا کھود کر اسے وہاں بٹھا دیا جاتا پھر اگر لڑکی پیدا ہوتی تو اسے اس گڑھے میں پھینک دیا جاتا اور اس پر مٹی ڈال دی جاتی اور اگر لڑکا ہوتا تو اسے زندہ چھوڑ دیا جاتا۔‘‘ (تفسیر القرطبی)
بیٹی کو دفن کرنے کا درد ناک واقعہ:
دربار نبوتؐ لگا ہے، عرب کا ایک دیہاتی زار و قطار آنسؤوں کی برسات میں بھیگ چکا ہے، روتے روتے ہچکی بندھی ہوئی ہے: جب سے اسلام لایا ہوں اسلام کی مٹھاس کو محسوس نہیں کر پا رہا۔ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! زمانہ جاہلیت میں میرے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی میں گھر سے کہیں دور سفر پر تھا جب گھر واپس لوٹا تو وہاں وہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے چل رہی تھی اس کی توتلی زبان اور معصومانہ شرارتیں۔۔۔ یارسول اﷲ ﷺ! میں نے گھر والی کو کہا کہ اس کو تیار کر! اس نے اسے خوب صورت لباس پہنایا میں اس کو ساتھ لے کر دور ایک جنگل میں چلا گیا۔
گرمی اور لُو… وادی عرب کے تپتے صحرا نے ہمارے قدموں تک کو جھلسا کر رکھ دیا جب میں پسینے میں شرابور ہوجاتا تو میری بیٹی ننھے منے ہاتھوں سے اپنے چھوٹے سے دوپٹے سے میرا پسینہ پونچھتی۔ یارسول اﷲ ﷺ! یارسول اﷲ ﷺ! میں نے ایک جگہ گڑھا کھودا، کھدائی کرتے وقت وہ بار بار اس گڑھے کی طرف دیکھتی اور میری طرف بھی۔ وہ مجھ سے سوال کرتی تھی: ابُو! یہ کس لیے گڑھا کھود رہے ہو؟ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! جب میں نے اس کے لیے گڑھا کھود کر تیار کر لیا اور اس کو اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو وہ چلائی اس نے مجھے دُہائی دی وہ ابُّو ۔۔۔۔ابُّو کرتی رہی۔ یارسول اﷲ ﷺ! وہ کہتی رہی کہ ابُّو! مجھے مت دفن کرو، ابُّو! مجھے معاف کردو۔ ابُّو! مجھے چھوڑ دو۔
ابُّو! مجھے ڈر لگتا ہے۔ ابُّو، ابُّو! میں آپ کے گھر نہیں آؤں گی۔ ابُّو! کبھی بھی واپس نہیں لوٹوں گی۔ ابُّو! میں آپ پر بوجھ بن کر نہیں رہوں گی۔ ابُّو! میں اکیلی بالکل اکیلی رہ لوں گی۔ ابُّو۔۔۔ ابُّو۔۔۔ ابُّو!… یہاں تک کہ میں نے اس کے سر پر بھی مٹی ڈال دی۔ آخر وقت تک وہ چلاتی رہی اپنی زندگی کی بھیک مانگتی رہی لیکن یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! میرا پتھر دل موم نہ ہُوا اور میں اس کو وہیں جنگل میں پیوند خاک کر کے گھر لوٹ آیا۔
یارسول اﷲ ﷺ! اس کے الفاظ میری کانوں کی سماعتوں سے ٹکرا رہے ہیں اس کی معصوم بھولی صورت اور دل ربا ادائیں میرے دل پر نقش ہوگئی ہیں۔ جب کبھی اس کی باتیں یاد کرتا ہوں تو غم کی وجہ سے مجھے کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔
یارسول اﷲ ﷺ! میرا کیا بنے گا۔۔۔ ؟ ادھر عرب کا دیہاتی رو رہا تھا اور ادھر فخر دو عالم رحمت کائنات ﷺ کی مبارک آنکھوں میں آنسو کے امڈ آئے موتیوں کی اس لڑی میں محبت و شفقت کے انمول خزینے چھلکنے لگے۔ آپؐ نے فرمایا: آپ نے جو گناہ زمانہ جاہلیت میں کیے قبول اسلام نے ان کو ہمیشہ کے لیے مٹا ڈالا۔
بیٹی جہنم سے بچانے کے لیے ڈھال:
ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص کو بیٹیوں کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا اس نے اس پر صبر کیا تو وہ بیٹیاں قیامت کے دن جہنّم سے ڈھال بن جائیں گی۔‘‘ (جامع الترمذی)
بیٹی سے محبت پر جنت:
ام المومنین عفیفہ کائنات سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیاں اٹھائے ہوئے میرے پاس آئی تو میں نے تین کھجوریں اسے کھانے کے لیے دیں اس نے ان دونوں کو ایک ایک کھجور دے دی اور باقی ایک کھجور اپنے منہ کی طرف اٹھائی تاکہ اسے کھائے لیکن وہ بھی اس کی دونوں بیٹیوں نے کھانے کیے لیے مانگ لی۔ تو اس نے اس کھجور کے، جسے وہ کھانا چاہتی تھی، دو ٹکڑے کیے اور ان دونوں بیٹوں کو دے دیے۔
مجھے اس کی یہ بات بہت اچھی لگی، پس اس نے جو کیا تھا میں نے اس کے بارے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بتایا تو آپؐ نے فرمایا: یقیناً اﷲ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کے لیے جنت واجب کردی یا (فرمایا) اسے جہنم کی آگ سے آزاد فرما دیا ہے۔ (مسلم)
بیٹی سے حسن سلوک پر جنّت:
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص کی بچی پیدا ہو وہ نہ تو اسے زندہ دفن نہ کرے اور نہ ہی اس کے ساتھ بُرا سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اﷲ تعالیٰ اسے جنّت میں داخل کرے گا۔‘‘ (سنن ابی داؤد)
تین بیٹیوں کی اچھی پرورش پر جنّت:
حضرت ابُوسعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، انہیں اخلاقی و معاشرتی ادب سکھلایا، ان کی اچھی جگہ شادی کی اور بعد میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنّت ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد)
دو بیٹیوں کی اچھی پرورش پر جنّت:
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں پھر ان کا اچھے گھرانے میں نکاح کردیا تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ایسے ہوگا جیسے یہ انگلیاں۔ پھر آپ ﷺ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں ملا لیا۔‘‘ (صحیح مسلم)
ایک بیٹی کی اچھی پرورش پر جنّت:
حضرت ابُوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس کی تین بیٹیاں ہوں وہ ان کی پرورش کرے، انہیں رہنے کی جگہ دی، ان کی ضروریات کو پورا کیا تو اس کے لیے جنّت واجب ہوجاتی ہے، صحابہ کرامؓ نے کہا کہ ہم نے آپ ﷺ سے دو بیٹیوں کے متعلق سوال کیا کہ ان کی وجہ سے بھی جنّت ملے گی تو آپؐ نے فرمایا کہ ہاں دو بیٹیوں کی وجہ سے بھی جنّت واجب ہو جاتی ہے۔ صحابہ کرامؓؓ نے کہا کہ ہم نے آپؐ سے ایک بیٹی کے متعلق سوال کیا کہ اس کی وجہ سے بھی جنّت ملے گی تو آپؐ نے فرمایا کہ ہاں ایک بیٹی کی وجہ سے بھی جنّت واجب ہو جاتی ہے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی)
اﷲ تعالیٰ ہمیں بیٹیوں سے پیار و محبت عطا فرما کر ان سے حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
The post بیٹیوں کا مقام و مرتبہ appeared first on ایکسپریس اردو.