انتہاء پسندی سخت قابل مذمّت اور قابل نفرت فعل ہے جسے انسانیت اور انسانی اخلاقیات سے قطعاً کوئی علاقہ نہیں۔
بنیاد پرستی و رجعت پسندی سے ابھرنے والے غیرمعتدل رجحانات اور رویّے انتہاء پسندانہ طرز فکر و عمل کو جنم دیتے ہیں اور بلاشبہ انتہاء پسندی بھی اب ایک عالم گیر مسئلہ بن چکا ہے جسے کسی خاص ملک و قوم اور مذہب و ثقافت سے نتھی کرنا بھی ایک اور قسم کا انتہاء پسندانہ بیانیہ قرار پاتا ہے۔
ابھی حال ہی میں ایک دفعہ پھر دنیا بھر میں بسنے والے تقریباً دو ارب مسلمانوں کی متفقہ، مستند اور مقدس ترین الہامی کتاب قرآن حکیم کی بے حرمتی کا دل آزار سانحہ مغربی سرزمین پر وقوع پذیر ہوا ہے۔ جب کبھی نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم یا قرآن حکیم کی توہین اور بے ادبی کا جاہلانہ یا مخاصمانہ انفرادی و شخصی واقعہ پیش آتا ہے تو یقیناً انسانی اخلاقیات کی دھجیاں بکھرتی ہیں اور اس وقت تو انسانی اخلاقیات کا ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے جب کسی ایسے بدبخت و ملعون گستاخ کے پیچھے جمہوریت اور انسانی حقوق کی دعوے دار ریاستیں آزادی اظہار رائے کی آڑ لے کر آن کھڑی ہوتی ہیں۔
واضح رہے کہ کسی فرد کا شخصی مجرمانہ فعل تو جاہلیت اور عدم واقفیت کی بناء پر ممکن الوقوع بھی ہو سکتا ہے لیکن جب مغربی لبرل ازم اور شخصی آزادی کو بنیاد بنا کر ایسے ملزم یا مجرم کا ریاستی سطح پر دفاع کیا جائے تو پھر مسلم امہ کی جانب سے اشتعال انگیزی، بین المذاہب کشاکش، تہذیبی تصادم اور عالم گیر شدت پسندی و بدامنی کی راہیں کھلنا ایک منطقی ردعمل ٹھہرتا ہے۔
حقیقی لبرل ازم میں ایک فرد کی آزادی معاشرے کے دیگر افراد کے احترام اور حریَت و حرمت سے مشروط ہوتی ہے جس کا کم ازم کم دائرہ یہ بنتا ہے کہ ہر فردِ انسانی کو اُس کے جان، مال، آبرو اور عقیدہ و مذہب کے تحفظ کا حق مساوی طور پر حاصل ہے۔ آئے روز مغربی سرزمین پر توہینِ رسالت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اور توہینِ قرآن کے ظہور پذیر مذموم واقعات مغربی لبرل ازم کے بطن میں موجود تعارض و تضاد کی واضح نشان دہی کرتے ہیں۔
سماج کے دیگر افرادِ انسانی کے مذہبی شعائر اور مسلّمات پر حملہ آوری لبرل ازم ہے نہ ریشنل ازم بلکہ سیدھی سادی شدت پسندی اور مسلّمہ انتہاء پسندی ہے۔ اپنے اس سوچے سمجھے بیانیے کو ہم گفت و شنید اور مکالمہ کے تمام فورمز پر منطقی و تاریخی استدلال کے ساتھ ثابت کر سکتے ہیں۔ لہذا بین الاقوامی امن اور انسانی رواداری کے عالم گیر کاز میں حائل مغربی لبرل ازم کے اس فکری تضاد کو حرفِ غلط کی طرح مٹا ڈالنا ہی روح عصر کا اوّلین تقاضا ہے۔
البتہ ہمیں بہ ہر طور آگاہ رہنا چاہیے کہ میڈیا کے اس جدید ترین دور میں ہماری ہر ایک نقل و حرکت کے خود ہمارے اوپر اور دوسرے لوگوں پر دُور رس اثرات مرتّب ہوتے ہیں، یہاں تک کہ دنیا ہماری تاریخ کے مطالعے سے زیادہ ہمارے حال کو پڑھتی اور پھر ہمارے اسی اجتماعی کردار کے تناظر میں ہماری بنیادی فکر اور اساسی نظریہ کو پرکھا جاتا ہے۔ مغربی دنیا یہ غلط رائے قائم کر بیٹھی ہے کہ قرآنی تعلیم اور اس پر ایمان رکھنے والی مسلم کیمونٹی اپنے سماج یا دنیا میں موجود دیگر عقائد و مذاہب کو برداشت کرنے سے قاصر ہے اور شاید اسلام میں دوسرے افکار کو جبراً مٹانا جہاد کہلاتا ہے۔
حالاں کہ حقیقت اس سے قطعاً مختلف ہے اور مسلم عروج کی پوری تاریخ فکری تکثیریت، ثقافتی تنوّع اور مذہبی رواداری جیسی خصوصیات کو معاشرے میں رواج دینے سے بھری پڑی ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ دینِ اسلام میں عقیدے کے متعلق کوئی زبردستی نہیں اور سورۃ الکافرون میں واضح صراحت کے ساتھ یہ پیغام دیا گیا ہے کہ تمہارے لیے تمہارا دین اور ہمارے لیے ہمارا دین۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی تریسٹھ سالہ مبارک زندگی اس حقیقت پر شاہدِ عدل ہے کہ جہاد کی حتمی شکل قتال کے فرض ہونے کے بعد جنگی حکمت عملی کو دور نبوّت کے صرف آخری دس سالوں میں ریاستی نظام کے تحت اور اجتماعی ظلم کو مٹانے کیے لیے استعمال کیا گیا۔
اسلام میں جنگ اور لڑائی کا فرد کے عقیدہ و مذہب یا ثقافت کی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں۔ مدینہ منورہ کی ریاست میں مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں، عیسائیوں اور مجوسیوں کو برابر کے سیاسی و سماجی حقوق حاصل تھے۔
مغرب میں ایک اور فکری مغالطہ یہ پیدا کر دیا گیا ہے کہ اسلام میں جدّت، عقلیّت اور عصریّت کی کوئی جگہ نہیں اور اس فکری مغالطے کی بنیادی وجہ بھی غیر معتدل رویّے اور بے اصل بیانیے ہیں جس سے وحی اور عقل باہم متصادم دکھائی دیتے ہیں حالاں کہ جب قرآن حکیم کا بہ راہ راست اور بہ غور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے مخاطبین تو اصل میں اہل عقل و بصیرت لوگ ہیں: ’’کیا وہ تدبّر نہیں کرتے۔‘‘ ’’کیا وہ غور و فکر نہیں کرتے۔‘‘ اور ’’کیا تمہیں شعور نہیں۔‘‘ اس طرز کی حکمت آفریں آیات سے سارا قرآن حکیم بھرا پڑا ہے جن کا احاطہ کرنا یہاں ممکن نہیں۔
اس ضمن میں ہرگز کوئی دوسری رائے موجود نہیں کہ اسلام سائنس، ٹیکنالوجی اور سماجی و ذہنی ترقی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے لیکن سرمایہ دارانہ مفاد میں سائنس کو مذہب اور مشین کو انسانیت کا متبادل بنا کر پیش کرنے کی مغربی انتہاء پسندانہ فکر کی وجہ سے مغربی لبرل ازم یعنی لبرل سرمایہ داری کے خاطر خواہ استحصالی کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
واضح رہے کہ مغربی عوام کے برعکس مغربی مستشرقین کی قرآن دشمنی باقاعدہ طاغوتی و سیاسی ایجنڈہ اور سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جس کے ذریعے دنیا میں مذہبی و تہذیبی تقسیم پیدا کی جاتی ہے تاکہ عوام کے معاشی استحصال اور معدنی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کو پس منظر میں رکھا جا سکے اور اس گھناؤنے مقصد کی تکمیل کے لیے مغربی رائے عامہ کو جہاد کی من گھڑت اور مسخ شدہ تعبیرات سے گم راہ کیا جاتا ہے۔ قرآن حکیم اور اسوۂ رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے تناظر میں جہاد و قتال ظلم و استحصال کو مٹانے کی ایک منظم اور ریاستی و ادارہ جاتی کاوش ہے۔
قرآن حکیم کا اصل معجزہ یہ ہے کہ قرآن قیامت تک آنے والی انسانیت کے تمام انفرادی و اجتماعی مسائل کو مخاطب کرنے کے علاوہ ان کا جامع و اصولی حل پیش کرنے میں بے نظیر انقلابی کتاب ہے۔
قرآن حکیم سے دنیا کے عقل مند طبقے کی دوری کی اصل وجہ ہماری اپنی سطحی سوچ اور تنگ دامنی ہے وگرنہ قرآن حکیم کی سب سے پہلی آیت عالمگیریت اور سب سے آخری سورۃ اور آیت انسانیت کے آفاقی عنوانات کو اپنے اندر سموئے تمام ذی شعور دنیا کو دعوت فکر دے رہی ہیں۔ عالم گیر رب، عالم گیر نبی و رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اور عالم گیر ہدایت و نصیحت کی آفاقی صداقتوں پر دل و جان سے ایمان رکھنے والی امت اور جماعت بھی محض اس لیے بہترین ہے کہ وہ تمام انسانیت کا فائدہ اور بھلا چاہتی ہے۔
’’تمام تعریفیں اس اﷲ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘
’’اور ہم نے آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
’’یہ قرآن تمام جہانوں کے لیے نصیحت و یاد دہانی ہے۔‘‘
’’تم بہترین جماعت انسانوں کی راہ نمائی کے لیے نکالی گئی ہو۔‘‘
یہ تعلیمات دراصل اسلام اور قرآن کی وہ اصل روح ہیں جنہیں میڈیا اور پروپیگینڈہ وار کی دبیز گرد نے معتدل اور غیر جانب دار دنیا کی نظروں سے اوجھل کر دیا ہے۔ اپنوں نے حقیقت سے غفلت برتی تو پھر دشمنوں کی دشمنی نے بھی کام کر دکھایا۔ کسی نے منہ سے جھاگ اڑائی کہ قرآن عدم برداشت کو ہوا دیتا ہے تو کوئی قرآن کو انتہاء پسندی اور فساد سے جوڑنے کا بہتان تراشنے لگا، کسی نے یونہی بے پر کی اڑا کر قرآن کو ترقی کا دشمن مانا تو کوئی اس سے خواہ مخواہ خوف کھانے لگا۔
بہ ہر حال قرآن حکیم کی ہر ایک سطر اور ہر ایک آیت آج کی دنیا کے ان تمام فکری مغالطوں اور کج فہمیوں کے ازالہ سے بھرپور اور معمور ہو کر غیر جانب دار دنیا کو دعوت فکر دے رہی ہے کہ قرآنی آیات پر ان میں گہرے تدبّر سے کام لیا جائے۔ قرآن حکیم دراصل حکمتِ الٰہی کا وہ لامتناہی سرچشمہ ہے جس سے جس درجہ میں بھی کوئی انسان سیراب ہونا چاہے تو کبھی بھی تشنہ و محروم نہیں رہے گا۔
بہ صورتِ دیگر قرآن حکیم کے نسخوں کو نذر آتش کرنے سے کرّہ ارضی آگ کا ایسا گولہ بن سکتا ہے کہ جہاں انسانیت تو کیا زندگی کا وجود ہی ناممکن و ناپید ہو کر رہ جائے۔ اسی لیے ہم بہ قائمی ہوش و حواس اور پورے شرح صدر کے ساتھ یہ دعوٰی کرنے میں حق بہ جانب ہیں کہ انسانیت کی مادی و سائنسی ترقیات اور اس کے ثمرات اس وقت تک نامکمل اور ادھورے رہیں گے تاوقتیکہ انسانیت کی جامع و فطری ترقی کے لیے قرآن کے عالم گیر، انسانیت گیر اور آفاقی دامن میں پناہ نہ لی جائے۔
بہ قول علامہ اقبالؒ:
آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم
حکمتِ او لا یزال است و قدیم
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
ایں کتاب نیست چیزے دیگر است
مثل حق پنہاں و ہم پیدا ست ایں
زندہ و پائندہ گویا ست ایں!
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود
مفہوم: ’’قرآن حکیم ایک زندہ جاوید کتاب ہے جس کی حکمت کو کبھی زوال نہ آئے گا۔ جو بات میرے دل میں چھپی ہوئی ہے وہ میں صاف صاف کہہ دیتا ہوں کہ یہ کتاب نہیں، کوئی اور ہی شے ہے۔ یہ حق تعالٰی کی مانند پوشیدہ بھی ہے اور ظاہر بھی۔ یہ زندہ اور ہمیشہ رہنے والا کلام الٰہی ہے اور اپنے پڑھنے والوں سے ہم کلام رہتا ہے۔ یہ کتاب جب کسی کے باطن میں اتر جائے تو اس کے اندر انقلاب پیدا کر دیتی ہے اور جب قرآنی حکمت کسی کی روح کو سرشار کر ڈالے تو اس کے گرد و نواح اور سارے جہان میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔‘‘
The post توہینِ قرآن، محرکات و نتائج appeared first on ایکسپریس اردو.