قرآن پاک کی حرمت و تعظیم کی لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ ازلی کلام الٰہی ہے جو لوح مکنون سے لوح محفوظ کی طرف اتارا گیا، جسے جبرائیل امینؑ بہ حکم الٰہی لے کر اترتے رہے اور اس سے بڑھ کر اس کی قدر و منزلت، شان و شوکت اور شرف و عظمت کی دلیل کیا ہوگی کہ یہ کلام الٰہی جس ہستی مبارک پر نازل ہوا وہ باعثِ تخلیقِ کائنات، شہِ لولاک محبوب خدا ﷺ ہیں۔
اس حکمت والی لاریب کتاب کو جس نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے یہ اپنی عظمت و شرف میں بے مثال ہے، جیسا کہ فرمان خداوندی کا مفہوم ہے:
’’یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے۔‘‘
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو سابقہ انبیاء ؑ پر جتنی بھی کتابیں نازل کی گئیں ان میں تحریف کر دی گئی لیکن قرآن کریم کا یہ امتیازی وصف ہے کہ جس نے بھی اس میں تحریف یا معارضہ کرنے کی کوشش کی وہ ناکام و نامراد ہوا۔
قاضی ناصر الدین عمر البیضاوی ’’تفسیر بیضاوی شریف‘‘ کے خطبہ میں فرماتے ہیں:
’’اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورتوں میں سے سب سے چھوٹی سورت کے ساتھ عرب کے بلند بانگ اور خاص الخاص خطبا ء کو چیلنج کیا (کہ اس کی مثل لے آؤ) لیکن انہیں اس پر قادر نہ پایا۔
فصحاء عدنان اور بلغاء قحطان میں سے جس نے اس کے معارضہ کا ارادہ کیا اسے لاجواب کر دیا حتی کہ انہوں نے بھی یہ گمان کیا کہ ان پر جادو کر دیا گیا ہے پھر اﷲ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے ان کی مصلحتوں کے پیش نظر جس قدر چاہا قرآن پاک کو واضح فرما دیا تاکہ وہ اس کی آیات میں غور کریں اور اہل عقل اس سے خوب نصیحت حاصل کریں۔‘‘
اگر قرآنی اسلوب اور اندازِ بیان کو گہرائی سے دیکھا جائے تو قرآن پاک کی ایک سورت تو درکنار اس کی ایک سورت کی آیات، ان کی آیات کے کلمات، الفاظ اور حروف ہی نہیں بلکہ زبر، زیر، شد و مد کے تحت بھی اس قدر حقائق اور رموز مخفی و پوشیدہ ہیں کہ زبان ان کو بیان اور قلم ان کو ضبطِ تحریر میں لانے سے قاصر ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے:
’’تم فرما دو! اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لیے سیاہی ہو تو سمندر ختم ہو جائے گا اور میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں گی۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا: ’’اور اگر زمین میں جتنے پیڑ ہیں سب قلمیں ہو جائیں اور سمندر اس کی سیاہی ہوں اس کے پیچھے سات سمندر اور (ہوں) تو اﷲ کی باتیں ختم نہ ہوں گی۔‘‘
قرآن کریم کی تعریف کرتے ہوئے میر سید شریف جرجانی ’’معجم التعریفات‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اہل حق کے نزدیک قرآن وہ اجمالی علم لدنی ہے جو حقائق کلیہ کا جامع ہے۔‘‘
اس بات کی تائید خود قرآن کریم اپنی زبانی فرماتا ہے، مفہوم: ’’اور کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیروں میں اور نہ کوئی تر اور نہ خشک جو ایک روشن کتاب میں لکھا نہ ہو۔‘‘
اسی طرح دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی کوئی چیز ہے جو ایک روشن کتاب میں نہ ہو۔‘‘
اس کی عظمت و بزرگی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر اصغر و اکبر چیز اس میں موجود ہے یعنی ہر چھوٹی سے چھوٹی اور ہر بڑی سے بڑی چیز کا علم اس میں درج ہے اور خشکی اور تری کی کوئی چیز ایسی نہیں جو اس میں نہ پائی جاتی ہو اگر انسان دارین میں اپنی نجات حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ بھی قرآن کی بہ دولت نصیب ہوگی۔
جب صاحب قرآن کی بات آتی ہے تو آپ ﷺ نے انسان کی دنیا و آخرت کی کام یابی و کام رانی کو اسی کے ساتھ متصل ذکر فرمایا: ’’آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! میں تم میں کتاب اﷲ اور اپنی عترت اپنے اہل بیت چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان کو پکڑے رکھو گے تو ہرگز گم راہ نہیں ہوگے۔‘‘
اﷲ عزوجل نے قرآن کی عظمت و فضیلت کو قرآن میں ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا:
’’بے شک! ہم نے قرآن پاک کو نازل فرمایا اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ روز بہان بقلی شیرازی فرماتے ہیں: ’’ہم نے قرآن مجید کو عارفین کے دلو ں میں اتارا اور اہل یقین کے سینوں اور صاحب اسرار اہل توحید کے دلوں میں اتارا اور بے شک ہم اس کے محافظ ہیں۔‘‘
دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا: ’’اسے نہ چھوئے مگر با وضو۔‘‘
پس ثابت ہوا کہ قرآن کو بغیر وضو کے چھونا شرعاً جائز نہیں ہے کیوں کہ یہ منہیات میں آتا ہے اور منہیات سے باز نہ آنا گناہ میں شمار ہوتا ہے۔ حضرت شہر بن حوشب فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا اﷲ تعالیٰ کے کلام کو اس کی مخلوق کے کلام پر اس طرح برتری حاصل ہے جیسا کہ اﷲ کو اپنی مخلوق پر برتری حاصل ہے۔
اس کی فضیلت کے متعلق مزید ارشاد فرمایا: ’’حضرت علی المرتضیٰؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عن قریب سخت فتنے ہوں گے تو میں نے عرض کی یارسول اﷲ ﷺ ان سے کیسے نکلا جائے گا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کتاب اﷲ جس میں تم سے پہلوں کی اور تم سے بعد والوں کی خبریں ہیں اور تمہارے مابین کے فیصلے اور احکام ہیں اور وہ فیصلہ کن ہے کوئی ہنسی کی بات نہیں ہے اور جس نے اسے چھوڑا اپنے تکبر کی وجہ سے تو اﷲ تعالیٰ اس کو ہلاک کر دے گا اور جس نے اس کے علاوہ کسی اور چیز میں ہدایت کو تلاش کیا اس کو اﷲ تعالیٰ ذلیل و رسوا کر دے گا وہ اﷲ تعالیٰ کی مضبوط رسی ہے اور اس کا ذکر حکمت والا ہے اور وہ صراط مستقیم ہے۔‘‘
قرآن کریم کی تلاوت کے وقت جمائی روکنا یہ بھی قرآن کی عظمت اور حرمت پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے متعلق صاحب تفسیر قرطبی رقم طراز ہیں: ’’اور قرآن کی حرمت میں ایک بات یہ بھی ہے کہ جب بندہ کو جمائی آئے تو قرأت قرآن سے رک جائے کہ بے شک بندہ جب قرأت کرتا ہے تو اس وقت اپنے رب کے ساتھ مخاطب اور سرگوشی کر رہا ہوتا ہے اور جمائی کا آنا شیطان کی طرف سے ہے۔‘‘
قرآن پاک کی عظمت کے ساتھ شرف انسانی بھی واضح ہوتا ہے کہ قرآن پاک کے ذریعے بندہ اپنے مالک و مولا سے ہم کلامی کا شرف حاصل کر رہا ہوتا ہے جو کہ معراج انسانیت کا انتہائی درجہ ہے۔ قرآن مجید کو یہ بھی اعجاز حاصل ہے کہ اس کی مثل لانے کی کوئی قدرت نہیں رکھتا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے اس بات کو متعدد مقامات پر ذکر فرمایا، ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ’’تم فرماؤ! اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کی مثل نہ لا سکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مدد گار ہوگا۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے عرب کے فصحاء و بلغاء کو چیلنج فرمایا کہ تمہارے نزدیک یہ قرآن کسی بشر کا کلام ہے تو تم اس کی مثل لے آؤ وہ اس کی مثل لانے سے عاجز آ گئے۔
قاضی ثناء اﷲ پانی پتی نے تفسیر مظہری میں اس بات کو یوں ذکر کیا ہے: ’’امام بغوی فرماتے ہیں: جب کفار نے کہا اگر ہم چاہتے تو ضرور ہم اس کی مثل کہتے تو اس وقت آیت کریمہ نازل ہوئی، اﷲ عزوجل نے اس میں ان کی تکذیب فرمائی اور اس میں حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے معجزے کا اظہار ہے اس حیثیت سے کہ اﷲ رب العزت نے اس کے ساتھ خبر دی اور وہ اس کا معارضہ کرنے پر اپنے پورے حرص کے باوجود بھی وہ اس کی ایک چھوٹی سی سورت کی مثل بھی نہیں لا سکتے کیوں کہ وہ قدرت بھی نہیں رکھتے۔‘‘
امام جلال الدین سیوطیؒ اسی آیت کے تحت ابن جریج کا قول نقل کرتے ہیں:
’’حضرت ابن جریج فرماتے ہیں اگرچہ جن ظاہر ہوجاتے اور انسان ان کی معاونت بھی کرتے تو ان پر واضح ہو جاتا کہ وہ اس قرآن کی مثل نہیں لا سکتے۔‘‘
پورا قرآن تو کجا اﷲ تعالیٰ نے فرمایا دس سورتیں ہی لے آؤ اور ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’کیا یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے اپنے جی سے بنا لیا تم فرماؤ کہ تم ایسی بنائی ہوئی دس سورتیں لے آؤ اور اﷲ تعالیٰ کے سوا جو مل سکے سب کو ملا لو اگر تم سچے ہو۔‘‘
پھر باری تعالیٰ نے اس کی سورتوں کی مثل ایک سورت لانے کا چیلنج فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کیا یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے بنا لیا ہے تم فرماؤ تو اس جیسی کوئی سورت لے آؤ اور اﷲ تعالی کو چھوڑ کر جو مل سکیں سب بلا لاؤ اگر تم سچے ہو۔‘‘
’’اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے (ان خاص) بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤ اور اﷲ کے سوا اپنے سب حمایتیوں کو بلا لو اگر تم سچے ہو۔‘‘
لہٰذا قیامت تک کوئی انسان قرآن کریم کی مثل نہیں لا سکتا۔
لیکن کفار اور دشمنان اسلام یورپ کے مختلف ممالک اور حالیہ دنوں سویڈن میں اسلامی دشمنی کی پیش نظر قرآن کریم کی اہانت اور گستاخی اور توہین کر کے دنیا کی مسلم آبادی کو رنجیدہ کیا۔ اس اقدام پر دنیائے اسلام کا سخت ردعمل سامنے آیا ہے اور سویڈن کی حکومت پر اسلام مخالف اقدامات کی روک تھام نہ کرنے پر سخت تنقید کی جا رہی ہے ۔
اسلامی دنیا کا کہنا ہے کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ بعض یورپی ممالک ماضی کی طرح آزادی اظہار رائے کی حمایت کا جھوٹا دعوی کر کے اور اسے بہانہ بنا کر اسلامی مقدسات اور اسلامی اقدار کے خلاف نفرت پھیلانے کی راہ میں انتہا پسند اور شدت پسند عناصر کے لیے راستہ ہم وار کر رہے ہیں اور انسانی حقوق کے نعروں کے باوجود وہ اپنے معاشروں میں اسلامو فوبیا کو ہوا دیتے ہیں۔
ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کے عمل کو دہرانا تمام مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور تشدد کو ہوا دینے کی واضح مثال ہے اور اس طرح کے اقدامات کا اظہار رائے کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسلمان اپنے مقدسات کی توہین ہر گز برداشت نہیں کر سکتا۔
The post قرآن حکیم کی حرمت، عظمت اور تعظیم appeared first on ایکسپریس اردو.