عورت کی زندگی کا ہر روپ ہی جدا ہے، اس کے ہر رشتے میں حلاوت اوت مٹھاس ہے۔ محبت اور اخلاص جیسے لازم و ملزوم ہیں۔ بیٹی، بہن اور بیوی سے ماں تک کا سفر ہی زندگی کا مقصود ٹھیرتا ہے۔
ماں کا اعزاز ملنے پر ذمہ داریاں بھی دُہری ہوتی چلی جاتی ہیں۔ پھر زندگی اپنی نہیں رہتی، بلکہ ان کے لیے ہی وقف ہو جاتی ہے، جو ہمیں زندگی سے زیادہ عزیز ہیں۔ لباس سے لے کر خوراک تک اپ کی پسند تبدیل ہو جاتی ہے۔ آنکھوں کے گرد حلقے، مرجھائے ہوئے جلد، مسلے ہوئے کپڑے، ترشے ہوئے ناخن، بالوں کو سمیٹ کر ایک جوڑے کی صورت لپیٹ لینا یہی ’بہترین‘ ماؤں کی علامات سمجھی جاتی ہیں۔
آپ کو وہی پہننا ہے، جس میں آپ کا بچہ پرسکون ہو۔ اپ کا لاکھ دل چاہے کہ جناب آپ کو فلاں تقریب میں کام دار جوڑا پہننا ہے یا اونچی ایڑیوں کے جوتے۔۔۔ مگر نہیں جناب، اتنے چھوٹے بچے کے ساتھ ہائی ہیل اور یہ کپڑے۔۔۔ چبھ جائیں گے اسے، کوئی دوسرا سادہ اور آرام دہ لباس پہن لو۔
آج تو بریانی کھانے کو جی مچل رہا ہے، وہ بھی ذرا مسالے دار قسم کی، ارے نہیں ایسا کرو سادہ پلاؤ بنالو، بچے بھی شوق سے کھالیں گے اور چاول تھوڑے نرم رکھنا، تاکہ بچوں کو کھانے میں بھی مسئلہ نہ ہو۔ چلیے کوئی بات نہیں آپ پلاؤ پر چٹنی ڈال کر کھا لیجیے گا۔۔۔ آخر ماں ہیں۔
کیا ماں بننے کا مطلب اپنے وجود کی نفی کر دینا ہے۔۔۔؟
شادی ہوئی تو مصروف زندگی میں ذمہ داریاں بھی دُگنی ہوگئیں، پھر جب بچوں نے زندگی میں چار چاند لگائے تو دن میں بھی تارے دمکنے لگے۔ ذمہ داریاں بڑھتی چلی گئیں، ننھے سے وجود کو سنبھالنا، اُس کی دیکھ ریکھ، اُسے پروان چڑھانا۔۔۔ ان دنوں تو جیسے کوئی ہوش نہیں رہتا۔ لباس سے لے کر طبعیت میں بھی تبدیلی آگئی اب فی الحال سب سے بڑی خواہش ہے کہ ایک پیالی گرم چائے پی سکوں یا سکون سے اپنا کھانا ایک ہی نشست میں کھا سکوں۔
پھیلاوا ہی پھیلاوا ہے زندگی میں۔۔۔ گھر سارا تلپٹ، پھیلا ہوا جسم اور بڑھتی ہوئی بیزاریت۔۔۔ اب ان تمام معاملات کو سمیٹا کیوں کر جائے؟ اس بکھیرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے کوئی تو حل نکالنا ہی پڑے گا ناں، ورنہ شاید اوپر تلے بچوں اور ارد گرد کے رویے انسان کو کافی منفی بنا دیتے ہیں۔ کوئی مثبت پہلو نظر ہی نہیں آتا۔ ایسے میں اگر زیادہ بھی نہیں تو ایک ایسی دوست ہونی چاہیے، جو آپ کی زندگی کا ایک روز بھی بھرپور بنا دے۔
جس کے ساتھ آپ اونچی آواز میں قہقہے لگا سکیں۔ اپنی مرضی سے گول گپے اڑا سکیں۔ کبھی گاڑی میں اونچی آواز میں ’واہیات گانے‘ سنیں۔ کچھ تھوڑی سی خوش گپیاں اور گزرے ہوئے دنوں کے کچھ واقعات کو بار بار دُہرا سکیں اور ان لمحوں کا لطف اٹھا سکیں۔ یہی میری ’تھراپی‘ ہے اور ایسی ہی کوئی بھی سرگرمی ہر اس ماں کے لیے بھی ضروری ہے، جسے ایک ’چھاپ‘ لگاکر ایک خول میں بند کر دیا گیا ہے۔ جس کے لیے آج کا دن اسے ’خراج تحسین‘ تک محدود کر دیا گیا ہے، اس کی اپنی زندگی اور اس کی خواہشات کی گنجائش کی بات شاید کہیں بھی نہیں کی جاتی ہے۔
ماں کا رتبہ اور ذمہ داری بلاشبہ ایک مرحلہ ہے جس می ماں کو قربانیاں دینی پڑتی ہیں، لیکن ہمارے معاشرے میں ماں کو ایک ایسی مسند پر بٹھادیا جاتا ہے، جہاں اس کی زندگی اس کی خواہش اس کی ذہنی و جسمانی آسودگی کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔ یہ بالکل ہی فطرت کے الٹ ہے۔ ہر ماں ایک عورت ایک انسان بھی ہے، جس کی اپنی خواہشات اور زندگی بھی ہے اور اگر ایک ماں ذہنی طور پر آسودہ نہیں ہوگی، تو وہ پھر کیا سوچ بچوں میں منتقل کرے گی۔
لہٰذا بطور ماں، اپنے لیے بھی ضرور وقت نکالیے۔ بچوں کے لیے کھانے پکاتے وقت کسی روز اپنی پسند کو بھی اہمیت دیں۔ کبھی آپ بھی پہلے کی طرح سج سنور لیجیے، کبھی پارلر جاکر اپنا آپ سنوارلیجیے، کبھی پہلے کی طرح من چاہے ہیئر اسٹائل اپنائیے۔۔۔ ہائی ٹی پر جائیے، کسی دن یونہی اپنی انھی ہم جولیوں کے ساتھ اسی جامعہ کی کینٹین پر پرانی یادیں تازہ کیجیے، جس پر ابھی کچھ برس پہلے آپ کی بے فکر زندگی پھرا کرتی تھی۔
ورنہ میری طرح کھل کر سانس لینے کا جی چاہے تو اپنے ہم مزاج شریک حیات کے ہمراہ ہوا خوری کو جائیے۔۔۔ یا ساحل سمندر کا رخ کیجیے۔۔۔ کچھ عرصے تک آپ کو جینے کا لطف آتا رہے گا۔ اپنا دن گزار کر اپنا وجود بھرپور لگے گا۔ اپنے بچوں کی ہی خاطر خود کو تازہ دم رکھیے۔ ماں ایثار اور قربانی کا پیکر ضرور ہے لیکن ماں بننے کا مطلب یوں ہرگز اپنی ذات تیاگ دینا نہیں ہوتا، بلکہ ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے جینا ہوتا ہے۔
The post ماں بننے کا سفر اپنی ذات کی نفی ہرگز نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.