دامن میں ماں کے صرف وفاؤں کے پھول ہیں
ہم سارے اپنی ماں کے قدموں کی دھول ہیں!
کہتے ہیں دنیا کا ہر رشتہ بے وفا ہو سکتا ہے، ایک بیوی، ایک لڑکی، ایک محبوبہ بھی ’بے وفائی‘ کر سکتی ہے، لیکن ایک ماں کبھی بے وفا نہیں ہوتی۔ ماں اپنی اولاد کے لیے سراپا وفا ہوتی ہے۔
انسان کے لیے ماں قدرت کی طرف سے وہ حسین اور ان مول تحفہ ہے، جس کے آگے دنیا کی ہر نعمت بے معنی اور پر رشتہ سطحی لگنے لگتا ہے۔ ایک عورت کے ساتھ ماں کا لفظ جڑنے کے ساتھ اولاد سے جڑے ہوئے تمام تر خوب صورت احساسات اور جذبات خود ہی وارد ہونے لگتے ہیں۔ ایک ماں کو یہ بتانے کی ضرورت قطعاً نہیں ہوتی کہ اس کے بچے کی کس وقت کیا خواہش اور ضرورت ہے۔ چاہے اس بچے کو ماں نے ہی جنم دیا ہو یا پھر کسی اور کا بچہ گود لیا ہو، بنیادی دیکھ بھال سے لے کر اس کی ذہنی، جسمانی اور نشوونما تک اور اس کی کردار سازی سے اس کی شخصیت سازی تک وہ ماں ہی ہے، جو سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔
کہتے ہیں ہم ماں کی ایک رات کی مشقت کا حق اور قرض ادا نہیں کر سکتے! ارے ماؤں کے لیے یہ محبت اپنی اولاد پر کوئی قرض نہیں، بلکہ بے حساب محبت، شفقت، پیار، راہ نمائی اور زندگی میں سیکھنے، آگے بڑھنے، کردار سازی اور شخصیت کو پروان چڑھانے میں مدد اور راہ نمائی کا فرض ہوتا ہے، جو ایک ماں کو اپنی اولاد کے لیے ان تھک محنت اور بے لوث محبت کے جذبے سے سرشار کرتا ہے۔
ویسے ’امی‘ کی فلائنگ چپل سے لے کر ان کی نرم گرم گود کے پیار تک محبت کا ہر جذبہ ان مول اور مار کھانے کا ہر تجربہ انوکھا ہی ہوتا ہے! امی چاہے زیادہ روایتی قسم کی ہوں، ماڈرن ہوں، جاب کرنے والی ہوں یا پھر گھریلو خاتون ہوں ’فلائنگ چپل‘ سے کر ’صلواتوں‘ تک اور سوتے میں خیال رکھنے اور پیار کرنے سے لے کر کھانے پینے اور دیگر نخرے اٹھانے تک، ہر ماں کی اپنے بچوں سے محبت منفرد اور غیر مشروط ہوتی ہے۔
مائیں بھی عجیب ہوتی ہیں، اپنی اولاد کی مدد کے لیے ایسے مشکل ترین وقت میں بھی دست یاب اور کمربستہ ہوں گی، جب کوئی ان کی مدد کے لیے تیار نہ ہو، جب محبت اور دوستی کا دم بھرنے والے تمام رشتے اور دوست دوسرے کنارے پر کھڑے ہوں گے ایسے میں ماں ’سہارے‘ کی کشتی لیے کھڑی نظر آئے گی۔ بچپن میں ہوم ورک کرنے کی پریشانی سے لے کر کھیل کے کسی میدان کی ’کام یابی‘ کے یقین تک یہ’امی‘ ہی ہوتی ہیں جو ہم کو یہ اعتماد دلاتی ہیں کہ ہاں ہم یہ کرسکتے ہیں! اولاد کی کام یابیوں پر حقیقی خوشی سے بیماری میں سوپ بنا کردینے اورتیمارداری کرنے تک اولاد ماں کا فخر اور غرور ہوتی ہے۔
امّیاں ہمیشہ اپنے بچوں پر فخر کرتی ہیں، چاہے وہ کچھ بھی کریں۔ وہ آپ کے کھیلوں کی تقریبات میں آپ کی حوصلہ افزائی بھی کریں گیں، آپ کی کام یابیوں کا جشن بھی منائیں گیں، اور آپ سے غیر مشروط محبت بھی کریں گے۔
یہ ہی نہیں اولاد دنیا جہاں میں کوئی بھی بڑے سے بڑا غلط کام کر کے آجائے، کتنا بھی بڑا نقصان کر دے، لیکن یہ مائیں ہمیشہ معاف کر دیتی ہیں۔ اولاد کی غلطیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں کی پردہ پوشی سے کر ان کو درگزر کردینے تک مائیں اپنی اولاد کو ہر بار ہمیشہ ایک موقع اور دیں گی۔ چاہے اولاد اس کی مستحق ہو یا نہیں۔ کیوں کہ بے لوث محبت، شفقت اور وفا کا دوسرا نام ’ماں‘ ہی تو ہے۔ اللہ نے ماؤں کی سرشت میں اپنی اولاد کے لیے صرف اور صرف بے لوث محبت رکھی ہے، اس ہی لیے یہ ’امی‘ ہمیشہ صرف پیار ہی کرتی ہیں۔ ماں اولاد سے صرف محبت کرے گی، چاہے کچھ بھی ہو، یہاں تک کہ جب اولاد مشکل یا پریشانی میں ہو گی، تب بھی وہ اس یقین کے ساتھ اولاد کو دلاسا دے گی کہ ایسا لگتا ہے کہ ہاں واقعی سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ایک لڑکی کو ماں جیسے مقدس رُتبے تک پہنچنے میں رَت جگوں سے لے کر اعصابی، نفسیاتی اور ذہنی دباؤ اور تکالیف تک بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہوتا ہے، لیکن ایک معصوم فرشتے کے گود میں آتے ہیں ماں اپنی تکلیفیں بھول کر ننھی سی جان کو گلے لگالیتی ہے۔ بچوں کی خوشیاں، کام یابیاں، بڑھتے ہوئے بڑے ہوتے ہوئے دیکھ کر ہی ماں کی تمام آزمائشیں اور تکالیف اس کے لیے بے معنی ہو جاتی ہیں اس ہی لیے تو ماں کا رتبہ اور درجہ ہمیشہ سے سب سے بڑا اور ان مول ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
ماں کو اگر خاندان کا سب سے مضبوط فرد اور رشتہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کیوں کہ صرف ماں ہی وہ ہستی ہے، جو اپنی اولاد کے لیے ہمیشہ ہروقت ہر جگہ دست یاب ہوتی ہے۔ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے، تو اس کی دعائیں اولاد کے لیے تاحیات راہ نجات ہیں۔
ماں وہ ہستی ہے، جو نہ صرف اولاد کی تعلیم و تربیت کرتی ہے، بلکہ اولاد کی اولاد کو بھی پروان چڑھانے اور معاشرے کی تکمیل میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہوتی ہیں۔ اپنی اولاد کو پیار، احترام اور ذمہ داری جیسی اہم اقدار سے آشنا کرانے والی ہستی ماں ہی ہے۔
مائیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ ویسے تو ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ماں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ماں کی عظمت، رتبہ اور مقام سب کے لیے ایک ہی جیسا ہے، لیکن ماں ایسی ہستی ہے، جو اولاد کی خدمت، احترام، وقار اور تعریف کی کہیں زیادہ مستحق ہے۔ مائیں ہمارے معاشرے کی وہ گم نام ہیرو ہیں، جن کو کوئی ایوارڈ نہیں دیا جاتا اور شاید ماں کو اس ایوارڈ کی قطعاً کوئی ضروت بھی نہیں، کیوں کہ ماں کی اپنی اولاد سے محبت اور پیار بے لوث اور بے غرض ہے۔ اس کی خوشی اس کی اولاد کی خوشی اور تکلیف اولاد کے غم میں ہے، لیکن وہ دنیا کی تمام خوشیوں کے مستحق ہیں۔
آپ خوش قسمت ہیں اگر آپ کی ماں بہ قید حیات ہیں، اپنی ماں کی قدر کریں۔ ’ماں‘ انسان کی زندگی کے اہم ترین لوگوں میں سے ایک ہستی ہے، جس کا نہ ہونا انسان کی زندگی کے لیے ناقابل تلافی نقصان کے سوا کچھ نہیں۔
آج ’یام مادر‘کے موقع پر میں اپنی امی کے لیے چند جملے کہنا چاہوں گی، جو شاید ان کی شایانِ شان نہ ہوں اور شاید میرے الفاظ میرے جذبات کی مکمل ترجمانی نہ کر سکیں، لیکن یہ اقرار بھی بہت ضروری ہے کہ ’میری امی‘ میری زندگی کی پہلی استاد ہیں۔ وہ میری گائیڈ، میری کیرئیر کونسلر، میری دوست اور سب سے بڑھ کر میری دنیا ہیں۔ اپنے ہر مشکل وقت میں میں نے اپنی ماں کے علاوہ کسی کو اتنا قریب اور عزیز نہیں پایا۔ وہ میری زندگی کی واحد بقا ہیں۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں اللہ کی مہربانی اور عطا کے بعد اپنی امی کی وجہ سے ہوں اور اس سب کے لیے میں اللہ کے بعد اپنی امی کی شکر گزار اور مقروض ہوں
The post ممتا کے جذبات۔۔۔ وفاؤں کے پھول! appeared first on ایکسپریس اردو.