اقوام متحدہ کی رو سے بھارت دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن چکا۔ اس کی موجودہ آبادی ایک ارب بیالیس کروڑ سے زائد ہے۔بحثیت پاکستانی ہمارے لیے اس بھی زیادہ اہم اور تشویش ناک خبر یہ ہے کہ بھارت میں ایک نیا مذہب’’ہندتوا‘‘تیزی سے پھیل رہا ہے۔
یہ مذہب ہندومت سے تعلق رکھنے والے کٹر، انتہا پسند اور قوم پرست مذہبی و سیاسی رہنماؤں کی تخلیق ہے۔فاشزم و نازی ازم کے متشددانہ نظریات پہ مبنی اس نئے مت کی خصوصیت مسلم و اقلیت دشمن ہونا ہے۔یہ کم پڑھے لکھے اور ناخواندہ بت پرستوں میں مقبول ہورہا ہے جو انتہا پسندانہ پروپیگنڈے کے زیراثر بھارتی مسلمانوں کو اپنے معاشی و معاشرتی مسائل ومصائب کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔
خوف کا شکار بھارتی مسلمان
ہندتوا مذہب پھیلنے کی وجہ ہی سے بھارتی مسلمان اب اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے۔ جن علاقوں میں اس نئے مذہب کے پیروکاروں یعنی ہندتویوں کی اکثریت ہے، وہاں ایک مسلمان اسلامی ہیئت ولباس میں سڑک یا بازار میں آرام سے نہیں چل سکتا۔اسے مسلسل یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کوئی کٹر ہندتوی اسے خنجر یا گولی کا نشانہ بنا دے گا۔
بھارتی مسلمان اب مخصوص محلے بنا کر رہنے لگے ہیں تاکہ اپنی جان، مال و عزتوں کو ہندتویوں کے حملوں سے محفوظ رکھ سکیں۔
افسوس یہ کہ ایسے بیشتر محلوں میں سرکاری اداروں کے تعصب کی وجہ سے زندگی کی بنیادی ضروریات بھی مسلمانوں کو میسّر نہیں۔ہندتوا کے پیروکاروں کی درست تعداد تو نامعلوم ہے مگر وہ چالیس پچاس کروڑ کے درمیان ہو سکتے ہیں۔جبکہ ان کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
افریقی: ہندوستان کے پہلے باسی
ہندتوا کے قائدین کا دعوی ہے کہ ہندتوی قوم شروع سے بھارت میں آباد ہے۔ تاہم 2018ء میں ممتاز امریکی ماہر ڈی این اے اور ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر، ڈیوڈ ریش (David Reich)نے دنیا بھر کے ’’بانوے‘‘ماہرین تاریخ، بشریات، جینیات اور آثار قدیمہ کے ساتھ مل کر ایک تحقیق ’’جنوبی و وسطی ایشیا کی جینیاتی تشکیل‘‘(The Genomic Formation of South and Central Asia)شائع کی تھی۔
ان ماہرین نے براعظم ایشیا میں مقیم قدیم و جدید انسانوں کے ڈی این اے کا تقابلی جائزہ لیا۔مقصد یہ جاننا تھا کہ اہل بھارت کے آباواجداد کون تھے۔اس تحقیق سے افشا ہوا کہ ہندوستان (یا برعظیم پاک وہند)کے پہلے رہائشی افریقی تھے جن کی اولاد نے ہندوستان میں ابتدائی انسانی بستیوں کی بنیاد رکھی۔یہ افریقی ساٹھ سے ایک لاکھ سال پہلے وارد ہوئے تھے۔
ایرانیوں کی آمد
درج بالا تحقیق کے مطابق دس ہزار سال پہلے ایران کے علاقے، زاگرس (Zagros) میں بسے ایرانی ہجرت کر کے ہندوستان آنے لگے۔یہ واضح رہے، ماہرین کا خیال ہے کہ بارہ ہزار سال پہلے زراعت ومویشی پروری نے اس علاقے میں جنم لیا جہاں آج ترکی، شام، عراق اور ایران کی سرحدیں ملتی ہیں۔
اس علاقے میں اناطولیہ(ترکی)، زاگرس(ایران)اور وادی دجلہ وفرات(شام و عراق) شامل ہیں۔زاگرس سے پانچ ہزار سال تک ایرانی قافلے وقفے وقفے سے ہندوستان آتے رہے۔وہ افریقیوں کی مقامی آبادی میں گھل مل گئے۔انہی افریقی وایرانی باشندوں کی اولاد نے وادی سندھ کی تہذیب کی بنیاد رکھی۔اس تہذیب کے لوگ زراعت پیشہ اور تہذیبی وثقافتی لحاظ سے ترقی یافتہ تھے۔
قازق آ پہنچے
ماہرین کی رو سے چار ہزار سال پہلے قازقستان سے انسانوں کا نیا گروہ ہجرت کر کے ہندوستان آنے لگا۔یہ نئے باسی گھڑ سوار اور جنگجو تھے۔انھوں نے مقامی پُرامن لوگوں کو شکست دے کر موجودہ پاکستان اور شمالی بھارت کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا۔اس علاقے کے مقامی لوگ ہجرت کر کے جنوبی یا مشرقی بھارت چلے گئے۔
انہی علاقوں میں آج بھی ان کی اولاد آباد ہے۔ہجرت کرنے والوں کو ’’دراوڑ ‘‘کہا جاتا ہے۔جو دراوڑ اپنے علاقے میں مقیم رہے ، وہ جلد قازقوں کے خدمت گذار اور غلام بن گئے۔انھیں ’’اچھوت‘‘کا نام دیا گیا جو دور جدید میں دلت یا ہریجن کہلاتے ہیں۔
موحد ین اور بت پرست
مشرق وسطی موحدین یا ایک اللہ کو ماننے والوں کا مرکز تھا۔لہذا کہا جا سکتا ہے کہ زاگرس، ایران سے آنے والے موحد تھے۔ان کی کوششوں سے افریقیوں کی اولاد بھی موحد ہو گئی۔ ایک ثبوت یہ ہے کہ ہندوستان کی قدیم ترین مذہبی کتب، ویدوں میں خدائے واحد کا تصّور موجود ہے۔گو ویدوں کی دیگر دیوی دیوتاؤں کا بھی ذکر ملتا ہے۔
یہ حقیقت آشکارا کرتی ہے کہ ویدوں کی تشکیل میں افریقی اور زاگرسی باشندوں کی اولاد نے بھی حصہ لیا ہو گا۔تبھی ان میں ایک خدا کا تصّور شامل ہو گیا۔تاہم شمالی ہندوستان میں افریقی ، ایرانی اور قازق باشندوں کے ادغام سے جو نئی نسل پیدا ہوئی، اس نے بت پرستی کو اپنا لیا۔یہی وجہ ہے، ویدوں میں دیوی دیوتا بھی در آئے۔بعد ازاں تو ان کی پرستش عام ہو گئی اور ایک خدا کا تصّور پس پشت چلا گیا۔بت پرستی کے اس اولیّں ہندوستانی مذہب کو اب ’’برہمن مت ‘‘کہا جاتا ہے۔
اس مذہب کے پیشوا یا پجاری برہمن کہلائے اور انہی کے نام پر اس کا نام بھی پڑ گیا۔ممکن ہے کہ بعض برہمن ایک خدا کی عبادت کرتے ہوں مگر ان کی اکثریت متفرق دیوتاؤں اور دیویوں کی پوجا کرتی تھی۔اُدھر دراوڑوں کی اکثریت بھی بت پرست بن بیٹھی مگر ان کے دیوتا برہمن مت کے دیوتاؤں سے مختلف تھے۔
ذات پات کا نظام
برہما، وشنو اور شیو برہمنوں کے مرکزی دیوتا تھے۔رفتہ رفتہ یہ تریمورتی ختم ہوئی اور برہما کی عبادت بہت کم ہونے لگی۔ مزید براں مذہبی رہنماؤں نے اپنے معاشرے کو چار طبقوں…برہمن (پجاری)، کھشتری(فوجی سرادر)، ویش(تاجر وکاروباری)اور شودر(معمولی ہنرمند)میں تقسیم کر دیا۔دراوڑ اچھوت بن کر ان چاروں ذاتوں کے خدمت گار قرار پائے۔شودروں اور اچھوتوں کو معاشرے میں کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں تھے۔
اعلی ذاتوں کے افراد بلکہ انھیں ظلم وستم کا نشانہ بناتے۔مثلاً اگر کوئی برہمن کسی شودر یا اچھوت کو قتل کر دیتا، تو اسے کوئی سزا نہ ملتی۔جبکہ اچھوت کسی برہمن کو چھو بھی جاتا تو اس پہ بہمیانہ تشدد کیا جاتا۔
برمن مت کے خلاف ردعمل
برہمن مت کا زور شمالی ومغربی ہندوستان میں زیادہ تھا۔بتدریج برہمن اپنے مذہب وطرز زندگی کو مشرقی، وسطی اور جنوبی ہند میں بھی پھیلانے کی کوشش کرنے لگے۔انھیں کچھ کامیابی بھی حاصل ہوئی۔کامیابیاں پاکر برہمن وکھشتری آمر ومغرور بن بیٹھے۔انھوں نے رعایا پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی۔
اس طرح جو رقم حاصل ہوتی، وہ ان کی پُرآسائش زندگی پہ خرچ ہو جاتی۔گویا برہمن ، کھشتری اور ویش ایلیٹ طبقہ یا اشرافیہ بن بیٹھے اور نچلی ذاتوں کا استحصال کر کے اپنے مفادات پورے کرنے لگے، فوائد پانے لگے۔جبکہ شودروں اور اچھوتوں کی زندگیاں غربت و بے بسی کی الم ناک تصویریں بن گئیں۔برہمن مت کی آمریت کے خلاف سب سے پہلے شمالی ہندوستان ہی میں نئے مذہب، جین مت نے جنم لیا۔جب وہ برہمنوں کو زیادہ نقصان نہ پہنچا سکا تو مشرقی ہندوستان میں بدھ مت سامنے آیا۔
اس نے برہمن مت کا بخوبی مقابلہ کیا۔نہ صرف اس کا پھیلاؤ روکا بلکہ شمالی ہندوستان میں بھی عوام کی اکثریت بدھی بن گئی۔تاہم برہمن مت صفحہ ہستی سے نہ مٹ سکا۔برہمن پجاریوں کی اولاد نے اسے زندہ رکھا۔آخر 500ء کے بعد برہمنوں کی اولاد نے شمالی ہندوستان میں دوبارہ اپنی ریاستیں قائم کر لیں۔
افغان حملے
ان ہندوستانی ریاستوں کے بادشاہ مختلف دیوتاؤں کو مانتے تھے۔بادشاہ جس دیوتا کو ریاست کا مرکزی دیوتا بناتا، عوام بھی اسی کو پوجنے لگتے۔رفتہ رفتہ شمالی ہندوستان میں وشنو اور شیو مرکزی دیوتا بن گئے۔کچھ بادشاہ دیوی شکتی کے پیروکار تھے۔
مشرقی اور جنوبی ہند میں کسی خاص دیوتا کو مرکزی حیثیت حاصل نہ ہو سکی۔شیو اور وشنو کے پیروکار ایک دوسرے سے نبردآزما رہتے تاکہ اپنے فرقے کو پھیلا بڑھا سکیں۔نویں صدی عیسوی میں وشنو کے پیروکار راجاؤں نے افغانستان کے علاقوں پہ قبضہ کر لیا۔
یوں ہندوستانیوں اور افغانوں کے مابین لڑائی چھڑ گئی۔بعد ازاں افغانوں نے نہ صرف ہندوستان پہ حملے کرنا معمول بنا لیا بلکہ وہ وسیع ہندوستانی علاقوں کے حاکم بن بیٹھے۔انھیں مغل نژاد افغانوں نے اقتدار سے محروم کیا۔
ہندوستان کے بیشتر مسلم حکمرانوں نے رواداری و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بت پرست کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا۔البتہ مسلم صوفیا کی تبلیغ سے لاکھوں بت پرست مسلمان ہو گئے۔مسلم حکمرانوں کے نظام حکومت میں پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے برہمن بھی شامل تھے۔حتی کہ ان کی فوج میں بھی بت پرست شامل ہوتے جو مخالف راجا کے بت پرستوں سے نبردآزما رہتے۔
ہندوستان میں مسلم حکمرانوں اور غیر مسلم بادشاہوں کے مابین بیشتر جنگوں کا سبب مذہبی نہیں سیاسی ، مالی یا جغرافیائی تھا۔
ہندتوا کے پیروکار مرہٹہ سردار، شیوا جی (متوفی1680ئ)کو اپناہیرو مانتے ہیں۔مگر شیوا جی دوران زندگی کئی بار مسلم حکمرانوں کا ساتھی رہا۔اس کا مقصد زندگی وشنومت کی ترویج نہیں اپنی حکومت کو مستحکم کرنا اور ریاستی علاقہ پھیلانا تھا۔
انگریز برہمن گٹھ جوڑ
مغل بادشاہ ، اورنگ زیب کے بعد باہمی اختلافات اور تن آسانی کے باعث ہندوستان میں مسلم حکمران زوال پذیر ہونے لگے۔اتحاد و یک جہتی کا فقدان ہمیشہ ایک قوم کو پستی میں دھکیل دیتا ہے۔اہل پاکستان کو تاریخ کا یہ تلخ و بدترین سبق یاد رکھنا چاہیے۔
مسلمانوں کے باہمی اختلافات سے غیروں نے فائدہ اٹھایا۔پہلے مرہٹے اور سکھ مسلم علاقوں پہ قابض ہوئے اور پھر انگریز اپنی عیاری، دولت اور جدید اسلحے کے بل بوتے پہ ہندوستان کے حاکم بن بیٹھے۔انگریز کو انتظام حکومت کے لیے مقامی افراد بھی درکار تھے۔انھوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی، اس لیے وہ ان پہ کم ہی اعتبار کرتے۔لہذا حکومتی مشینری میں برہمن چھا گئے۔
خاص طور پہ شمالی وجنوبی ہند اور انگریزوں کے صدرمقام، کلکتہ میں برہمنوں کا اثرورسوخ بہت بڑھ گیا۔طاقت پاتے ہی برہمن ، کھشتری اور ویش ہندوستان پہ اپنی حکومت دوبارہ قائم کرنے کے خواب دیکھنے لگے۔اس سلسلے میں انھیں انگریزوں کی حمایت حاصل تھی جو مسلمانوں کو نیچا دکھانے کی غرض سے برہمنوں کے پشتی بان بن گئے۔
پھربت پرستوں اور مسلمانوں کی لڑائی سے انھیں بہت فائدہ ہوتا۔ہندستان کے باشندے ایک دوسرے سے لڑتے رہتے اور وہ عیش وآرام سے حکومت کرتے۔
اسی پالیسی کے تحت انگریزوں اور برہمنوں نے قدیم مذہب، برہمن مت کو زندہ کیا اور اسے نیا نام ’’ہندومت‘‘دے ڈالا۔آغاز میں شیومت، وشنومت اور شکتی مت کے پیروکار اس نئے مذہب میں داخل ہوئے ۔پھر ہندومت کے قائدین کوشش کرنے لگے کہ ہندوستان کے دیگر بت پرست خصوصاً شودر اور دلت بھی اس مذہب کا حصہ بن جائیں۔تبھی وہ اپنی برتری ثابت کر کے ہندوستان میں اقتدار حاصل کر سکتے تھے۔ اس زمانے میں ہندوستان کے بت پرستوں کی پچھتر فیصد آبادی شودر، دلت اور قبائلی تھی۔بقیہ بت پرست برہمن، کھشتری یا ویش تھے۔
مسئلہ یہ تھا کہ ذات پات پہ یقین رکھنے کی وجہ سے شودر، دلت اور قبائلی اعلی ذاتوں کے نئے ہندوؤں یعنی برہمنوں، کھشتریوں اور ویشوں پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے۔وہ ان کا ظلم وستم نہیں بھولے تھے، بلکہ شمالی ہندوستان کے جن علاقوں میں ان کی اکثریت تھی، وہاں آج بھی شودر،دلت اور قبائلی ذلت آمیز زندگی گذار رہے تھے۔
اس صورت حال میں برہمن وکھشتری ایسی ترکیب سوچنے لگے جس کی بدولت وہ نچلی ذاتوں کے بت پرستوں کو بھی ہندومت میں شامل کر کے یہ نیا مذہب پورے ہندوستان میں پھیلا سکیں۔ یہ ترکیب آخر انھیں 1809ء میں مل گئی۔
ہندومت کے پھیلاؤ کا طریق کار
ہوا یہ کہ 1775ء میں شیوامت اور وشنو مت، دونوں میں متبرک مقام سمجھے جانے والے شہر، بنارس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز تاجروں کی حکومت قائم ہو گئی۔انھوں نے شہری نظم ونسق برہمنوں وکھشتریوں کے حوالے کر دیا۔شہر میں مسلمان بھی بڑی تعداد میں مقیم تھے۔برہمن و کھشتری طاقت پا کر دانستہ مسلمانوں کو تنگ کرنے لگے تاکہ اپنے شر انگیز جذبات کی تسکین کر سکیں۔مسلم عبادت گاہیں ان کے انتقام کی آگ کا پہلا نشانہ بنیں۔شہر کے مضافات میں ایک عیدگاہ واقع تھی۔
عیدگاہ کے کونے پر شیوا کے ایک روپ، بھیروا دیوتا کی نشانی، ایک ستون نصب تھا۔شیوامت کے پیروکار اس کی پوجا کرتے تھے۔وہاں چھوٹے موٹے بت بھی رکھے تھے۔جب مسلم حکومت تھی تو نماز عید کے موقع پر بت اور ستون چادر سے ڈھانپ دئیے جاتے۔
یوں رواداری کے ماحول میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آتا۔1809ء میں نماز عید کے موقع پہ اس ستون کے پجاریوں نے برہمن افسرشاہی کی پشت پناہی سے بتوں و ستون کوچادروں سے ڈھانپنے سے انکار کر دیا۔اس طرح برہمن دکھانا چاہتے تھے کہ اب وہ بنارس کے حقیقی حاکم ہیں۔
ظاہر ہے، مسلمان نماز عید کی بے حرمتی وبے ادبی کرنے پہ آمادہ نہیں تھے۔ انھوں نے بہت کوشش کی کہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہو جائے مگر برہمن مشینری ٹس سے مس نہ ہوئی۔یہ عین ممکن ہے کہ مسلمانوں کو مشتعل کرنا اس کا سوچا سمجھا منصوبہ ہو۔بہرحال عید قریب آ گئی اور مسئلہ حل نہ ہوا تو مسلمانوں نے حملہ کر کے ستون و بت توڑ ڈالے۔اس کے بعد شیو کے پیروکاروں اور ان کے درمیان تصادم ہو گیا جس میں کئی مسلمان شہید ہوئے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ شیوامت، وشنومت، شکتی مت اور بت پرستی کے سبھی فرقوں سے تعلق رکھنے والے بت پرست اپنے اختلافات بھول کر مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہو گئے۔اسی لیے مسلمانوں کو زیادہ جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔یہ ہندوستان میں بت پرستوں اور مسلمانوں کے درمیان پہلا بڑا فساد تھا۔
اس کی یوں بھی بہت زیادہ اہمیت ہے کہ اسی فساد سے برہمن وکھشتریوں کو وہ ترکیب وحکمت عملی مل گئی جس کی مدد سے وہ شودروں ودلتوں میں اپنا نیا مذہب (ہندومت) پھیلا سکتے تھے۔ترکیب یہی تھی کہ جہاں ہندومت پھیلانا مقصود ہو، وہاں کسی چال سے مسلمانوں اور بت پرستوں کے درمیان فساد کرا دو۔تب تمام بت پرست جمع ہوکر ہندومت کی چھتری تلے آ جاتے۔
اسی پالیسی کے تحت 1850ء کے بعد ایودھیا میں یہ تنازع کھڑا کر دیا گیا کہ بابری مسجد دراصل وشنو کے اوتار، رام کی جنم گاہ ہے۔اسی دوران لسانی تنازع بھی سامنے لایا گیا۔برہمن مطالبہ کرنے لگے کہ سرکاری دستاویزات فارسی یا اردو کے بجائے دیوناگری رسم الخط میں لکھی جائیں۔پھر ذبیح گائے کے خلاف مہم چل نکلی۔نیز مسلمانوں کو ہندو بنانے کی مہم (شدھی)کا آغاز ہو گیا۔
ہندومت کے پیروکار مذہبی تقریبات میں مساجد کے سامنے سے اشتعال انگیز نعرے لگا کر گذرنے لگے۔غرض برہمن و کھشتری طبقے نے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح بت پرستوں اور مسلمانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ دشمنی پیدا ہو جائے۔یوں وہ اپنے مذہب اور دیوتاؤں (وشنواور شیو)کا پورے ہندوستان میں چرچا چاہتے تھے۔
ہندتوا کے بانی
ہندومت کی تشکیل میںراجا رام موہن رائے(متوفی 1833ئ) ، دیانند سرسوتی(متوفی 1883ء ) اور سوامی وویکند(متوفی 1902ء ) نے اہم حصہ لیا۔راجا رام ان برہمنوں کے قائد تھے جو مسلمانوں کو ساتھ ملا کر چلنا چاہتے تھے۔مگر ایسے برہمنوں کی تعداد بہت کم تھی۔مسلم مخالف کٹر برہمن اکثریت میں تھے، اسی لیے ہندو مسلم اختلاف بڑھتا چلا گیا۔
دلچسپ بات یہ کہ تینوں برہمن رہنما ایک خدا کے عظیم ترین ہونے کے قائل تھے۔مگر ان کے پیروکاروں نے یہ نظریہ قبول نہیں کیا اور ہندومت کو بت پرستی کا روپ بنا ڈالا۔ان تینوں میں دیانند سرسوتی اس معنی میں انتہا پسند تھا کہ اس نے اسلام وعیسائیت کو نشانہ بنایا۔نیز نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخیاں کیں۔اسی نے ذبیح گاؤ کے خلاف پہلی باقاعدہ مہم چلائی اور مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تحریک کا بھی آغاز کیا۔لہذا بھارت کے نئے مذہب’’ ہندتوا ‘‘کا بانی سوامی دیانند سرسوتی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس کے شانہ بشانہ دو اور برہمن رہنما، بنکم چٹر جی(متوفی 1894ء ) اور چندر ناتھ باسو (متوفی1910ء )کھڑے نظر آتے ہیں۔ بنکم چٹر جی نے 1882ء میں ناول ’’آنند مٹھ‘‘لکھا جس میں مسلمانوں کو غاصب اور حملہ آور دکھایا گیا۔
اسی ناول میں شامل ایک نظم،وندے ماترم اب بھارت کا قومی ترانہ ہے۔چندر ناتھ باسو نے 1892ء میں ایک کتاب ’’Hindutva–Hindur Prakrita Itihas‘‘ لکھی۔ اس میں وہ لکھتا ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا دیس ہے اور اقلیتوں (خصوصاً )مسلمانوں کو یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ باسو ہی نے ’’ہندتوا‘‘ کی اصطلاح بھی تخلیق کی۔
انتہا پسند ہندوؤں نے اپنے نظریات (مستقبل کے ہندتوا مذہب ) کی ترویج و ترقی کے لیے جو پہلی مذہبی وسیاسی تنظیم قائم کی ، اس کا نام ’’آریہ سماج‘‘تھا۔اس کا بانی دیانند سرسوتی تھا۔اس کی بنیادی حکمت عملی یہی تھی کہ بت پرستوں اور مسلمانوں کے مابین فساد کروا کر ہندومت کو مقبول بنایا جائے۔اسی حکمت عملی کے تحت بعد ازاں دیگر انتہا پسندانہ تنظمیں بھی وجود میں آئیں جن میں ہندو مہا سبھا، آرایس ایس، وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کو شہرت ملی۔
ہندوستان کے بت پرستوں کی اکثریت مگر ان برہمن و کھشتری رہنماؤں کی پرستار بنی جو راجا رام موہن رائے اور سوامی وویکانند کی طرح اعتدال پسند تھے۔ایسے رہنماؤں میں سریندر ناتھ بینرجی(آل انڈیا کانگریس کے بانیوں میں شامل)،موتی لال نہرو، گوپال کرشن گھوکلے، گاندھی جی، سروجنی نائیڈو، پنڈت نہرو نمایاں ہیں۔
انہی لیڈروں نے تحریک آزادی چلائی اور ہندوستان بھارت بن کر آزاد ہو گیا۔1948ء میں انتہا پسند ہندوؤں نے گاندھی جی کو قتل کر دیا ۔اس کے بعد انھیں زیرزمین جانا پڑا ، گو وہ اپنی شرانگیز سرگرمیوں سے باز نہ آئے۔مثلاً 1949ء میں انھوں نے زبرستی بابری مسجد میں رام کا بت رکھ دیا۔
ہندتوا کے پھیلاؤ شروع
انتہا پسند ہندو رہنماؤں کو نئی زندگی 1984ء سے ملی جب انھوں نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی تحریک کا آغاز کیا۔اس بار وہ اپنی حکمت عملی میں کچھ تبدیلی لائے۔پہلے ان کی صف میں برہمن، کھشتری اور ویش شامل تھے۔اسی لیے ان کی سیاسی جماعت، جن سنگھ کو عوام میں مقبولیت نہیں مل سکی جن کی اکثریت شودر، دلت یا قبائلی تھی۔
اب انھوں نے نچلی ذاتوں کے لوگ بھی لیڈروں اور کارکنوں کی صفوں میں داخل کر لیے۔مقصد یہی تھا کہ ان کی وساطت سے ہندومت کے انتہاپسندانہ روپ…ہندتوا کے نظریات بت پرست عوام میں مقبول ہو جائیں۔
یہ پالیسی انقلاب انگیز ثابت ہوئی ۔اس نے کثیر تعداد میں عام بت پرستوں کو مسلمانوں کے خلاف ان کے ہندوتوا جھنڈے تلے جمع کر دیا۔اس طرح ہندتوا نظریات بھارت بھر میں پھیلنے کے عمل کا آغاز ہو گیا۔
1984ء تک ہی انتہا پسند ہندو لیڈر اپنی نئی سیاسی جماعت، بی جے پی بنا چکے تھے۔اس کی مدد سے اسٹیبلشمنٹ (فوج، سیاست دانوں،افسر شاہی، عدلیہ اور میڈیا) میں بھی ہندوتوا کے نظریے شدومد سے پھیلائے جانے لگے۔اسٹیبلشمنٹ کو باور کرایا گیا کہ ہندتوا اپنا کر بھارت ماضی کی طرح سپرپاور بن سکتا ہے اور دنیا میں ان کے دیوی دیوتاؤں کا بول بالا ہوگا۔
غرض بت پرست عوام و خواص، دونوں کو مستقبل کے حسین خواب دکھا کر انھیں نئے مذہب کے سحر وجال میں جکڑ لیا گیا۔ شروع میں بت پرست اعتدال پسندوں اور سیکولر شخصیات نے ہندتوا کا پھیلاؤ روکنا چاہا۔اسی لیے بی جے پی کے پہلے دورحکومت (1998ء تا 2004ء )میں انتہا پسند ہندو کئی من پسند اقدامات نہیں کر پائے۔
مثلاً نصابی کتب سے اسلامی تاریخ کا خاتمہ، مقامات کے نام دیوی دیوتاؤں یا اپنے ہیروز کے ناموں پر رکھنا، ذبیح گاؤ کی ممانعت وغیرہ۔الیکشن 2004 ء میں شکست سے قائدین ہندتوا کو خاصا دھچکا لگا اور وہ کچھ زیادہ متحرک نہ رہے۔مگر کانگریس کے لیڈروں کی کرپشن ہندتوا مذہب کو نئی زندگی دینے کا سبب بن گئی۔
نیز نریندر مودی کی شکل میں انھیں ایسا کٹر شودر مل گیا جو ہندتوا کی بڑھوتری و ترقی کے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے کو تیار تھا۔اس کی مسلم دشمنی نے بھی اسے سنگھ پریوار(انتہا پسند جماعتوں کے گروہ)میں اہم عہدہ دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
بھارت بھر پر انتہاپسندوں کی نظریں
2014ء میں نریندر مودی وزیراعظم بھارت بن گیا اوراس کی زیرقیادت مذہب ہندتوا کی کھلم کھلا ترویج و اشاعت شروع ہو گئی۔منصوبے کے مطابق مسلمانوں اور عیسائیوں کو ٹارگٹ بنایا گیا تاکہ نیا مذہب پورے بھارت میں پھیلایا جا سکے۔مثلاً جنوب مشرقی بھارت کی ریاست، کرناٹک میں بت پرست اور مسلمان صدیوں سے رواداری وامن کے ماحول میں رہ رہے تھے۔
وہاں برقع کے خلاف تحریک چلا کر شودروں، اچھوتوں اور قبائلیوں کو پہلے مسلمانوں کے خلاف متحد کیا گیا اور اب وہ ہندتوا کے پرچارک و نام لیوا بن چکے۔ ریاست میں مسلمانوں کے خلاف سرگرمیوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا بڑا حصہ ہندتوا نظریات اپنا چکا۔ثبوت یہ ہے کہ کسی بھی مملکت میں عدلیہ انصاف وقانون کی محافظ ہوتی ہے۔
بھارت میں عدالتیں انصاف وقانون کا قتل عام کرتے ہوئے ان مجرم و گناہ گار ہندتویوں کو آزاد کررہی ہیں جو سیکڑوں مسلمانوں کے قاتل ہیں۔پولیس ان ہندتویوں کو تحفظ دیتی ہے جو مسلمانوں پہ حملے کریں۔جبکہ بیوروکریسی مسلم دشمن پولیس افسروں کی پشتی بان بن چکی۔بھارتی جرنیل بھی زیادہ جنگجو بن رہے ہیں اور آئے دن پاکستان کو دھمکیاں دیتے ہیں۔
ہندتوا کے قائدین کی اب سر توڑ کوشش ہے کہ مشرقی ، وسطی اور جنوبی بھارت کی ریاستوں میں بھی روایتی حکمت عملی…ہندو مسلم فساد کرا کر اپنا مذہب وہاں پھیلا دیا جائے۔اسی لیے مغربی بنگال، بہار،آندھرا پردیش، کرناٹک، تامل ناڈواور جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت نہیں، وہاں پچھلے چند برس کے دوران ہندو مسلم فساد میں کئی گنا اضافہ ہو چکا۔
ہندتوا لیڈر زیادہ سے زیادہ شودروں(ادر بیک ورڈ کاسٹس)،دلتوں(شیڈولڈ کاسٹس)اور قبائیلیوں(شیڈولڈ ٹرائبس)کو اپنی صف میں شامل کرنے کی سعی کر رہے ہیں کہ یہی بھارت کی غیر مسلم آبادی کا ستر فیصد حصہ ہیں۔یہ صورت حال خاص طور پہ بھارتی مسلمانوں کے لیے بہت تشویش ناک ہے، خصوصاً جو ہندتویوں کے علاقوں میں رہتے ہیں۔
ان کے سروں پہ جان ومال جانے کا خوف مستقل سوار رہتا ہے۔حتی کہ کمزور دل مسلمان تو اب غیر اسلامی وضع قطع اور رسومات اختیار کرنے لگے ہیں تاکہ ہندتویوں کے ظلم وستم سے محفوظ رہ سکیں۔بھارتی مسلمان اب اپنی اسلامی شناخت اسی صورت اپنا سکتے ہیں کہ اپنے محلے بنا کر رہنے لگیں۔
افواج پاکستان بڑا سہارا
ہندومت اور ہندتوا میں بہت فرق ہے۔ہندومت کے بانی، راجا رام موہن رائے اور سوامی وویدکانند مسلمانوں کے مخالف نہیں تھے۔حتی کہ دیانند سرسوتی نے بھی اپنے پیروکاروں کو یہ تبلیغ نہیں کہ مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔ہندتوا تو اپنی اصل میں شرانگیز، جنگجو اور مسلم دشمن مذہب ہے۔
اس کے نام لیوا ظاہر ہے، پاکستان کے بھی کٹر مخالف ہیں۔مثلاً وہ پاکستان کا پانی بند کرنے کی کھلی دھمکی دیتے ہیں۔پھرمودی سرکار جدید ترین اسلحہ جمع کر رہی ہے تاکہ برعظیم پاک وہند میں اپنے آپ کو سپرپاور بنا سکے۔پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھی جذب کر کے ’’اکھنڈ بھارت‘کی تشکیل قائدین ہندتوا کا دیرینہ خواب ہے۔
اسی لیے وہ پاکستان کو معاشی طور پہ کمزور ہوتا دیکھ کر خوشی سے کلکاریاں مارتے ہیں۔ان کے عزائم کی راہ میں صرف افواج پاکستان حائل ہیں۔اسی لیے وہ ہر ممکن طریقے سے افواج پاکستان کو بدنام کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
یہ سبھی پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ افراد اور اداروں کے مابین فرق کو بخوبی سمجھ لیں۔بعض افسروں کی کوتاہیوں کا ذمے دار افواج پاکستان کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہ فوجی بھائی ہی ہیں جو راتوں کو جاگ کر، اپنا عیش وآرام تج کر ہمیں موقع دیتے ہیں کہ چین وسکون سے نیند لے سکیں۔
لہذا ہمیں متحد ہو کر پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنا ہو گا تاکہ یہ وطن بھارتی مسلمانوں کے لیے بھی مضبوط سہارا بن سکے۔ معاشی، عسکری اور سیاسی طور مستحکمٕ پاکستان سبھی پاکستانیوں کا دیرینہ خواب بن جانا چاہیے۔تبھی ہم آزادی کی نعمتوں سے بھی مستفید ہو سکیں گے۔
The post بھارت کا نیا مذہب… ہندتوا appeared first on ایکسپریس اردو.