20 سال قبل ایک اہم سائنسی کوشش کے نتیجے میں انکشاف ہوا تھا کہ انسانی جینوم 20 ہزار پروٹین کوڈنگ جینیات پر مشتمل ہے لیکن یہ جینیات انسانی ڈی این اے کا صرف دو فیصد حصہ ہیں۔ اس وقت یہ خیال کیا گیا کہ باقی ڈی این اے اہم نہیں لیکن اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ ان کا کتنا اہم کردار ہوتا ہے۔
اپریل 2003ء میں انسانی جینوم کے اندر موجود ’زندگی کی کتاب‘ کا بھید جاننے کی 13 سالہ سائنسی کوشش کو مکمل قرار دیا گیا۔ اس وقت بہت زیادہ توقعات تھیں کہ ’ہیومن جینوم پراجیکٹ‘، جس پر تین ارب ڈالر خرچ ہوئے، کے ذریعے کئی بیماریوں کا علاج دریافت ہو پائے گا اور انسانی زندگی کے بارے میں نئے راز افشا ہوں گے۔
جب پریس کانفرنس کے دوران حیاتیاتی سمجھ بوجھ کے ایک نئے دور کے آغاز کا اعلان کیا جا رہا تھا، انسانی زندگی کے بارے میں آگہی دینے والا یہ مینوئل ایک غیر متوقع حیرانی کا باعث بنا۔ اس وقت عام خیال تھا کہ انسانی جینوم کی اکثریت پروٹین تیار کرنے کی ہدایات پر مشتمل ہو گا، جو ہر جاندار میں بنیادی تعمیری مواد ہوتا ہے جو خلیوں کے اندر اور باہر حیران کن کردار ادا کرتا ہے۔
انسانی جسم میں 200 سے زیادہ قسم کے خلیے ہوتے ہیں اور یہ تصور کرنا عجیب نہیں تھا کہ ہر خلیے کو الگ قسم کے جینیات درکار ہوتے ہوں گے۔ انسانی جینوم کے تین ارب حروف میں سے دو فیصد سے بھی کم پروٹین کے لیے مختص ہیں جن کی تعداد 20 ہزار کے قریب ہے۔
ماہرین جینیات یہ جان کر حیران ہوئے کہ انسانوں میں پروٹین کے اتنے ہی جینیات ہیں جتنے زمین پر موجود بہت سے جانداروں میں ہوتے ہیں۔ اس انکشاف نے سائنس کی دنیا کو ایک نئی مشکل میں ڈال دیا اور ان کے سامنے یہ سوال کھڑا ہوا کہ شاید ہماری سمجھ بوجھ غلط تھی؟
سمیر ہایا تھیراپیوٹکس کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو ہیں جو دل کی بیماریوں، سرطان اور دیگر بیماریوں کا علاج دریافت کرنے کے لیے انسانی جینیات کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے وہ لمحہ یاد ہے جب بہت سے لوگوں نے سوچنا شروع کیا کہ کیا حیاتیات کے بارے میں ہمارے خیالات غلط ہو سکتے ہیں۔‘‘ انسانی ڈی این اے کے باقی 98 فیصد کو ’ڈارک میٹر‘ یا ’ڈارک جینوم‘ کا نام دے دیا گیا۔
یہ حروف کا ایک پراسرار ہجوم تھا جس کا نہ تو ہم مطلب جانتے تھے اور نا مقصد۔ کچھ ماہرین جینیات نے آغاز میں کہا کہ غالباً اس ڈارک جینوم کا کوئی مقصد نہیں اور یہ انسانی ارتقا کے نتیجے میں اکھٹا ہونے والا کوڑا کرکٹ ہے، ایسے جینیات کے باقی ماندہ ٹکڑے جن کا مقصد وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گیا۔ تاہم دوسرے ماہرین کا ماننا تھا کہ یہ جینوم انسانیت کے بارے میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔
کیری سٹیفنسن ڈی کوڈ جینیٹکس کمپنی کی چیف ایگزیکٹیو ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ارتقا میں کوڑے کرکٹ کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ جینوم کا حجم برقرار رہنے کی کوئی تو وجہ ہو گی۔‘‘ دو دہائیوں کے بعد اس ڈارک جینوم کے بارے میں کچھ معلومات سامنے آ رہی ہیں۔
اس کا بنیادی مقصد پروٹین تیار کرنے والے جینیات کی ڈی کوڈنگ کے عمل کو رواں رکھنا لگتا ہے اور یہ ماحولیاتی یا جسم کو درپیش بیرونی دباؤ میں انسانی جینیات کے برتاؤ کو کنٹرول کرتا ہے جس میں خوراک، ورزش، نیند جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں جسے ’ایپی جینیٹکس‘ کہتے ہیں۔
سمیر کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں پروٹین زندگی کا ہارڈ ویئر ہیں جبکہ ڈارک جینوم سافٹ ویئر ہے اور ہم جس قدر اس پراسرار جینوم کے بارے میں جان سکیں گے اتنا ہی انسانی پیچیدگی کے بارے میں علم حاصل کر سکیں گے۔ وہ کہتے ہیں، ’’انسان نے مسلسل ماحول کے حساب سے خود کو ڈھالا ہے اور جب ہم سوچتے ہیں کہ ہم کسی مکھی سے مختلف کیوں ہیں، تو اس کا جواب اسی ڈارک جینوم میں چھپا ہے۔‘‘
ارتقا کا ماضی
جب سائنسدانوں نے زندگی کی کتاب یعنی ڈی این اے کو سال 2000ء کے دوران پڑھنا شروع کیا تو ایک مشکل یہ تھی کہ انسانی جینوم کے وہ حصے جہاں پروٹین کوڈنگ نہیں تھی، ایک جیسے ڈی این اے کی کئی شکلیں موجود تھیں جن کو ’ٹرانسپوسونز‘ کہا جاتا ہے۔
یہ مقدار میں اتنے زیادہ تھے کہ تمام ممالیہ کے نصف جینوم ان پر ہی مشتمل ہوتے ہیں۔ جیف بوئیک نیویارک یونیورسٹی میں ڈارک میٹر پراجیکٹ چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’پہلے انسانی جینوم کی تشکیل ان ایک جیسے ڈی این اے کی وجہ سے مشکل ہوئی کیوں کہ کسی ڈی این اے کا تجزیہ کرنا آسان ہوتا ہے اگر وہ منفرد ہو۔‘‘
آغاز میں ماہرین جینیات نے ٹرانسپوسونز کو نظرانداز کر دیا اور جینوم کے پروٹین کوڈنگ کرنے والے چھوٹے ’ایکزوم‘ پر توجہ مرکوز کی۔ لیکن گذشتہ ایک دہائی کے دوران ٹیکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے ڈارک جینوم کا بہتر طریقے سے جائزہ لینا ممکن ہوا ہے۔
ایک تجربے میں محققین نے چوہوں کے ڈی این اے میں موجود ایک مخصوص ٹرانسپوسون کو ایک جانور سے ہٹا دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے آدھے سے زیادہ بچے پیدائش سے قبل ہی مرنے لگے۔
اس سے ثابت ہوا کہ چند ٹرانسپوسون ہماری بقا کے لیے ضروری ہو سکتے ہیں۔ جیف بوئیک کا کہنا ہے کہ جینوم میں ٹرانسپوسونز کی موجودگی کی وضاحت شاید اس بات سے ہو سکتی ہے کہ وہ کافی قدیم ہیں جن کی تاریخ زمین پر زندگی کی ابتدائی شکل کے وقت کی ہے۔
دیگر سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ ایسے وائرس کی وجہ سے آئے ہیں جنھوں نے انسانی تاریخ کے دوران ڈی این اے پر حملہ کیا لیکن وقت کے ساتھ کسی اور مقصد کے لیے جسم میں ضم ہو گئے۔
جیف بوئیک ڈارک جینوم کو انسانی ڈی این اے میں آنے والی ایسی تبدیلیوں کا جیتا جاگتا اہم ریکارڈ سمجھتے ہیں جو بہت عرصہ پہلے ہوئیں۔ ٹراسپوسونز کی ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ ایک جینوم سے دوسرے میں منتقل ہو سکتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کا نام پڑا کیوں کہ یہ جینیات میں ڈرامائی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ ان کی ایسی ہی نقل و حرکت کی وجہ سے ممکن ہے کہ بندر کے خاندان میں دم ختم ہو گئی ہو اور انسان نے بھی سیدھا چلنا شروع کر دیا ہو۔
جیف کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسی تبدیلی تھی جس کا ارتقا پر بہت گہرا اثر تھا۔ جہاں ڈارک جینوم انسانی ارتقا کے راز افشا کر سکتا ہے، وہیں اس کے ذریعے یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ کوئی بیماری کیسے جنم لیتی ہے۔
سمیر کا کہنا ہے کہ تحقیق کے مطابق طویل مدتی بیماریوں سے منسلک جینیات میں سے اکثر، جیسے ذیابطیس اور دل کی بیماری، ڈی این اے کے پروٹین کوڈنگ حصوں میں نہیں بلکہ ڈارک جینوم میں ہوتے ہیں۔
ڈارک جینوم اور بیماریاں
فلپائن کا پانے جزیرہ اپنی سفید ریت اور سیاحت کی وجہ سے مشہور ہے۔ لیکن اس خوبصورت مقام میں ایک دردناک راز بھی چھپا ہے۔ اس جزیرے پر ایکس لنکڈ ڈسٹونیا پارکنسنزم نامی بیماری کے دنیا بھر میں سب سے زیادہ کیسز ہیں جس میں حرکت متاثر ہوتی ہے۔ اس بیماری کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ پارکنسن کی طرح اس بیماری سے متاثر ہونے والے افراد کے چلنے کی صلاحیت اور کسی بھی صورت حال میں فوری ردعمل دینے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
1970ء میں اس مرض کی پہلی بار دریافت کے بعد سے اب تک اس کی تشخیص صرف فلپائن سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ہوئی۔ یہ ایک ایسا پراسرار معاملہ تھا جس سے اس وقت پردہ اٹھا جب ماہرین جینیات نے ان افراد میں ایک جیسا منفرد جین دریافت کیا جسے ٹی اے ایف ون کہا جاتا ہے۔
اس بیماری کی علامات جین کے وسط میں موجود ٹرانسپوسون سے جڑی محسوس ہوتی ہیں جو جین کے عمل کو اس طرح سے کنٹرول کرتا ہے کہ وقت کے ساتھ جسم کو نقصان پہنچنا شروع ہو جاتا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جین دو ہزار سال قبل پیدا ہوا جس کے بعد یہ انسانی آبادی میں منتقل ہوتا رہا۔ جیف بوئیک کہتے ہیں کہ ٹی اے ایف ون ایک ضروری جین ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ تمام قسم کے خلیوں کی نشونما کے لے درکار ہے اور اگر اس میں تبدیلی آتی ہے تو یہ مخصوص قسم کی بیماری کی شکل میں واضح ہوتی ہے۔ یہ ایک سادہ مثال ہے کہ کس طرح ڈارک جینوم میں چند ڈی این اے کی تراتیب مختلف جینیات کے کام کو کیسے چلاتے ہیں۔
ڈارک جینوم مختلف قسم کے مالیکیول، جن کو نان کوڈنگ آر این اے کہا جاتا ہے، کی بناوٹ کے لیے ہدایات بھی فرام کرتا ہے جن کا کام پروٹین کی تیاری سے لے کر پروٹین کی تیاری کو روکنا ہو سکتا ہے۔
سمیر کہتے ہیں کہ آر این اے بتاتے ہیں کہ ڈی این اے ماحول میں کسی قسم کی تبدیلی پر کیسے برتاؤ کرے گا۔ اور اب انھی نان کوڈنگ آر این اے کی طرف اس نظر سے دیکھا جا رہا ہے کہ یہ ڈارک جینوم اور مختلف طویل المدتی بیماریوں میں رابطہ ظاہر کر سکتے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اگر ڈارک جینوم کو مسلسل غلط قسم کے سگنل ملیں، جیسا کہ سگریٹ نوشی، بری خوراک اور محدود نقل و حرکت کی زندگی، تو اس کے پیدا کردہ آر این اے مالیکیول جسم کو بیماری کی کیفیت میں ڈال دیتے ہیں اور جینیاتی حرکت اس طرح تبدیل ہو جاتی ہے کہ خلیے مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ چند مخصوص آر این اے پی ففٹی تھری نامی جین کو بند کر سکتے ہیں یا اس کی حرکت میں اضافہ کر سکتے ہیں جو عام طور پر سرطان بننے سے روکتا ہے۔
شزوفرینیا یا ڈپریشن جیسی پیچیدہ بیماریوں میں نان کوڈنگ آر این اے کی کثیر تعداد مل کر کام کر سکتی ہے۔ تاہم ڈارک جینوم کی اہمیت کا اندازہ اب ایسی بیماریوں کے علاج میں کردار ادا کر رہا ہے۔ ایک جانب جہاں ادویات کی انڈسٹری صرف پروٹین پر ہی توجہ مرکوز کرتی ہے، چند کمپنیاں اب اس کوشش میں ہیں کہ کس طرح سے آر این اے پر اثر انداز ہو کر ان بیماریوں کا نیا علاج ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب سرطان کی ویکسین کے میدان میں بھی جینوم کے پروٹین کوڈنگ حصے پر ہی توجہ دی گئی ہے۔ لیکن جرمنی کی کیور ویک کمپنی نان پروٹین کوڈنگ حصے کے ذریعے سرطان کا علاج تلاش کرنے کی کوشش کی ابتدا کر رہی ہے۔ سمیر کی کمپنی، ہایا تھیراپیوٹکس، ایک ایسی دوائی تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو ایسے نان کوڈنگ آر این اے کو نشانہ بنا سکے جن کی وجہ سے دل کی بیماری ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے ’’پروٹین کوڈنگ ڈی این اے کا مسئلہ یہ ہے کہ جسم میں ان کی تعداد صرف 20 ہزار ہے لیکن ڈارک جینوم میں ایسے نان کوڈنگ آر این اے موجود ہیں جو صرف دل میں بیماری پیدا کرتے ہیں اس لیے ان کو نشانہ بنا کر ہم ایک محفوظ دوا بنا سکتے ہیں۔‘‘ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم ڈارک میٹر یا ڈارک جینوم کی سطح تک ہی موجود ہیں اور بہت زیادہ کچھ نہیں جانتے۔
ہوکیمیئر کہتے ہیں، ’’ابھی ہم نے ایک آغاز لیا ہے اور اگلے 15 سے 20 سال میں صرف یہ ہو گا کہ ہم خلیوں میں ایسے مخصوص رویوں کی شناخت کر سکیں جو بیماری کی وجہ بنتے ہیں اور پھر ڈارک جینوم کے ان حصوں کی شناخت کی کوشش کریں جو ان رویوں کی وجہ بنتے ہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ اب ہمارے پاس یہ کام کرنے کے لیے وہ آلات دستیاب ہیں جو پہلے نہیں تھے۔‘’
ہوکیمیئر کی پیش گوئی ہے کہ ’’جیسے جیسے ہم اور جانتے جائیں گے، زندگی کی کتاب اور حیران کن چیزیں سامنے لاتی جائے گی بالکل ویسے ہی جیسے بیس سال پہلے ہوا تھا۔‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’ابھی بھی بہت سے سوال ہیں۔ کیا ہماری جینیات وقت کے ساتھ بدلی ہے؟ کیا ہم اسے مکمل طور پر ڈی کوڈ کرپائیں گے؟‘‘ ہوکیمیئر کے مطابق، ہم ایک وسیع لیکن تاریک مقام میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور ابھی بہت سی دریافتیں ہونا باقی ہیں۔ (بشکریہ بی بی سی)
The post ’ڈارک میٹر‘ ڈی این اے کا پراسرار حصہ appeared first on ایکسپریس اردو.