زمانہ قدیم سے عوام و خواص اس دلچسپ سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں کہ بنی نوع انسان کی فکر وعمل پر کس کی حکمرانی ہے…دل یا دماغ کی؟یہ جانناتو مشکل ہے کہ سوال سب سے پہلے کس نے پوچھا تاہم قدیم زمانے ہی میں رفتہ رفتہ دل کو روحانیت جبکہ دماغ کو مادے کا منبع قرار دے دیا گیا۔
بتدریج یہ تقسیم سامنے آئی کہ دماغ عقل ودانش کا سرچشمہ ہے جبکہ جذبات کا مخزن دل ۔اسی لیے کہا گیا کہ ’’عقلی انسان‘‘ اپنے دماغ کی سنتا ہے جبکہ ’’جذباتی انسان‘‘ اپنے دل کی! چناں چہ جسم،عمل ،سوجھ بوجھ، جانچ پرکھ جیسے عوامل دماغ سے وابستہ ہو گئے۔روح، غوروفکر، عشق اور دیگر جذبے دل سے متعلق سمجھے جانے لگے۔
یہودیت، عیسائیت، بدھ مت اور یونانی فلسفے کے پیروکار دو بنیادی گروہوں میں بٹ گئے۔ایک گروہ کا ماننا تھا کہ کائنات میں دماغ کی حکمرانی ہے۔تمام انسانی جذبے اسی کے تابع ہیں۔
تاہم دوسرے گروہ کے ارکان روحانیت پہ یقین رکھتے تھے۔انھوں نے دل کو بھی دماغ کی طرح ایک اہم عضو قرار دیا، گو وہ اس کی برتری کے قائل نہ تھے۔ان کا خیال تھا کہ دل ودماغ مل کر انسان کی جسمانی وروحانی سرگرمیاں کنٹرول کرتے ہیں۔
دل کی حکمرانی کا قائل پہلا مذہب
دین اسلام پہلا مذہب ہے جس میں دل کو دماغ سے برتر قرار دیا گیا۔مثال کے طور پر جو انسان اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل نہیں کرتے، قران پاک میں فرمایا گیا کہ ان کے دل اندھے(خراب ) ہوتے ہیں۔(الحج۔46)گویا اللہ پاک کے نافرمان کی ایک نمایاں نشانی یہ ہے کہ اس کا دل اندھا ہوگا۔
اسی طرح سورہ الشعرا، آیات 87 تا 89 میں فرمایا گیا کہ روز قیامت اللہ تعالی کے محبوب بندے پاک صاف دل کے حامل ہوں گے۔گویا مومن کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ اس کا دل پاک صاف ہوتا ہے۔یہ واضح رہے کہ قران کریم میں عقل و دانش بھی انسانی ترقی کے لیے لازم قرار پاتی ہے۔مگر جس جگہ انسان کی تعلیم وتربیت کی بات ہو، وہاں بیشتر مقامات پر دماغ کے بجائے دل کا تذکرہ ہے۔
قران پاک میں دل کا تذکرہ (قلب، فواد، صدر کے الفاظ میں )137 بار آیا ہے جس سے دین اسلام میں اس عضو ِانسانی کی اہمیت آشکارا ہے۔
البخاری و مسلم میں محفوظ ایک حدیث نبوی ﷺ کا مفہوم ہے کہ اگر انسانی جسم میں قلب خراب ہو جائے تو پھر سارا بدن (روحانی وجسمانی طور پہ) بیمار پڑ جاتا ہے۔اور اگر دل تندرست رہے تو پورا جسم بھی صحت مند رہتا ہے۔گویا انسان کی تندرستی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کو گناہوں سے دور رکھے تاکہ اس کی روحانی و جسمانی شخصیت بہترین رہے۔
دین اسلام میں دل کی برتری کے سبب ہی عربی، فارسی، اردو اور مسلم ممالک کی سبھی زبانوں کے علم وادب میں ایسے محاروے وجود میں آ گئے جنھوں نے جذبات و خیالات، دونوں کا منبع دل کو قرار دیا۔
خصوصاً جذبات کا تعلق دل سے جوڑا گیا۔مثلاً اردو کے کچھ محاورے پڑھیے:دل اچاٹ ہونا، دل بھر آنا، دل توڑنا، دل جمعی کرنا، دل سے اتار دینا وغیرہ۔اردو لغت میں دماغ سے کہیں زیادہ دل کے محاورے ملتے ہیں۔اردو و فارسی شاعری میں بھی دل کو مرکزی حیثیت حاصل ہوئی۔
دل کا راستہ
نامور مسلم مفکرین نے بھی اسلامی تعلیم کے زیراثر دل(روح یا نفس) کو عقل(دماغ) سے برتر بتایا۔تصوف اور روحانیات کی تو بنیاد ہی دل ہے۔مثال کے طور پر علامہ محمد اقبال ؒ کی شاعری میں عقل روحانی جذبوں مثلاً عشق و خودی کے تابع ہے۔
بطور فلسفی اقبال ؒ عقل کی اہمیت تو تسلیم کرتے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ صرف اس کی بدولت انسان اشرف المخلوقات نہیں بن سکتا، یہ مقام اسے دل کے راستے پر چل کر ہی حاصل ہوتا ہے۔شاعر مشرق کے نزدیک عقل اور علم انسان کو منزل کے قریب تو لے جاتے ہیں مگر صرف روحانی عشق ہی اسے منزل سر کراتا ہے۔اس نظریے پہ مبنی علامہ کے چند مشہور شعر درج ذیل ہیں:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی
زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعلِ راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحبِ ادراک
٭٭
عقل عیّار ہے ،سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ مُلا ہے نہ زاہد نہ حکیم
دماغ بادشاہ ہے
بیسویں صدی میں سائنس دانوں نے تحقیق و تجربات کے بعد دعوی کر دیا کہ جذبات، خیالات، احساسات اور تمام جسمانی افعال دماغ کنٹرول کرتا ہے۔دل محض خون پمپ کرنے والا آلہ ہے۔گویا سائنس نے دل کو دماغ کے تابع بنا دیا۔یوں دماغ انسانی بدن کی سلطنت میں بادشاہ بن گیا۔
اس دعوی سے ان مفکرین، دانشوروں اور عوام کو ٹھیس لگی جو دل کو جذبات واحساسات کا منبع سمجھتے تھے۔اس دعوی سے یہ قرانی نظریہ بھی پس پشت چلا گیا کہ انسانی جسم میں دل کو برتر حیثیت حاصل ہے۔(سائنسی نظریہ پھیل جانے کی وجہ سے عالم اسلام میں مادہ پرستی کو فروغ حاصل ہوا۔عوام و خواص اخلاقی اقدار تج کر روپے پیسے کو پوجنے لگے)
سائنس وٹیکنالوجی دراصل خام تھی، قرانی نظریات سمجھنے کے لیے اس کا ارتقا پذیر ہونا لازم تھا۔آخر بیسویں صدی کے اواخر میں دل ودماغ کی حقیقت سائنس پر وا ہونے لگی۔تحقیق و تجربات کے نئے در کھلے تو چشم کشا انکشافات سامنے آئے ۔
ایک انقلابی و حیرت انگیز انکشاف یہ تھا کہ دل دماغ کے تابع نہیں بلکہ وہ منفرد وعلیحدہ شناخت رکھتا ہے۔ اور جب طبی سائنس نے مزید ترقی کی تو آخرکار اس قرانی نظریے کی بھی تصدیق ہو گئی کہ انسانی بدن کی سلطنت میں دماغ سے بھی زیادہ دل ہی اہم ترین عضو ہے۔وہ انسان کے خیالات (عقل)اور جذبات و احساسات ، دونوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔گویا وہ محض خون پمپ کرنے والا آلہ نہیں۔
دو اہم جسمانی عضو
آگے بڑھنے سے پیشتر دل اور دماغ کی بنیادی معلومات پا لیجیے۔عام انسانی دل تقریباً ڈھائی سو گرام (ایک پاؤ)وزنی ہوتا ہے۔اس کا بنیادی کام آکسجین اور غذائیت(nutrients)سے بھرا خون پورے جسم میں پمپ کرنا ہے۔
یہ خون پا کر ہی انسانی خلیے توانائی پاتے ہیں تاکہ سبھی کام انجام دے سکیں۔یاد رہے، ایک انسان کھربوں خلیوں کا مجموعہ ہے جو مل جل کر اسے یومیہ سرگرمیاں انجام دینے کے قابل بناتے ہیں۔
انسانی دماغ 1198 گرام سے 1336 گرام وزنی عضو ہے۔یہ ہماری سوچ، یادداشت، حسیات، جذبات، نظام تنفس، درجہ حرارت، بھوک اور دیگر جسمانی اعمال کنٹرول کرتا یا ان پہ اثرانداز ہوتا ہے۔دماغ اور حرام مغز(Spinal cord)مل کر ہمارا سینٹرل نروس سسٹم تشکیل دیتے ہیں۔
رشتہ قریبی ہے
فعلیاتی لحاظ سے دل اور دماغ کے مابین قریبی رشتہ ہے۔درحقیقت ایک خراب ہو جائے تو دوسرا اپنے افعال صحیح طرح انجام نہیں دے سکتا۔دماغ میں خون کی نالیاں بکثرت موجود ہیں۔
ان کی کل لمبائی ایک لاکھ میل بنتی ہے۔(خط استوا پر زمین کا محیط چوبیس ہزار نو سو میل ہے)یہی نہیں، ہمارے دل کے پمپ شدہ خون کا بیس سے پچیس فیصد حصہ دماغ کو جاتا ہے۔گویا دل سے خارج شدہ خون کا سب سے بڑا خریدار دماغ ہے۔ اگر اسے خون نہ ملے تو دماغ چند منٹوں میں اللہ کو پیارا ہونے لگتا ہے۔
’’مقابلہ کرو یا بھاگو‘‘
دماغ اور دل ایک اہم قدرتی عمل’’آٹونومک نروس سسٹم ‘‘(autonomic nervous system)کے ذریعے ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔آٹونومک نروس سسٹم کے دو مرحلے ہیں:اول سمپیتھک(sympathetic) اور دوم پیراسیمپیتھک(parasympathetic )۔اول مرحلہ خطرے کے وقت ہمارے فطری ردعمل’’مقابلہ کرو یا بھاگو‘‘(fight-or-flight response )سے متعلق ہے۔
اس خطرے میں ہمارا دماغ ایڈرنلین (adrenaline)ہارمون خارج کرتا ہے۔اس ہارمون کی وجہ سے ہمارا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے۔اعصاب تن جاتے ہیں اور انسان چوکنا وہوشیار ہو جاتا ہے تاکہ خطرے کا سامنا کر سکے۔
جب خطرہ ٹل جائے تو دوسرا مرحلہ، پیراسیمپیتھک جاری ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں دل کی دھڑکن کم ہوتی ہے اور انسان بھی پُرسکون ہو جاتا ہے۔
خون کا دباؤ(بلڈ پریشر)بھی کم ہوتا ہے۔یاد رہے، زمانہ قدیم میں انسان اپنے ’’مقابلہ کرو یا بھاگو‘‘فطری ردعمل کی وجہ ہی سے جنگلوں میں خونی جانوروں اور دشمنوں سے محفوظ رہتے تھے۔یوں ان کی بقا ممکن ہو گئی۔گویا قدیم زمانے میں یہ اسی قدرتی عمل نے انسانوں کو معدوم ہونے سے بچائے رکھا۔اس حقیقت سے ’’مقابلہ کرو یا بھاگو‘‘ عمل کی اہمیت واضح ہے۔
آرٹسٹ کسے کہتے ہیں؟
فعلیاتی لحاظ سے اہم اشتراک رکھنے کے باوجود مغربی مفکر بھی اس امر پر تقسیم رہے ہیں کہ انسان میں دل اہم عضو ہے یا دماغ؟مثلاً دورحاضر کا ممتاز ترین موجد، تھامس ایڈیسن کہتا ہے:’’انسان کے بدن کی بنیادی ذمے داری یہ ہے کہ وہ دماغ کو سنبھال کر رکھے اور اسے اٹھائے پھرے۔‘‘گویا ایڈیسن دماغ کو جسمانی سلطنت کا شہنشاہ سمجھتا ہے۔
جبکہ ایک اور یورپی نابغہ روزگار، لیونارڈو ڈاونچی نے لکھا ہے:’’آنسو دماغ نہیں دل سے نکلتے ہیں۔‘‘گویا ڈا ونچی کے نزدیک جذبات و احساسات کی آماج گاہ دل ہے۔مشہور امریکی وکیل، لوئس نیزیر کا قول ہے:’’ہاتھوں سے کام کرنے والا مزدور ہے۔ہاتھوں اور دماغ سے کام کرنے والا ہنرمند ہے۔اور جو ہاتھوں، دماغ اور دل سے کام کرے، اسے فنکار (آرٹسٹ)کہتے ہیں۔‘‘معنی یہ کہ لوئس نیرنر کے نزدیک ایک غیرمعمولی انسان دل و دماغ، دونوں کو بروئے کار لاتا اور نمایاں کارنامے انجام دیتا ہے۔
دماغ ہی سب کچھ
بیسویں صدی کے اوائل میں ایک امریکی عضویات داں، والٹر بریڈ فورڈ کینن (Walter Bradford Cannon) نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انسانی جسم میں تمام خلیے، بافتیں(ٹشوز)اور اعضا دماغ کے ماتحت ہیں۔یہ سبھی مل جل کر کام کرتے اور یقینی بناتے ہیں کہ انسان تندرست وتوانا رہے۔
بیماریاں اس پر حملہ آور نہ ہونے پائیں۔اس نظریے کو بہت مقبولیت ملی اور بیشتر سائنس دانوں اور ڈاکٹروں نے اسے قبول کر لیا۔تقریباً پون صدی تک نظریے کا راج رہا۔آخر 1970ء کے عشرے میں کہیں جا کر اس نظریے کو ضعف پہنچا جب امریکی ماہر عضویات جوڑے، جان اور بیٹرس لیسے(John and Beatrice Lacey) نے نئی تحقیقات انجام دیں۔
دل کی اپنی شناخت
جان اور بیٹرس لیسے دل اور دماغ کے مابین تعلق پر تحقیق کر رہے تھے۔وہ جاننا چاہتے تھے کہ جسم ِانساں کے یہ دونوں اہم ترین عضو آپس میں کس قسم کے تعلقات رکھتے ہیں۔انھوں نے اپنی تحقیق وتجربات میں کئی برس لگائے اور نئے انکشافات سامنے لائے۔
ان میں اہم ترین انکشاف یہ تھا کہ دماغ سے قریبی تعلق رکھنے کے باوجود دل اپنی منفرد و علیحدہ شناخت رکھتا ہے۔گویا والٹر بریڈ فورڈ کا یہ نظریہ غلط ثابت ہوا کہ دل دماغ کے کنٹرول میں ہے۔امریکی جوڑے کا خیال تھا کہ دل بھی اپنا چھوٹا سا ’’دماغ‘‘رکھتا ہے…اسی لیے وہ دماغ کے اثرات سے الگ تھلگ ہو کر اپنے منفرد کردار وشخصیت کا بھی مالک ہے۔
‘‘چھوٹا دماغ ‘‘سامنے آ گیا
جان اور بیٹرس لیسے کی تحقیقات سے متاثر ہو کر متجسّس امریکی ماہرین نے ایک چھوٹا سا گروہ بنا لیا۔اس گروہ میں عضویات داں، امراض قلب کے ماہر، نفسیات داں اور دیگر متعلقہ علوم کے ماہرین شامل تھے۔گروہ کے سربراہ ڈاکٹر اینڈریو آرمر (Andrew Armour)تھے۔
اس گروہ کی تحقیق کا مرکز وہ عوامل ڈھونڈ نکالنا تھا جو دل کو دماغ سے مختلف و منفرد مقام عطا کرتے ہیں۔اپنی تحقیق کی بدولت اس گروہ نے 1991ء میں دریافت کیاکہ دل کے چالیس ہزار خلیے اپنے عمل میں ہوبہو دماغی خلیوں (نیورونز)جیسے ہیں۔انہی خلیوں کے باعث ماہرین نے دل کو ’’چھوٹا دماغ ‘‘قرار دے ڈالا۔سائنسی اصطلاح میں دل کے خلیوں کا یہ مجموعہ ’’intrinsic cardiac nervous system‘‘کہلاتا ہے۔
امریکی ماہرین کے انوکھے گروہ نے بذریعہ تجربات و تحقیق یہ اہم بات بھی دریافت کی کہ دل اور دماغ چار طریقوں کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے اور اپنے افعال انجام دیتے ہیں۔(1)عصبی رابطہ(Neurological communication)جو نروس سسٹم کی وساطت سے ہوتا ہے۔(2)حیاتی کیمائی رابطہ(Biochemical communication)جو ہارمونوں کے ذریعے ہوتا ہے۔
(3)دباؤ کی لہروں (pressure waves) سے رابطہ (Biophysical communication) جو پورے جسم میں جاری و ساری رہتی ہیں۔(4)توانائی رابطہ (Energetic communication) جو انسانی جسم میں جنم لینے والے برق مقناطیسی میدانوں کی وساطت سے ہوتا ہے۔
تعلق یک طرفہ نہیں
باہمی رابطے کے یہ چار قدرتی سلسلے اس امر کے گواہ ہیں کہ دل اور دماغ کا تعلق یک طرفہ نہیں…یعنی ایسا نہیں کہ دماغ دل کو احکامات دیتا ہے کہ فلاں کام کرو اور فلاں نہیں، بلکہ یہ دو طرفہ ٹریفک ہے۔کبھی دماغ دل کو حکم دیتا ہے تو کبھی دل اپنے ممدوح کو احکام جاری کرتا ہے کہ فلاں کام انجام دو۔
یہ دو طرفہ ٹریفک رکاوٹوں کے بغیر بہ آرام جاری رہے تو تبھی انسان کی صحت بھی عمدہ و تسّلی بخش رہتی ہے۔اس ٹریفک میں جب بھی کوئی معمولی رکاوٹ آئے تو انسانی صحت کے معاملے بگڑنے لگتے ہیں۔
جدید تحقیق سے یہ نیا انکشاف ہوچکا کہ دل کئی معاملات میں دماغ کا محتاج نہیں…وہ ازخود بھی آزادی کے ساتھ فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ ایک انقلاب ساز دریافت ہے کیونکہ اب تک سائنس داں یہی سمجھتے تھے کہ انسانی جسم کی سلطنت میں صرف دماغ وہ واحد عضو ہے جسے آزاد وخودمختار کہا جا سکتا ہے۔مگر جدید طبی سائنس نے انکشاف کر دیا کہ دل بھی ایک خودمختار عضو ہے جس پہ دماغ مکمل کنٹرول نہیں رکھتا۔
قرانی نظریات سچے
جدید سائنس کے نزدیک دل محض خون پمپ کرنے والا آلہ نہیں بلکہ وہ اپنے مخصوص خلیوں کی مدد سے کچھ نیا سیکھنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔حتی کہ کوئی جذبہ یا حسّ بھی محسوس کر سکتا ہے۔ضرورت ہو تو دماغ کے اثرات سے نکل کر آزادانہ فیصلے کرنے پر بھی قادر ہے۔
گویا اب کم از کم انسانی بدن میں دل ‘دماغ کے ہم پلّہ عضو کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ ایک بہت بڑا اور حیران کن انکشاف ہے جو جدید سائنس کے بطن سے ظہور پذیر ہوا۔اسی انکشاف نے ثابت کر دیا کہ اللہ تعالی نے جو حقائق چودہ سو سال قبل قران کریم میں بنی نوع انسان پہ وا کیے، وہ حرف بہ حرف سچے ہیں۔
اس دریافت کی داستان یہ ہے کہ اکیسیوں صدی کے اوائل میں بذریعہ تحقیق معلوم ہوا کہ دل ایک غدہ (Gland)بھی ہے…وہ دیگر انسانی غدود کی طرح مختلف ہارمون بناتا اور خارج کرتا ہے۔
ان ہارمونوں میں ’’کارڈیک نائٹریو نائٹروریٹک پیپٹائیڈ ‘‘(cardiac natriuretic peptide)ہارمون شامل ہے۔یہ ہارمون خون کی نالیوں، گردوں، غدہ برگردہ (adrenal glands)اور دماغ کے مختلف حصوں کو تندرست اور کام کے قابل رکھتا ہے۔وہ اس کی مدد سے درست طریق پر اپنے جسمانی افعال انجام دیتے ہیں۔
ہمارا دل چھ سے سات ارب خلیوں کا مجموعہ ہے۔ان خلیوں کی کئی اقسام ہیں۔ایک قسم ’’انٹرسیک کارڈیک ایڈرینرجک خلیے(Intrinsic Cardiac Adrenergic Cells)کہلاتی ہے۔یہ خلیے دو ہارمون، نورا ڈرینلاین(noradrenaline )اور ڈوپمائن(dopamine) بنا کر خارج کرتے ہیں۔
پہلے خیال تھا کہ دماغ کے حکم پر صرف مخصوص غدود یہ ہارمون بناتے ہیں۔مگر اب منکشف ہو چکا کہ ہمارا دل بھی انھیں بنانے کی قدرت رکھتا ہے۔
نورا ڈرینلاین نیوروٹرانسمیٹر بھی ہے۔اس صورت میں یہ ہارمون خلیوں کے مابین پیغام رسانی (برقی سگنل)انجام دینے میں سہولت پیدا کرتا ہے۔ہارمون کی شکل میں ’’مقابلہ کرو یا بھاگو‘‘کا قدرتی عمل انجام دینے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
اس کی وجہ سے انسان چوکس وہوشیار ہو جاتا ہے۔دل کی دھڑکن بڑھا دیتا اور خون کے دباؤ میں بھی اضافہ کرتا ہے۔یہ ہمارے سونے جاگنے کے عمل، موڈ اور یادداشت پر بھی اثرات مرتب کرتا ہے۔
ڈوپمائن ہمارے جسم کا اہم ہارمون اور نیوروٹرانسمیٹر ہے۔ یہ دماغ اور جسم کے تمام خلیوں کے درمیان برقی پیغام رسانی کوبہ سہولت انجام دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اسی لیے ’’کیمیائی پیغام بر‘‘بھی کہلاتا ہے۔’’مقابلہ کرو یا بھاگو‘‘عمل کے دوران یہ خون کا دباؤ نارمل رکھتا ہے۔
ہمارے بدن سے زائد نمک بذریعہ پیشاب نکالتا ہے۔پتّے سے انسولین کا اخراج کم کرتا ہے۔سب سے بڑھ کر انسان میں لطف وانبساط کے جذبے جنم دیتا ہے۔انسان میں یہ تحریک پیدا کرتا ہے کہ وہ خوشیاں پانے کے لیے کوئی نمایاں کارنامہ انجام دے۔
جدید تحقیق سے ایک نیا انکشاف یہ ہوا کہ انسانی دل آکسی ٹوسین ہارمون بھی خارج کرتا ہے۔ورنہ پہلے ماہرین طب سمجھتے تھے کہ صرف دماغ کا ایک حصہ، ہائپوتھلامس ہی یہ ہارمون بناتا ہے۔یہ ’’لو ہارمون‘‘بھی کہلاتا ہے کیونکہ انسانوں کے درمیان پیارمحبت اور یگانگت بڑھاتا ہے۔جب ماں بچے کو دودھ پلائے یا انسان ہم آغوشی کریں تو یہ ہارمون پیدا ہو کر ان میں محبت کے عظیم ولطیف جذبات جنم دیتا ہے۔
سب سے بڑا انکشاف
ماہرین نے تحقیق وتجربات سے یہ بھی جانا کہ چھوٹا دماغ‘‘(دل)مسلسل دماغ کے اہم حصّوں …ہائپوتھلامس(hypothalamus)،میڈولا(medulla)، ایمیگڈالا(amygdala) اور سیربل کورٹیکس(cerebral cortex)کو پیغامات یا سگنل بھجواتا ہے۔اس پیغام رسانی کا بڑا منبع دل ہے کہ دماغ کو وہی زیادہ پیغام بھجواتا ہے۔دماغ دل کو کم پیغامات بھجواتا ہے۔معنی یہ کہ دل اور دماغ کے باہمی تعلق میں دل کو دماغ پر برتری حاصل ہے۔
قبل ازیں بتایا جا چکا کہ دماغ اپنی صحت وسلامتی کے سلسلے میں دل کا محتاج ہے۔اگر دل خون دماغ تک نہ پہنچائے تو چند منٹ میں دماغی خلیے مرنے لگتے ہیں۔
پانچ سے دس منٹ تک خون نہ ملے تو دماغ مردہ ہونے لگتا ہے۔اسی لیے دل میں چھوٹی سی بھی خرابی جنم لے تو دماغ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اور سب سے پہلے دماغ کے متذکرہ بالا حصے متاثر ہوتے ہیں جن سے دل پیغام رسانی کرتا ہے۔
دماغ کے درج بالا حصّے ہی انسان میں خیالات، جذبات ،احساسات، یادداشت اور مختلف ذہنی وجسمانی افعال سے متعلق ہیں۔یہی وجہ ہے، دل سے کسی خرابی کے پریشان کن سگنل درج بالا دماغی حصوں تک پہنچیں تو دماغ میں ’’تناؤ‘‘(stress)جنم لیتا ہے۔تناؤ ایک خطرناک جسمانی وذہنی کیفیت ہے۔دل کی خرابی اور تناؤ مل کر انسان کی صحت خراب کرنے لگتے ہیں۔
ناقص غذائیں کھانے سے خون کی نالیوں میں چربی وغیرہ جم جاتی ہے۔اس کی وجہ سے خون کی روانی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔یہ حالت بھی دماغ میں تناؤ کا خلل پیدا کرتی ہے کہ اسے رکاوٹ کی وجہ سے مطلوبہ مقدار میں خون نہیں مل پاتا۔مذید براں خدانخواستہ کبھی چربی خون کی روانی کچھ عرصے کے لیے روک دے تبھی انسان ہارٹ اٹیک یا حملہ قلب اور فالج کا نشانہ بن جاتا ہے۔
تندرستی و سلامتی کا منبع کون؟
درج بالا انکشافات سے پس ثابت ہوا کہ انسانی جسم میں تندرستی و سلامتی کا منبع دل ہے…اگر وہ خراب ہو جائے تو اچھا بھلا دماغ بھی خراب ہونے لگتا ہے۔چناں چہ انسان مختلف ذہنی وجسمانی عوارض میں مبتلا ہو کر صحت کی دولت کھو بیٹھتا ہے۔یہ حقیقت اللہ تعالی چودہ سو سال پہلے ہی قران پاک میں آشکارا فرما چکے جو اب سائنس نے دریافت کی ہے۔یہ معجزہ رب العالمین کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
انسانی جسم کی سلطنت میں دل کی بنیادی اہمیت کے سبب ہی قران و سنت میں اسے دماغ پر فوقیت دی گئی۔چناں چہ خداوند کریم نے فرمایا کہ مومن پاک صاف دل رکھیں گے۔جبکہ آنحضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ دل خراب ہو جائے تو پھر ہر چیز بگڑ جاتی ہے۔پاکستانی معاشرے کی مثال سامنے ہے۔اے کاش!ْہوا و ہوس والا دل بدل دے، غفلت میں ڈوبا دل بدل دے!!
ڈنمارک میں ہوئی انقلابی تحقیق
2018ء میں ڈنمارک کے آرہیس(Aarhus) یونیورسٹی اسپتال میں محققوں نے ایک منفرد تحقیق انجام دی۔انھوں نے ملک کے اسپتالوں سے ایسے مرد وزن کا ڈیٹا حاصل کیا جو 1890ء سے 1982ء کے درمیان پیدا ہوئے۔اور یہ سبھی امراض قلب میں مبتلا تھے۔ان مریضوں کی کل تعداد دس ہزار سے زائد بنی جن میں مردو خواتین،دونوں شامل تھے۔
اس انوکھی تحقیق کی خاص بات یہ ہے کہ محققوں نے جانا، درج بالا دس ہزار سے زائد مردوزن میں بیشتر بھلکڑ پن اور نسیان کا شکار پائے گئے۔مزید تحقیق سے افشا ہوا کہ جو انسان دل کی کسی بیماری میں مبتلا ہو، اس میں یادداشت ختم ہونے کا عمل جنم لینے کا خطرہ ’’60 فیصد‘‘ تک بڑھ جاتا ہے۔گویا دل کی خرابی براہ راست مریض کے دماغ پر اثرانداز ہوتی اور بیچارے کی یادداشت ختم کرنے لگتی ہے۔
گویا ڈنمارک میں ہوئی تحقیق سے بھی منکشف ہوا کہ دل کسی خرابی کا نشانہ بنے ،تو اس کے منفی اثرات براہ راست دماغ پہ پڑتے ہیں۔یاد رہے، عالمی طبی اداروں کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال امراض قلب ہی سب سے زیادہ انسانوں کی جانیں لیتے ہیں۔جبکہ تقریباً ہر بیماری دل اور دماغ، دونوں پر منفی اثرات ڈالتی ہے۔مثلاً دل کی دھڑکن کے بڑھ جانے یا بے ترتیب ہونے سے انسان ڈپریشن، بے چینی اور سوزش کا بھی نشانہ بن جاتا ہے۔
پچھلے پچاس ساٹھ برس کے دوران شعبہ طب میں ہویہ تحقیق و تجربات سے واضح ہو چکا کہ انسانی جسم میں دل اور دماغ ہی اہم ترین عضو ہیں۔پھر دیگر اعضا کا نمبر آتا ہے جیسے جگر، گردے اور پھپڑے وغیرہ۔ان میں بھی دل کو برتری حاصل ہے کیونکہ اسی کا بھجوایا گیا آکسیجن و غذائیت سے بھرپور خون دماغ، جگر وگردوں کو زندہ رکھتا اور انھیں نشوونما دیتا ہے۔اگر انسان کے دماغ میں کوئی خطرناک بیماری بھی پیدا ہو جائے تو وہ زندہ رہتا ہے۔لیکن جیسے ہی دل دھڑکنا چھوڑ دے، انسان دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
بہرحال یہی دونوں اعضا بدن ِانساں میں تمام جذبات، احساسات و خیالات کے مرکز ہیں۔جس مرد وخاتون کے دل ودماغ تندرست وتوانا ہوں، وہی جسمانی ذہنی طور بھی صحت مند، خوش وخرم اور توانا رہتا ہے۔غرض دل و دماغ ،دونوں کو سو فیصد حد تک صحیح سالم رکھنے ہی میں انسان کی صحت وسلامتی پوشیدہ ہے۔یہ سچائی تو اب آ کر طبی سائنس پہ عیاں ہوئی ہے، اللہ پاک نے صدیوں قبل بنی نوع انسان پر القا فرما دی تھی۔
انسانی دل کے عجائب
٭…ایک عام دل انسانی مٹھی کے برابر ہوتا ہے
٭…انسانی دل ایک منٹ میں 50 تا 100 بار دھڑکتا ہے۔دن میں وہ کم از کم ایک لاکھ بار دھڑکتا ہے۔
٭…ایک عورت کا دل فی منٹ مرد کے مقابلے میں آٹھ بار زیادہ دھڑکتا ہے۔
٭…ہمارا دل ایک منٹ میں 1.5گیلن خون پمپ کرترا ہے۔گویا ایک دن میں دو ہزار گیلن سے زائد خون پمپ کر ڈالتا ہے۔
٭…ایک قدرتی برقی نظام دل کی دھڑکن کنٹرول کرتا ہے۔اسے کارڈیک کنڈیکشن سسٹم(cardiac conduction system) کہتے ہیں۔
٭…آنکھ کا قرینہ انسانی جسم کا واحد حصّہ ہے جسے دل خون فراہم نہیں کرتا۔قرینہ کے خلیے فضا سے براہ راست آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔قرینہ ہی انسانی جسم میں سب سے زیادہ تیز صحت یاب ہونے والا عضو بھی ہے۔اسے پہنچنے والی رگڑ یا زخم ایک ڈیرھ دن میں ٹھیک ہو جاتا ہے۔
The post انسان پہ حاکم کون…دل یا دماغ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.