’گاندھی گارڈن‘ سے چھیڑخانی نہیں ہونی چاہیے!
’مغل گارڈن‘ کی ایک نسبت لیا ہوا۔۔۔ ’کوئن وکٹوریہ گارڈن‘ جو عوام میں کبھی ’رانی باغ‘ کے نام سے بھی پکارا گیا، پھر 1930 ء کے زمانے میں ہندوستان کے ’مہاتما‘ کہلانے والے موہن داس گاندھی یہاں آئے، تو بس پھر یہ انھی کے نام سے موسوم ہوگیا۔۔۔ اس کی پیشانی پر البتہ آج بھی 1870ء کنندہ ہے۔۔۔ یہی وہ زمانہ ہے جب اِسے باقاعدہ ’چڑیا گھر‘ کے طور پر استعمال کیا جانا شروع کیا گیا۔۔۔ ورنہ اس کے قیام کا زمانہ تو اِس سے بھی دو تین عشرے پہلے کا کر لیجیے۔۔۔ تاہم زیادہ معروف آج بھی یہ ’گاندھی گارڈن‘ ہی کے نام سے ہے۔
سرِ دست ہم اس کی تاریخی اہمیت پر زیادہ بات نہیں کریں گے کہ وہ تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ہی۔۔۔ اصل معاملہ 40 ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط کراچی کی اس قدیمی تفریح گاہ کے مستقبل پر منڈلاتے ہوئے خطرات ہیں۔۔۔ جی ہاں! گذشتہ دنوں مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں جان سے گزرنے والی ایک ہتھنی ’نورجہاں‘ کی موت کے بعد اعلیٰ سطح سے یہ ’سطحی‘ سی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔۔۔ اور کوئی اچھے ملک میں ہوتے تو ہتھنی کی ایسے موت پر نہ جانے کتنوں کو سزا ملتی اور کتنے ہی اس کے مجرم ٹھیرتے۔۔۔
یہاں 15 سال سے مسلسل صوبے پر حکم رانی کرنے والی سیاسی جماعت نے غالباً یہ آسان راستہ چُنا ہے، یا ابھی باہر اس بات کی صرف ایک ’بڑ‘ چھوڑ کر دیکھا گیا ہے کہ ذرا عوام کا ردعمل تو دیکھیں، ورنہ شہر کے بیچوں بیچ اتنی وسیع وعریض زمین۔۔۔ ’اللہ دے اور ’’بندہ‘‘ لے۔۔۔! کراچی جیسے سونا اگلتے شہر میں جہاں ایک ایک فٹ بیش قیمت ہے، وہاں پورے 40 ایکڑ سے زیادہ کا رقبہ مل جائے، تو اب بتائیے کہ ایسی ’’جمہوریت‘‘ بھلا کس ’دیوانے‘ کو ’بہترین انتقام‘ نہ لگے گی۔۔۔
سیانے تو پہلے ہی کہہ گئے ہیں کہ؎
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
کیوں کہ یہ ہوتا ہے ناں دانش وارانہ کام، یعنی نہ ’چڑیا گھر‘ ہوتا اور نہ وہاں ہتھنی ہوتی اور نہ بے چاری پھر اس طرح سسک سسک کر مرتی۔۔۔ اس کی موت میں حکام کا تو کوئی قصور نہیں ہے، اس لیے وہ جو کر سکتے ہیں، اب وہی کر رہے ہیں، یعنی زمین ہڑپ۔۔۔ معاف کیجیے گا ’چڑیا گھر‘ ہی کو تالا مارنے کی سوچ رہے ہیں۔ بھلا ہو ہمارے ہاں کے ’حقوق حیواں‘ کے نام لیواؤں کا، جن سے ہمارے حکام بالا کو بڑی توقعات ہیں کہ وہ ضرور بالضرور ’چڑیا گھر‘ کا کریا کرم کرتے ہوئے ان کی ’مدد‘ کو آن پہنچیں گے۔
اب یہ اکیسویں صدی کا ’’جدید‘‘ دور ہے میاں، یہاں کوئی چڑیا گھر تھوڑا ہی ہوتے ہیں، اور نہیں تو۔۔۔! سب کو کھلا چھوڑ دو، چاہے خود کے سب کے گھر میں چھوٹے چڑیا گھر ہی کیوں نہ بنے ہوئے ہوں اور وہاں بدترین ماحول میں یہ بے زبان جانور قید کی زندگی بسر کر رہے ہوں، لیکن ظاہر ہے ، وہ کیا کہتے ہیں کہ ’چڑیا گھر‘ تو عوام کا ہے ناں، یعنی بہ الفاظ دیگر حکام کا ہے، اب وہ جو جی چاہے گا، کریں گے۔
بہ جائے اس کے کہ اپنا قبلہ درست کریں اور شہر کی اس تاریخی مقام اور قدیمی تفریح گاہ پر کچھ توجہ دیں، الٹا اسے ٹھکانے لگانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں، اور اس کی کوئی تردید بھی تاحال سامنے نہیں آسکی ہے، جس کی وجہ سے کراچی کے شہریوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
آج ہم میں سے کون ایسا کراچی والا ہوگا، جس نے اپنے بچپن میں ایک سے زائد بار اس تحیر انگیز تفریح گاہ کا رخ نہ کیا ہوگا۔۔۔ ’گاندھی گارڈن‘ کے عوامی نام سے آج بھی معروف ہم ’بچہ لوگوں‘ کا یہ چڑیا گھر شہر کے قلب میں ہمیں ایک بالکل نئی دنیا کی سیر کراتا تھا، وسیع وعریض باغ کے ساتھ آراستہ یہ چڑیا گھر انواع اقسام کے چرند پرند اور دیگر حیوانات کو اپنے سامنے دیکھنا بچپن کی ایک ہمیشہ رہنے والی یاد بنتا۔۔۔ ورنہ ہم بھلا ببر شیر، چیتا، تیندوا، زرافہ، ریچھ، ہاتھی، شتر مرغ، کچھوا اور خرگوش وغیرہ سے لے کر خوب صورت اور قوی الجثہ پرندوں کی درجنوں اقسام کے جانوروں کو بھلا زندگی میں اتنے قریب سے کہاں دیکھ سکتے ہیں؟
یقیناً نہیں۔۔۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ضرورت کس بات کی ہے، ضروری تو یہ تھا کہ چڑیا گھر کو اس حال میں پہنچانے والوں کا کڑا احتساب ہوتا اور ’سائیں سرکار‘ اپنے خزانے سے چند سکے ’چڑیا گھر‘ کی بحالی کے لیے صرف کرنے کا اعلان کرتی، تاکہ عوام کے لیے دست یاب ایک سستی اور ارزاں تفریح کا ذریعہ نہ صرف قائم رہتا، بلکہ ان کے علمی ذوق کی آب یاری بھی ہوتی، کیوں کہ بچوں کے لیے ’چڑیا گھر‘ کا دورہ کرنا ان کے سیکھنے اور جاننے کے لیے ایک نہایت اہم موقع ہوتا ہے۔
یہاں وہ نہ صرف مختلف جانوروں کو اپنی آنکھوں سے جیتا جاگتا دیکھتے ہیں، بلکہ وہاں درجنوں نت نئے پرندوں اور جانوروں کے نام، ان کے وطن، ان کی عمر اور غذائی ضرورتوں وغیرہ کے حوالے سے بھی جملہ معلومات پاتے ہیں، جو وہاں باقاعدہ درج ہوتی ہیں، لیکن صاحب، یہاں یہ سب سوچنے کا کام کون کرتا ہے!
اب گذشتہ کئی روز سے شہر کا درد رکھنے والے ’چڑیا گھر‘ کا نام لیے کلیجہ تھامے بیٹھے ہیں کہ اللہ خیر کرے شہر کے بیچوں بیچ کھرب ہا کھرب کی یہ زمین نہ جانے کس کس نے تاڑ کر رکھی ہوئی ہوگی۔۔۔ خدا جانے، شہر والوں سے یہ ’چڑیا گھر‘ ہی چھنتا ہے یا پھر کسی دن یہ خبر آتی ہے کہ کسی نہ کسی نام پر کراچی کے اس تاریخی ’گاندھی گارڈن‘ کو بھی ٹھکانے لگایا جا رہا ہے، جو کراچی جیسے عمارتوں کے جنگل میں قدیم ترین پیڑوں کا ایک حسین سنگم ہے۔
گویا اس باغ کے وجود پر ذرا سی بھی بات کرنا کراچی کے نازک ماحولیاتی تعلق سے بھی ایک نہایت خوف ناک بات ہے۔۔۔! اللہ کرے حکام بالا تک یہ بات پہنچے اور وہ چڑیا گھر سے لے کر ’گاندھی گارڈن‘ تک سے کسی بھی قسم کی چھیڑخانی کے خیال کو بھی اپنے دل ودماغ سے نکال دیں اور لاہور کے بعد ملک کے دوسرے قدیم ترین ’چڑیا گھر‘ کی تزئین وآرائش اور جانوروں کی دیکھ ریکھ کے واسطے کچھ روپیا خرچ کرنے کا جگرا پیدا کر لیں، نہ کہ اس کے خاتمے کی تشویش ناک باتیں کریں۔
۔۔۔
جنھیں راستے میں ہوئی خبر۔۔۔
طحہٰ عظمت، کراچی
دو سال ہوگئے ہیں مجھے کام سے چھٹی ہی نہیں ملی۔ اﷲ اﷲ کر کے حاکم صاحب کی منت سماجت کر کے ان گرمیوں میں چھٹی ملی ہے۔ میں نے بھی ان کی ناک میں دم کر دیا تھا کہ آخر کار انھوں نے مجھے چھٹیاں دینے کا فیصلہ کر ہی لیا، مگر مجھے فوراً ہی جانا ہوگا، زیادہ وقت نہیں ہے۔ افضل ایسے میں بڑے کام آتا۔ اس نے وعدہ کیا ہے کہ بس کے ٹکٹ کا بندوبست کر لے گا اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ وہ میرے گاؤں کا نام بھی جانتا ہے۔
خیر میں سارا سامان لے کر چوکی تک تو آگیا ہوں، مگر اس بے وقوف نے بس کا نمبر ہی نہیں دیا۔ چلو خود ہی ڈھونڈ لیتا ہوں۔ بڑی نازک صورت حال ہے۔ پیچھے کھڑے ہوئے ایک بھائی نے مجھے بتایا کہ یہ والی لال بس ٹوبہ ٹیک سنگھ جا رہی ہے، لیکن اس بس میں تو ہو کا عالم ہے! سب سے پیچھے ایک چھوٹی سیٹ ہے ، یہاں بیٹھ جاتا ہوں۔ تاکہ سارے راستے کھڑے نہ رہنا پڑے۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ بس تو دروازے تک بھرگئی، تل دھرنے کو بھی جگہ باقی نہ رہی۔ بس تو اب چل پڑی ہے، مگر سخت گرمی اور منہ کو آتے مسافر اور ان کے پسینے۔۔۔ایسے میں سووں گا کیسے۔۔۔؟
ارے یہ کیا۔۔۔؟ یہ بس کس طرف جا رہی ہے؟ کسی نے بولا ’مردان‘ تو میں بھونچکا رہ گیا۔ معلوم بھی تو نہیں کہ اب کون سا شہر آئے گا۔ ہاں سکھر تو آئے گا ہی ناں، میں وہاں اتر جاؤں گا اور وہاں سے ایک اور بس کر کے جانا پڑے گا۔ چلو ابھی کیا کر سکتا ہوں۔ سکھر آنے تک آرام کرلوں۔
ڈیڑھ گھنٹے کا سفر ہو چکا تھا اور تقریباً تین گھنٹے کا باقی تھا۔ عموماً بس میں اتنا سکون نہیں ہوتا، لیکن آج تو بس کا ماحول بے حد الگ تھا، بس میں بیٹھے ہوئے کوئی 30 میں سے 22 مسافر تو گہری نیند میں تھے، ایک شخص سب سے آگے بیٹھا ڈرائیور سے گپیں ہانک رہا تھا اور سب سے پیچھے کونے میں پانچ سے چھے دوست بیٹھے لوڈو کھیل رہے تھے۔ کچھ دیر میں ایک خاتون مسافر کا شیر خوار بچہ بلک بلک کر رونے لگا۔ اس کا شور سوئے ہوئے مسافروں کو جگا چکا تھا، کچھ دیر بعد میرے بھی سر میں درد ہونے لگا تو میں نے اپنے ’ایئرفون‘ نکالے اور نصرت فتح علی خان کی قوالی سننا شروع کر دی۔ قوالی سنتے سنتے میری آنکھ کب لگ گئی مجھے پتا ہی نہ چلا۔ مسافروں کے بولنے سے آنکھ کھلی تو میں نے کھڑکی سے باہر نظر ڈالی تو سامنے سمندر دیکھ کر میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔
’کراچی سے سکھر جاتے ہوئے راستے میں سمندر؟‘ یہ تو کچھ مسئلہ ہے میں نے فوراً اپنے ساتھ بیٹھے شخص کو نیند سے جگا کے پوچھا کہ یہ بس ملیر ہی جا رہی ہے ناں؟ اس نے کہا جی جناب تو میں نے پوچھا ’’پھر یہ سمندر۔۔۔؟‘‘ تو اس نے کہا جناب ’’بلوچستان جانے کا یہی تو راستہ ہے!‘‘ یہ سن کے میرا دماغ چکرا کر رہ گیا۔ دو منٹ بعد اس شخص نے ہنستے ہوئے کہا ’’مذاق کر رہا ہو ں جناب یہ بس کنڈ ملیر ہی جا رہی ہے اور یہ بولتے ہی وہ تھوڑا سا جھوم سا گیا اور سیٹ سے گرتے گرتے بچا۔ تب مجھے سمجھ آئی کہ یہ آدمی نشے میں ہے۔ میں گھبرا کے اپنی سیٹ سے کھڑا ہوا اور چلاکے ڈرائیور سے بس رکوائی۔ جب ڈرائیور سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ بس اصل میں گوادر کی طرف جا رہی تھی۔ میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ ٹکٹ پر تو ملیر ہی لکھا ہے تو ڈرائیور نے کہا ’’جناب ملیر نہیں غور سے پڑھیے، کنڈ ملیر ہے۔‘‘
میں نے غور سے دیکھا تو ادھ پھٹے ٹکٹ میں میں سے ’کنڈ‘ والا حصہ موجود نہ تھا اور وہ صرف ملیر پڑھا جا رہا تھا۔ اب ایک گھنٹے کا سفر باقی تھا اور راستہ انتہائی سنسان۔ یہاں اترنے سے بہتر تھا کہ میں گوادر پہنچ جاؤں۔ یہ سوچ کر میں دوبارہ اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔
۔۔۔
’’انسان دوست شخصیت ڈاکٹر رتھ فاؤ‘‘
انیلا طالب، گجرانوالہ
پاکستان کی مدر ٹریسا جرمن نژاد ڈاکٹر رتھ فاؤ نے انتیس سال کی عمر میں پاکستان کا رخ کیا اور پھر پلٹ کر واپس نہ گئیں حالاں کہ وہ پاکستان کی نہیں تھیں، مگر پاکستان میں قیام کیا تو یہ ملک ایسا بھایا کہ آپ آج بھی اسی ملک کی زمین پر ہمیشہ کے لیے آرام کی نیند سو رہی ہیں۔ پاکستان میں اگرچہ ہزاروں مسائل ہی کیوں نہ تھے، مگر نازک اندام روتھ کو جذام کے مریضوں کی کشش نے یہاں سے جانے نہ دیا۔
انھوں نے جی پی اور آزاد کشمیر جیسے دوردراز علاقوں میں جا کر جذام کے مریض ڈھونڈ کر ان کا علاج کیا اور پھر یہ اس رحم دل خاتون کی بدولت ہی ممکن ہوا تھا کہ 1996ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے یہ خوش خبری سنائی کہ پاکستان ایشیا کا وہ واحد ملک ہے جو کوڑھ سے پاک کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کو یہ اعزاز دلوانے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ ہی تھیں۔
2010ء میں آپ نے سندھ میں آنے والے سیلاب کے متاثرین کی دل کھول کر مدد کی گھر تعمیر کروائے، راشن تقسیم کیا، خیمے لگوائے اور لوگوں کو محفوظ جگہ پہنچایا۔ آپ لیپروسی کنٹرول پروگرام کی بانی تھیں۔ سوسائٹی آف دی ہارٹ آف میری کی ممبر تھیں۔ آپ طب کے شعبے سے وابستہ تھیں۔ آپ نے مشنری تنظیم کے کہنے پر پاکستان کا دورہ کیا یہ دورۂ پاکستان میں جذام کے مریضوں کے متعلق ایک ڈاکیومینٹری دیکھنے کے بعد کیا گیا تھا۔
یہاں مریضوں کی بے بسی نے آپ کے قدم جکڑ لیے اور انھوں نے واپس جانے کا ارادہ ترک کیا اور کراچی ہی میں سکونت پذیر ہوگئیں۔ اور کوڑھیوں کی بستی میں فری کلینک کا آغاز کیا۔ جرمنی سے کثیر عطیات پاکستان میں منتقل کیے، تاکہ مریضوں کا علاج ہو سکے۔ کراچی راول پنڈی میں انہوں نے کئی اسپتالوں میں لیپروسی ٹریٹمنٹ سینٹر قائم کیے۔
انھیں 1988ء میں پاکستان کی شہریت بھی ملی۔ کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ جن میں نشان قائد اعظم۔ ہلال پاکستان اور ہلال امتیاز وغیرہ شامل ہیں۔ 56 سال تک انھوں نے بغیر نمودونمائش، خودستائشی اور خودنمائی کے بے لوث خدمت کی۔ دوردراز کے علاقوں کا دورہ کیا۔
جذام سے متاثرہ لوگوں کو مفت ادویات تقسیم کیں۔ انھوں نے کبھی اپنی تشہیر نہ چاہی اور نہ ہی کسی اعزاز کی طلب رکھی۔ پھر خاموشی سے دنیا سے چلی گئیں۔ انھوں نے یہ وصیت کی تھی کہ میرا علاج کرتے ہوئے مصنوعی تنفس نہ دیا جائے، انھیں وصیت کے مطابق عروسی لباس میں دفن کیا گیا۔ میت لپروسی سینٹر آئی، تو وہاں لوگوں پر رقت طاری ہوگئی۔ آپ کے پاس چند کتابوں اور بستر کے سوا کوئی اضافی سامان نہیں تھا۔
9 ستمبر 1929 ء کو جرمنی کے شہر لیپ زگ میں پیدا ہونے والی رتھ فاؤ 10 اگست 2017ء کو کراچی میں انتقال کر گئیں۔ کہنے کو تو آپ چلی گئیں، مگر آپ کی سماجی خدمات آج بھی ہمارے ہاں موجود ہیں۔
۔۔۔
صد لفظی کتھا
ہدف
رضوان طاہر مبین
وہ چھپتا چھپاتا مطلوبہ مقام پر پہنچا۔
اور جیب سے زہر کی پڑیا نکال کر اُس کے کھانے میں ملا دی۔
’’اس بار زہر کار گر ثابت ہونا چاہیے۔‘‘
اسے ’اوپر‘ سے سخت ہدایات تھیں۔
’’ہلاکتوں کا ہدف بھی پورا ہونا چاہیے۔‘‘
سو فی صد نتائج کے لیے اس نے زہر کی مقدار دگنی کر دی۔
کام پورا کیا اور پلٹا۔۔۔
پھر محفوظ اوٹ سے اپنے شکار کا انجام دیکھنے لگا۔
دیکھتے ہی دیکھتے سارا کھانا چَٹ ہو گیا۔
ساتھ ہی زہر نے کام دکھایا۔
ایک کے بعد ایک ڈھیر ہوتے گئے۔
’کتا مار مہم‘ کام یاب ہو گئی۔
The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.