رمضان المبارک ہمارے پاس چند دنوں کا مہمان ہے، جس نے اس کی جتنی قدر کی ہوگی وہ خوب عیش میں ہوگا اور جو سستی کا شکار رہے ان کے لیے ابھی بھی موقع ہے کہ وہ ماہ مہمان کی آخری گھڑیوں میں عبادات کا اہتمام کریں اور اس وقت کو خوب مفید تر بناکر اپنی مغفرت کا سامان کریں، یہی ہمارا مقصود رمضان ہے۔
سیدنا ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’ بے شک! اﷲ تعالیٰ رمضان میں ہر دن اور رات میں لوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے اور رمضان کے ہر روز و شب میں ہر مسلمان کے لیے ایک دعا ہے، جسے قبولیت سے نوازا جاتا ہے۔‘‘
آخری عشرے میں خاص بات جو بہت اہمیت و فضیلت کی حامل ہے وہ اِعتکاف ہے۔ جو مسلمان اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے محض اﷲ تعالی کی عبادت کی نیت سے مسجد میں آکر ٹھہرے اس کو اعتکاف کہتے ہیں۔ یہ مبارک عمل نبی کریمؐ سے ثابت ہے۔ آپؐ ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا مسجد میں اعتکاف فرماتے تھے۔ اعتکاف کی بہت فضیلت ہے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ خیر کے کاموں میں سب سے زیادہ سخی تھے۔ رمضان میں آپؐ تیز ہوا سے بھی زیادہ صدقہ کیا کرتے اور خیر کے کاموں کی طرف سبقت لے جاتے تھے۔ (بخاری)
رمضان المبارک کا سارا مہینہ ہی رب تعالی کی رحمتوں اور برکتوں سے بھرا ہوا ہے مگر اس کے آخری دس دن بہت ہی زیادہ فضیلت کے حامل ہیں۔ رمضان کے آخری عشرے کو باقی دو عشروں سے ممتاز کرنے والی لیلۃ القدر یعنی شب ِقدر ہے، جسے قرآن میں لیلۃ مبارکۃ بھی کہا گیا ہے۔
اس رات کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’حٰم، قسم ہے اس وضاحت والی کتاب کی، یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اُتارا ہے۔ بے شک! ہم ڈرانے والے ہیں، اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس سے حکم ہوکر، ہم ہی رسول بنا کر بھیجنے والے ہیں۔‘‘ ( الدخان)
ایک دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’یقیناً ہم نے ہی اسے یعنی قرآن کو شب ِقدر میں نازل فرمایا، تم کیا جانو کہ شب ِقدر کیا ہے؟ شب ِقدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں ہر کام کے سرانجام دینے کو اپنے ربّ کے حکم سے فرشتے اور روح (جبریل) اُترتے ہیں۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔‘ (القدر)
سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص نے شب ِقدر کا ِایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام کیا، اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)
سیدنا ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لیلۃ القدر آخری عشرے میں ہے اور یہ بھی سنا: ’’ جب نو، سات، پانچ یا تین یا آخری رات باقی رہ جائے تو اسے تلاش کرو۔‘‘ (جامع ترمذی)
سیدنا ابوبکرؓ رمضان کی پہلی بیس راتوں میں معمول کے مطابق نماز پڑھتے لیکن جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو عبادت میں خوب محنت کرتے تھے۔
مبارک ماہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات قدر والی ہے ہمیں آخری عشرے کی طاق راتوں میں خوب عبادت کرکے اس رات کی فضیلت کو پانا چاہیے۔ شب ِقدر کی چند علامات بھی ہیں۔ شب ِقدر کی صبح سورج یوں طلوع ہوتا ہے کہ اس کی شعاعیں نہیں ہوتیں۔ (مسلم) شب ِقدر میں جب چاند نکلتا ہے تو ایسے ہوتا ہے جیسے بڑے تھال کا کنارہ۔ (مسلم) شب ِقدر ایک خوش گوار رات ہے جس میں نہ گرمی ہوتی ہے اور نہ سردی۔ اس صبح کا سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اس کی سرخی مدھم ہوتی ہے۔ (ابن خزیمہ)
شب ِقدر میں آدمی حسب ِمعمول جو دعا چاہے مانگ سکتا ہے۔ تاہم اس رات کو جو خاص دعا ہے، اسے ضرور مانگنا چاہیے اور وہ دعا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بتائی ہے: ’’اے اﷲ بے شک آپ معاف کرنے والے، کرم فرمانے والے ہیں، معافی کو پسند فرماتے ہیں لہٰذا مجھے معاف فرما دیں۔‘‘ (جامع ترمذی)
اﷲ کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق ماہ رمضان کے اختتام پر روزوں کے مکمل ہونے کی خوشی میں صدقۂ فطر ادا کیا جاتا ہے۔ صدقۂ فطر کو نماز عید سے پہلے ادا کرنا چاہیے۔ اﷲ تعالی ہمیں رمضان میں اپنی بخشش کروانے کی توفیق دے، ہمیں ایسا بنا دے کہ ہم اسے پسند آجائیں اور اﷲ ہم سے راضی ہو۔ آمین
The post رحمت کا خزینہ لیلۃ القدر appeared first on ایکسپریس اردو.