حضرت عبداﷲ ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ سے لیلۃ القدر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ رمضان میں ہوتی ہے۔
( ابوداؤد) مفسرین لکھتے ہیں کہ جس رات میں قرآن نازل کیا گیا تھا اور جس کو قرآن حکیم میں لیلۃ القدر کہا گیا ہے، چوں کہ وہ رمضان کی ایک رات تھی اس لیے لازماً ہر رمضان میں ایک رات لیلۃ القدر ہے۔
لیکن کون سی رات ہے اس کا تعین نہیں ہوسکا، بہ جز اس کے کہ وہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’شب قدر کو رمضان کی آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ (صحیح بخاری)
لیلۃ القدر مجموعہ ہے دو لفظوں یعنی لیل بہ معنی شب یعنی رات اور قدر کے معنی رتبہ، مرتبہ قابل احترام اور عظمت کے ہیں۔ قدر کے اور بہت سے معنی مفسرین نے اپنی تشریح میں لکھے ہیں۔ اگر اس سورہ کو بہ غور پڑھا جائے تو قدر کے معنی تقدیر بھی ہوسکتے ہیں۔
بعض مفسرین نے قدر کو ضیق اور تنگی کے معنوں میں لیا ہے اور کچھ نے قضا و قدر کے معنوں میں بھی لیا ہے۔ علماء نے تنگی ان معنوں میں لیا ہے کہ اﷲ نے اس رات کی صحیح تاریخ متعین نہیں کی اور یہ بھی کہ آسمان سے اسے ملائکہ نازل ہوتے ہیں کہ کثرت تعدد ملائکہ کی وجہ سے زمین تنگ پڑجاتی ہے یعنی چھوٹی ہوجاتی ہے۔
قرآن حکیم میں اس رات کو ایک اور نام یعنی لیلۃ مبارکہ سے پکارا ہے، مفہوم: ’’ قسم ہے کتاب واضح کی! بے شک ہم نے اس کو نازل کیا ایک مبارک رات میں کیوں کہ ہمیں بلاشبہ ڈرانا مقصود تھا۔‘‘ (سورہ الدخان) یہاں مبارک رات کے معنی برکت والی رات کے ہیں۔
اس رات کی فضیلت اور برکت کتب احادیث میں متعدد مقامات پر آئی ہیں مگر چوں کہ ا س رات کی فضیلت خود قرآن حکیم میں دو مقامات پر آئی ہیں اور پھر سورہ قدر تو پوری اس مبارک رات کی تعریف میں مستقل سورۃ کے طور پر نازل ہوئی ہے۔
آپؐ بہ ذات خود بھی رمضان کے آخری عشرے میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں سخت محنت فرماتے تھے۔ اتنی محنت کسی اور مہینے میں نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ صحابہ کرامؓ نے آنحضورؐ سے دریافت فرمایا یہ کیسے معلوم ہو کہ جس رات ہم نے عبادت کی ہے وہی شب قدر ہے۔ چناں چہ آپؐ نے جواب میں اس رات کی نشانیاں بیان فرمائیں۔
ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ؐ نے ہمیں اس کی ایک نشانی یہ بتائی کہ اس رات کے بعد جو سورج طلوع ہوگا اس میں شعاع نہیں ہوگی۔ (مسلم) شعاع نہیں ہوگی سے آپؐ کی مراد یہ تھی کہ شعاع میں تیزی نہیں ہوگی۔
ایک اور نشانی اس رات کے بارے میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ہم آنحضرؐت کی خدمت میں شب قدر کا ذکر کر رہے تھے آپؐ نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جو وہ وقت یاد رکھے گا جب چاند نکلتے وقت وہ ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہوگا۔ (مسلم) ایک اور روایت میں آیا ہے کہ اس رات میں سکون ہوتا ہے۔ نہ زیادہ گرمی اور نہ زیادہ سردی ہوتی ہے، آسمان روشن اور صاف ہوتا ہے اور اس کی صبح کو سورج کی شعاعیں ہلکی ہوتی ہیں۔
محققین نے یہاں تک تحقیق کی ہے کہ اس رات کتے نہیں بھونکتے اور علم الاعداد کے ماہرین نے تو بہت دل چسپ بات کہی ہے کہ سورہ قدر میں لیل کا ذکر 3 مرتبہ آیا ہے جو کہ اعداد کے اعتبار سے 27 بنتے ہیں۔ یعنی شب قدر 27 ویں شب کو ہوتی ہے۔ آئمہ کرام کے بھی اس رات کے تعین میں مختلف اقوال ہیں۔
امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں یہ رات تمام سال میں دائر رہتی ہے ان کا دوسرا قول یہ ہے کہ تمام رمضان میں دائر رہتی ہے، صاحبین کا قول ہے کہ تمام رمضان کی کسی ایک رات میں ہے۔ جب کہ شافعیہ کا قول یہ ہے کہ 21 ویں شب میں ہونا اقرب ہے۔
امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہے جو کسی سال کسی رات میں اور کسی سال کسی اور رات میں ہوتی ہے۔ لیکن جمہور علماء کی رائے میں ستائیسویں رات میں زیادہ امید ہے۔ ہمیں شب قدر کی تلاش میں رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سعی کرنا چاہیے۔
اس عشرہ کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے خدائے برتر سے لو لگانی چاہیے کہ وہ عفو در گزر کرنے والا ہے اور اس رات آئندہ کے لیے تجدید عہد کیا جائے کہ ہمارا کوئی لمحہ اس کی نافرمانی میں نہیں گزرے گا۔ یہ رات ہمارے رب نے بہ طور انعام ہمارے لیے مختص کی ہے، جس میں ہماری بخشش کا نجات کا مکمل ذریعہ رکھا ہے۔
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ جب لیلۃ القدر ہوتی ہے تو جبرئیل ملائکہ کے جھرمٹ میں اترتے ہیں اور ہر اس بندے کے لیے دعا کرتے ہیں جو اس وقت کھڑا ہوا یا بیٹھا ہوا اﷲ کا ذکر کر رہا ہو۔ (بیہقی) ظاہر ہے کہ جب ملائکہ گنا ہ گاروں بندوں کے لیے دعا کر رہے ہوں گے تو یقینا اس کی رحمت کا سمندر موج زن ہوگا جو انشاء اﷲ ہماری مغفرت کا باعث ہوگا۔
The post نزولِ قرآن و مغفرت کی رات appeared first on ایکسپریس اردو.