غزل
کیسی بے ترتیبی ہے
ہر شے بکھری بکھری ہے
ٹوٹا ہے کس کا سپنا
شب نے کیوں سسکی لی ہے
کان صداؤں کو ترسیں
آنکھ ستارے گنتی ہے
ہر پرسہ ہے جھوٹ بھرا
ہر تعزیت جعلی ہے
روشن دن کے ماتھے پر
کس نے رات اتاری ہے
میں سچائی کا شیدا
دل اوہام کا قیدی ہے
فکر کے سبزہ زاروں میں
یاد کی تتلی اڑتی ہے
جس کو کہتے ہیں دنیا
ظالم سخت فریبی ہے
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
میری مٹی سے جو خوشبوئے وفا آتی ہے
تم کہو ہم نفسو! تم کو بھی کیا آتی ہے
آہنی کرب سے مضروب ہوا ہوں ایسے
دل سے اک سازِ شکستہ کی صدا آتی ہے
ایک مدت سے تری یاد کے زندان میں ہوں
منعکس ہو کے جہاں تری ضیا آتی ہے
دل کے محراب میں کیا شمع بجھی ہے کوئی
خاک اڑانے کو جو پاگل یہ ہوا آتی ہے
ہار جاتی ہے جہاں پر میری ہمت جب بھی
کام اس وقت میری ماں کی دعا آتی ہے
اپنے عمال سے اتنا ہوں میں نادم فرخؔ
مانگتا کیسے مجھے رب سے حیا آتی ہے
(سید فرخ جواد۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
سورج اگرچہ تجھ کو بتاتا نہیں ہوں میں
دن میں بھی اب چراغ بجھاتا نہیں ہوں میں
آوارگانِ دشت کا کرتا ہوں احترام
نقشِ قدم کسی کے مٹاتا نہیں ہوں میں
آتا ہے رشک اس کو مری زندگی پہ بس
جس کو بھی اپنے درد سناتا نہیں ہوں میں
میں بے تکلفی کا بھی قائل تو ہوں مگر
دیوارِ احترام گراتا نہیں ہوں میں
رکھا ہوا ہے دل میں ترے غم کو اس طرح
اس میں کسی کا غم بھی ملاتا نہیں ہوں میں
(محمد علی ایاز،کبیروالا)
۔۔۔
غزل
چمکا نہیں یہ داغِ جبیں دیکھتا رہا
میں آسمان ہو کے زمیں دیکھتا رہا
کردار دیکھنا بھی ضروری تو تھا مگر
اس بے وفا کو صرف حسیں دیکھتا رہا
شاید اسی خمار کو کہتے ہیں زندگی
جو دیکھنے کا تھا ہی نہیں دیکھتا رہا
کیسی تلاش کیسا مرا انتظار تھا
میں آسماں سے دور کہیں دیکھتا رہا
اپنوں کے ساتھ رہنا اذیت سے کم نہ تھا
ٹوٹا ہے کیسے کیسے یقیں دیکھتا رہا
رشتوں کی بیڑیوں نے مجھے باندھ ہی لیا
پاؤں مرے جکڑتی رہیں دیکھتا رہا
صابر فریب خود کو دیا، مطمئن کیا
اس دلنشیں کو پہلو نشیں دیکھتا رہا
(صابر چودھری۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
بات ظاہر اپنے اندر کی اگر ہو جائے گی
’’وہ تو وہ اُن کے فرشتوں کو خبر ہو جائے گی‘‘
ڈال رکھا ہے حیا کا سرمہ اپنی آنکھ میں
سر سے گرتے ہی ردا نیچی نظر ہو جائے گی
رات کا پچھلا پہر بھی ڈھل گیا اسی سوچ میں
شمعیں بجھتے ہی نئی پھر سے سحر ہو جائے گی
تو نے محفل میں بلایا ہے بڑے ہی شوق سے
آ تو میں جاؤں گا رسوائی مگر ہو جائے گی
بات پہنچی ہے ابھی تو حلقۂ احباب تک
رفتہ رفتہ سارے عالم کو خبر ہو جائے گی
کل تلک ساگرؔ جسے سب چور کہتے تھے یہاں
کیا خبر تھی جلوہ گر وہ تخت پر ہوجائے گی
(صدام ساگر۔ گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
ہم اک جہان سے سارے جہان باندھتے ہیں
زمیں کی ڈور سے جب آسمان باندھتے ہیں
ہمارے سر پہ امامہ انھیں کی عظمت ہے
ہم اس میں اپنے بزرگوں کی شان باندھتے ہیں
دل و دماغ سے سنتے ہیں دیکھتے ہیں سب
وہ ہم نہیں ہیں جو آنکھوں سے کان باندھتے ہیں
ہمیں سلیقہ نہ سکھلائیں گفتگو کا آپ
ہمارے تسمے تو اہل ِزبان باندھتے ہیں
زمیں کی پستی میں ہونا ہے دفن بھول گئے
خدا کے گھر سے جو اونچا مکان باندھتے ہیں
کنارے کھینچتے ہیں ساحلوں پہ کشتی کو
ہوا کے ہاتھ ہی خود بادبان باندھتے ہیں
بکھیر دیتے ہیں مٹی پہ جسم کے پرزے
زمیں سے ایسے سفر کی تھکان باندھتے ہیں
حرام ایک بھی لقمہ ہے اہل ِایواں پر
گر اپنے پیٹ پہ پتھر کسان باندھتے ہیں
ابد کو باندھتے ہیں ہم ازل کے دامن سے
جب ایک شعر میں سارے زمان باندھتے ہیں
ہماری خو میں نہیں عام راہ پر چلنا
غزل کے شعر میں ہم چیستان باندھتے ہیں
(محمد کلیم شاداب۔ آکوٹ، بھارت)
۔۔۔
غزل
کیا بتاؤں میں عزیزوں کو کہ کیسی نکلی
خود فریبی میرے معیار سے چھوٹی نکلی
خواب جب ایک تناسب سے نکالے میں نے
زندگی پورے لفافے سے بھی آدھی نکلی
یہ تغیر بھی کسی ہجر کا محتاج رہا
قہقہہ کھود کے دیکھا تو اداسی نکلی
وہ محبت میں جسے آخری مانے ہوئے تھی
اس محبت کو جو پرکھا تو وہ پہلی نکلی
دوسری بار ملاقات جوانی میں ہوئی
بدنصیبی میری بچپن کی سہیلی نکلی
ظرف کی آنکھ بصارت سے بڑی ہوتی ہے
جو کہ میلی تھی حقیقت میں وہ اجلی نکلی
میں تو اس شخص کی یادوں سے نکل آئی ہوں
پر مرے دل سے کبھی یاد نہ اسکی نکلی
(مہوش احسن ۔لاہور)
۔۔۔
غزل
ہیں چار دن عذاب کے پھر تو نجات ہے
اس عارضی جہان میں کس کو ثبات ہے
ایسے اڑیں پہاڑ یہ جیسے دھنی کپاس
بس کُن کے انتظار میں یہ کائنات ہے
کرتی ہیں طے تو خصلتیں ہی قدر و منزلت
پیتل بھی ورنہ دھات ہے، سونا بھی دھات ہے
ہوتی نہیں ہے زندگی یہ موت پر فنا
در اصل جو حیات ہے، بعد از ممات ہے
راضی خدا کی خلق جو تجھ سے نہ رہ سکی
جاویدؔ بے اثر تری صوم و صلات ہے
(جاویدجدون۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
جو رات دن اپنا سَر کھپانے میں لگ گئے ہیں
یہ لوگ غزلوں کے کارخانے میں لگ گئے ہیں
عجیب ہے نا؟ ہیں سارے شیشے کے جسم والے
جو اپنے پتھر کے گھر بنانے میں لگ گئے ہیں
مجھے یقیں ہے کہ درد ان کا حساب لے گا
وہ چند لمحے جو مسکرانے میں لگ گئے ہیں
یہ دل کی باتوں پہ کان دھرنے کا وقت کب تھا
ہم اس کی باتوں پہ کس زمانے میں لگ گئے ہیں
وہ حوصلوں کی جو سَر پہ رکھ کے تھے لائے گٹھڑی
وہ سارے تیری گلی تک آنے میں لگ گئے ہیں
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)
۔۔۔
غزل
مجھ میں اک غم شناس رہتا ہے
جو ہمہ وقت پاس رہتا ہے
ساتھ رہتا ہے وہ مرے پھر بھی
جانے کیوں دل اداس رہتا ہے
جب سے دیکھا ہے مست نظروں نے
کھویا ہوش و حواس رہتا ہے
بھول جاتے ہیں دور جاتے ہی
کس کو وعدوں کا پاس رہتا ہے
یاد کرتا ہے وہ مجھے اکثر
میرے دل میں قیاس رہتا ہے
بیت جائیں گے یہ بھی دن راحِلؔ
کس لیے محوِ یاس رہتا ہے
( علی راحل۔ بورے والا)
۔۔۔
غزل
کسی کی مد بھری آنکھوں کو بے وفا لکھ دے
ہجومِ یار میں اے دل مجھے تنہا لکھ دے
یونہی تنہائی میں رو رو کے دل بہل سا گیا
کہ جیسے موت کسی بیمار کو شفا لکھ دے
تمھارے بعد محبت میں جل رہا ہے بدن
مرے حبیب مرے حق میں اک دعا لکھ دے
مجھے تلاش میں ہیروں کی سب ملے پتھر
سو اب نصیب میں اک یارِ باوفا لکھ دے
ہمارے سینے سے زیادہ جو زخم پیٹھ پہ ہیں
اصولِ یار میں شامل ہوئی دغا لکھ دے
ملا ہے تجھ کو جو چندہ کسی کمینے سے
اب اگلے پل میں اسے شیخ پارسا لکھ دے
کسی حسیں نے درِ عشق پہ دستک دی ہے
تو میرے دل کا دریچہ بھی اس پہ وا لکھ دے
(عامرمُعان۔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
اپنے قد سے بڑا نہ ہو جائے
آدمی ہے خدا نہ ہو جائے
یوں عقیدت سے پیش مت آؤ
دیکھ پتھر خدا نہ ہو جائے
یار اتنا نہ پیار کر اس کو
دیکھنا بے وفا نہ ہو جائے
جال زلفوں کا کس کے رکھنا تم
قید سے وہ رِہا نہ ہو جائے
بس کے اتنا ہی سوچ کر دینا
درد حد سے سوا نہ ہو جائے
میں کرم اس لیے پریشاں ہوں
یار مجھ سے جدا نہ ہو جائے
(کرم حسین بزدار۔ گھوٹکی)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.