وطن عزیز گزشتہ ایک برس سے مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔ شدت کا اندازہ یوں لگائیے کہ ماہرین معاشیات کی رو سے پاکستان میں پہلے کبھی اتنی زیادہ مہنگائی نہیں دیکھی گئی۔
ہر پاکستانی اس کے ہاتھوں پریشان ہے۔ درست کہ اس عجوبے نے مختلف وجوہ کی بنا پر دنیا کے سبھی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان سرفہرست دس ملکوں میں ہوتا ہے جہاں مہنگائی سب سے زیادہ ہے اور خصوصاً عام آدمی کے لیے وبال ِجاں بن چکی۔ وجہ کیا ہے؟کوئی ایک نہیں بلکہ کئی وجوہ نے جمع ہو کر عوام ِپاکستان پہ مہنگائی کا بوجھ ڈال دیا۔
قیمتیں بم بن گئیں
اعداد وشمار کے مطابق صرف ایک برس کے دوران پاکستان میں عام استعمال کی کئی اشیا کی قیمتوں میں 50 سے 100 فیصد تک اضافہ ہو چکا۔مہنگی ہونے والی اشیا میں سب سے بالا پیاز ہے جس کی قیمت میں ’’417 فیصد‘‘کا زبردست اضافہ ہوا اور لاکھوں غریب پاکستانیوں کی دسترس سے یہ سبزی دور ہو گئی۔
اس کے بعد چکن (96.8 فیصد)، ڈیزل (93.82 فیصد)، انڈوں (77.8 فیصد)، چاول (76.96 فیصد) درسی کتب (74.13 فیصد)، کیلوں (72.66 فیصد) چنے (64.95 فیصد)، پٹرول (63.2 فیصد)، گیس (82.8 فیصد)، سٹیشنری (61.37 فیصد)، دالوں (55.50 فیصد)، گندم (55 فیصد)، صابن (51.63 فیصد)، کھانا پکانے کے تیل (50.60 فیصد)، خشک میوہ جات (47.88 فیصد) اور پھلوں (45 فیصد) کی قیمتیں بم بن کر عام آدمی کے سر پہ پھٹیں اور اسے زخموں سے چُور چُور کر گئیں۔
الم ناک داستانیں
پاکستان کا متوسط اور غریب طبقہ کروڑوں پاکستانیوں پہ مشتمل ہے۔ ان ہم وطنوں کا کہنا ہے کہ وہ چند برس قبل تک کسی نہ کسی طرح روزمرہ کے اخراجات پورے کر لیتے تھے۔مگر اب تو بیشتر آمدن خوراک اور ٹرانسپورٹیشن ہڑپ کر جاتی ہے۔
چناں چہ کپڑے لتّے، علاج، تعلیم ، سیر وتفریخ کے واسطے رقم ہی نہیں بچتی۔ یہ چیزیں اب غریب کے لیے تو پہنچ سے دور ہو چکیں۔حتی کہ وہ جسم و جان کا محض رشتہ برقرار رکھنے کی خاطر دو وقت کھانا کھا رہا ہے۔
محمد خان سے ملیے جو لاہور کی گوالمنڈی میں ہاتھ گاڑی چلاتا ہے۔ آنکھوں میں اُمنڈتے آنسو بہ مشکل روکتے ہوئے بتاتا ہے:’’میرے چار بچے ہیں۔ہم چھ جانوںکو ایک وقت پیٹ بھرنے کے لیے کم از کم پندرہ روٹیاں درکار ہیں۔
لہذا روزانہ یہ روٹیاں فی روٹی 15 روپے کے حساب سے 450 روپے میں پڑتی ہیں۔پھر تمام دالیں 300 سے 450روپے میں دستیاب ہیں۔ سبزیوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ کھانا بنانے میں گھی، نمک، مرچیں اور مسالے استعمال ہوتے ہیں۔غرض اب روز کا صرف کھانا پکانے کے لیے مجھے ایک ہزار روپے چاہیے۔ میں ہر روز اتنی رقم نہیں کما پاتا۔ چناں چہ جس روز آمدن نہ ہو، ہمیں فاقہ کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں تو ایک وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں۔وہی مل جائے تو بڑی بات ہے۔ زندگی کی دوسری ضروریات تو ہمارے لیے عیش وآرام کی شے بن چکیں۔‘‘
مہنگائی کے عفریت کا المّیہ یہ ہے کہ وہ سبھی پاکستانیوں کے ساتھ برابری سے پیش نہیں آتا۔اس سلسلے میں سلیم خان کی حالت زار دیکھیے جو کوئٹہ سے کراچی آیا ہوا ہے۔ شہر قائد میں محنت مزدوری کر کے گذارا کرتا ہے۔
کہتا ہے کہ کراچی میں روٹی کی قیمت 15 تا 20 روپے ہے۔ مگر وہی روٹی کوئٹہ میں 30 تا 40 روپے میں ملتی ہے کہ وہاں گندم کی کمی ہے۔اس باعث فی کلو گندم لاہور یا کراچی کی نسبت دگنی رقم میں ملتی ہے۔اسی طرح کراچی سے کوئٹہ کے بس کرائے میں بھی پانچ چھ سو روپے کا اضافہ ہو چکا۔ سلیم خان کے نزدیک بھی زندگی بس اب دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے کے درمیان گھوم رہی ہے، بقیہ سرگرمیاں گویا شجر ممنوعہ بن چکیں۔
ملتان میں آباد محمد رمضان کولر اور ائرکنڈیشنر مرمت کرنے والی دکان چلاتے ہیں۔منہ زور مہنگائی نے ان کا بھی جینا حرام کر دیا ۔سال پہلے فی کلو چکن تین سو روپے تھا جس کی قیمت اب سات سو روپے کے قریب پہنچ چکی۔فی کلو پکانے کے تیل کی قیمت چھ سو روپے سے زیادہ بڑھ گئی۔
حکومت نے کم از کم تنخواہ 25 ہزار ماہانہ مقرر کر رکھی ہے۔محمد رمضان کہتے ہیں’’حکمران طبقہ پچیس ہزار روپے میں چار افراد پہ مشتمل گھرانے کا خرچ چلا کر دکھائے۔‘‘محمد رمضان تسلیم کرتے ہیں کہ ہنرمند اور غیر ہنرمندوں کی اجرتوں میں اضافہ ہو چکا۔مگر ان کے نزدیک کام کم ہونے کی وجہ سے یہ اضافہ بھی بے اثر ہی رہا۔کام کم ہونے کی وجہ یہ کہ قومی معیشت مجموعی طور پہ جمود کا شکار ہے۔ مینوفیکچرنگ کم ہو رہی ہے اور کاروباری سرگرمیاں بھی ماند پڑ چکیں۔
بھوک کا عفریت
اب صورت حال یہ ہے کہ کوئی غریب خدانخواستہ بیمار ہو جائے تو بیماری اس کی جان لے کر ہی چھوڑتی ہے۔ وجہ یہی کہ علاج مہنگا ہو چکا۔سرکاری اسپتال جائے تو وہاں اتنا زیادہ ہجوم ہوتا ہے کہ گھنٹوں بعد ڈاکٹر سرسری سا معائنہ کرتا ہے۔جبکہ اب پاکستان میں جان بچانے والی ادویات کی قلت جنم لے چکی۔اس نے ان دواؤں کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر ڈالا۔
ماہرین عمرانیات خبردار کر رہے ہیں کہ حکمران طبقے نے بڑھتی مہنگائی پر قابو نہ پایا تو لاکھوں غریبوں کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا۔تب بھوک سے معاشرے میں شدید انتشار جنم لے گا اور بھوکے آخرکار حکمران طبقے کے محلات کا رخ کر سکتے ہیں جہاں وہ آرام وآسائش کی زندگی بسر کرتے ہیں۔یہ محض تصّور نہیں، ماضی میں فرانس، امریکا ، برازیل، ارجنٹائن اور کئی دیگر ممالک میں بھوکے عوام حکومتوں کا تختہ الٹ چکے۔ پاکستانی طبقہ اشرافیہ کو ویسے تو کتب سے دور کا بھی واسطہ نہیں مگر اسے تاریخ کا مطالعہ کر لینا چاہیے جو فکشن نہیں ہوتی۔
مہنگائی بڑھنے کی وجوہ
پاکستان میں مہنگائی جنم لینے کی مختلف وجوہ ہیں۔کچھ کئی عشروں پہ محیط ہیں، جیسے حکمران طبقے کی قرضے لینے کی لت،گڈ گورنس یا اچھے طرز حکمرانی کا نہ ہونا، کرپشن، ذاتی مفاد کو ترجیح دینا اور بعض نے پچھلے چند سال کے دوران جنم لیا۔مثلاً کوویڈ وبا جس نے عالمی معیشت تتربتر کر ڈالی۔دنیا والے اس کے منفی اثرات سے نکل رہے تھے کہ روس اوریوکرین جنگ کا آغاز ہو گیا۔
یہ دونوں خوراک اور ایندھن پیدا کرنے والے بڑ ے ممالک ہیں۔وہاں جنگ ہونے سے دنیا میں خوراک وایندھن کی سپلائی متاثرہو ئی اور یوں یہ چیزیں مہنگی ہونے لگیں۔اس دوران پاکستان سمیت کئی ملک سیلابوں، قحط، سمندری طوفانوں، جنگلات کی آگ وغیرہ متفرق آب و ہوائی آفتوں کا نشانہ بن گئے۔انھوں نے زراعت کا عالمی نظام متاثر کر کے غذاؤں کی قیمتیں بڑھا دیں۔
پاکستان میں خوفناک سیلاب فصلیں ، باغات اور مویشی بہا کر لے گئے۔اس لیے اشیائے خور ونوش بیرون ممالک سے منگوانا پڑیں جو مہنگی ہوتی ہیں۔اس اثنا میں امریکی حکومت نے اپنے ہاں مہنگائی روکنے کے لیے ڈالر کی شرح سود بڑھا دی۔اس باعث دنیا بھر میں ڈالر کی مانگ بڑھ گئی۔سرمایہ کار کمپنیوں اور سٹاک ایکسچینجوں سے اپنی رقم نکال کر ڈالر خریدنے لگے تاکہ زیادہ منافع حاصل کر سکیں۔
ڈالر کی مانگ بڑھنے سے عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں اس کی قدر بھی بڑھنے لگی۔اس نے خصصاً غریب ملکوں کی کرنسی کو ادھیڑ کر رکھا دیا جن میں ہمارے دیس کا روپیہ بھی شامل ہے۔مارچ 22ء میں ایک ڈالر تقریباً 170 پاکستانی روپے کے برابر تھا۔ اب وہ 275 روپے کے آس پاس گھوم رہا ہے۔گویا صرف ایک سال میں امریکی ڈالر کی قدر 100 روپے سے زیادہ بڑھ گئی۔
پاکستان کثیر مقدار میں ایندھن و غذائیں ڈالر دے کر بیرون ممالک سے خریدتاہے۔پاکستانی کرنسی کی قدر گھٹنے کے باعث ہر درآمدی شے مہنگی ہو گئی۔اوپر سے ہمارا حکمران طبقہ درآمدی اشیا پہ بھاری ٹیکس بھی لگا چکا۔ وجہ یہ کہ انہی ٹیکسوں کی رقم کے سہارے حکمران طبقے نے اخراجات پورے کرنا اور اپنے پُرتعیش طرز حیات کو برقرار رکھنا معمول بنا لیا ہے۔چناں چہ درآمدی اشیا جب تک عوام کی دسترس میں پہنچتی ہیں، ازحد مہنگی ہو جاتی ہیں کہ اس دوران آڑھتی یا کمپنی والے اور ریٹیلر بھی منافع میں سے اپنا حصہ لیتے ہیں۔
پیاز اور چکن
پچھلے سال سیلابوں نے پیاز کی فصل کو شدید نقصان پہنچایا۔اسی لیے یہ سبزی نایاب ہونے پر بے انتہا مہنگی ہو گئی۔قلت دور کرنے کی خاطر بیرون ممالک سے منگوانا پڑی جو مہنگی تھی۔پیاز کی نئی فصل آنے پر وہ کچھ سستی ہو رہی ہے۔چکن اس لیے مہنگا ہوا کہ ہماری وزارت ِماحولیاتی تبدیلی نے وہ درآمدی مال پاکستان لانے پر پابندی لگا دی جس سے چکن کا فیڈ بنتا ہے۔
یہ ایک متنازع فیصلہ تھا۔بہرحال اس فیصلے کی وجہ سے پاکستان میں چکن فیڈ کی قلت نے جنم لیا اور کئی پولٹری فارم فیڈ نہ ہونے یا مہنگا ہونے کے باعث بند ہو گئے۔ان کی بندش سے چکن کی قلت پیدا ہوئی اور مارکیٹ کے اصول کی رو سے وہ مہنگا ہوتا چلا گیا۔اس کی قیمت کئی جگہوں پر ساڑھے سات سو روپے بھی ریکارڈ کی گئی۔ یوں طبقہ اشرافیہ کے ایک متنازع فیصلے نے چکن بھی عام آدمی کی دسترس سے دور کر دیا۔ یہ طبقہ خود مہنگے دیسی مرغ اڑاتا ہے۔
آئی ایم ایف نشانے پر
وطن عزیز میں رواج بن چکا کہ بعض دانشوراور سیاست داں ہر مسئلے کا ذمے دار بیرونی قوتوں کو ٹھہرا دیتے ہیں۔یقیناً ہمارے دشمن موجود ہیں جو پاکستان کو معاشی، سیاسی و معاشرتی طور پر مضبوط ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔لہذا وہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے خفیہ وعیاں سازشیں کرتے ہیں۔
مگر پاکستانی حکمران طبقے کی یہی تو اہم ذمے داری ہے کہ وہ دشمنوں کی سازشوں اور چالوں کو ناکام بنا کر پاکستان کو معاشی، سیاسی اور معاشرتی طور پہ مضبوط سے مضبوط تر مملکت بنا دے۔پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال سے عیاں ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ یہ بنیادی ذمے داری انجام دینے میں ناکام ہو چکا، تبھی دیوالیہ ہونے کا خطرہ کابھوت بن کر ہمارے سر پہ منڈلاتا رہتا ہے۔
اکثر دانشور دعوی کرتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی مسائل اور مہنگائی آئی ایم ایف کی پیداکردہ ہے۔ یہ دانشور عموماً حکمران طبقے اور عوام کی بھی کوتاہیاں اور غلطیاں اجاگر نہیں کرتے۔آئی ایم ایف اقوام متحدہ کا ایک مالیاتی ادارہ ہے جو معاشی مصائب میں پھنسے ملکوں کو قرضے دیتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وہ قرض کی رقم کی مدد سے اپنی قومی معیشت ٹھیک کر لیں۔
ظاہر ہے، قرض لینے والے ملک کے معاشی مسائل اس کا حکمران طبقہ اور عوام مل کر جنم دیتے ہیں۔آئی ایم ایف کو ان کا مرتکب قرار نہیں دیا جا سکتا…وہ تو معاشی مسئلے پیدا ہونے کے بعد اس مملکت کو قرض دے کر مدد کرنے کی سعی کرتا ہے۔
لیکن یہ عیاں ہے کہ آئی ایم ایف مفت میں قرضے فراہم نہیں کرتا، وہ بدلے میں شرائط منواتا ہے۔ ان کے ذریعے عموماً یہ امر یقینی بناتا ہوتا ہے کہ حکمران طبقہ درست معاشی اقدامات کر کے اس کا قرض واپس کر دے گا۔ گو امریکا اور اس کے حلیف آئی ایم ایف کے ذریعے اپنے مفادات بھی پورے کر سکتے ہیں۔ وجہ یہ کہ یہی مغربی ممالک قرض کی بیشتر رقم فراہم کرتے ہیں۔
قرض کی پیتے تھے مے
پاکستان کی مثال ہی لیجیے۔ آغاز ہی سے ہماری حکومت کے پاس رقم ، خاص طور پہ ڈالر کی کمی تھی۔اسی لیے 1965ء میں حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرض مانگ لیا۔اس کے بعد ہر پاکستانی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لیا چاہے حکمران سیاست دان ہو یا جرنیل۔ مگر حالات سے عیاں ہے کہ قرض لے کر کسی بھی پاکستانی حکومت نے قومی معیشت درست نہیں کی۔
اس باعث نئے قرضے لینے پڑ گئے۔ اب تو حالت یہ ہو چکی کہ خود پاکستانی حکمران طبقہ اعتراف کرتا ہے کہ آئی ایم ایف والے ان سے بھکاریوں جیسا ذلت آمیز سلوک کرتے ہیں۔ مگر حکمران طبقے کی سوچ وعمل دیکھا جائے تو غالب کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے:
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی
صورت حال سے آشکار ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کو قرض کی مے پینے کی لت پڑ چکی۔اب تو قرضے پانے کی خاطر وہ عوام کے مفاد کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔مثلاً حکومتی بیانات کے مطابق آئی ایم ایف نے محض 1.1 ارب ڈالر دینے کے لیے پاکستانی حکومت کو کہا کہ سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کر دو، بجلی کے بلوں میں 3.39روپے کا سرچارج لگاؤ، ڈالر کا سرکاری ریٹ آزاد چھوڑ دو اور اور پٹرول وڈیزل کی قیمت میںاضافہ کرو۔ یہ تمام شرائط پوری کر دی گئیں حالانکہ ان کے ذریعے پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ ہوا جو براہ راست عام آدمی پہ منفی اثرات ڈالتی ہے۔
پی ٹی آئی کی لائی ’’تبدیلی‘‘
ماضی میں حکومتیں ان اشیا پہ ٹیکس لگاتے ہوئے اجتناب کرتی تھیں جو پاکستانی عوام کے روزمرہ استعمال میں ہوں۔ یہ پی ٹی آئی حکومت ہے جس نے سب سے پہلے عوامی استعمال کی اشیا پر بھی مختلف ٹیکس لگا ئے۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ آمدن بڑھا کر قرضے اتارنا اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے منصوبے بنانا مقصود ہے۔
پی ٹی آئی حکومت نے عوام دوست منصوبے ضرور شروع کیے مگر وہ قرضوں کا بوجھ کم نہیں کر سکی بلکہ ریاست پہ مزید قرض چڑھا دیا۔ یوں اس نے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ کیا بلکہ آنے والے حکمرانوں کو بھی یہ راہ دکھا دی کہ ہر شے پہ ٹیکس لگا دو اور ٹیکسوں کی شرح بھی بڑھاتے جاؤ۔گویا عوام کو زیر ِبار کرنے کا راستہ کھل گیا۔
مہنگائی جنم لینے کی وجوہ
پاکستان میں مہنگائی جنم لینے کی دو بڑی وجوہ یہ ہیں: اول ریاست پہ قرضوں کا بوجھ اور دوم ملک میں برآمدات کے شعبے کا کمزور ہونا۔ حکومت قرضوں کا سود اور اصل زر ادا کرنے کے لیے نئے ٹیکس لگاتی اور ٹیکسوں کی شرح بڑھاتی ہے۔ یہ امر مہنگائی میں اضافہ کرتا ہے۔ برآمدات نہ ہونے سے ڈالر کی قلت رہتی ہے۔ یہ امر روپے کی قدر گھٹاتا ہے۔ چناں چہ درآمدات مہنگی ہوتی چلی جاتی ہیں جن میں پٹرول وڈیزل، گندم، دالیں نمایاں ہیں۔پٹرول وڈیزل کی قیمت بڑھے توان سبھی چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں جو ٹرانسپورٹ کی جاتی ہوں۔
وطن عزیز میں خوراک مہنگی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان چاول ، گوشت، سبزیاں اور پھل باہر بھجوا تا ہے ۔ لہذا ان غذاؤں کی قلت سے یہاں وہ مہنگی ہو جاتی ہیں۔ یہ عمل پاکستانی عوام سے زیادتی ہے۔آخر ڈالر حاصل کرنے کے اور بھی طریقے ہیں۔حکومت کا فرض ہے کہ پہلے وہ اپنے عوام کو سستی خوراک مہیا کرے۔پھر جو فاضل غذا بچ جائے، اسے ایکسپورٹ کرے۔ مگر پاکستان میں ہر غذا باہر بھجوا دی جاتی ہے چاہے کسی وجہ سے اس کی قلت ہی ہو۔اسی لیے اب کمتر چاول بھی دو سو روپے سے زیادہ مہنگا ہو چکا اور غریب کی دسترس سے دور۔لالچ و ہوس کی حد ہونی چاہیے۔
ماضی وحال میں قرضوں کی وجہ سے کئی ممالک دیوالیہ ہو چکے۔مثلاً سری لنکا جو بیرونی قرض ادا نہ کر سکا۔پاکستان کے حکمران طبقے نے دیگر ممالک کے عبرت ناک انجام سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور مالی بدانتظامی جاری رکھے ہوئے ہے۔اس باعث اسے بار بار کشکول اٹھائے آئی ایم ایف، دوسرے مالیاتی اداروں اور مختلف حکومتوں کے دوارے جانا پڑتا ہے۔
ہمارا حکمران طبقہ یہ بیان تو دے دیتا ہے کہ قرض مانگتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے مگر ایسے عملی و ٹھوس اقدامات نہیں کرتا کہ قرض لینے کی ذلت سے چھٹکارا مل جائے۔شاید وجہ یہ کہ قرضے بڑھنے سے اس کا شاہانہ طرزحیات تو متاثر نہیں ہوتا، بس عوام پہ مہنگائی کا بوجھ مذید بڑھ جاتا ہے، اور بیچارے عوام تو ہیں اسی لیے کہ حکمرانوں کی غلطیوں ، کوتاہیوں اور گناہوں کا خمیازہ بھگتے رہیں۔معاشرے کے دونوں طبقوں کا انداز ِزندگی ہی دیکھ لیجیے۔
تقابلی جائزہ
پاکستان میں بڑھتی مہنگائی کے سبب اب متوسط وغریب طبقوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں پاکستانی دن میں دو (حتی کہ ایک )بار کھانا کھانے لگے ہیں۔(روٹی نہ ہونے پہ عوام کو کیک کھانے کا مشورہ دینے والی فرانسیسی ملکہ کے مانند حکمران تو یہی کہیں گے کہ کم کھانا صحت کے لیے اچھا ہے۔)وہ گھر میں بتی نہیں جلاتے، موٹر سایئکل یا گاڑی کم چلاتے اور سیروتفریح کرنے کم جاتے ہیں۔
غرض یہ پاکستانی رقم بچانے کے پروگرام پہ عمل پیرا ہیں،غریب تو اب بچوں کو مفت تعلیم بھی نہیں دینا چاہتے۔وہ انھیں کسی کام پہ بٹھا دیتے ہیں کہ چار پیسے تو لائیں گے۔غرض حکمران طبقے کے کرتوتوں کی وجہ سے ان ہم وطنوں کے لیے زندگی گذارنا بڑا کٹھن ومشکل مرحلہ بن چکا۔
دوسری طرف اشرافیہ المعروف بہ طبقہ ایلیٹ خصوصاً حکمران طبقے کے طرز ِزندگی کا جائزہ لیجیے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے حکومتی اخراجات گھٹانے کی خاطر تجاویز دینے کیلئے کفایت شعاری کمیٹی بنائی تھی۔ جب یہ کمیٹی سفارشات پیش کر رہی تھی تو اسی دوران حکومت نے مہنگی و پرُتعیش غیر ملکی کاروں کے ٹینڈر جاری کر دئیے۔ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ حکمران طبقہ بہ مشکل ہی اپنے اخراجات کم کرے گا حالانکہ وہ عوام کے دئیے گئے ٹیکسوں کی رقم سے پورے ہوتے ہیں۔لیّہ کے شاعر،صابر جاذب کا شعر ہے:
انسان نے ضمیر کو نیلام کر دیالایا ہوں میں خرید کے سستے سے ریٹ پرآبادی میں حد سے زیادہ اضافہ
ماہرین معاشیات کی رو سے مہنگائی بڑھنے کی ایک اہم وجہ پاکستان کی آبادی میں بے ہنگم اضافہ بھی ہے۔اب صورت حال یہ ہو چکی کہ وسائل اور اشیائے ضروریہ کم ہیں جبکہ انھیں استعمال کرنے والے زیادہ، اسی لیے قدرتاً جس شے کی قلت ہو، اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔گو ذخیرہ اندوز بھی اشیا چھپا کر قیمتیں بڑھاتے ہیں مگر وہ ایک حد تک ہی جا سکتے ہیں۔اگر ہماری آبادی کنٹرول میں آ جائے تو مہنگائی خاصی کم ہو سکتی ہے۔یہ محض تصّور نہیں، ہمارے سابق ساتھی ، بنگلہ دیش کے حکمران طبقے نے اسی طریق پہ عمل کر کے مہنگائی کا جن قابو کر لیا۔
1951ء کی مردم شماری کے مطابق بنگلہ دیش (تب مشرقی پاکستان)کی آبادی (مغربی)پاکستان سے زیادہ تھی۔اس وقت وہاں 4 کروڑ 20 لاکھ افراد بستے تھے۔ جبکہ پاکستان میں3 کروڑ 37 لاکھ انسان رہ رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ تب بنگلہ دیش میں آبادی بڑھنے کی سالانہ شرح ’’2.06 فیصد‘‘تھی جبکہ پاکستان میں ’’1.36فیصد‘‘۔ گویا وہاں ہر سال آبادی میں زیادہ اضافہ ہو رہا تھا۔ بعدازاں بنگلہ دیش کی شرح ’’3 فیصد‘‘ ہو گئی۔ جبکہ پاکستان میں 1981ء میں یہ شرح ’’4.52 فیصد‘‘ ریکارڈ کی گئی۔گویا پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھنے لگی۔
1971ء میں قیام کے بعد بنگلہ دیشی حکومت اور عوام باہمی تعاون سے آبادی بڑھنے کی رفتار کم کرتے چلے گئے۔وہ 1973ء میں ’’2.59فیصد ‘‘تھی۔ اب وہ تقریباً ’’1 فیصد‘‘ہو چکی۔چونکہ بنگلہ دیش میں وسائل بڑھنے کی رفتار اور آبادی میں اضافے کی شرح برابر ہے لہذا وہاںمہنگائی کم ہے۔ وسائل کا پھیلاؤ آبادی میں اضافے کو جذب کر لیتا ہے۔
اور ایندھن، خوراک اور ضرورت کی دیگر اشیا عام آدمی کچھ تگ ودو کے بعد خرید لیتا ہے۔ پاکستان میں تو عام اشیا کی مہنگائی نے عوام کو انتشار وپریشانی کا شکار بنا دیا ہے۔پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح’’ 2 فیصد‘‘ہے جس میں کمی دیکھنے کو نہیں مل رہی۔اس باعث ہر سال وطن عزیز کی آبادی میں مزید پینتالیس تا پچاس لاکھ نئے انسانو ںکا اضافہ ہو جاتا ہے۔مگر وسائل میں اضافہ آبادی بڑھنے کے حساب سے نہیں ہو رہا بلکہ اس میں تنزلی جنم لے چکی۔
خوراک کی کمی کو لیجیے۔ ماضی میں جن زمینوں میں کھیت اور باغ لگے تھے، نیز مویشیوں کو چارا ملتا تھا، وہاں اب ہاؤسنگ سوسائٹیاں یا فیکٹریاں تعمیر ہو چکیں۔ ان کی تعمیر برحق لیکن متبادل کھیت اور باغ بھی تو بننے چاہیں جو کہ وجود میں نہیں آ رہے۔اسی لیے اب پاکستان میں اشیائے خورونوش کی پیداوار میں کمی آ چکی اور ہمیں بہت سی ایسی غذائیں درآمد کرنا پڑتی ہیں جو پہلے پاکستان میں اگا کرتی تھیں ،مثلاً دالیں اور اناج!ْخوراک کی پیداوار میں کمی اور درآمد ہی نے انھیں مہنگا کر ڈالا۔یہ مہنگائی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔
گویا اس کے منفی اثرات سے چھٹکارا پانے کی خاطر ضروری ہے کہ پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح کم کی جائے ۔بنگلہ دیش اور بھارت کی طرح یہاں بھی حکومت اور عوام مل جل کر یہ کام انجام دے سکتے ہیں۔
مہنگائی کم کرنے کے طریقے
ایندھن کی مہنگائی کم کرنے کا طریق یہ ہے کہ مقامی کوئلے سے سستی بجلی بنائی جائے۔ یہ بجلی پھر ریلیں، بسیں اور کاریں چلانے میں بھی کام آئے۔یوں مہنگے درآمدی ایندھن پر انحصار کم ہو گا۔ پاکستانی عوام کو سستی بجلی اور سستی ٹرانسپورٹیشن میسر آئے گی۔خوراک کی مہنگائی ختم کا آسان طریقہ یہ ہے کہ کسانوں کو بیج، کھاد اور بجلی سستے داموں فراہم کی جائے۔
یوں زراعت نوجوانوں کے لیے پُرکشش شعبہ بن جائے گا اور وہ اس کی جانب متوجہ ہوں گے۔کسانوں کو پانی کی معقول فراہمی بھی یقینی بنائے جائے۔حکومت پاکستان زراعت کو ترقی دے کر بھوک جیسے عفریت کو ختم کر سکتی ہے ورنہ وہ اسے کھا جائے گا۔
مہنگائی پہ قابو پانے کا ایک عمل یہ بھی ہے کہ حکمران طبقہ اپنے اخراجات پہ قابو پائے۔پچھلے چند عشروں سے اس نے اپنے آپ کو اتنا زیادہ پھیلا لیا ہے اور اپنے اخراجات اتنے بڑھا لیے ہیں کہ اب حکمران طبقے کو خرچے پورے کرنے کی خاطر قرض لینا پڑتا ہے۔مرے پہ سو دُرے کے مصداق قرضوں کی رقم میں کچھ حصہ کرپشن کھا جاتی ہے۔بعض دانشووں کا دعوی ہے کہ اب سرکاری منصوبوں میں سے ’’حصہ ‘‘لینا حکمران طبقے کے اکثر ارکان کا نشہ بن چکا۔ اپنے اخراجات پورے کرنے کی خاطر بھی حکومت عوام پہ ٹیکسوں کی بھرمار کر رہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اہل پاکستان، حکمران طبقہ، اشرافیہ اور عوام، سبھی مقامی وسائل، جیب اور چادر کے مطابق زندگی گذارنے لگیں ، اپنی خواہشات پہ قابو پا لیں تو بڑھتی مہنگائی کے مضر اثرات سے محفوظ رہیں گے۔یہ مثبت عمل اپنانے سے مہنگائی گھٹے گی کہ اشیا کی کھپت کم ہو جائے گی۔یوں بھی مہنگائی میں کمی آتی ہے۔جیسے کوویڈ وبا کے بعد لاک ڈاؤن لگے تو پٹرول و ڈیزل کی طلب گھٹ گئی۔تب پٹرول فی لیٹر 80 روپے بھی فروخت ہوا تھا۔
The post مہنگائی کا ذمے دار کیا آئی ایم ایف ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.