2023 ملک میں انتخابات کا سال ہے۔ اس حوالے سے جہاں سیاست میں ہیجان نظر آتا ہے، عام ووٹرز تشویش میں مبتلا ہیں، وہیں پاکستان کے اقلیتی ووٹرزمیں بھی سخت اضطراب پایا جاتا ہے، جو اپنے عدم تحفظ، مذہبی، معاشی و سماجی مسائل سمیت کئی معاملات پر قانون سازی کے منتظر ہیں، واضح رہے کہ پاکستان کی 4 فی صد غیرمسلم آبادی کے چالیس لاکھ سے زائد اقلیتی ووٹرز، انتخابی میدان میں کایا پلٹ دینے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان کے کل 12کروڑ 21لاکھ 96 ہزار 122 رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔ 30 جون2022ء تک الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق، اقلیتی ووٹرز کی تعداد 39 لاکھ ،56 ہزار336 ہے، جن میں ہندو ووٹرز 2073983 مسیحی1703288اور دیگر اقلیتوں کے ووٹ 174165ہیں، جب کہ اگست2022ء کے الیکشن کمیشن کے اعداد وشمار کے مطابق اقلیتی ووٹرز کی تعداد (4112761) اکتالیس لاکھ بارہ ہزار سات سو اکسٹھ ہے۔
گزشتہ الیکشن ( 2013) میں اقلیتوں کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد، چھتیس لاکھ، اکتیس ہزار چار سو اکہتر ( 3,631,471) تھی۔ اقلیتی ووٹوں کی تعداد میں چار لاکھ اکیاسی ہزار دو سو نوے ( 4,081,290) ووٹوں کا اضافہ ہواہے۔ یقیناً یہ ووٹ آئندہ آنے والے انتخابات میں امیدواروں کی ہار اور جیت میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
2023 میں جب دوبارہ مردم شماری کا آغاز ہوچکا ہے، غیرمسلم ووٹوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس موقع پر سیاسی جماعتوں کے لئے اقلیتی ووٹرز کے تحفظات کو توجہ دینا اہم ہے۔
بانی پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح نے 11اگست1947کو قانون ساز اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں اقلیتوں کے بارے میں تاریخ ساز الفاظ ادا کرتے ہوئے مملکت پاکستان کی پالیسی واضح کردی تھی، آپ نے فرمایا ” پاکستان میں آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔”
پاکستان کا آئین مذہبی اقلیتوں کو ہر طرح کی آزادی، تحفظ اور قانون سازی کے عمل میں حصہ لینے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ تاہم اقلیتوں کے متعلق بعض زمینی حقائق نہایت تشویش ناک ہیں جن کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔
موجودہ نظام میں اقلیتوں کی نمائندگی کا معما پاکستان کے قومی، صوبائی، اور بلدیاتی ہر سطح کے انتخابات میں اقلیتیں جنرل سیٹوں پر بھی انتخاب لڑسکتی ہیں اور وفاق، چاروں صوبوں سمیت سینیٹ میں بھی اقلیتوں کے لیے سیٹیں مختص ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 51 کے مطابق قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے قومی اسمبلی میں دس اور آرٹیکل 106کے تحت صوبوں میں 24 سیٹیں مختص ہیں، جن کی تقسیم درج ذیل ہے:
سندھ :9، پنجاب:8، بلوچستان:3، خیبرپختونخواہ:4سینٹ میں 4 سیٹیں مختص ہیں۔
2002د کی آئینی ترامیم کے مطابق محفوظ نشستوں پر اقلیتی نمائندوں کے انتخاب کا حق، متناسب نمائندگی کی بنیاد پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو دیا گیا ہے، اس طرح ان تمام نشستوں کو 5 فی صد سے زائد ووٹ حاصل کرنے والی جماعتوں کے درمیان نمائندگی کے تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔
غیرمسلم آبادی کا ایک قابل ذکر طبقہ اس انتظام سے مطمئن نہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان کی مسلم سیاسی پارٹیاں مخصوص تناظر میں اقلیتی نمائندوں کا انتخاب کرتی ہیں، جو مذہبی اقلیتوں کے مفاد سے قطع نظر اپنی پارٹی کی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں، اس طرح اقلیتی ووٹرز خود اپنے نمائندوں کے انتخاب کے جمہوری حق سے محروم رہ جاتے ہیں، جب کہ اقلیتی نمائندے، ووٹرز کو جواب دہ بھی نہیں ہوتے۔ اس طبقے کی رائے میں اقلیتوں کو دہرے ووٹ کے ذریعے خود اپنے نمائندوں کے انتخاب کا حق ملنا چاہیے۔
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا۔۔۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک میں معاشی بدحالی اس پر مستزاد ہر سطح پر موجود بدانتظامی، بد عنوانی اور لاقانونیت نے پاکستانی عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی مذہبی اقلیتیں جو پہلے ہی پس ماندگی کا شکار ہیں مزید پِس کر رہ گئی ہیں۔ ستم بالائے ستم، انھیں اقلیت ہونے کی بنا پر مزید کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔
میٹروپولیٹن کراچی میں مسیحی برادری کی سب سے بڑی آبادی عیسیٰ نگری ،اور ہندوکمیونٹی کا علاقہ نارائن پورہ میں اس کی واضح جھلک نظر آتی ہے جہاں غربت و پس ماندگی بھی اپنی بدترین ترین صورت میں موجود ہیں۔ ہم زیرِنظر فیچر کے لیے یہاں پہنچے تو عوام غم وغصے سے ہمارے سامنے پھٹ پڑے۔
کیا تمھارا خدا ہے، ہمارا نہیں!
4مئی2021 کو عیسیٰ نگری کے ایک عیسائی جوڑے کی آٹھ سالہ بیٹی سے زیادتی کی کوشش کی گئی۔ واقعے کا ملزم، عیسائی خاندان کے نزدیک رہائش پذیر انیس سالہ مسلمان لڑکا تھا۔
بچی کی والدہ بتا رہی تھیں ” واقعے کے بعد ہماری دہشت زدہ بچی آٹھ دن تک آئی سی یو میں رہی، وہ زیابیطس کا شکار ہوگئی، ہم ابھی بھی اپنی بچی کو خود سے جدا رکھنے پر مجبور ہیں، اسے حفاظت کی غرض سے ڈیفنس میں ایک ہاسٹل میں رکھا گیا ہے۔”
روزی (فرضی نام) عیسیٰ نگری کی بیشتر عورتوں کی طرح لوگوں کے گھروں میں کام کرکے روزگار حاصل کرتی ہیں۔ یہ واقعہ کرونا کے دنوں میں پیش آیا تھا۔
ان دنوں اسکول بند ہوگئے تھے، روزی نے اپنی بیٹی کو اس غرض سے کہ تعلیم کا حرج نہ ہو، قریب ہی واقع مسلمان گھرانے کی لڑکی کے پاس ٹیوشن کے لیے بھیجنا شروع کردیا۔ یہاں محلے کے دیگر بچے بھی پڑھنے جاتے تھے، جس روز یہ واقعہ پیش آیا، بچی معمول کے مطابق اپنی ٹیچر کے پاس گھر کے اوپر کی منزل پر موجود تھی۔
اسی دوران ٹیچر کے بھائی نے بہانے سے بچی کو نیچے بلایا، کمرہ بند کیا اور چھری سے ڈراتے ہوئے بچی سے زیادتی کی کوشش کی۔ بچی نے چیخنا شروع کردیا۔ شور کی آواز گھر میں اتفاقاً داخل ہوتے ہوئے کسی نے سن لی کیوںکہ نیچے گھر خالی تھا۔ دروازہ کھولا گیا تو بچی کے ساتھ زیادتی کا علم ہوا۔
روزی حسب معمول کام سے فارغ ہو گھر واپس آئیں تو بچی کو سخت ہراساں پایا، پوچھنے پر بچی نے جب واقعہ بتایا تو روزی کو پاؤں تلے زمین سرکتی محسوس ہوئی، تاہم انہوں نے اپنے حواس بحال کئے اور چپ رہنے کی بجائے فوراً علاقے کی معتبر شخصیات کو لے کر ملزم کے گھر پہنچ گئیں۔ یہاں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔
اہل محلہ نے لڑکے کو پکڑ لیا۔ بچی کو میڈیکل ٹیسٹ کے لیے لے کر گئے تو میڈیکولیگل افسر رپورٹ نہیں بنا رہا تھا۔ محلہ کمیٹی کے افراد نے کرسچن ایم۔پی۔ اے انتھونی نوید سے رابطہ کیا۔ انھوں نے کوشش کر کے بچی کا میڈیکل کروایا۔ ملزم پولیس کے حوالے کیا گیا، بشپ نے انھیں وکیل فراہم کیا۔
روزی نے مزید کہا”خدا کا شکر ہے تھانہ کچہری میں ہماری شنوائی ہوئی، ہمارا کیس چل رہا ہے، ملزم جیل میں ہے۔ ” روزی نے کہا ان پر اور ان کے شوہر پر بے حد دباؤ ہے، دھمکیاں دی گئی ہیں کہ کیس واپس لے لیں لیکن وہ ایسا نہیں کریں گی۔ انھوں نے کہا یہ میں اپنے لیے نہیں سب بچیوں کی عزت بچانے کے لیے کررہی ہوں، مجرم کو سزا ملے گی تو دوسروں کو عبرت حاصل ہوگی، خدا نے چاہا تو میں اس مجرم کو سزا دلوا کے رہوں گی۔” روزی کا لہجہ مصمم تھا۔
روزی نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مجھے دکھ ہے چالیس سال سے زائد عرصے سے اس علاقے میں ساتھ رہنے والے کسی ایک مسلمان خاندان نے بھی اس واقعے میں ہمارا ساتھ نہیں دیا، بلکہ جو لوگ وہاں موجود نہیں تھے وہ بھی ہمارے خلاف موقع کے گواہ بن گئے۔
بچوں سے زیادتی کے افسوس ناک واقعات ملک بھر میں پیش آتے ہیں اور ان کی ہر سطح پر مذمت کی جاتی ہے، عیسیٰ نگری کے واقعے پر بھی ہر جانب سے متاثرہ خاندان کے حق میں آواز اٹھائی گئی، تاہم اس خاندان کو اس موقع پر اہل علاقہ کے امتیازی رویے کا نہایت افسوس ہے۔
دمِ عیسٰی نہ ہوا
کراچی کے خوش حال علاقے گلشن اقبال سے متصل عیسٰی نگری، مسیحی برادری کی سندھ میں سب سے بڑی آبادی ہے، جسے 60 ء کے اوائل میں پنجاب سے آئے ہوئے مسیحی خاندانوں نے بسایا تھا۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ماننے والوں کا یہ نگر اب ستائیس ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی آبادی 50،000 ہزار سے زائد ہے۔
کراچی شرقی میں واقع یہ علاقہ انتخابی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ علاقہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے245 میں واقع ہے، جہاں سے2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار عامرلیاقت مرحوم نے کام یابی حاصل کی تھی۔
قبل ازیں ،2002 ،2008 اور 2013 کے انتخابات میں عیسٰی نگری کے باسیوں نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم ) کے نمائندوں کو اپنے ووٹوں سے قومی اسمبلی تک پہنچانے میں کردار ادا کیا جس میں سابق میئر کراچی فاروق ستار بھی شامل ہیں۔ حالیہ سینیٹر پاکستان پیپلز پارٹی، انورلال دین کا اس علاقے سے گہرا تعلق ہے، ان کے قریبی عزیز یہاں مکین رہے ہیں۔ تاہم ان تمام سیاسی ناموں کی نسبت، عیسٰی نگری کے باسیوں کی محرومیاں دور نہیں کرسکی۔
اس علاقے میں قدم رکھیں تو جگہ جگہ ابلتے گٹروں سے بچتے ہوئے آگے بڑھنا ایک چیلینج ہے، علاقے کی تنگ گلیوں میں ایمبولینس سمیت کسی چارپہیوں والی گاڑی کا گزر محال ہے۔
فضا میں پھیلے تعفن کی وجہ سے ناک پرماسک لگائے بغیر چارہ نہیں۔ یہیں پاکستان مسیحاملت پارٹی کا دفتر ہے یہاں پارٹی کے صدربرائے سندھ، ڈاکٹرلیاقت منورسرویا، دیگر عہدے داروں اور سماجی کارکن ، ہارون معراج، کمال اشرف اور اکرم گل سے ہماری بات ہوئی۔
ہمیں درست شمار ہی نہیں کیا جاتا!
لیاقت منور نے کہا کہ ہماری آبادی کی گنتی ہی درست نہیں کی جاتی۔ انھوں نے کہا “2017 کی مردم شماری کے مطابق عیسیٰ نگری کے ووٹرز کی تعداد 18،840 ہے، 2018 میں میں نے پی ایس 106 سے آزاد امیدوار کی حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیا اور22500 ووٹ حاصل کیے تھے۔”
لیاقت منور نے کہا شناختی کارڈ بنوانا بڑا مسئلہ ہے، ہماری یونین کونسل بے کار ہے، بچوں کی پیدائش کا اندراج کرتے ہیں لیکن اسے سسٹم میں اپ ڈیٹ نہیں کرتے، ہم جب ب فارم بنوانے نادرا آفس جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سسٹم میں تو فارم ہی موجود نہیں، ب فارم کے بغیر بچوں کو اسکول میں داخلہ نہیں ملتا۔ ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی دونوں کے نمائندے یہاں سے جیتتے رہے لیکن کسی کے دور میں عیسیٰ نگری کی حالت نہیں بدلی۔
ورلڈ بینک کے آسرے
اکرم گل نے کہا کہ عیسیٰ نگری میں پانی بجلی سمیت ترقیاتی کام صرف 87ء سے 97ء تک ہوئے جب تک جداگانہ انتخاب کے ذریعے ہم اپنے نمائندے خود منتخب کرتے تھے۔
اب تو ایم این اے، ایم پی اے صرف کرسمس کے موقع پر چکر لگاتے ہیں کیک کاٹ کر تصویریں بناتے اور رخصت ہوجاتے ہیں یا ان کے چہرے الیکشن مہم کے دوران دکھائی دیتے ہیں۔ جب جولائی میں بلدیاتی الیکشن کا اعلان ہوا تو سب نے ادھر آنا شروع کردیا، گلی نمبر ایک میں جلدی میں سیوریج کا کام شروع کروادیا جس سے گلی نمبر تین کی لائن چوک ہوگئی۔
پورا ایک مہینہ گٹر لائن بند رہی، لوگوں کا آ ناجانا مشکل ہوگیا۔ الیکشن ملتوی ہونے کے ساتھ ہی سارے کام ادھورے چھوڑ دئیے گئے۔
ورلڈ بینک کے لوگ بھی الیکشن سے پہلے آگئے تھے۔ انہوں نے چرچ میں ہم لوگوں سے بات چیت کی اور کہا تھا کہ علاقے میں سیوریج کی نئی لائنیں دلوائیں گے لیکن وہ منصوبہ بھی الیکشن کے التواء کی نذر ہوگیا۔
راتوں رات دیواریں کھڑی کی گئیں
ہارون معراج نے کہا ابھی ہمارے سر پر ہر وقت جو تلوار لٹکی رہتی ہے وہ توہین مذہب کا معاملہ ہے، جسے عموماً غلط اطلاعات سے پھیلایا جاتا ہے۔ 2012 میں ایسے واقعات تواتر سے ہوئے جن میں ہمارے پانچ لوگوں کی جان لے لی گئی۔
ہمارے علاقے میں چند شرپسندوں نے قرآن کے اوراق جلا کر ڈال دیے تھے۔ مذہبی اشتعال انگیزی میں کوئی بھی حقائق نہیں پوچھتا۔ ہر کسی نے تحقیق کیے بغیر الزام لگا دیا کہ عیسائیوں نے جلایا ہوگا، ہنگامے ہوگئے۔ اس واقعے پر پولیس نے کارروائی کی۔ ان دنوں اس علاقے میں گینگ وار جاری تھی، اس میں سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی گُھسے ہوئے تھے۔
یہ لوگ لوٹ مار کر کے آتے تھے اور ہمارے علاقے سے گزر کر پیچھے باجوڑی پاڑہ، جھنڈے شاہ قبرستان اور پرانی سبزی منڈی کی طرف نکل جاتے تھے۔ ہمارے لوگ انھیں منع کرتے تو اس پر فساد ہوجاتا تھا۔ اسی مخاصمت کے ماحول میں یہاں قرآن جلایا گیا۔
اس وقت ڈی ایس پی ناصر لودھی تھے۔ انہوں نے معاملہ بھانپ لیا تھا اور ہمارا بہت ساتھ دیا۔ انہوں نے ہم سے کہا اگر اپنے علاقے میں حفاظتی دیواریں بنانا چاہتے ہیں تو آج کی رات ہی بنالیں۔ علاقے کی حفاظت کے لیے ہماری عرصے سے یہ ڈیمانڈ تھی۔ چناںچہ اس وقت ایسا سماں ہوگیا کہ لوگ اپنے گھروں سے اینٹیں اٹھا کر لارہے تھے، کسی نے سیمنٹ کی بوریاں دیں، سب لوگ مل کر دیواریں بنانے میں لگے تھے۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے ہمیں آزادی مل رہی ہو کیوںکہ ان گینگز نے ہمارا جینا دوبھر کیا ہوا تھا۔ ہماری موٹر سائیکلیں چھین لیتے تھے، یہاں تک کہ سیڑھیاں لگا کر گھروں میں گُھس جاتے تھے۔ ان سے نجات پانے کے لیے ہمارے لوگوں نے راتوں رات آٹھ دیواریں کھڑی کردیں اور پیچھے سے اپنی گلیوں میں داخلے کا راستہ بند کردیا۔
“سرکارکوصرف خاکروب کی ضرورت ہے”
سماجی کارکنوں کو شکایت ہے کہ 1999 کے بعد اقلیتی ملازمتوں کے کوٹے پر عمل نہیں ہوا۔ کمال اشرف نے کہا کہ 92/93 کے دور میں جب جدا گانہ انتخاب ہوتا تھا تو منتخب نمائندوں کو نوکریوں کا کوٹا ملتا تھا۔ تب لوگوں کو اچھی نوکریاں ملتی تھیں، سندھ کے وزیرِاعلیٰ جام صادق کے دور میں لوگ پروفیسر، انسپکٹر اور گریڈ سولہ، سترہ کے افسر مقرر ہوئے۔
وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے منارٹیز ایم پی ایز کو نوازتے تھے۔ اب بھی قانون کے مطابق غیرمسلم کے لیے نوکریوں کا پانچ فی صد کوٹا ہے، مگر نوکریاں محض خاکروب کی ملتی ہیں۔ سینیٹری ورکرز کی اسامیوں کے لیے گورنمنٹ کے اشتہارات میں باقاعدہ لکھا ہوتا ہے کہ “غیرمسلم اپلائی کریں۔”
اقلیتی نمائندے محض ہومیو پیتھک دوا
عیسیٰ نگری کے باسی اسمبلیوں میں موجود اپنے نمائندوں سے شاکی ہیں۔ ہارون معراج کہتے ہیں” ریزروو سیٹ پر منتخب ہونے والے ہمارے لیے کیا آواز اٹھائیں گے۔
انھیں ہم نہیں پارٹی منتخب کرتی ہے اور ان کے استعفے پارٹی کے پاس رکھے ہوتے ہیں۔ شور مچائیں گے تو گھر جائیں گے لہٰذا وہ پارٹی سے ہٹ کر ہمارے لیے کچھ نہیں کہہ سکتے۔”
کمال اشرف سندھو کو افسوس ہے کہ 2018 کے الیکشن کے بعد سے آج تک کوئی نمائندہ اس علاقے میں نہیں جھانکا۔ ان کے لیے سب سے دکھ کی بات یہ ہے کہ سینیٹر جن کا اس بستی سے گہرا تعلق اور ان سے ذاتی دوستی رہی ہے۔ وہ اب فون کرنے پر انہیں پہچانتے بھی نہیں۔
لیاقت منور نے کہاکہ ہمارے لوگ ریزرو سیٹ کے نمائندوں کو ہومیو پیتھک دوا کہتے ہیں جس کا نہ کوئی فائدہ ہے نہ نقصان۔ مذہبی اقلیتوں کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو یہ نمائندے ہمارا ساتھ دینے کی بجائے اپنی پارٹی کی طرف دیکھتے ہیں، نہ ہی یہ اقلیتوں کے لئے قانون سازی کرتے ہیں۔
کشمیریوں کی طرح دہرا ووٹ
عیسیٰ نگری کے سماجی وسیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ مخلوط انتخابی نظام سے مطمئن ہیں، کیوںکہ اس کے ذریعے اقلیتیں قومی دھارے میں شامل رہتی ہیں۔ ہارون معراج نے کہا کہ جداگانہ انتخاب میں ہم اپنے نمائندے خود منتخب کرتے تھے لیکن قومی دھارے سے کٹ جاتے تھے۔ اس نظام میں اقلیتیں اچھوت بن کر رہ گئی تھیں۔
البتہ پاکستان کے کشمیریوں کی طرح ہمیں بھی اگر دہرے ووٹ کے ذریعے ریزروسیٹوں پر اپنے نمائندے خود چننے کا حق حاصل ہو تو مذہبی اقلیتیں اپنے ووٹ سے بااختیار ہوں گی اور وہ نمائندے جنہیں ہم منتخب کریں گے ہمیں جواب دہ ہوں گے۔
اقلیتوں کا ایک بِل جو پانچ مرتبہ پیش کیا گیا
اقلیتی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے 2013 میں منارٹیز کے حق میں ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جس میں دستور کے آرٹیکل 51 اور 106 میں ترمیم کرتے ہوئے آبادی کی بنیاد پر اقلیتوں کے لیے زیادہ نشستیں مختص کرنے اور اقلیتی برادری کو ووٹ کے دہرے حقوق دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ رمیش کمار2018 میں بھی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔
پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت میں انہوں نے دوبارہ بل پیش کیا ہے۔ اس کی پیش رفت کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے ہمیں بتایا “میں نے ایک نہیں پانچ مرتبہ یہ بل پیش کیا ہے۔
قومی اسمبلی میں کُل سیٹوں کی تعداد جب 207 تھی تب اقلیتوں کی دس سیٹیں مختص کی گئیں، جب 272 ہوگئیں تب بھی یہ سیٹیں دس رہیں، ان میں اضافہ ہونا چاہیے۔
نیز اقلیتی ریزرو سیٹس پر الیکشن کے ذریعے نمائندے منتخب کیے جائیں، جب تک ریزرو سیٹوں پر الیکشن نہیں کروائے جائیں گے تو پارٹی لسٹوں کے ذریعے لوگ خوشامد اور میرٹ کے بجائے دیگر حربوں سے آتے رہیں گے اور اقلیتوں کی حقیقی نمائندگی نہیں ہوگی نہ ہی ان کے مسائل کے حل کے لیے موثر قانون سازی ہوسکے گی۔
بل میں حوالہ دیا گیا ہے کہ ایران، اردن، لبنان، کروشیا، انڈیا، فجی، نیوزی لینڈ اور بلجئیم میں بھی مذہبی اور نسلی بنیاد پر اقلیتیں اپنے نمائندے منتخب کرتی ہیں۔
رمیش کمار کی تجویز کے مطابق اقلیتی آبادی کے مطابق ڈویژن کی بنیاد پر حلقہ انتخاب بنائے جائیں مثلاً اگر عام انتخابات کے لیے تین لاکھ پر ایک حلقہ بنتا ہے تو سندھ میں تھرپارکر اور میرپورخاص کے تین اضلاع کی آبادی کو ملا دیتے ہیں تو دس لاکھ ووٹرز بن جاتے ہیں۔
اس طرح تین ایم این اے وہاں سے الیکٹ ہوں۔ اسی طرح لاڑکانہ اور سکھر کو ملا کر ایک ایم این اے کی سیٹ بن جائے، ایک کراچی سے لیا جائے۔ اس فارمولے کے تحت قومی اسمبلی کے لیے 15 ڈویژن بنادیے جائیں اور صوبائی سطح پر خیبرپختونخواہ، بلوچستان میں 4،4 ، پنجاب میں 10اور سندھ میں 14ڈویژن بنائے جاسکتے ہیں۔
بل پاس کیے جانے میں درپیش رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خود اقلیتوں کے نمائندے اس میں رکاوٹ ہیں، انھیں خدشہ ہے کہ اگر بل پاس ہوگیا تو ہم تو الیکشن لڑ کر نہیں آسکیں گے۔ قومی سیاسی جماعتیں بھی اس کے پاس کرنے میں زیادہ دل چسپی نہیں رکھتیں کیونکہ اس طرح ان کا ریزرو سیٹوں پرا ثرورسوخ ختم ہوجائے گا۔
رمیش کمارنے کہا “اس بل پر میرے بار بار آواز اٹھانے پر اب ہماری شنوائی ہوئی اور پیش رفت یہ ہے کہ دسمبر 2022 میں اس پر موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی پرویز اشرف نے پیپلزپارٹی کے سیدخورشید شاہ کی سربراہی میں کمیٹی بنا دی ہے، جو غیرمسلم پاکستانیوں کی ریزرو سیٹس پر دہرے ووٹ کے ذریعے انتخابی طریقۂ کار کا جائزہ لے گی۔ میں بھی اس کا ممبر ہوں۔ تاہم ابھی تک اس کمیٹی کا خورشید شاہ صاحب کی علالت کی وجہ سے کوئی اجلاس نہیں ہوسکا۔
رمیش کمار پُرامید ہیں کہ الیکشن سے قبل دہرے ووٹ کے معاملے پر پیش رفت ہوجائے گی۔
اقلیتی آبادی کا شمار، متنازعہ معاملہ
2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں اقلیتیں کل آبادی کا 3.52فی صد ہیں۔
اقلیتی حلقوں کے مطابق پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی اس وقت تقریباً 90 لاکھ ہے۔ تقریباً اس لیے کہ پاکستان کی متنازعہ افراد شماری2017ء کے مطابق اقلیتوں کی پاکستان میں تعداد 7321908 جب کہ اگست 2022ء کے الیکشن کمیشن اعداد وشمار کے مطابق اقلیتی ووٹرز کی تعداد 4112761 ہے جب کہ پاکستان میں ووٹ ٹو آبادی کا تناسب تقریباً آدھا آدھا ہے۔
اس حساب سے اقلیتوں کی آبادی 8225522ہونی چاہیے۔ چند غیر سرکاری تنظیموں کی تحقیق کے مطابق مجموعی آبادی، خصوصاً خواتین کے شناختی کارڈز اور اسی حساب سے الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہونے کی تعداد10فی صد کم ہے اگر اس دس فی صد کو بھی شامل کرلیا جائے جو کہ 822552 بنتا ہے تو اس طرح یہ آبادی 9048074 بنتی ہے۔
اقلیتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے مردم شماری پر اعتراضات کیے۔ سینٹر فارسوشل جسٹس کے راہ نما پیٹر جیکب کی جانب سے اس کے متعلق وائٹ پیپر شائع کیا گیا۔ تمام حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل کے نتیجے میں دوبارہ مردم شماری کی جارہی ہے۔
تحریک شناخت کا فارمولا
غیرمسلم پاکستانیوں کی فکری راہ نمائی اور اقلیتی مسائل کو ارباب اختیار تک پہنچانے میں کوشاں، پاکستان تحریک شناخت کے چئیرمین اعظم معراج دس سال سے زائد عرصے سے میدان عمل میں موجود ہیں اور پندرہ کتب شائع کرچکے ہیں۔
جن میں افواج پاکستان سمیت پاکستان کے مختلف شعبوں میں مسیحی افراد کی خدمات پر کتاب “چوبیس چراغ ” اور ّدھرتی جائے کیوں پرائے ” جو اقلیتی افراد کو پاکستانی معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کا عزم دیتی ہے، شامل ہیں۔
اعظم معراج کی جانب سے، اقلیتوں کے لیے قائم شعیب سڈل کمیشن کو دائر درخواستوں کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اقلیتی ووٹرز کی چاروں صوبوں میں ہر سطح پر اندراج کی فہرست جاری کی گئی تھی (یہ فہرست نامعلوم وجوہ کی بنا پر ویب سائٹ سے ہٹا دی گئی ہے)
اعظم معراج نے کہا کہ 2018ء کو وجود میں آنے والی قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں اقلیتوں کے 38 نمائندے موجود ہیں۔
ان میں ہندو اور مسیحی سب سے زیادہ ہیں سکھ و دیگر برادریوں سے بھی چند ہیں، اگر ہم اس تعداد میں سندھ سے براہ راست منتخب ہونے والے غیرمسلم پاکستانی ایک ایم این اے، دو ایم پی ایز اور خواتین کی مخصوص نشستوں پر ایک سینیٹر اور ایک ایم پی اے بھی شامل کرلیں تو یہ تعداد43 ہوجاتی ہے۔
اس کے باوجود مذہبی شناخت کی بنا پر جب بھی کسی مذہبی گروہ کو امتیازی قوانین، سماجی ناانصافی یا جبری تبدیلی مذہب طرح کی کسی ظلم زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ان43 لوگوں میں سے شازونادر ہی کسی کی کوئی آواز سنائی دیتی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ اقلیتی ووٹروں کو جواب دہ نہیں، اپنی پارٹی کی پالیسی کے مطابق کام کرتے ہیں۔
انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ متنازع ہندومیرج ایکٹ اور کرسچن ڈائیورس ایکٹ پر اقلیتی نمائندے تاحال قانون سازی نہیں کرسکے۔
اعظم معراج نے کہا کہ اصولی طور پر سیاسی اشرافیہ غیرمسلموں کو دُہری نمائندگی دے چکی ہے کیوںکہ پاکستان کے868 انتخابی حلقوں کا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا ہر نمائندہ غیرمسلم پاکستانیوں کا بھی نمائندہ ہوتا ہے اور وہ اسے ووٹ بھی ڈالتے ہیں جو کہ یقیناً ایک جمہوری طریقہ ہے، لیکن اقلیتوں کے لیے مختص سیٹوں پر نمائندوں کا انتخاب 5 یا 6 پارٹیوں کے سربراہ اور ان کے مشیر کرتے ہیں جو کہ غیرجمہوری ہے۔
ضرورت ہے کہ مذہبی شناخت پر جو بھی نمائندے موجود ہیں ان کو اسمبلیوں میں لانے کا فیصلہ متناسب نمائندگی کے فارمولے سے نہ کیا جائے بلکہ اس انتخابی نظام میں آئینی ترمیم کے ذریعے مذہبی شناخت پر نمائندے منتخب کرنے کا حق دہرے ووٹ کے ذریعے متعلقہ مذہبی گروہوں کو دے دیا جائے۔ یہ آئینی ترمیم مذہبی اقلیتوں کے ساتھ آئین کی شق226کے مطابق ہوگی۔
اعظم معراج کے مطابق دہرے ووٹ کو مندرجہ ذیل تین نکات کا محور و مرکز بنانے سے یہ بات یقینی ہوجائے گی کہ مذہبی اقلیتوں کی پاکستان کے ہر حلقے سے قومی نمائندگی بھی ہو اور ہر وفاقی اکائی سے مذہبی شناخت پر نمائندگی بھی یقینی ہو۔
1۔ ہر غیرمسلم شہری کا پاکستان کے ہر حلقے میں قومی، صوبائی، ضلعی، تحصیل اور یوسی سطح پر ووٹ ڈالنے اور جنرل الیکشن لڑنے کا حق محفوظ رہے۔
2 ۔ دوسرے مذہبی شناخت والے ووٹ کے لیے بنیادی فارمولا وہ ہی ہوگا، جوکہ جداگانہ انتخابات کے لیے تھا، یعنی اقلیتی نمائندوں کا انتخاب، اقلیتی ووٹوں سے کیا جائے ۔
3۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہر وفاقی اکائی میں سے اقلیتوں کی نمائندگی سینٹ، قومی، صوبائی اسمبلیوں میں ہو، جس کے لیے حلقہ بندیاں پنجاب میں جہاں مسیحیوں اور سندھ میں جہاں ہندوؤں کی آبادی مناسب تعداد میں ہے، وہاں تو چھوٹی بڑی قومی وصوبائی حلقہ بندیاں ہوسکتی ہیں، لیکن جن وفاقی اکائیوں میں مثلاً بلوچستان، کے پی کے اور اسلام آباد جہاں اقلیتی آبادی کی تعداد نمائندگی کے لیے درکار تعداد سے بہت کم ہے، وہاں کم تعداد پر حلقہ بنادیا جائے، جس کی بنیاد، آئین کے دیباچے کے اس پیرا گراف کے مطابق ہو کہ “اقلیتوں اور پس ماندہ اور پسے ہوئے طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے۔”
اعظم معراج نے یہ بھی کہا کہ آبادی کے جس تناسب کے ساتھ ایک ایم پی اے یا ایم این اے منتخب ہوتا ہے اقلیتوں کی38 سیٹیں زیادہ ہیں، یہ ریاست پاکستان کا اقلیتوں کے لیے بونس ہے، تاہم مندرجہ بالا فارمولے سے یہ بات یقینی ہوجائے گی کہ اقلیتوں کی نمائندگی وفاق کی ہر اکائی سے ہو۔ یہ بے ضرر آئینی ترامیم کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ کے مفادات سے متصادم بھی نہیں ہوں گی اور یہ ملک و قوم کے استحکام کی بھی ضمانت بنیں گی۔
’پارٹی اقلیتی امیدوار کی طاقت ہے‘
اقلیتی ریزرو نشست پر منتخب پیپلزپارٹی کے سینیٹر انور لال دین موجودہ انتخابی سسٹم سے مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہا دہرے ووٹ کی ضرورت نہیں، پاکستان میں اقلیتوں کو ہر طرح سے انتخابی عمل میں حصہ لینے کی پوری آزادی اور مواقع میسر ہیں۔
اقلیتیں اپنے ووٹ سے قومی نمائندے منتخب کرتی ہیں، پاکستان کا قانون ہر شہری کو الیکشن لڑنے کا حق دیتا ہے۔ اقلیتی امیدوار جنرل نشستوں سے بھی انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ 2018 میں مہیش میلانی جنرل سیٹ سے جیتے ہیں۔ پیپلزپارٹی مجھے بھی ٹکٹ دے رہی تھی لیکن میرے پاس عام نشست کے لیے وسائل نہیں تھے۔
میں 85 ء سے پیپلزپارٹی کے ساتھ ہوں، پارٹی نے میری وفاداری اور خدمات کے پیش نظر مجھے سینیٹر بنایا۔ انور لال نے اس تاثر کی تردید کی کہ ریزرو سیٹس کے نمائندے اپنی کمیونٹی کا ساتھ دینے کی بجائے پارٹی کی پابندی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا پارٹی ہمارے ذریعے اقلیتوں کے مسائل حل کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
کرسچن آبادی کے نمائندے ہونے کی حیثیت میں عیسیٰ نگری جن سے ان کا گہرا تعلق رہا ہے، یہاں کے باسیوں کی شکایات کے متعلق ہمارے سوال کے جواب میں انور لال دین نے کہا کہ مقامی آبادیوں کے مسائل صوبائی حکومت دیکھتی ہے، سینیٹر ہونے کی حیثیت میں میں مرکز کے معاملات دیکھتا ہوں۔
نارائن پورہ کمپائونڈ، کراچی کی سو سالہ قدیم اقلیتی بستی
کراچی کے گنجان علاقے رنچھوڑلائن کے وسط میں چاردیواری پر مشتمل یہ سوسالہ قدیم بستی تقریباً دس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔
اکثریت نچلے طبقے کے ہندوؤں کی ہے لیکن ان کے علاوہ سکھ اور کرسچن بھی قابل ذکر تعداد میں آباد ہیں اور نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ بلکہ اردگرد کی مسلمان آبادی کے ساتھ بھی مثالی اتفاق کے ساتھ رہتے ہیں۔ کراچی میونسپل کارپوریشن کی ملکیت اس آبادی میں زیادہ تر غیرمسلم سرکاری ملازمین رہائش پذیر ہیں اور صفائی ستھرائی کے کاموں سے وابستہ ہیں۔
تنگ وتاریک بستی کے ان مکینوں کے دل کشادہ ہیں۔ انھوں نے روشن مسکراہٹوں سے ہمارا استقبال کیا اور ہمارے سوالات کے جواب میں اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔
کیلاش کالی داس، ڈی ایم سی سائوتھ میں ملازم ہیں، ہر داس پٹیل اور رمیش مکوانہ، کے ایم سی اور منوہر لال چوہان، کے پی ٹی سے ریٹائرڈ کلرک ہیں، ان سے ہماری بات چیت ہوئی۔
عاشورہ اور نوراتری ساتھ ساتھ
نارائن پورہ کے باسیوں نے بتایا کہ ان کے باپ دادا بھی یہیں پیدا ہوئے۔کالی داس نے کہا۔”یہ بستی ہماری جنم بھومی ہے اور کرم بھومی بھی۔ ہماری نئی پیڑھی بھی یہیں رہنا چاہتی ہے۔ یہاں مسائل ہیں، مگر ہم محفوظ ہیں، جوان بچیوں کو اکیلے چھوڑ کر بھی جا سکتے ہیں۔ اپنے تمام مذہبی تہوار دھوم دھام سے مناتے ہیں، قریبی تھانہ ہمیں سیکیوریٹی فراہم کرتا ہے۔
ہمارے چاروں طرف مسلم آبادی ہے ان کی طرف سے بھی ہمیں کبھی مذہبی معاملے میں پریشانی نہیں ہوئی۔ پچھلے سال عاشورہ اور نوراتری ساتھ ساتھ چلے، (نوراتری بھی دس دنوں کا ہوتا ہے اور اس میں گانا بجانا ہوتا ہے، جب کہ عاشورہ دس دن سوگ پر مشتمل ہوتا ہے) سب سے بڑی بات یہ کہ ہمارے لوگوں میں ایک دوسرے کے لیے احترام ہے۔ رنچھوڑ لائن میں چاروں طرف مسجدیں ہیں، جب اذان کی آواز آتی ہے تو ہمارے بچے تک ریڈیو بند کردیتے ہیں۔
کالی داس نے بتایا کہ1992 میں انڈیا میں بابری مسجد کا واقعہ ہوا تو کچھ لوگوں نے جو ہمارے علاقے کے نہیں تھے یہاں آکر توڑ پھوڑ مچائی اور مندروں کو نقصان پہنچایا لیکن حکومت نے فوری طور پر نوٹس لیا اور چوبیس گھنٹوں کے اندر یہاں امن بحال کرکے ہمیں مکمل سیکیوریٹی فراہم کی، بعد میں مندروں کی دوبارہ تعمیر کی۔ ہمیں پاکستانی حکومت کی طرف سے پوری عزت حاصل ہے۔
بے دخلی کی تلوار سر پر لٹک گئی
منوہر لال نے اس آبادی کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ قیام پاکستان سے قبل نارائن داس اچاریہ کراچی میونسپل کارپوریشن یونین کے صدر تھے۔
یہ کمپائونڈ ان کی ملکیت تھی انہوں نے 1924 میں یہ کالونی ہندو اسٹاف کو دے دی۔ منوہر نے کہا کہ اب جب کہ جب نارائن پورہ سو سال کا ہونے کو ہے، تو ہمیں یہاں سے بے دخل کیا جارہا ہے کے ایم سی کے ایکوموڈیشن ڈیپارٹمنٹ والوں کی جانب سے کورٹ کا آرڈر ملا ہے کہ واٹر بورڈ اور ڈی ایم سی (ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن ) سائوتھ کے ملازمین یہاں نہیں رہیں گے۔ انھوں نے کہا ہمارے سر پر بلدیہ عظمیٰ کی بے دخلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔
رات کو نیند نہیں آتی کہ بچوں کولے کر کہاں جائیں گے۔ کراچی شہر میں کہیں اور جگہ خریدنا ہمارے بس میں نہیں۔ اسی لیے دس بارہ افراد پر مشتمل خاندان اس کمپاؤنڈ کے تنگ وتاریک مکانوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ باہر سے یہاں آنے والے سوچتے ہیں یہ سانس کیسے لیتے ہیں۔
منوہر لال نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مطالبہ یہ کہ نارائن پورہ کو لیز کیا جائے۔ منوہر لال کی بات کی تائید میں سب علاقہ مکینوں نے یہ مطالبہ کیا کہ انھیں نارائن پورہ کمپائونڈ کے مالکانہ حقوق دیے جائیں۔
صدرمملکت کا حلقہ انتخاب
بے گھر ہونے کے خوف میں مبتلا رہائشی اس بات کے شاکی ہیں کہ کسی حکومتی دورمیں میں ان کے مسائل پر توجہ نہیں دی گئی، این اے 247 میں شامل نارائن پورہ وہی انتخابی حلقہ ہے جس سے 2018 میں پاکستان کے موجودہ صدرعارف علوی نے بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل کی۔ ہرداس پٹیل کہتے ہیں” انتخابات میں نارائن پورہ نے جس کو ووٹ دیا وہ سیٹ اسی کی ہے کیوںکہ ہماری آٹھ پنچائتیں ہیں ان کے فیصلے کے مطابق سب کا ووٹ ایک طرف جاتا ہے۔
32 سال تک ہر انتخاب میں ایم کیو ایم یہاں سے جیتتی رہی ہے۔ فاروق ستار2008 میں یہاں سے ایم این اے منتخب ہوئے۔ وہ ہمیں ایک عرصے تک لالی پا پ دیتے رہے کہ نارائن پورہ لیز کروادیں گے، آج تک نہ ہوا۔”
“ہماری گنتی پوری کیوں نہیں؟”
ہر داس پٹیل نے جو مردم شماری اور الیکشن کا بھی کام کرتے رہے ہیں، دعویٰ کیا کہ یہ کراچی کا سب سے بڑا اقلیتی کمپائونڈ ہے، جس کی آبادی پچیس سے تیس ہزار تک ہے صرف اسی کالونی میں پندرہ ہزار ووٹ تھے، 2017 کی مردم شماری کے بعد اسے کاٹ پیٹ کر صرف 4500 کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حلقہ بندیوں میں اس علاقے کے ووٹروں سے بہت زیادتی ہوئی ہے۔ میرا بھائی نارائن پورہ میں رہتا ہے اس کا ووٹ لائنز ایریا میں کردیا گیا ہے۔
” ملازمت کے پانچ فی صد کوٹے پربھی عمل نہیں “
ہرداس پٹیل پوچھتے ہیں کہ اقلیتوں کے لیے مختص پانچ فی صد کوٹے میں ہندو کو نوکری ملے گی سکھ، عیسائی، پارسی یا احمدی کو؟ حقیقت تو یہ ہے کہ وفاق ہو یا صوبہ ہمارے نام سنتے ہی کہا جاتا ہے ‘جھاڑو لگانے کی اسامیاں ہیں، نوکری لے لو۔” ہمارے بچوں نے ایم بی اے کیا ہے، بی ایس سی، کمپیوٹر کورس کیا ہے۔
اپنی تعلیم کے مطابق نوکریوں کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ہرداس کہتے ہیں میں 1981 میں پانچویں گریڈ میں بھرتی ہوا، انیسویں گریڈ میں ریٹائر ہونا چاہیے تھا، گیارہویں گریڈ میں ریٹائر ہوا کیوںکہ میں ہرداس پٹیل ہوں، ہارون پٹیل نہیں۔
ہریجن، بھگوان کے لاوارث بچے
نارائن پورہ کی آبادی زیادہ تر شیڈول کاسٹ ہندوؤں پر مشتمل ہے۔ ہندوازم میں ذات پات کے نظام کے تحت یہ سب سے نچلا طبقہ ہے۔ ہرداس پٹیل اس بارے میں کہتے ہیں کہ یہ صرف پاکستان کی برکت ہے کہ ہندوؤں میں اپنا گلاس اور پیالہ الگ رکھنے والے ہریجن، بسم اللّٰہ ہوٹل میں مسلمانوں کے ساتھ میز کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔
البتہ شیڈول کاسٹ ہندو، نارائن پورہ جیسے بنیادی ضرورتوں سے محروم علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں جب کہ اس علاقے سے متصل صدر، باتھ آئی لینڈ، ڈیفنس اور کلفٹن کے پوش علاقے اونچی ذات کے ہندوؤں کا مسکن ہیں۔ تجارت، کاروبار اور سیاست سے منسلک اونچی ذات کے ہندوؤں کا تعلق اندرون سندھ سے ہے، جو اپنے مالی استحکام کی بدولت سیاست میں اثرورسوخ کے حامل ہیں۔
نارائن پورہ کے باسی شکوہ کناں ہیں کہ قومی یا صوبائی اسمبلی کی سب سیٹیں سندھ کے پیسے والے ہندو جیتتے ہیں، کراچی کے نچلے طبقے کے ہندوؤں کو کہیں نمائندگی حاصل نہیں۔ رمیش مکوانہ نے کہا کہ جب تک جداگانہ انتخابات تھے، اقلیتی نمائندے ہمارے پاس آتے تھے، ریزرو سیٹوں والے کبھی ادھر نہیں جھانکتے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں مخلوط انتخابات کے ساتھ اقلیتی ریزرو نشستوں پر بھی دہرے ووٹ کے ذریعے انتخاب کا حق ملنا چاہیے۔
’’ریزروسیٹوں پر انتخاب، جمہوریت کی مضبوطی”
پروفیسر کرن سنگھ دس سال تک ایس ایم آرٹس اینڈ کامرس کالج کے پرنسپل رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انتخابی عمل کے ضمن میں پاکستانی معاشرے میں کشادگی پیدا ہوئی ہے۔ 2018 کے انتخابات میں جنرل نشستوں پر اقلیتی امیدوار ایم این اے اور ایم پی اے منتخب ہوئے ہیں، البتہ ریزروسیٹوں پر بھی نمائندوں کا انتخاب اگر ووٹ کے ذریعے ہو تو جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں گی۔ اقلیتی نمائندے، سیاسی جماعتوں کی بجائے اپنے ووٹرز کو جواب دہ ہوں گے۔
اقلیتوں کے بعض مسائل مثلاً جبری مذہب کی تبدیلی اور توہین مذہب کی حساسیت کو اقلیتی نمائندہ موثر طور پر جانچ سکتا ہے۔ کرن سنگھ نے کہا یہ معاملات زیادہ تر مِس انفارمیشن یا غلط فہمی کا نتیجہ ہوتے ہیں، ورنہ یہ صوفیاء کی دھرتی ہے، یہاں تمام مذاہب کا احترام پایا جاتا ہے۔
کرن سنگھ جو تعلیم وادب کے شعبے میں شان دارکیریئر کے حامل رہے ہیں، نے کہا کہ پاکستان میں انھیں اپنی محنت کا پھل، اعلٰی عہدے کی صورت میں ملا، اس ملک میں بھگوان داس چیف جسٹس رہے ہیں، ملک کے سیکیوریٹی اداروں میں ہندو، سکھ اور عیسائیوں کے لیے دروازے کھلے ہیں۔
عام پاکستانیوں کی طرح غیرمسلم شہریوں کے لیے بھی مسائل تو ہیں مگر محنت کرنے والے غیرمسلم پاکستانیوں کے لیے بھی مواقع محدود نہیں ہیں۔
ڈاکٹر فاروق ستار، دہرے ووٹ کے حامی
کراچی کے سابق میئر اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم۔کیو۔ایم) کے مرکزی راہ نما فاروق ستار این اے 247اور این اے 245 سے انتخابات جیتتے رہے ہیں۔ ہم نے عیسیٰ نگری اور نارائن پورہ کے عوام کی شکایات کے متعلق ان سے دریافت کیا۔
فاروق ستار نے کہا 2008 سے 2013تک میں جب پیپلزپارٹی کے دور میں وفاقی وزیر تھا تو نارائن پورہ کو ریگولرائز کرنے کی بہت کوشش کی لیکن پیپلزپارٹی کی ایڈمنسٹریشن نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اس کے بعد جب وسیم اختر میئر بنے تو انھیں ہم نے جو پرائرٹی لسٹ دی اس میں یہ معاملہ بھی شامل تھا لیکن وسیم بھی اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے یہ کام نہ کرسکے۔
فاروق ستار نے کہا کہ عیسیٰ نگری میں انفرااسٹرکچر کی ازسر نو تعمیر کرنی ہوگی، کراچی کی دیگر تمام کچی آباریوں سمیت یہ کام مرحلہ وار ہوگا، اس کے لیے ایک گریٹر پلان بننا چاہیے۔
دہرے ووٹ کے بارے میں رائے دیتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ میں اقلیتوں کے لیے سو فی صد دہرے ووٹ کے حق میں ہوں، انھیں قومی دھارے میں شامل رہتے ہوئے نہ صرف یہ کہ اپنے نمائندوں کو خود منتخب کرنے کا اختیار ملنا چاہیے بلکہ تمام قومی سیاسی جماعتوں کو بھی یہ چاہیے کہ عام نشستوں پر بھی اپنے مقبول حلقوں میں اقلیتی امیدواروں کو ٹکٹ دیں، جب ایسی ذہنی کشادگی آ ئے گی تب ہی یہ قائد اعظم کا پاکستان بنے گا۔
فاروق ستار نے کہا ضرورت پڑی تو ایم کیوایم دہرے ووٹ کے لیے آئینی ترمیم کی حمایت کرے گی اور وہ اس کے لیے پرائیویٹ بل بھی پیش کرسکتے ہیں۔
دہرا ووٹ، عارضی اقدام، نفیسہ شاہ
پاکستان پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے دہرے ووٹ کے معاملے پر کہا کہ پارٹی میں مشاورت کے بعد پالیسی وضع کی جائے گی، تاہم پیپلزپارٹی نے ہمیشہ اقلیتوں کے جمہوری حقوق کو فوقیت دی ہے۔ 2018 کے الیکشن میں تھرپارکر سے قومی اسمبلی اور جام شورو سے صوبائی اسمبلی کے لیے جنرل نشستوں پر غیرمسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیے گئے۔
جنہوں نے کام یابی حاصل کی۔ نفیسہ شاہ نے کہا جمہوریت کی اصل روح یہ ہی ہے جیسے کہ پاکستان کا آئین ہر شہری کو خواہ وہ مسلم ہو یا غیرمسلم، کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو، انتخابی عمل میں حصہ لینے کا یکساں حق فراہم کرتا ہے۔
تمام پارٹیوں کے الیکشن بورڈز میں، اندرونی سطح پر پاکستان کے تمام مسلم اور غیرمسلم شہریوں کو نمائندگی ملتی چاہیے اور اسی طرح جنرل نشستوں پر خصوصاً جہاں غیرمسلم ووٹرز کی اکثریت ہے اقلیتی نمائندوں کو ٹکٹ دینا چاہیے۔
نفیسہ شاہ نے کہا میری ذاتی رائے میں ریزرو سیٹ، کوٹا یا دہرا ووٹ عارضی انتظام ہیں، ان میں حرج نہیں لیکن ہمیں ایک مشمولہ (انکلیوسیو) جمہوریت کی طرف بڑھنا ہوگا جس میں ہر شہری کے لیے یکساں موقع ہو، جیسے انگلینڈ میں اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والا ہندو شہری وزیر اعظم بن گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے خصوصی اقدامات
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ترجمان ہارون شنواری کے مطابق پاکستان کا الیکشن ایکٹ 2017 ، سیکشن 48کے تحت اقلیتوں، خواتین، ٹرانسجینڈر اور معذور افراد کو انتخابی حقوق کی فراہمی یقینی بناتا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت اقلیتوں سمیت مندرجہ بالا طبقات کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔ چاروں صوبوں اور اسلام آباد میں مسلم اور نان مسلم ممبرز پر مبنی الیکٹورل ورکنگ گروپ بنائے گئے ہیں۔
ان کی ماہانہ میٹنگز میں مسائل کا جائزہ لے کر حل تجویز کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے 135اضلاع میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن ووٹرز کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جوہائر اسکول، کالج اور یونیورسٹیزلیول پر تمام ووٹرز کی راہ نمائی کے لیے ورکشاپ کرتی ہیں ابھی تک اس سلسلے کی 453 ورکشاپس ہوچکی ہیں۔
یہ مارجنلائزڈ گروپ کو رجسٹریشن کے لیے مائل کرتی ہیں، انھیں رجسٹریشن فارم بھی دیے گئے ہیں جس سے آن اسپاٹ رجسٹریشن کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سیکشن 37کے تحت سال میں کسی بھی وقت ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے دفتر جاکر اپنا ووٹ درج کرواسکتے ہیں۔
اقلیتوں کی اسامیاں خالی پڑی ہیں
ون مین (شعیب سڈل) کمیشن برائے اقلیتوں حقوق کی 12 ویں رپورٹ کے مطابق اقلیتی کوٹے کے تحت سرکاری ملازمتوں میں 87 فی صد مسیحی ہیں، ان میں سے 95 فیصد سینیٹر ورکرز کے طور پر کام کرتے ہیں جن کی بڑی تعداد پنجاب میں ہے جب کہ 30،000 سے زیادہ اسامیاں خالی پڑی ہیں جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
ون مین کمیشن فار منارٹیزرائٹس سپریم کورٹ آف پاکستان
22 ستمبر 2013 کو پشاور میں ایک گرجا گھر پر ہونے والے حملے میں ایک سو سے زائد مسیحی شہری ہلاک ہونے پر سپریم کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس مشیر عالم کے ساتھ تین رکنی بنچ تشکیل دیا، جس کو اقلیتوں کے جان و مال اور حقوق و آزادیوں کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 20 کی روشنی میں جامع قانون سازی کی بنیادیں وضع کرنی تھی اور ریاست کو عملی اقدامات اٹھانے کا پابند بنانا تھا۔
اس تین رکنی عدالتی بنچ نے 19 جون 2014 کو قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق بنانے کے احکامات دیے مگر اس پر عمل نہ ہوسکا۔ 2019 کو سپریم کورٹ نے دوبارہ اس کمیشن کے قیام کے احکامات دیے، جس پرڈاکٹرشعیب سڈل کی سربراہی میں ون مین کمیشن فار منارٹیز رائٹس کا قیام عمل میں آیا، جس کا ٹارگٹ سپریم کورٹ کی جانب سے مندرجہ ذیل سات نکاتی ہدایت نامے پر عمل کرنا ہے۔
مذہبی رواداری کے متعلق وفاق کی جانب سے ٹاسک فورس کا قیام، سماجی و مذہبی ہم آہنگی کے متعلق تعلیمی نصاب کی تیاری ، سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت پر مبنی پوسٹس کے خلاف وفاق کی جانب سے ایکشن لینا، منارٹی رائٹس کونسل کے قیام کے لیے قانون سازی، منارٹیزکی عبادت گاہوں پر اسپیشل فورس کی تعیناتی، صوبائی اور وفاقی حکومت کی جانب سے اقلیتوں کے لیے ملازمت کے پانچ فی صد کوٹا پر عمل درآمد، آئین میں تفویض اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی پر ایکشن لینا۔
شعیب سڈل کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل غلام قاسم خان کے مطابق کمیشن نے 2019کے آخر میں کام شروع کیا تھا۔ ملک میں کرونا وبا کے درمیان کام متاثر ہوا، تاہم کمیشن کے 2022کے اختتام تک حکومت سپریم کورٹ کی ہدایات پر ستر فی صد عمل کروالیا ہے، جس کے متعلق بارہویں تفصیلی رپورٹ سپریم رپورٹ کو پیش کردی گئی ہے۔
ڈائریکٹر جنرل، غلام قاسم خان کے مطابق ، کمیشن نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ خصوصی بھرتی مہم کے ذریعے اقلیتوں کے لیے دست یاب اسامیوں کو پُر کریں۔
دہرے ووٹ کی بجائے موجودہ سسٹم بہتر بنایا جائے، پیٹر جیکب
سینٹر فار سوشل جسٹس کے راہ نما پیٹر جیکب کہتے ہیں کہ مذہبی اقلیتوں کے لیے دہرا ووٹ نہ تو انٹرنیشنل بیسٹ پریکٹس کے مطابق ہے اور نہ ہی پاکستان کے معروضی حالات میں اس کی منطق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک دہائی تک جداگانہ انتخابات کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی تھی۔ ضیاء دور میں سختیاں بھگتی تھیں، عابد حسن منٹو، نعیم شاکر جیسے وکلاء نے اقلیتوں کے ساتھ مل کر طویل قانونی جنگ لڑی اور یہ انتخابی نظام ختم کروایا تھا۔ اب اگر دہرا ووٹ رائج کیا گیا تو معاملہ دوبارہ جداگانہ انتخابات کی طرح ہو جائے گا۔ مذہب کی بنیاد پر تقسیم سے عدم برداشت بڑھے گی۔ اقلیتوں ووٹر اور امیدوار دونوں قومی دھارے سے الگ ہو جائیں گے۔
پیٹر جیکب نے کہا کہ پچھلے بیس سالوں میں، موجودہ جوائنٹ الیکٹوریٹ سے مذہبی تفریق کم ہوئی ہے۔ حلقے کی سطح پر ووٹر امیدوار میل جول بہتر ہوا ہے پارٹیوں کو اقلیتی ووٹرز کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان سے رابطے کرتی ہیں، انھیں نمائندگی دیتی ہیں، شہباز بھٹی مرحوم اور دیگر کی مثالیں موجود ہیں، جنہوں نے اقلیتی نمائندہ ہوتے ہوئے پارٹی کے پلیٹ فارم سے اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کیا۔ 2002ء کے بعد سے اقلیتوں کے حقوق کے لیے خاطر خواہ قانون سازی ہوئی ہے۔2018 ء میں سندھ سے جنرل نشستوں پر ایک ایم پی اے اور ایک ایم این اے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں۔ ہمیں اسی طرح کی جمہوریت کی ضرورت ہے جس میں کوئی مذہبی امتیاز نہ ہو اور یہ قائد اعظم کے قوم سے اپنے پہلے خطاب کے عین مطابق ہے۔
پیٹر جیکب نے کہا دہرے ووٹ کے لیے حلقہ بندیوں میں بھی مسائل ہو سکتے ہیں، مثلاً سندھ میں ہندوؤں کی آبادی ان کا حلقہ انتخاب بنانے کے لیے کافی ہے لیکن باقی جگہ ان کی آبادی بہت کم ہے۔ اسی طرح پنجاب میں کرسچن کا حلقہ انتخاب بن جائے گا اور کسی جگہ نہیں بن سکتا،بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی نمائندگی نہیں ہوگی۔ اس طرح جو چھوٹی منارٹیز سیکڑوں یا ہزاروں کی تعداد میں ہیں، اس بنیاد پر تو حلقہ نہیں بنتا۔ ان کی نمائندگی کیسے ہوگی۔
پیٹر جیکب نے کہا کہ ہمارے ہاں جس طرح عدم برداشت بڑھ رہی ہے، حلقے کی سطح پر اگر تقسیم ہوگئی اور ابھی جو آبادی مکس ہے، کسی حلق پر یہ ٹھپا لگ جائے کہ یہ کرسچن آبادی ہے اور یہ ہندو تو ان کی بقا کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ پیٹر جیکب کی رائے میں دہرے ووٹ کے بجائے ریزروسیٹوں پر اقلیتی نمائندوں کو منتخب کرنے کے طریقہ کار میں بہتری لائی جائے، پارٹیوں کی جانب سے ، محض خانہ پری نہیں ہونی چاہیے بلکہ ایسے نمائندوں کا انتخاب کیا جائے جو قانون سازی میں موثر حصے لہ سکیں۔
ریزرو سیٹ پر منارٹیز، ویمن اور ڈس ایبلڈ کے لیے الیکشن ایکٹ میں یہ ریفارم کریں کہ الیکشن سے پہلے پارٹیوں کے اندر الیکشن ہوں، ریزروسیٹوں پر پہلے خود نمائندے منتخب کر کے پھر اپنی لسٹ الیکشن کمیشن کو بھیجیں۔ اس طرح ان نمائندوں کی اپنی حیثیت بھی بہتر ہو جائے گی اور انٹرنل ہوم ورک بھی ہو جائے گا۔ انھیں پتا ہو گا کہ ہمیں کام کیا کرنا ہے۔ منارٹیز کے تحفظ، متنازعہ قوانین سمیت بڑے مسائل پر خود قومی سیاسی پارٹیاں آواز اٹھائیں۔ اس سے حل کی راہ نکلے گی اور معاشرے میں مذہبی رواداری بڑھے گی۔
The post حقیقی نمائندگی کے منتظر، پاکستان کے غیرمسلم ووٹرز appeared first on ایکسپریس اردو.