غزل
ہم نے مانا ہی نہیں حکم زیادہ دل کا
ورنہ تھا دوستا کچھ اور ارادہ دل کا
کس طرح چرب زبانوں پہ حکومت کرتا
ایک تہذیب کا مارا ہوا، سادہ دل کا
ایک ہوتے ہوئے دوجے کی طلب چہ معنی
اتنا ہوتا نہیں دستور کشادہ دل کا
حسبِ مقدور چلائے یہاں سب نے آرے
اب سمیٹیں بھی تو کس طرح برادہ دل کا
ہم چلے جب بھی تکبر کا کوئی بت ڈھانے
ہو گیا سامنے احساس ستادہ دل کا
عشق کرنے کی سزا بس دلِ وحشی ہی کو کیوں
آدھا اس میں تھا قصور آنکھ کا آدھا دل کا!
(عبدالرحمان واصف۔کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
غبار میری طبیعت کا ماں سمجھتی تھی
یہ کائنات مرا دکھ کہاں سمجھتی تھی
زمین رقص میں ہوتی تھی ساتھ ساتھ مرے
وہ میرے زمزمے میری زباں سمجھتی تھی
جو چڑیا قید تھی کون و مکاں کے پنجرے میں
وہ کائنات کو وہم و گماں سمجھتی تھی
کسی کا عیب نہ دیکھا نہ کچھ سناء دیا
میں اپنے دل کو برابر کنواں سمجھتی تھی
تری طلب نے مجھے فکر بخشی، ورنہ میں
زمیں کو دھول فلک کو دھواں سمجھتی تھی
مری سمجھ میں تو بنتا تھا یہ مکینوں سے
میں اینٹ گارے کو تھوڑی مکاں سمجھتی تھی
تمہارے پاس بھی کب تھا علاج ِ کثرت ِ غم
میں تھی وہ تنگ نظر جو یہاں سمجھتی تھی
وہ میرے واسطے حل تھا ہر ایک مسئلے کا
میں اپنے بابا کو کڑیل جواں سمجھتی تھی
(حنا عنبرین۔ لیہ)
۔۔۔
غزل
جو بات کی ہے وہ لگی لپٹی ہوئی نہیں
امید کوئی آپ سے رکھّی ہوئی نہیں
بے خوف ہو کے اپنا سفر کر رہا ہوں میں
جوتی کسی کی پاؤں میں پہنی ہوئی نہیں
کھڑکی سے سبز رنگ کا پردہ بھی ہٹ گیا
تازہ ہوا نے سانس بھی روکی ہوئی نہیں
کچھ اس لیے اداس نظر آ رہا ہوں میں
تصویر تیرے ہاتھ کی کھینچی ہوئی نہیں
محبوب جس کی روز کہانی سناتے ہو
وہ فلم یاد ہے مجھے بھولی ہوئی نہیں
(خالد محبوب ۔بہاول پور)
۔۔۔
غزل
تُو کون ہے جو اُس کی کمی پوری کرے گا
وہ آئے گا تو اپنی کمی پوری کرے گا
اک آدھ اگر ہوتا تو ہم مان بھی لیتے
اے شخص تُو کس کس کی کمی پوری کرے گا
بیٹھے گا تری راہ میں گلدستہ اٹھائے
یہ پیڑ یہاں میری کمی پوری کرے گا
تجھ سا ہے مِری جان مگر تُو تو نہیں ہے
یہ پھول تِری کتنی کمی پوری کرے گا
کچھ وصل ابھی اور بھی درکار ہیں فرہادؔ
اِس بار تو وہ پچھلی کمی پوری کرے گا
(احمد فرہاد۔باغ، کشمیر)
۔۔۔
غزل
راہِ زندگی میں ہوں حسنِ زرنگار بھی
زینتِ خیال بھی حرمت ِ وقار بھی
چاشنی حیات کی میری خاک میں گندھی
اک ادا میں موجزن رنگ ِ صد ہزار بھی
عزم ِ دل سے اندروں ہے چٹان کی مثال
یہ ہی میرے چار سو آہنی حصار بھی
راہ ِ شوق سے ملے رنگ کیا سے کیا مجھے
موسم ِ بہار بھی، دشتِ انتظار بھی
عنبرین خان اسے اس سے بھی ملا دیا
جس کے فیض سے ہوئی خود پر آشکار بھی
(عنبرین خان۔لاہور)
۔۔۔
غزل
اس واسطے پوچھا ہے کہ کب تک نہیں رہنا
میں ذہن بنا لوں مجھے جب تک نہیں رہنا
سورج نکل آنا ہے ہر اک شاخ طلب پر
اور دل میں مرے شکوہء شب تک نہیں رہنا
اک دن تجھے احساس یہ ہونا ہے کہ ہم ہیں
ہم نے مگر اس روزِ عجب تک نہیں رہنا
اک روز یہ حالات بدل جائیں گے میرے
پر اس نے مرے ساتھ تو تب تک نہیں رہنا
تم نے بھی مرا نقش مٹا دینا ہے دل سے
اور میرے پلٹنے کا سبب تک نہیں رہنا
اس نے اسی انداز میں کہنا ہے کہ کیا ہے
پھر یاد مجھے بات کا ڈھب تک نہیں رہنا
(احمد اویس۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
کس گلی میں اُتر گیا ہوں میں
ایک لڑکی سے ڈر گیا ہوں میں
اب تو محفل میں بیٹھ سکتا ہوں
اب تو یارو سُدھر گیا ہوں میں
دوسرا دن ہے ہجر میں میرا
دو دنوں میں بِکھر گیا ہوں میں
روز کوئی شکایت آتی ہے
جانے کس کس کے گھر گیا ہوں میں
کل سے کوئی خبر نہیں میری
کیا خبر کل کِدھر گیا ہوں میں
(توحیدزیب ۔رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
کر کشید آنکھوں سے مستی بھرا ساگر سارا
اے مرے یار پلا دے مجھے ساغر سارا
حسنِ معشوق ہے محتاج چشمِ عاشق کا
اک نظر سے ہی تو منسوب ہے منظر سارا
چین سب چھین لیا رکھتا ہے بے کل ہر دم
پھونک ڈالیں گے کسی دن دل مضطر سارا
پی لیا جام محبت سو فنا خود کو کیا
مجھ میں یوں جذب ہوا یار کا پیکر سارا
زلفِ خم دار حسیں لب وہ شربتی آنکھیں
اک نہتے سے لڑا حسن کا لشکر سارا
تم نے جو دل کا کیا حشر یہیں نمٹا لو
کیوں اٹھا رکھیں یہ جھگڑا سر محشرسارا
اس کی جادو بھری آنکھوں کا سحر یوں تھا معانؔ
لوٹ اک پل میں لیا دل مرا یکسر سارا
(عامرمعان۔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
بے رخی کی نہ دے سزائیں مجھے
اپنی زلفوں کی دے گھٹائیں مجھے
فاصلے بھی سمٹنے والے نہیں
دن بھی ساون کے کاٹ کھائیں مجھے
برکھا رت میں یہ دوری ٹھیک نہیں
دور رہ کر نہ یوں جلائیں مجھے
رہتے ہو دور دور میرے حضور
کیسا یہ پیار ہے بتائیں مجھے
دوڑا آؤںمیں سر کے بل بخدا
آپ بھولے سے جو، بلائیں مجھے
بے بسی میری التجائیں کر ے
آ خدارا گلے لگائیں مجھے
ٹوٹ جائے نہ صبر میرا کہیں
لوٹ آئیں نہ آزمائیں مجھے
( علی راحل۔بورے والا)
۔۔۔
غزل
اسیرِ حلقۂ گیسوئے یار میں ہی ہوں
اے ذوقِ عشق رواں سوئے دار میں ہی ہوں
اگر چہ دھوپ میں جلنا مرا مقدّر ہے
یہ کم نہیں شجرِ سایہ دار میں ہی ہوں
غبارِ راہ ہیں جس کے یہ مہر و ماہ و نجوم
بساطِ عجز کا وہ شہسوار میں ہی ہوں
مِرے بغیر، تم اک خارِ دشتِ وحشت ہو
رکھا ہے جس نے تمہیں لالہ زار، میں ہی ہوں
میں صرف نام کا ساگر نہیں ہوں اے ساگر ؔ
جو وسعتوں میں بھی ہے بے کنار، میں ہی ہوں
(نظیر ساگر۔ کوہستان، سوات)
…
غزل
اچھا کہا تھا یا کہ برا چھوڑنا پڑا
اس نے کہا تو اپنا کہا چھوڑنا پڑا
احساسِ جرم تھا تو کیا پہلا عشق ترک
پھر دوسرا ہوا توخدا چھوڑنا پڑا
سمجھانے پڑ گئے تھے معانی یقین کے
دریا کے بیچ ایک دِیا چھوڑنا پڑا
پوچھا نہیں کسی نے وگرنہ بتاتا میں
وہ بات جس پہ شہر ترا چھوڑنا پڑا
وہ آئے گا پلٹ کے تو خوش ہو گا دیکھ کر
سو مجھ کو ایک زخم کھلا چھوڑنا پڑا
شعبان لوگ پوچھ رہے ہیں انھیں بتا!
ایسا بھی کیا ہوا کہ خدا چھوڑنا پڑا
(شعبان خالد۔پونچھ، کشمیر)
…
غزل
مسیحا اپنی کوشش کر چکے ہیں
مگر جس کو دوا سے مسئلے ہیں
تمہارا جھوٹ دنیا گھوم آیا
مرے سچ کے ابھی تسمے کھلے ہیں
میں بس اس دکھ میں آدھی رہ گئی ہوں
جو اچھے دن تھے پورے ہو چکے ہیں
ترے کاندھے سے لگ کر کون رویا
یہ کس کے بال اس پر رہ گئے ہیں
صحیح لوگوں کو چننے کا صلہ ہے
غلط نمبر سے میسج آ رہے ہیں
بچھڑ جاتے تو کس کو منہ دکھاتے؟
سو پھر سے منہ اٹھا کر آ گئے ہیں
زبانیں چل رہی تھیں جیسے آرے
قدم دونوں کے اٹھ اٹھ کر رکے ہیں
(عین نقوی ۔سرگودھا)
…
’’شام‘‘
شام کو کیسی چپ سی لگی ہے
سارے پنچھی لوٹ چکے ہیں
پیڑوں پر بھی چپ کا پہرہ
سوچوں کا بس
رنگ ہے گہرا
کچھ سوچیں ہیںخوشبو جیسی
کچھ سوچیں ہیںپھولوں جیسی
کچھ سوچیں پھر
دل کی جلن ہیں
کچھ سوچیں بس
ایک چبھن ہیں
کچھ سوچیں ہیںقیمتی سی بس
کچھ سوچیں ہیںجھیل سی گہری
ان سے دور
جو جانا چاہیں
شام کی چپ میں آجاتی ہیں
شام کی چپ کے سناٹے میں
ساتھ ہمارے یہ رہتی ہیں
میرے دل کی یہ سنتی ہیں
اپنے دل کی یہ کہتی ہیں
سارے پنچھی لوٹ چکے ہیں
پیڑوں پر بھی چپ کا پہرہ
شام کو کیسی
چپ سی لگی ہے
(تسنیم مرزا۔ کراچی)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.