ہماری طاہر نجمی صاحب سے راہ ورسم کب ہوئی؟ یہ تو یادداشت میں واضح نہیں۔۔۔ لیکن ہمیں اتنا ضرور یاد ہے کہ ’ایکسپریس‘ کا باقاعدہ حصہ بننے سے پہلے ہی کی بات ہے۔
ان سے باقاعدہ طور پر گفتگو کا شرف نوکری کی تلاش ہی کے واسطے بنا۔ ’ایم اے‘ کے دوسرے سال میں ہم ایک روزنامے میں ’انٹرن شپ‘ کر رہے تھے، جس کے لیے کوئی محنتانہ ادا نہیں ہوتا تھا، الٹا آمدورفت کے اخراجات اور شام سے رات تک ’خالی جان‘۔۔۔ ایسی ہی ایک شام ڈھلنے کے بعد دل کی تیز دھڑکنوں کے ساتھ بہت جی کڑا کر کے طاہر نجمی صاحب کا نمبر ملایا تھا۔۔۔ ظاہر ہے وہ ملک کے ایک بڑے اخبار کے مدیر تھے۔
ان کے مقابل ’صحافت‘ میں آنے کے راستے ٹٹولنے والے ’بچے‘ کا اضطراب عین فطری تھا۔ ہم نے اپنا تعارف کرا کے گزارش کی کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ’فلاں ڈیسک‘ پر کوئی جگہ خالی ہوئی ہے، تو ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں یہ موقع عنایت کیجیے۔ تو انھوں نے اپنے روایتی دھیمے انداز میں اس اطلاع کی تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’آپ کو غلط اطلاع ملی ہے، یہاں ابھی کوئی ایسی جگہ خالی نہیں ہے۔‘
ہمارا ’ایکسپریس‘ کے لیے باقاعدہ لکھنے کا سلسلہ تو جاری ہی تھا، خوش نصیبی سے یہیں سے ’ایکسپریس‘ کے شعبۂ میگزین کے روح و رواں قبلہ احفاظ الرحمن نے ہماری کسی خوبی کو محسوس کیا اور پھر ہمیں ’تراشنے‘ کا فیصلہ کیا اور یوں ہم 2012 ء میں ’روزنامہ ایکسپریس‘ کی ایک پروقار اور بھرپور ٹیم کا حصہ بن گئے۔
نہ صرف احفاظ الرحمن ہمارے میگزین مدیر، اور عثمان جامعی میگزین کی توانا ٹیم کے انچارج، بلکہ طاہر نجمی ہمارے اخبار کے مدیر۔ یوں باقاعدہ طاہر نجمی صاحب سے گاہے گاہے ملاقاتوں اور تعارف کا سلسلہ بھی پروان چڑھنے لگا۔
اگرچہ طاہر نجمی شام کو تشریف لاتے اور وہ لگ بھگ ہم شعبۂ میگزین والوں کے جانے کا بعد کا یا قریب قریب جانے کا وقت ہوتا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ ہم جا رہے ہوتے اور وہ دفتر آ رہے ہوتے، تو دفتر کی سیڑھیوں یا راہ داری پر علیک سلیک ہو جاتی۔۔۔ وہ پہلے ہمارے دفتر کی نچلی منزل کے ایک شیشے کے کمرے میں براجمان ہوتے۔
شروعات میں باقاعدہ ملاقات کے وقت ہمارے اضطراب اور بے چینی کی کیفیت برقرار رہی، لیکن دھیرے دھیرے ہم پر آشکار ہوا کہ طاہر نجمی عہدے کی رعونت اور مرتبے کے غرور جیسی کسی بھی چیز سے بہت پرے ہیں۔۔۔ کبھی کسی فارم پر دستخط کرانے ہوں۔
کوئی سرٹیفکیٹ بنوانا ہو، الغرض کہیں بھی اگر اپنے اخبار کے مدیر کے دستخط کی ضرورت پڑتی، تو وہ بلاتامل خود کو پیش کر دیتے تھے، یہ ضرور تھا کہ کبھی رسمی اور کبھی واقعی جان کاری حاصل کرنے کو، بہت نپی تلی سی کوئی ایک آدھ بات ضرور کر لیتے تھے۔ یوں یہ دستخط کا مرحلہ بہ آسانی طے ہو جاتا تھا۔
ہم دراصل سکہ بند اور بے باک صحافی احفاظ الرحمٰن صاحب کی زیر نگرانی تھے، جو طاہر نجمی صاحب کے بھی بزرگوں میں تھے، لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں جناب احفاظ الرحمٰن صاحب کی سختی اور تربیت کرنے کی درشتی سے کچھ دیر کو راحت پانی ہوتی تو ہم بلاجھجھک طاہر نجمی صاحب کا سہارا لیتے۔ مثلاً وہی، جو دستخط کرانے ہیں، تو ہم نے سوچا احفاظ صاحب کا سامنا کرنے کی تو ہمت نہیں، وہ تو ہماری کلاس لے لیں گے۔
بہتر ہے کہ طاہر نجمی کی مدد لی جائے، سو یہ مرحلے کتنی ہی بار طے ہوئے۔ یوں سمجھیے جیسے قلعی گر کسی برتن کو قلعی لگانے کے واسطے جب اپنی بھٹی میں خوب تپاتا ہے، تو پھر اس کے فوراً بعد اسے پانی کے اندر بھی چھپاکا بھی دیتا ہے، تو یہاں گویا احفاظ الرحمٰن ہمیں چمکانے کو گرم بھٹی میں پکاتے، اور طاہر نجمی جیسا کہ ٹھنڈا پانی، جس میں ہمیں کبھی کسی برہمی یا ڈانٹ پڑ جانے کا کوئی احتمال نہیں ہوتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پھر ہمارا ’شعبۂ میگزین‘ کا کمرا بھی ’ایکسپریس‘ کی مرکزی ’نیوز ڈیسک‘ سے متصل ہوگیا، جہاں طاہر نجمی کا کمرا بھی تھا، تب اکثر یہ ہوتا کہ وہ شام کو ہماری طرف کی روشنیاں جلی دیکھ کر ٹہلتے ہوئے اِدھر چلے آتے، اور بغیر کسی باقاعدہ وجہ کے، خیر خیریت اور حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے، دفتری حالات، تنخواہوں اور کاموں کی اونچ نیچ کا کوئی موضوع در آتا یا پھر یونہی اِدھر اُدھر کی باتوں پر تبادلۂ خیال۔ ہم زیادہ تر بطور سامع عثمان جامعی اور دیگر سینئر ارکان کے ساتھ طاہر نجمی کی گفتگو سنتے تھے۔
کبھی کبھی ماحول کی بے تکلفی دیکھ کر گفتگو میں شریک بھی ہو جاتے۔۔۔ اب ہمیں یہ اچھی طرح معلوم ہوگیا تھا کہ طاہر نجمی دیگر بہت سے اخبارات کے مدیران کے برعکس نہایت عاجزانہ اور انکسارانہ مزاج رکھتے ہیں، یہی سبب تھا کہ اب ان کے پاس جاتے ہوئے اب ہمارے دل کی دھڑکنیں تیز نہیں ہوتی تھیں، اور ہم جیسا ایک ادنیٰ سا ’سب ایڈیٹر‘ بھی ان کے روبرو بہت پُراعتماد ہو کر بات کر لیتا تھا۔ یہ دراصل ان کا بڑا پن تھا۔ چند ماہ پیش تر ایک ہندوستانی شاعر شمسی مینائی کا ایک کلام؎
سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا
وعدہ لپیٹ لو، جو لنگوٹی نہیں تو کیا
یہ انھیں بڑا پسند آیا، ہم سے مکمل کلام نکلوایا اور اسے اگلے دن اہتمام سے ’ایکسپریس‘ میں شایع بھی کیا۔
کبھی یوں بھی ہوتا کہ یار لوگ ہمارے اخبار سے وابستگی کا جان کر اپنے کسی مسئلے سے متعلق خبر لگوانے کو ہمیں کہتے، بہت سے احباب سلام دعا ہو جانے کے باعث اپنے اداروں کی پریس ریلیز یا تقریبوں کے احوال اور پروگرام کے انعقاد کی خبریں شایع کرانے کے لیے دیتے۔۔۔ لیکن انھیں نہیں پتا ہوتا تھا کہ ہمارا تعلق دراصل اخبار کے ’میگزین‘ سے ہے اور ہمارا نہ صرف ’خبری ڈیسک‘ سے براہ راست کوئی واسطہ نہیں، بلکہ ہمارے تو اوقات کار بھی ’نیوز ڈیسک‘ والوں سے یک سر الٹ ہیں۔
اس لیے ہم بہت سارے لوگوں سے متعارف بھی نہیں ہو پاتے، ایسے میں کیوں کر یہ خبریں شایع ہونے کے لیے دیں۔ چناں چہ اپنے ہی اخبار میں خبر نہ لگوا سکنے پر ہمیں بڑی شرمندگی بھی ہوتی اور ہمیں سننا پڑتا کہ ’کیسے اخبار میں ہو، جہاں ایک خبر تک تو لگوا سکتے نہیں۔۔۔!‘ مگر طاہر نجمی صاحب کے ذریعے ہمارا حوصلہ بڑھا کہ انھیں بلا جھجھک خبریں دے دیتے اور اگلے دن وہ خبر اشاعت پذیر ہو جاتی اور ہم احباب کے سامنے شرم سار ہونے سے بچ جاتے۔
ہمیں طاہر نجمی کی سب سے بڑی خوبی جو محسوس ہوتی ہے وہ ان کا ہم جیسے نوآموز صحافیوں کا حوصلہ بڑھانا تھا، جس کی وجہ سے ہم کبھی کبھی کسی سیاسی یا سماجی موضوع پر خود بھی اپنی کوئی خبر نذر کر دیا کرتے تھے، یہ انھی کا ظرف تھا کہ وہ اس خبر کو ہاتھوں ہاتھ لیتے اور اس طرح ہماری حوصلہ افزائی ہو جاتی۔
اسی سے ہمت پا کر پھر ہم نے ’میگزین‘ کے لیے کیے جانے والے مختلف شخصیات کے انٹرویو کی اشاعت سے قبل اس کی ایک ’خبر‘ بنا کر بھی انھیں پیش کرنا شروع کر دیں۔ اس کی تو طاہر نجمی نے باقاعدہ خواہش ظاہر کی اور پھر سراہا بھی۔ یوں کبھی صفحہ نمبر دو اور پچھلے صفحے کے ساتھ ساتھ اخبار کے صفحۂ اول کے بالائی حصے تک پر ہمارے نام کے ساتھ خبریں نمایاں طور پر شایع ہوتی رہیں۔
2021ء میں کراچی کے پانی کے مسئلے پر ’ایکسپریس‘ کے سنڈے میگزین کے لیے تفصلی فیچر کی ایک خبر اخذ کی، تو اس حوالے سے خبری صفحات پر اس کی اشاعت کے لیے شاید کچھ لوگوں کی مرضی نہ تھی، لیکن یہ طاہر نجمی تھے، کہ انھوں نے ہمارے باقاعدہ رپورٹر نہ ہونے کے باوجود وہ خبر مِن وعن شایع کی۔۔۔!
اسی طرح 2020ء میں جب ’کیماڑی‘ کو کراچی کا ساتواں ضلع بنایا گیا، تو ہم نے ایک مضمون لکھا اور اس نیت سے طاہر نجمی صاحب کو بھیج دیا کہ وہ اگر ضروری محسوس کریں گے، تو صفحہ نمبر دو یا تین پر لگالیں گے کہ جیسا کہ کبھی کبھی ان صفحات پر ایسے مضامین آہی جاتے ہیں، لیکن اگلے دن ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ہماری یہ تحریر ’ایکسپریس‘ کے اداریے کے صفحے پر جگمگا رہی تھی۔
ورنہ اس سے پہلے ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کبھی اداریے والے صفحے پر بھی ہماری کوئی تحریر شایع ہو سکتی ہے، جب بھی حالات حاضرہ پر ’کالم‘ کی طرح کا کوئی مضمون لکھا، تو وہ کالموں کے دوسرے صفحے ہی پر جگہ پاتا تھا، دائیں جانب کا صفحہ بڑے ناموں کے لیے مخصوص تھا، لیکن یہ طاہر نجمی صاحب کی ہم جیسے طالب علموں کی حوصلہ افزائی کا ایک انداز تھا کہ انھوں نے ہمارے اس ’کالم‘ کو اخبار کے ایک نمایاں مقام پر شایع کروایا۔
1955ء میں ملتان میں آنکھ کھولنے والے طاہر نجمی نے صحافت کی شروعات روزنامہ ’امن‘ (کراچی) سے کی، اور لگ بھگ اپنی صحافت کا نصف حصہ ’ایکسپریس‘ کی نذر کیا۔ منہاج برنا اور احفاظ الرحمٰن کی قیادت میں صحافیوں کی جدوجہد میں بھی وہ شامل رہے۔ ’کراچی پریس کلب‘ اور ’کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) کے معتمد بھی رہے۔
10 مارچ 2023ء کو ایک مہینے کی علالت کے بعد اس دنیا سے چلے گئے۔۔۔! اس دنیا میں رکنا تو کسی کو بھی نہیں ہے، لیکن طاہر نجمی صاحب کے سانحۂ ارتحال پر ذاتی طور پر بھی ایک احساس زیاں ہے، جیسا کے 10 برس ایک ہی ادارے میں رہنے کے باوجود اِن سے بہت کچھ استفادے سے رہ گیا ہو۔۔۔ مرحوم احفاظ الرحمٰن کے حوالے سے بھی ہمارے ایک تفصیلی نشست کی خواہش حسرت ہی بن کر رہ گئی، ایسی ہی کچھ تشنگی طاہر نجمی کے معاملے میں بھی ہے۔
ہم نے اپنے موبائل میں جب پیغام رسانی کا گوشہ (واٹس ایپ) ٹٹولا تو اندازہ ہوا کہ ہماری طرف سے ہر کچھ دن بعد ہی کسی نہ کسی حوالے سے کوئی نہ کوئی ’خبر‘ ضرور بھیجی جا رہی تھی، اور انھوں نے کہیں بھی بیزاری کا شائبہ تک نہیں دیا تھا۔ ’سب رنگ‘ ڈائجسٹ کے بانی اور ممتاز ادیب شکیل عادل زادہ نے بھی کبھی ’ایکسپریس‘ میں کسی املے کی کوئی غلطی ہمیں بتائی، تو ہم نے نہایت ادب کے ساتھ وہ طاہر نجمی کے گوش گزار کی، تو انھوں نے جواباً شکیل بھائی سے اظہار تشکر کیا۔
یہی نہیں طاہر نجمی کی نمازِ جنازہ کے موقع پر ’ایکسپریس نیوز‘ کے سینئر رپورٹر آفتاب خان بھی یہی کہہ رہے تھے کہ وہ املے کی تصحیح کے حوالے سے خاص اہتمام رکھتے، جب ہم کہتے کہ یہ لفظ تو فلاں نے ہی ایسے لکھ کر بھیجا تھا، تو وہ کہتے، انھوں نے تو بھیج دیا، لیکن آپ کو بھی تو دیکھنا چاہیے تھا۔
روزنامہ ’ایکسپریس‘ کراچی کے اردو اخبارات کے حوالے سے ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ اخبار ہے کہ جس نے 1998ء کراچی میں پہلی بار ’جنگ‘ کی اجارہ داری کو کام یابی سے ہدف بنایا، ورنہ اس سے قبل پاکستان کی 50 سالہ تاریخ میں کوئی بھی کراچی میں اخبار ’جنگ‘ کی اس حاکمیت کے آگے نہیں آسکا تھا۔
اور اس میں ’ایکسپریس‘ کے بانی نیوز ایڈیٹر کے طور پر طاہر نجمی کا کردار کلیدی تھا۔ بقول مبشر علی زیدی کے کہ ایکسپریس کے بانی مدیر نیر علوی پرانے وقتوں کے مرنجان مرنج آدمی تھے، اور ’نوائے وقت‘ کا پس منظر رکھتے تھے۔ ’ایکسپریس‘ کی کام یاب ٹیم بنانے میں بھی بطور نیوز ایڈیٹر طاہر نجمی نے اہم کردار ادا کیا۔
روزنامہ ’ایکسپریس‘ کراچی کے سنیئر نیوز ایڈیٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ طاہر نجمی میں خبر سونگھنے کی صلاحیت بلا کی تھی، وہ ایک لمحے میں سارے متن میں سے ’خبر‘ نشان زد کر دیتے تھے۔ ممتاز صحافی ناصر بیگ چغتائی کے بقول ’طاہر نجمی یادداشتیں لکھنے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔‘
اگر وہ یہ لکھتے تو یقینی طور پر یہ ہماری صحافتی تاریخی کی ایک اہم دستاویز ہوتی، افسوس انھیں اجل نے اس کام کی مہلت نہ دی اور وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔ اس بے بسی کے لمحے کے لیے اب ہم صرف اپنے وضع دار اور شفیق مدیر کے لیے دعاؤں کا نذرانہ ہی پیش کر سکتے ہیں؎
آسماں تری لحد پر شبنم افشانی کرے!
The post طاہر نجمی رخصت ہوئے۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.