صبح ناشتے کے بعد مونا نے انگریزی کا اخبار اٹھایا اور سرسری نظر ڈالنے کے بعد اپنے پسندیدہ سلسلے ’تہنیتی پیغامات‘ کے لیے صفحات پلٹنے لگی۔
اندرونی صفحات پر شایع ہونے والے تہنیتی پیغامات وہ بہت شوق سے پڑھتی تھی۔ معیز اور انا کا نام پڑھ کر وہ چونک گئی۔ خوب صورت محبت بھرے الفاظ میں معیز بھائی نے انا کو سال گرہ کی مبارک باد پیش کی تھی۔ معیز بھائی مونا کے کزن تھے۔ انا اور معیز بھائی کی محبت کی شادی تھی۔
ان کی خوب صورت جوڑی کو سبھی کزن رشک بھری نگاہوں سے دیکھا کرتی تھیں۔ اور اس چند لفظوں پر مشتمل مختصر سے سال گرہ کی مبارک باد کے پیغام سے ان کی محبت جھلک رہی تھی۔ اس محبت بھری مبارک باد نے مونا کو خو دساختہ تقابل پر مبنی سوچ میں مبتلا کر دیا تھا۔ وہ اپنے اور اپنے شوہر عالیان کے رشتے کو اسی تناظر میں پرکھنے لگی۔ دل ہی دل میں محبتوں کا موازنہ کرنے لگی۔
محبت تو یہ ہوتی ہے۔ عالیان نے تو آج تک کبھی میرے لیے اخبار میں ایک مبارک باد کا پیغام تک نہیں دیا۔ انا بھابھی کتنی خوش ہوں گی۔ فخر محسوس کر رہی ہوں گی۔ معیز بھائی نے ناشتے پر بھی کتنا اہتمام کیا ہوگا۔ جب معیز بھائی نے اخبار میں مبارک باد دی ہے، تو سال گرہ کی تقریب کتنی شان دار کی ہوگی اور تحفے بھی اتنے ہی قیمتی دیے ہوں گے۔
مونا اپنے ذہن و دل میں سوچ کے تانے بانے بنتی رہی۔ ڈراموں اور فلموں میں دکھائے گئے سال گرہ کے قیمتی تحائف کے مناظر اس کی نظروں میں گھوم گئے۔ ہیرو ہیروئن کو کس طرح پیار بھرے انداز میں تحفے دیتا ہے، سرپرائز دیتا ہے۔ چشم تصور میں ہر منظر میں اس کو انا بھابھی اور معیز بھائی ہی نظر آنے لگے۔
عالیان کو تو میں اچھی ہی نہیں لگتی۔ بس سال گرہ پر ایک کیک اور ایک پرفیوم گفٹ کردیا۔ مونا دل ہی دل میں اپنی ناقدری پر جلتی کڑھتی رہی۔ ان کو تو مجھ سے محبت ہی نہیں۔
یہ سوچ اس کے ذہن و دل میں کچوکے لگاتی رہی۔ کبھی آنکھوں کے گوشے نم ہونے لگے اور کبھی شدید غصہ آنے لگا۔ جیسے تیسے کھانا پکایا۔ عالیان کے آنے پر اس کا اکھڑا اکھڑا رویہ عالیان نے بھی محسوس کیا۔ وجہ پوچھی تو مونا نے کہا
’’کچھ نہیں ایسے ہی !‘‘
عالیان نے اس کو طبیعت کی خرابی پر محمول کیا اور ڈاکٹر کے پاس لے جانے کیلیے کہا تو مونا نے منع کردیا۔ مونا منہ پھلائے، روکھے لہجے میں شوہر کی بات کا جواب دیتی اور عالیان اس کو منانے کے جتن کرتا رہا، لیکن مونا نہ مانی۔ پھر تو یہ رویہ روز کا معمول بن گیا۔
مونا کسی بھی ڈرامے یا فلم میں ہیرو ہیروئن کے مناظر دیکھتی اور دل ہی دل میں اپنی خود ساختہ ناقدری پر کڑھتی رہتی۔ وہ احساس محرومی و احساس کمتری کا شکار ہونے لگی۔ اس کا دل چاہتا گھر چھوڑ کر چلی جائے۔ کبھی ابا جی پر غصہ آتا کہ کس شخص سے رشتہ کر دیا اس کو تو مجھ سے محبت ہی نہیں ہے۔ اسی طرح چند دن گزرے تھے کہ پتا چلا کہ تائی امی یعنی معیز بھائی کی امی کی طبیعت خراب ہے۔وہ عالیان کے ہمراہ چھٹی کے دن ان سے ملنے گئی۔
شہر کے پوش علاقے میں معیز بھائی نے نیا گھر خریدا تھا ۔ عالیان پتہ سمجھ کر لے گیا۔ ملازمہ نے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ معیز بھائی اور تائی امی بھی آگئے۔ مونا تائی امی کی طبیعت پوچھنے لگی۔ معیز بھائی اور عالیان بھی گپ شپ کرتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد انا بھابھی بھی آگئیں۔ قیمتی لباس اور میک اپ میں وہ جاذب نظر لگ رہی تھیں۔
میں شاید اتنی خوب صورت نہیں۔ عالیان نے کبھی میری خوب صورتی کی تعریف ہی نہیں کی۔ مونا دل ہی دل میں سوچتی رہی۔ آخر مونا نے باتوں کے دوران انا بھابھی سے سال گرہ کے پیغام کا ذکر کیا۔ انا نے حیرانی سے معیز کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
’’کیا آپ نے میری سال گرہ کا کوئی پیغام دیا تھا؟‘‘
معیز بھائی نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے مونا سے پوچھا:
’’اچھا کیا چھپا تھا؟ دراصل اس اخبار میں اشتہار دینے کے لیے ایک ایڈورٹائزنگ کا بندہ کافی زور دے رہا تھا، تو میں نے کہا انا کی سال گرہ آرہی ہے تو سال گرہ کا پیغام بنا کر چھاپ دینا ۔
مونا پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ انا بھابھی نے کہا کہ ’’دراصل اتنی مصروفیت رہتی ہے۔ معیز صبح آفس نکل جاتے ہیں۔ تو اخبار وہ ساتھ لے جاتے ہیں۔
میں سورہی ہوتی ہوں تو اخبار دیکھنے کا تو وقت ہی نہیں ملتا۔ میں نے ڈریس ڈیزائننگ کا بزنس شروع کیا ہے، تو میں پھر اس کے لیے نکل جاتی ہوں۔ خریداری کرنی پھر کاری گروں کو سمجھانا۔ درزی کے چکر ان ہی میں اتنا وقت نکل جاتا ہے۔ ہمیں تو آپس میں بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ معیز بھائی مزید کہنے لگے۔
جس دن انا کی سال گرہ ہوتی ہے۔ اسی دن اس کے والد کی بھی سال گرہ ہوتی ہے۔ لہٰذا ان کے رات کے کھانے کی دعوت میں انا کا بھی کیک کاٹ لیتے ہیں۔ اس طرح سال گرہ ہوجاتی ہے۔
مونا کو یوں لگا جیسے چھناکے سے کچھ ٹوٹ گیا۔ اس نے اتنے دنوں سے اپنے تخیل میں جو خاکہ تراشا تھا، وہ مٹ چکا تھا۔ وہ سوچوں کے بھنور میں موجود بدگمانی، ناراضی۔ احساس ناقدری سب ختم ہو چکا تھا۔ دل سے نفرت۔ بدگمانی اور منفی سوچوں کی دھند چھٹ جائے تو محبت کے حقیقی جذبے سے آشنائی ہوتی ہے۔ مونا کو بھی عالیان کی محبت کا شدت سے احساس ہوا۔ عالیان کا خیال رکھنا۔ منانا، تحائف دینا۔ ہر عمل میں اس کی محبت پوشیدہ تھی۔
وہ جان چکی تھی۔ خیالی ڈرامے، افسانے اور فلموں کے مصنوعی مناظر و ڈائیلاگ محض تفریح طبع کا ذریعہ ہیں۔ اصل محبت تو عمل میں پوشیدہ ہے، جس کے لیے کسی دکھاوے یا نمائش کی ضرورت نہیں۔ مونا کے دل میں عالیان کی محبت و قدر مزید بڑھ گئی۔ کیوں کہ دل کو محبت کے حقیقی رنگ سے آشنائی ہوئی۔
The post محبت کے رنگ کا حقیقی ہونا ضروری ہے appeared first on ایکسپریس اردو.