خان پور: دوسری قسط
2005 کے زلزلے نے اس کو شدید نقصان پہنچایا، لیکن بعد میں اس کی مرمت کردی گئی۔ آج کل یہ قلعہ ” فرنٹیئرکانسٹیبلری” کے پاس ہے جس نے نہایت اہتمام سے اس قلعے کو سنبھال رکھا ہے۔
قلعے کے اندر بھی ایک دنیا آباد ہے۔ یہاں اندر ایک خوب صورت ”آرمی میوزیم” بنایا گیا ہے جہاں مختلف کمروں میں فرنٹیئر کورپس کی مختلف شاخوں کی نمائندگی کی گئی ہے۔
اِن میں خیبر رائفلز، سوات اسکاؤٹس، مہمند رائفلز، چترال اسکاؤٹس، کُرم ملٹری، باجوڑ اسکاؤٹس، شوال رائفلز، دیر اسکاؤٹس، جنوبی وزیرستان و ٹوچی اسکاؤٹس اور خٹک اسکاؤٹس شامل ہیں۔ یہاں ان علاقوں میں مختلف آپریشنز سے بازیاب کیے گئے آلاتِ حرب، نقشے، سپاہیوں کی وردیاں، تصاویر، تلواریں، پستول، جھنڈے، مختلف علاقوں کی ثقافتیں، ٹرک آرٹ، اور چھوٹی توپیں شامل ہیں۔
قلعے میں ایک پھانسی گھاٹ اور خوب صورت چھوٹی سی سووینیئر شاپ بھی ہے جہاں سے آپ پشاور کی مشہور پشاوری چپل اور درہ خیبر کے ماڈل خرید سکتے ہیں۔ یہاں موجود ایک تختی پر مشہور برطانوی ادیب و صحافی ”روڈیارڈ کپلنگ” کے وہ مشہور الفاظ بھی درج ہیں جو انہوں نے اس فورس کے بارے میں کہے تھے ؛
’’You must know that along the North-West frontier of India spread a force who move up and down from one little desolate post to another, they are ready to take the field at ten minutes’ notice, they are always half in and half out of a difficulty somewhere along the monotonous line, their lives are as hard as their muscles and papers never say anything about them‘‘
قلعہ بالاحصار کی فصیل پر کھڑے ہو کہ پشاور شہر کا سب سے بہترین نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
کنِشک اسٹوپا: پشاور شہر کے نواح میں واقع یہ اسٹوپا دوسری صدی ق م میں کشان سلطنت کے حکم راں کنشکا نے بدھ مذہب کی باقیات کو محفوظ رکھنے کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ کھدائی کے بعد بُدھ مت کی متبرک اشیاء کو برما کے شہر ”مانڈلے” منتقل کر دیا گیا۔
بُدھوں کے مطابق گوتم بُدھا نے مرنے سے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اسی جگہ کنشکا اپنے نام سے ایک اونچی عمارت بنائے گا۔ ہن حکم رانوں نے اس اسٹوپے کو بھی نہ بخشا۔ لیکن عقیدت مندوں نے اس کی پتھریلی بنیاد پر لکڑی سے اسے دوبارہ تعمیر کیا اور سب سے اوپر تانبے کی 13 تہوں سے خوب صورت نقش نگاری کی گئی۔
یہ اپنی طرز کا ایک منفرد اسٹوپا تھا جو مینار کی شکل میں بنایا گیا تھا۔ اس جگہ کی کھدائی ڈیوڈ اسپونر کی زیرِنگرانی 1908 میں شروع کی گئی اور اس کی تہہ سے نہایت قیمتی چھے کونوں والا صندوقچہ برآمد ہوا۔ ا
س صندوقچے میں بُدھا کی ہڈیوں کے تین حِصے رکھے تھے جو برما کے شہر مانڈلے بھیج دیے گئے جب کہ صندوقچے کو پشاور میوزیم کی زینت بنا دیا گیا۔
پشاور میں گنج گیٹ کے باہر واقع آج بھی یہ خستہ حال جگہ حکومت اور محکمہ آثارِقدیمہ کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مرقد حضرت رحمان بابا: پشتو کے مشہور شاعر رحمان بابا پشاور کے ہزارخوانی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں جو ایک اندازے کے مطابق چارسدہ قبرستان کے بعد خیبر پختونخواہ کا دوسرا بڑا قبرستان ہے۔ یہ کنشک اسٹوپا کے پاس ہی واقع ہے۔
عبدالرحمان جنہیں عقیدت سے پشتون رحمان بابا کے نام سے یاد کرتے ہیں، پشتونوں میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے صوفی شاعر ہیں۔
رحمان بابا 1650 (کچھ جگہ یہ 1632 بھی درج ہے) کو پشاور کے علاقے بہادر کلے میں پیدا ہوئے تھے اور 1715 میں وفات پاگئے تھے۔ وہ ایک عوامی شاعر سمجھے جاتے ہیں جنہیں پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی شوق سے پڑھا جاتا ہے۔
پہلے رحمان بابا کا یہ مرقد ایک مختصر سے احاطے میں ہوا کرتا تھا لیکن 2009 میں اس جگہ کو دھماکے سے اڑانے کی کوشش کی گئی جس کے باعث یہ ایک طرف کو جھک گیا۔ البتہ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ چھوٹا سا مزار اب ایک وسیع و عریض کمپلیکس میں بدل چکا ہے۔ سنگِ مرمر کا یہ سفید مقبرہ اس قبرستان کی پہچان بن چکا ہے۔
رحمان با با کے مزار پر ہر سال موسم بہار کی آمد کے موقع پر دو روزہ عرس کا انعقاد ہوتا ہے جس میں افغانستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے ان کے ہزاروں عقیدت مند شرکت کرتے ہیں۔ اس موقع پر مشاعرہ بھی ہوتا ہے اور رحمان بابا کی شخصیت اور شاعری پر نام ور ادیب مقالے پیش کرتے ہیں اور ساتھ میں قوالی کا پروگرام بھی ہوتا ہے۔
عجائب گھر پشاور: خیبر پختونخواہ کا سب سے بڑا عجائب گھر پشاور میوزیم، گندھارا کی شان و شوکت اور قدیم تہذیب کا امین ہے۔ پشاور میوزیم 1907 میں ملکہ برطانیہ کی یاد میں ”وکٹوریہ میموریل ہال” میں بنایا گیا تھا جس پر ساٹھ ہزار روپے لاگت آئی تھی۔
اِسے بعد میں ایک خوب صورت دو منزلہ عمارت کی شکل دے دی گئی جو مُغلیہ، بُدھ، ہندو اور برطانوی طرزِتعمیر کا حسین امتزاج قرار پائی۔ شروع میں اس کا ایک مرکزی ہال تھا۔ 1970 اور 2006 میں اس کے رقبے کو وسیع کرکے مختلف بلاکس کا اضافہ کیا گیا۔
پوری دنیا میں مہاتما بدھ کی زندگی کے بارے میں تاریخی نوادارت کا سب سے بڑا ذخیرہ پشاور میوزیم میں ہے فی الوقت پشاور کے عجائب گھر میں اندازاً پندرہ ہزار نوادرات ہیں جن کو چار مرکزی گیلریوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
گندھارا آرٹ گیلری: اس گیلری کو اگر پشاور میوزیم کی جان کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ پوری دنیا میں گندھارا آرٹ کا سب سے بڑا اور اہم ذخیرہ اسی میوزیم میں ہے۔
یہاں موجود نوادرات میں گوتم بُدھ کے مجسمے، مختلف اشکال، مراقبے کی حالت، دربار کے مناظر، اسٹوپے، متبرک صندوقچے، زیورات، سنگھار دان، لکڑی کے بکس اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔
نیچے کی مرکزی گیلری میں بدھا کی پیدائش سے پہلے اور بعد کی کہانیاں، ان کے معجزات، مراقبے کی حالتیں، عبادت کے طریقے موجود ہیں جو مختلف پتھروں پر کُندہ ہیں۔
یہاں گوتم بُدھا کا ایک مجسمہ موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا دریافت شُدہ مجسمہ ہے۔ اسے جنوبی کوریا و سوئٹزرلینڈ کی مختلف نمائشوں میں بھی رکھا جا چکا ہے۔
یہ نوادرات خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں کی کھدائیوں سے دریافت ہوئے جو یہاں لائے گئے ہیں جن میں سیری بہلول، تخت بھائی ، جمال گڑھی، شاہ جی کی ڈھیرئی، آکون، غاز ڈھیرئی، بالا حصار، اتمان زئی ، چارسدہ اور ہری پور شامل ہیں۔
اسلامی گیلری: پشاور میوزیم کی اسلامک گیلری بھی لوازمات کے لحاظ سے انتہائی زرخیز ہے۔ یہاں قدیم عربی و فارسی مخطوطات، لکڑی کے دروازے، ملتانی ٹائلیں اور برتن، سکھوں کے خلاف بالاکوٹ میں شہید ہونے والے سید احمد شہید کے کپڑے اور برتن، دھاتوں پر کندہ کی گئی آیتیں، خطاطی اور مغلیہ دور کی تصاویر شامل ہیں۔
ان میں سب سے اہم ،1244 کا خطِ غبر میں لکھا ہوا قرآن پاک ہے جو تین تین پاروں میں محفوظ ہے۔
قرآن کریم کے نایاب قلمی نسخوں کو محفوظ رکھنے کے لیے 2001 میں ایک نئی گیلری بنائی گئی جہاں 29 ہاتھ سے لکھے گئے قرآن کریم کے نسخے اور 56 مخطوطات رکھے گئے ہیں۔ سب سے حیرت انگیز گیارہویں صدی کا شاہنامہ فردوسی ہے جس میں کئی اہم مخطوطے محفوظ ہیں۔
سکہ جات کی گیلری: یہاں آپ کو ہند یونانی، کُشان، ہُن اور ہندو شاہی دور کے قدیم سِکے ملیں گے جو بیشتر کھدائیوں سے دریافت شُدہ ہیں۔ ان کے ساتھ ہی غزنوی، غوری، تُغلق، لودھی، مغلیہ، سِکھ اور برطانوی دور کے سِکے بھی نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ یہ گول، چوکور اور بیضوی سِکے سونے ،چاندی ، تانبے اور کانسی سے بنائے گئے ہیں۔ یہاں کُل 8625 سکے موجود ہیں۔
ثقافتی و علاقائی گیلری: یہاں آپ کو پورے خیبر پختونخواہ اور کالاش قبائل کے کلچر کا باریک بینی سے معائنہ کرنے کا موقع ملے گا۔ کالاش یا کیلاش چترال میں افغانستان کی سرحد کے قریب موجود ایک قبیلہ ہے جن کی ثقافت و رسم و رواج ہی ان کا مذہب ہیں۔ یہاں اس قبیلے کا خوب صورت لباس، تابوت، زیورات، برتن اور دیگر استعمال کی اشیاء رکھی گئی ہیں۔ انہیں دیکھنے دور دور سے سیاح یہاں آتے ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر پختون قبائل کے رسم ورواج کا احاطہ کرتی اشیاء مثلاً کپڑے، ہتھیار، زرہ، چمڑے اور کانسی کی اشیاء اور لکڑی کے اسٹول شامل ہیں۔ غرض یہاں آپ پختونخواہ کی مجموعی ثقافت کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔
پشاور میوزیم کے ساتھ ہی عمارت میں آثارِقدیمہ کا دفتر، ایک کنٹین اور یادگار اشیاء کی دکان بھی ہے جہاں سے آپ پختونخواہ کی یادگاری اشیاء خرید سکتے ہیں۔
کالی باری مندر و درگاہ رتن ناتھ جی: یہ مندر پشاور عجائب گھر کے پاس صدر روڈ پہ واقع ہے جو ہندو دیوی کالی کے لیے مخصوص ہے۔ پشاور شہر میں اب گنے چنے مندر باقی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے جو سارا دن کھلا رہتا ہے۔ درگا پوجا یہاں منایا جانے والا مرکزی تہوار ہے جو کالی دیوی کے اعزاز میں منایا جاتا ہے۔
درگاہ رتن ناتھ جی نامی یہ مندر جھنڈہ بازار میں واقع ہے جو ہندو بھگوان شیو کے لیے مخصوص ہے۔ مہا شیوراتری یہاں کا بڑا تہوار ہے۔
آل سینٹ چرچ : پشاور شہر کے پرانے حصے، کوہاٹی گیٹ میں واقع آل سینٹ چرچ ”پروٹسٹنٹ” فرقے کی عبادت گاہ ہے جو تقریباً 140 سال قدیم ہے۔ 1883 میں تعمیر کیے جانے والا یہ چرچ مسجد سے مشابہہ ہے جس کے گنبد و مینار بھی ہیں۔ اس چرچ کو ”سینٹ جان ڈے” کے موقع پر پشاور کے مقامی مسیحیوں کے لیے دسمبر 1883 میں کھولا گیا تھا جسے یہاں کے مشہور پادری جناب ”تھامس ہگیز” نے ڈیزائن کیا تھا۔
چرچ کے مرکزی دروازے پر ایک محراب اور پتھر کا بنا جھروکہ موجود ہے جب کہ دیگر دروازوں پر صلیب بنائی گئی ہے۔
لکڑی کی بڑی کھڑکیوں پر لکڑی کے ہی گول روشن دان موجود ہیں جن پر چھوٹے جھروکے بنائے گئے ہیں۔ کچھ دروازوں کے اوپری کناروں پر داؤدی ستارہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ چرچ کے اندر لکڑی کا خوب صورت کام کیا گیا ہے جبکہ دیواروں پر بائبل کے مختلف فرمودات درج ہیں۔
عبادت کے لیے بہت سی بینچیں رکھی گئی ہیں جب کہ ایک گولائی میں بنی دیوار پر کافی سارے سنگ مرمر کے کتبے لگے ہیں۔ غرض اسلامی طرزِ تعمیر سے متاثر یہ چرچ دیکھنے لائق ہے۔
ستمبر 2013 میں یہ چرچ اس وقت پھر خبروں کی زینت بنا جب اتوار کو عبادت کے بعد یہاں بم دھماکے میں 127 لوگ جاں بحق ہوئے۔ اس افسوس ناک واقعے کے بعد چرچ کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی۔
اِسلامیہ کالج یونیورسٹی:بچپن میں کئی بار جب سو روپے کا لال نوٹ دیکھتا تو یہ سوچتا تھا کہ اس پر بنی ہوئی یہ خوبصورت عمارت آخر کہاں واقع ہے؟؟
اس کو کِس نے تعمیر کیا؟
بہت بعد میں یہ راز کھلا کہ یہ وسیع و عریض عمارت پشاور کا اسلامیہ کالج ہے جو اب ایک یونیورسٹی بن چکا ہے۔
شہر کے مغرب میں جی ٹی روڈ پر واقع یہ شان دار تعلیمی درسگاہ آج سے ایک سو دس سال پہلے 1913 میں، صوابی کے مشہور سیاستدان ”نوابزادہ عبدالقیوم خان” مرحوم اور ”لیفٹیننٹ کرنل جارج کیپل” کی کاوشوں سے بنائی گئی تھی۔ یہ اپنے وقت کی وہ عظیم جامعہ تھی جس کی جڑیں شمالی ہندوستان کی علی گڑھ یونیورسٹی سے جا ملتی تھیں۔
جو کام وہاں علی گڑھ کے طلبہ نے کیا تھا وہی خدمات تحریکِ آزادی کے لیے اس جامعہ نے دی تھیں یہی وجہ ہے کہ حضرت قائداعظم اپنی پوری زندگی میں تین مرتبہ صوبہ سرحد تشریف لائے۔ آپ نے یہ دورے بالترتیب 1936، 1945 اور 1948ء میں کیے اور ہر مرتبہ آپ نے اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کیا۔
121 ایکڑ اراضی پر مشتمل یہ کالج جنگِ عظیم اول سے ایک سال قبل 1913ء میں قائم کیا گیا۔ یہ کالج جس جگہ قائم کیا گیا، ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق اُس مقام پر آج سے تقریباً 1800 سال قبل بدھ مت کی تعلیمات کے لیے ایک بہت بڑی خانقاہ موجود تھی۔ اس وقت کشان خاندان کا راجا کنشکا یہاں پر بر سر اقتدار تھا۔
اسلامیہ کالج پشاور صوبہ پختونخواہ کا وہ شمع فروزاں ہے جس نے صوبے اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقے اور افغانستان کو علم کی روشنی سے منور کیا۔
اسلامیہ کالج پشاور نے ابتدا سے لے کر آج تک تعلیم کے میدان میں شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ آج پشاور کے بہت سے مشہور تعلیمی ادارے جیسے پشاور یونیورسٹی، یو ای ٹی پشاور، زرعی یونیورسٹی، خیبر میڈیکل کالج و دیگر کچھ ادارے اسلامیہ کالج پشاور ہی کی پیداوار ہیں۔
ایکڑوں پر پھیلی اس جامعہ کی عمارت فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ دور سے دیکھنے پر یہ کوئی عجائب گھر لگتا ہے جس کے محرابی دروازے، گول گنبد، چھوٹے چھوٹے مینارے اور مرکزی عمارت کا گھڑیال دیکھنے والے کو رک کر اس کی تعریف کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ نئے کرنسی نوٹوں میں اسے 100 کی بجائے ایک ہزار روپے کے نوٹ پر جگہ دی گئی جو اس کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مزار حضرت اصحاب باباؓ: یہ مرقد جو پشاور کے نواح میں ”چغر مٹی” کے مقام پر موجود ہے صحابی رسولؐ حضرت سنان بن سلمہ بن محبق رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے جنہیں مقامی طور پر ”اصحاب بابا” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
کتاب ”ثقافت سرحد” میں مصنف لکھتے ہیں کہ؛
حضرت سنان بن سلمہ بن محبق رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی رسولؐؐ اور اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے جو خراسان کے گورنر کی طرف سے قلات کی مہم پر بھیجے گئے تھے۔ قلات کو فتح کرنے کے بعد آپ رض نے وہاں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اور پھر ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کے علاقوں کو فتح کرتے ہوئے کوہاٹ پہنچے اور کوہاٹ میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے بعد پشاور کی وادی میں داخل ہوئے۔
پشاور فتح کرنے کے بعد حضرت سنان بن سلمہ کا اسلامی لشکر داؤدزئی میں وارد ہوا یہاں پر چغرمٹی کے مقام پر کفار سے خون ریز جنگ کے دوران شہید ہوئے۔ دیگر کئی اصحاب رسول اور مجاہدین اسلام بھی آپ رض کے ساتھ چغرمٹی کے اس مقام پر مدفون ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس مزار میں بنی ہوئی ایک لمبی قبر درحقیقت کئی صحابہ کرام رض اور مجاہدینِ اسلام کا مشترکہ مدفن ہے۔ اس لحاظ سے اس مقبرہ اور مزار پر عوام کا کافی رش نظر آتا ہے۔
کیتھیڈرل چرچ آف سینٹ جون: پشاور کینٹ میں واقع یہ شہر کا سب سے پرانا چرچ ہے جس کا سنگ بنیاد 1851 میں رکھا گیا تھا۔ پروٹسٹنٹ فرقے کا یہ چرچ پہلے سینٹ جون چرچ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ کیتھیڈرل چرچ آف سینٹ جون ایک زمانے میں شمال مغربی سرحدی صوبے میں تعینات برطانوی سپاہیوں اور ان کے خاندان کے لیے مخصوص تھا۔
چرچ کے احاطے میں کچھ برطانوی فوجیوں کی قبریں بھی ہیں جو اُس دور میں مارے گئے تھے۔ اس کے علاوہ چرچ میں ایک اسکول اور ایک یادگار بھی ہے جو جنگِ عظیم دوئم کے مشہور جنرل، فیلڈ مارشل کلاڈ آکِنلک سے منسوب ہے۔ جنرل کلاڈ آکِنلک تقسیم کے وقت ہندوستان و پاکستان کی افواج کے سپریم کمانڈر تھے۔ وہ 1948 تک اس عہدے پر فائز رہے۔
بابِ خیبر و قلعہ جمرود: پشاور سے نکل کر کچھ باہر مغرب کو جائیں تو پختونخواہ کی پہچان، بابِ خیبر آپ کو شان سے کھڑا نظر آتا ہے۔
جمرود کے مقام پر اس روایتی دروازے کو تعمیر کرنے کا مقصد درہ خیبر کی تاریخی اہمیت کا اجاگر کرنا تھا جو وسط ایشیا اور برصغیر کے درمیان تجارت کا واحد راستہ تھا۔ اس کا افتتاح اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے 11 جون 1963 کو کیا۔ پتھر سے بنے اس دروازے پر مختلف تختیاں بھی نصب ہیں۔ دس روپے کے سبز پاکستانی کرنسی نوٹ پر خیبر کا یہی دروازہ بنایا گیا ہے۔
باب خیبر کے پاس ہی جمرود کا قلعہ واقع ہے۔
1836 میں جمرود فتح کرنے کے بعد سکھوں کے جنرل ”سردارہری سنگھ نالوا” نے 54 دنوں کے اندر یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا۔
اس کا نقشہ قلعہ بالاحصار سے مماثلت رکھتا ہے کیوںکہ اس کی مرکزی عمارت کے اطراف بھی حفاظتی دیوار تعمیر کی گئی ہے۔ قلعہ کی دیواروں کی چوڑائی 10 فٹ جبکہ اونچائی 30 فٹ کے قریب ہے اور ان کی تعمیر میں مٹی اور پتھر کا استعمال کیا گیا۔ اردگرد کے علاقے پر نظر رکھنے کے لیے کئی فٹ بلند برج تعمیر کیے گئے۔
ان پر توپیں رکھی گئیں اور ان میں ایسے راستے بنائے گئے جن پر سامان سے لدے ہوئے خچر بآسانی برج تک پہنچ سکیں۔ دو منزلہ جمرود قلعے کی تعمیر اونچے مقام پر کی گئی تاکہ وہاں سے مشرق کی جانب درہ خیبر، شمال میں مہمند اور جنوب میں باڑہ تک کے علاقے نظر آتے رہیں۔
آج کل یہ قلعہ فوج کی زیرِنگرانی ہے۔
دریائے باڑہ کا مُغل پُل؛
پشاور کے جنوب میں باڑہ دریا کے اوپر ایک قدیم پُل موجود ہے جسے ”مُغل پل” کہا جاتا ہے۔ خوب صورت ستونوں سے مُزین اس پل کے ایک ستون پہ روٹری کلب پشاور کے مرزا تنویر حسین کی جانب سے ایک تختی لگائی گئی ہے جس پہ اس کا نام ”سیٹھیان پُل” لکھا گیا ہے۔
اس تختی کے مطابق یہ پُل سب سے پہلے شیر شاہ سوری کے دور میں پشاور کو کلکتہ سے ملانے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا جس کا نام مغلیہ دور میں مغل پل ہوگیا۔ اس کی تعممیر میں وزیری اینٹ، چونا، گیج اور پٹ سن استعمال کی گئی تھی۔ اس کی تعمیرِنو کا سہرا پشاور کی معتبر شخصیت ”حاجی کریم بخش سیٹھی” نے کروائی جس کے بعد اسے سیٹھیاں پُل بھی کہا جاتا ہے۔
اس پُل میں دریائے باڑہ کے گزرنے کے لیے بارہ محرابی راستے بنائے گئے تھے اور تمام راستوں پر آٹھ فٹ بلند تیرہ ستون تعمیر کیے گئے جن کے گنبد پھول نما تھے۔ پُل کی دونوں طرف پانچ فٹ حفاظتی دیوار بھی بنائی گئی تھی جو سڑک کی بار بار تعمیر سے اب 1 فٹ رہ گئی ہے۔
اس پُل سے گزرتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے آپ قدیم دور کی کسی شاہی گزرگاہ سے گزر رہے ہوں۔
قصہ خوانی بازار؛
یہ بازار پشاور شہر کا دل اور اس کی ثقافت کا امین ہے۔ پشاور کی پختون روایات و ثقافت کو سمجھنے کے لیے اس بازار کی تاریخی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔
درہ خیبر کے راستے وسط ایشیا اور افغانستان سے جو تاجر ہندوستان کا رُخ کرتے وہ سب سے پہلے پشاور میں قیام کرتے۔ اپنے اپنے علاقوں کی کہانیاں، سوغاتیں، مال و اسباب، خوشبو اور میوے لیے جب وہ یہاں کے مہمان خانوں میں قیام کرتے تو وقت گزارنے کے لیے ایک دوسرے کو اپنے دیس کے واقعات، سیاسی و ادبی حالات اور لوک داستانیں سناتے۔ یوں ان کی قصہ گوئی سے مقامی لوگ بھی لطف اندوز ہوتے۔ آہستہ آہستہ یہ قصہ گوئی ایک فن کی شکل اختیار کر گیا اور اس بازار کے قصہ گو پورے علاقے میں مشہور ہوگئے۔ یہ تاجروں، مسافروں اور فوجیوں سے سنے قصوں کو نہایت خوبی سے بیان کرتے تھے۔
یوں پشاور کے روایتی قہوہ خانوں، تکہ کباب، چپلی کباب اور خشک میوہ جات کی دکانوں کے ساتھ جڑی اس تجارت اور اس کی برکات سے پہنچنے والے قصوں نے اسے قصہ خوانی بازار بنا دیا۔
ایک وقت میں اس بازار کو غیرتحریر شدہ تاریخ کا مرکز کہا جاتا تھا۔ پشاور کے برطانوی کمشنر ”ہربرٹ ایڈورڈز” نے اپنی تصانیف میں اس بازار کو ”وسط ایشیا کا پکاڈلی” قرار دیا ہے۔ بالی وڈ کے چوٹی کے اداکار دلیپ کمار و شاہ رخ خان، دونوں کا تعلق اسی علاقے سے تھا۔
یہاں پر بانس، مٹھائیوں، فالودہ اور کانسی کے برتنوں کا بڑے پیمانے پر کاروبار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں اردو، پشتو اور فارسی کتب کی چھپائی کا کام بھی کیا جاتا ہے۔
نمک منڈی؛
کھانوں کے بغیر کون سا سیاح زندہ رہ سکتا ہے؟؟
اب بندہ پشاور جائے اور وہاں کے روایتی پکوان نہ کھائے تو کیا اسے سیاح کہا جا سکتا ہے؟؟؟
الحمدلِلہ ہم سے یہ گناہ سرزد نہیں ہوا اور ہم نے اپنے دورہ پشاور کے آخری روز نمک منڈی کا رخ کیا۔ والڈ سٹی میں واقع پشاور کی یہ فوڈ سٹریٹ، تقسیم سے بہت پہلے نمک کی تجارت کے لیے مشہور تھی جہاں تاجر حضرات اپنا نمک ٹرکوں پہ لادتے اور اتارتے دیکھے جاتے تھے۔ اگرچہ اب وہ مناظر مفقود ہو چکے ہیں لیکن اس علاقے کا نام اب بھی نمک منڈی ہے۔
نمک منڈی میں پختونخواہ کے کھانوں کی زبردست ورائٹی موجود ہے اور کچھ مشہور ترین ناموں کے علاوہ بھی کئی چھوٹے اور غیرمعروف ٹھیلے و ہوٹلوں پر ذائقے دار کھانا بنایا جاتا ہے۔
اگرچہ نثار چرسی تکہ یہاں سب سے زیادہ مشہور ہے لیکن اکثر ہوٹلوں پر آپ کو زبردست چپلی کباب، مٹن، روش، توا پیس، ٹماٹر کڑاہی، دنبہ کڑاہی، قہوے، باربی کیو اور دیگر کھانے مل جائیں گے۔ یہ پورا علاقہ رات کو کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبو سے مہک رہا ہوتا ہے۔ مقامیوں سمیت کئی سیاح یہاں گاؤ تکیوں پہ سر ٹکائے خوش گپیوں میں مصروف دیکھے جا سکتے ہیں۔
خشک میوہ جات کی دوکانیں اور گلی میں پھرتے قہوہ فروش یہاں کے روایتی ماحول کو دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
سو اب اگر آپ پشاور جائیں تو مندرجہ بالا جگہوں کو دیکھنا اور نمک منڈی کے کھانے کھانا مت بھولیے گا۔
(یہ مضمون راقم نے 2019 میں لکھا تھا جسے کچھ تبدیلیوں کے بعد شائع کیا جا رہا ہے)۔
The post پشاور appeared first on ایکسپریس اردو.