کراچی: زمانہ قدیم سے اردومیں رائج بعض الفاظ کا استعمال قدرے کم ہونے کی وجہ سے ان کے معانی بھی ہر کس وناکس کے لیے قابل فہم نہیں رہے۔ایسے بہت سے الفاظ میں فرنگ، افرنگ، فرنگی،فرنگن، فرنگیہ اور فرنگستان شامل ہیں جن کا مادّہ اشتقاق (یعنی لفظ بننے کی بنیاد، ماخذ) ایک ہی ہے۔
جب ہم فرنگی زبان کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ خاکسار کے کالم میں ہوتارہا ہے تو اس سے مراد،انگریزی ہوتی ہے اور پرانی کتب میں مذکور لفظ فرنگی سے مراد عموماً انگریز لیا جاتا تھا، مگر وسیع تناظرمیں یہ اصطلاح تمام غیرملکی، یورپی اقوام کے باشندوں کے لیے رائج تھی، کیونکہ مغربی استعمار کے اس خطے پر پنجے گاڑنے کے بعد، مقامی رعایا کے لیے یہ سب ایک ہی تھے، گوری چمڑی والے یا آسان الفاظ میں گورے۔اردو میں لفظ فرنگ،فارسی سے آیا، عربی میں بھی ایسا ہی ہوا اور اُسے فرنج اور افرنج کہا گیا، مگر اس کی تاریخ مزید وسیع ہے۔اس سے جُڑا ہوا ایک نام ہماری علمی، ادبی وسیاسی تاریخ کا اہم باب ہے،فرنگی محل۔
فرنگ[Farang] کی ابتداء قدیم جرمانی قبیلے فرانکس [Franks]سے ہوئی جو قدیم فرینچ میں فرانک (Franc)بنا۔اس سے مراددنیا کی مختلف زبانوں میں (تلفظ کے اختلاف سے قطع نظر)، غیرملکی اور اجنبی لیے جاتے ہیں، جبکہ مغرب میں اس سے مراد سفید فام یورپی ہوتے ہیں۔مارکو پولو [Marco Polo]کے دورمیں مغربی یورپی افراد کے لیے فرانک رائج تھا۔حبشہ یعنی ایتھیوپیا(Ethiopia)اور اری ٹیریا (Eritrea)میں فرنجfaranj یا فِرنِج ferenjسے آج بھی پردیسی مراد لیے جاتے ہیں،خصوصاً یورپی یا یورپی نژاد سفید فام لوگ،نیز بعض مقامات پر اس سے مراد یورپی اور دیگر اقوام کے اختلاط سے جنم لینے والے افراد جیسے African Americans ہوتے ہیں۔
صلیبی معرکوں میں فرانک قوم کا اثر ونفوذ مشرق ِ وسطیٰ تک بڑھااور ایک وقت آیا کہ مغربی یورپی اقوام بشمول فرینچ، اطالوی اور فلیمش کو مسلم دنیا میں فرانک کہاجانے لگا۔چھٹی صدی میں،فرانک کے ملک گال [Gaul]پرقبضے کے بعد یہ ملک بھی فرانس کہلانے لگا۔
یورپ کے لیے،فارسی کی اصطلاح فرنگستان (یعنی فرنگیوں کا دیس) مسلمانوں اور تھائی قوم نے استعمال کرکے مشہور کی، جبکہ دوسری طرف ملائی[Malay] زبان بولنے والوں نے عربی کے زیر اثر لفظ فرنج اپنایا تو اُن کے تاجرانہ تعلقات کے سبب، یہی لفظ کمبوڈیا میں،بارینگ(ba-réng)، بَارَنگ(bâ-râng) یا پارَنگ (pâ-râng) ہوگیا۔یہاں یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ فرینچ قوم کے کمبوڈیا پر اقتدار کی وجہ سے کھمیر زبان میں آج بھی بہت سے فرینچ الفاظ کسی نہ کسی شکل میں موجودہیں۔(بعض جگہ ملائی میں بھی ferenggiمستعمل ہونا منقول ہے)۔
مسلمان تاجر عموماً تمام یورپی تُجّار کو فرنگ ہی کہتے تھے اور یہی اصطلاح جنوبی وجنو ب مشرقی ایشیا میں رائج ہوئی، اسی سے فرنگی بنا۔ایک روایت کے مطابق،عربی میں فرنگ بشکل فرنج، افرنج اور الفرنج، فارسی سے بھی ایک صدی پہلے،نویں صدی شمسی میں موجود تھا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ انھوں نے فرانکس اور فرانک یا اس سے مماثل بنیادی یا ثانوی تلفظ کہیں اور سے سن کر، عربالیا۔اس فرنگ سے فرنگی بنا اور شُدہ شُدہ یوں ہوا کہ اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں ہندوستان میں موجود تمام یورپی، فرنگی کے نام سے موسوم ہوئے۔اردوئے قدیم میں فرنگی بچہ سے مراد، کسی بھی یورپی کی اولاد تھی۔ہندی میں فَرَنگی، بنگلہ میں فِرِنگی، ملیالم میں پرنکی [Paranki]اور تَمِل میں پرنگیار[Parangiar]، جبکہ کمبوڈیا کی زبان کھمیرKhmer] [کا ذکر اوپر آچکا۔یہی لفظ قدیم چین میں پہنچ کر [Folangji] ہوگیا، مگر وہاں اس سے عموماً پُرتگیز لوگ مراد لیے جاتے تھے اور آج تک یہی مفہوم موجودہے۔خاص بات یہ ہے کہ فرنگی، انگریزی زبان میں Frankishہے۔
بنگلہ میں فِرِنگی کی اصطلاح انگریز۔بنگالی مخلوط نسل (عموماً عیسائی) کے لیے مستعمل ہے، جبکہ انگریز کی چھوڑی ہوئی اس مخلوط بنگالی برادری کو وہاں کالو فِرِنگی یا ماٹیو فِرِنگی (مٹی کے رنگ والا فرنگی) کہاجاتا ہے۔جب چٹاگانگ میں پُرتگیز قابض ہوئے تو اُن کے قلعے اور بحری اڈے کو فِرِنگی بَندر (غیرملکی بندرگاہ)کہاجانے لگا۔پُرتگیز تاجروں اور اُن کی آل اولاد کو فِرِنگی ہی کہاجاتا تھا۔ڈھاکا اور چٹاگانگ میں اس دور کی یادگار فِرِنگی بازار کی شکل میں موجودہے۔اسی پُرتگیز بنگلہ برادری میں مشہور لوک گلوکار اینٹنی فِرِنگیAnthony Firingee] [بھی شامل تھا جس کی زندگی پر بنائی گئی ہندوستانی فلم ”انتونی فِرِنگی“ بیسویں صدی کے وسط میں بہت مقبول ہوئی۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ سُندربَن کے حسین جنگل میں واقع ایک دریا کا نام بھی فِرِنگی دریا ہے۔اس کے علاوہ ایران کے ایک چھوٹے سے گاؤں کا نام بھی فرنگ ہے۔
مالدیپ میں یورپی باشندوں خصوصاً فرینچ لوگوں کو فرنجی (Faranji)کہاجاتا تھا۔ماضی قریب میں اس ملک کے صدرمقام مالے [Malé]کے ساحل پر ایک گلی کا نام فرنجی کالو گولھی[Faranji Kalo Golhi]ہواکرتا تھا۔تھائی زبان میں سفید فام شخص یا مختلف سفید رنگت والی مختلف اشیاء کو فرنگ کہاجاتا ہے، حتیٰ کہ امرود کو بھی فرنگ کہتے ہیں، کیونکہ تھائی لینڈ میں یہ پھل لانے والے بھی پُرتگِیز ہی تھے۔انگریزی میں جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا ودیگر میں رائج اصطلاح فرنگی کو مندرجہ ذیل ہجوں میں نقل کیا گیا ہے:
Feringee, Feringhee, ferenghi, Feringi, Feringy, Firangi, Firinghee, firingi
یہاں ایک دل چسپ انکشاف یہ بھی ہے کہ سائنسی ادب پر مبنی امریکی فلم سیریز ”اسٹار ٹریک“ [Star Trek]میں بھی ایک کردار کا نام فیرینگیFerengi] تھا]۔
لکھنؤ میں واقع ایک تاریخی اور تاریخ ساز عمارت،فرنگی محل کے نام سے موسو م ہے۔اسے سترہویں صدی میں تعمیر کیا گیا اور کہاجاتا ہے کہ اس کے اولین مالکان فرینچ یا ولندیزی [Dutch]تھے یعنی فرنگی، اس لیے عہد اورنگزیب عالمگیر کے رواج کے مطابق اسے یہ نام دیا گیا۔
ایک روایت کے مطابق اس کا مالک Nielنامی شخص تھا۔اس نام کی تحقیق کی جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ NATHANIELیعنی خداکا پیغام (Message from God)سے مشتق ہے اور یہ اسکاٹ لینڈ (Scotland) کی زبان Gaelic سے مختلف زبانوں میں گیا ہے۔لہٰذا یہ طے کرنا مشکل ہے کہ نی ایل نامی شخص فرینچ تھا یا ولندیزی یا کوئی اور۔
یہ شاندارعمارت ایک شاہی فرمان کے تحت بحق سرکار ضبط کی گئی اور بعدازآں، ملا قطب الدین سہالوی انصاری شہید(وزیر مذہبی امور، بعہد عالمگیر) کے چاربیٹوں ملا اسعد سہالوی، ملا سعید سہالوی، ملا نظام الدین محمد سہالوی اور ملا رضا سہالوی کو اُن کی درخواست پر بادشاہ نے عطا کی۔مدرسہ نظامیہ کے بانی ملا نظام کا نام نامی، (بغداد کے مدرسہ نظامیہ کی طرح) کم و بیش 40 دینی علوم پر مشتمل ایک دینی نصاب ”درس نظامی“ کی ترتیب کے سبب،بہت مشہور ہے۔علامہ شبلی نعمانی نے مدرسہ نظامیہ کو آکسفرڈ کے مقابل قراردیا تھا۔اس مدرسے سے منسلک،علمائے فرنگی محل نے اس خطے میں علم وادب کی بیش بہا خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ عصری سیاست میں بھی اہم کرداراداکیا۔
ان میں مولانا عبد الباری فرنگی محلی،مولاناجمال میاں فرنگی محلی اور مولانا عبدالحئی فرنگی محلی کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔خطہ ہند میں عیدمیلاد النبی کو وسیع پیمانے پر فروغ دینے کاسہرا علمائے فرنگی محل کے سر ہے، جبکہ مولانا محمد علی جوہرؔ کے مرشد معنوی،مولانا عبد الباری فرنگی محلی نے مملکت نجد وحجاز میں صحابہ کرام بشمول امہات المومنین اور بزرگان ِ دین کے مقابر کے انہدام کے خلاف تحریک چلائی تھی اور انگریز حکومت کے خلاف جہاد کافتویٰ دیا تھا۔
وہ تحریک خلافت میں بھی پیش پیش تھے، مگر 1920ء میں انھوں نے موہن داس کرم چند گاندھی کو ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا بھی قائد قراردیا۔اس مسئلے میں اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی نے ان سمیت ایسے تمام علماء اور قائدین سے کھُل کر اختلاف کرتے ہوئے اسے خلاف ِ شریعت قراردیا۔بعدمیں مولانا جوہرؔ نے اس مسئلے پر توبہ کی اور رجوع کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت کے ہاتھ بیعت ہوئے، جبکہ یہ روایت بھی ملتی ہے کہ مولانا جوہرؔ کے مرشد معنوی اُن سے خفا ہوئے تو انھیں دل کا دورہ پڑا، وہ جانبر نہ ہوسکے اور بعدمیں شاگرد ِ رشید کئی دن تک اُن کی قبر پر جاکر روتے رہے۔
تحریک آزادی کے نامور رہنما مولانا حسرت موہانی اور اُن کا خاندان بھی علمائے فرنگی محل کا معتقد تھا۔کہاجاتا ہے کہ جب، تقسیم وآزادی ہند کے بعد،فرنگی محل کے انتظامی حالات بہت ناگفتہ بہ ہوئے تو حسرتؔ نے اپنی رکن اسمبلی کی حیثیت سے وصول ہونے والی تنخواہ مدرسے کی امداد کے لیے دی۔جمال میاں فرنگی محلی نے بھی اس سلسلے میں بہت فعال کرداراداکیا اور ڈھاکا میں اصفہانی گروپ کی سرپرستی میں کاروبار کرتے ہوئے، ایک طویل مدت تک مدرسے کی بھرپور معاشی امداد کی۔مابعد 1971ء میں سقوط ِ ڈھاکا کے بعد،جمال میاں کی کراچی منتقلی سے یہ باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔
جمال میاں فرنگی محلی نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔قراردادِ لاہور عرف قراردادِ پاکستان سے بھی پہلے، اس ضمن میں کہیں واضح قرارداد، کراچی میں منظورہوئی تو اس تاریخی اجتماع میں بھی وہ شریک تھے۔”یہ جلسہ (یا اُس وقت کی اصطلاح میں کانفرنس) صوبائی سطح پر ایک کُل ہند اجتماع (All India gathering) تھا جس کی صدارت قائداعظم نے خود کی تھی۔
آل انڈیا مسلم لیگ، سندھ شاخ کے زیرِاہتمام 8اکتوبر تا 12اکتوبر1938ء کو کراچی کے مشہور عیدگاہ میدان، بالمقابل جامِع کلاتھ مارکیٹ، بندرروڈ (بعداَزآں ایم اے جناح روڈ) میں پورے ہندوستان سے مسلم رہنماؤں بشمول نوابزادہ خان لیاقت علی خان، نواب اسماعیل خان، نواب بہادر یار جنگ، مولانا شوکت علی، بیگم محمد علی جوہرؔمحترمہ امجدی بانو، راجہ صاحب محمودآباد، راجہ پیرپور، مولانا جمال میاں، فرنگی محلی، سید غلام بھیک نیرنگؔ، مولانا عبدالحامد بدایونی، نواب مشتاق احمد گورمانی، یوپی کے نمایندے جناب اے۔بی۔حبیب اللہ، سر سکندر حیات، وزیراعظم (وزیراعلیٰ) پنجاب اور اے۔کے۔فضل الحق، وزیراعظم (وزیراعلیٰ) بنگال نے اس جلسے میں شرکت کی“۔(”قراردادِ کراچی 1938ء:قراردادِ لاہور کا پیش خیمہ۔تحریر:سہیل احمد صدیقی،مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، اتوار 20 مارچ 2022)۔
فرنگی محل کے اس دکھ بھرے قصے کے بعد، ہمارے بزرگ معاصر کی ایک شگفتہ تحریر سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں:”نام رکھنے کے معنوں میں بھی ’کہنا‘ ہی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارے بزرگ شاعر افتخار عارف صاحب فرنگی محل (لکھنؤ) کے قرب و جوار میں پیدا ہوئے، لہٰذا وہ اپنا تعارُف یوں کرایا کرتے ہیں،’مجھ فقیر کو افتخار حسین عارف کہتے ہیں‘۔ یہی صاحب اگر چوپاٹی (ممبئی) یا چاکیواڑہ (کراچی) کے’آجُو باجُو‘ پیدا ہوئے ہوتے تو شاید اپنے آپ کو یوں متعارف کرواتے: ’میرے کو افتخار عارف بولتے ہیں“۔(”ہم بولے گا تو بولو گے کہ بولتا ہے“ بہ سلسلہ غلطی ہائے مضامین ازابونثراحمدحاطب صدیقی، مؤرخہ 2جولائی 2021ء)
ہمارے یہاں جس شاعر نے سب سے زیادہ ’فرنگ‘،’افرنگ‘، ’فرنگی‘ اور ’افرنگی‘ کا استعمال اپنی شاعری میں کیا،وہ تھے علامہ اقبال جنھوں نے مغرب کی بے دین سائنسی ترقی وتعلیمی اصلاح کی شدیدمذمت کی اور ایسے اشعار کے ذریعے اپنا فلسفہ پیش کیا:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ ئ دانش ِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
___
تو اے مولائے یثرب! آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زُنّاری
___
برا نہ مان،ذرا آزما کے دیکھ
فرنگ دل کی خرابی، خرد کی معموری
___
نہ کر اَفرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی بَرّاقی
___
ڈھونڈھ رہا ہے فرنگ، عیشِ جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام، وائے تمنائے خام
___
یہ حوریان فرنگی دل و نظر کا حجاب
بہشت مغربیاں جلوہ ہائے پا برکاب
___
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں
دیگر شعراء کے یہاں اسی لفظ کا استعمال کچھ یوں ہوا:
آپ ہی آپ ہے پکار اٹھتا
دل بھی جیسے گھڑی فرنگی ہے
(انشا اللہ خاں انشاؔ)
ہے فرنگن کے گورے ہاتھ میں دل
جان کا صاحبو! خدا حافظ
(وزیر ؔدہلوی)
فرنگی کا جو میں دربان ہوتا
تو جینا کس قدر آسان ہوتا
(حبیب جالبؔ)
The post زباں فہمی 174؛ فرنگ، فرنگی، فرنگستان appeared first on ایکسپریس اردو.