ہمارا ملک مسائل کا گڑھ ہے اور لوگ حیران ہوتے ہیں کہ یہ مسائل کیوں بڑھتے جا رہے ہیں اور پرانے مسائل کیوں حل نہیں ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ پتلی گلی پکڑنا ہے۔
جب ہمارے ملک میں کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو عوام اُس مسئلے کے حل کے لیے متعلقہ محکمے، ادارے، شعبے یا شخصیت پر زور ڈالنے کی بجائے پتلی گلی پکڑ لیتے ہیں اور پھر ہر شخص اُسی گلی میں چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح وہ گلی بھی چوک (choke) ہوجاتی اور واپسی کاراستہ بھی نہیں رہتا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے۔
بجلی: یہ سنہ 1994ء تھا کراچی میں جب بجلی کی فراہمی غیر متعین وقت کے لیے بند رہنے لگی تھی۔ پھر یہی صورت حال پورے ملک میں ہوگئی۔
کچھ ماہ بعد حکومت نے اعلان کیا کہ ’ملک میں بجلی کی طلب رسد سے زیادہ ہے، چوںکہ حکومت تن تنہا اس صورت حال سے نہیں نمٹ سکتی اس لیے نجی شعبے کو دعوت دی جائے گی کہ وہ بھی بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس لگائے۔‘ اس کے علاوہ بجلی بنانے اور فروخت کرنے والے ادارے کی نج کاری کا عندیہ بھی دیا گیا اور کراچی میں بجلی کی فراہمی کے ذمے دار ادارے کو نجی شعبے کے حوالے بھی کردیا گیا۔
اس طرح نجی شعبے میں بھی متعدد اداروں نے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ لگا لیے، لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ کراچی سمیت، ملک سے بجلی کا بحران تو کیا رفع ہوتا اُلٹی حکومت نجی پاور کمپنیوں کی اربوں روپے کی مقروض ہوگئی اور گردشی قرض کا کبھی نہ ختم ہونے والا شیطانی چکر شروع ہو گیا۔
جب لوگوں نے دیکھا کہ غیرمعینہ مدت کے لیے بجلی کی بندش اب نصیب کا لکھا ہوگئی ہے تو اْنھوں نے بجلی کی بلا تعطل فراہمی کے نظام (UPS) لگوا لیے۔ UPS میں سرمایہ اگرچہ ایک مرتبہ لگانا پڑتا تھا، شور بھی نہیں تھا، ماحول دوست بھی تھا، نازک آلات اور غیرمحفوظ کردہ ڈیٹا یا کام کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے مؤثر بھی تھا لیکن اپنی ایک خرابی کے باعث ناکام ثابت ہوا۔
اس کی بیٹری اگر دو گھنٹے کام کرتی ہے تو دوبارہ چارج ہونے کے لیے چار گھنٹے درکار ہوتے ہیں اور ان چار گھنٹوں کے دوران اگر بجلی چلی جاتی تو پوری طرح چارج نہ ہونے کے باعث اُس کی کارکردگی کم ہوجاتی ہے اور رفتہ رفتہ ناکارہ ہو جاتی ہے۔
یہ ایک بڑا نقصان اور سر کا درد ہے۔ چناںچہ جو خاندان اور ادارے جنریٹر کی خریداری اور دیکھ بھال پر پیسہ خرچ کر سکتے تھے انھوں نے جنریٹر لگوالیے۔
اگر چہ اس میں شور بھی ہوتا ہے اور یہ ماحول دوست بھی نہیں، اُس کو چلانے اور دیکھ بھال پر سرمایہ بھی خرچ ہوتا ہے، لیکن مرتا کیا نہ کرتا؟ اب صورت حال یہ ہے کہ شہر کا ہر فٹ پاتھ بڑے بڑے جنریٹروں سے اٹا پڑا ہے جو نہ صرف پیدل چلنے والوں کے لیے رکاوٹ کا باعث ہیں بلکہ شہر کی صوتی و کیمیائی آلودگی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
خودغرضی میں جکڑی قوم کے ارباب بست و کشاد سے لے کر ایک عام خاندان تک کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ جنریٹروں اور اُن کے پرزہ جات کی درآمدات سمیت پیٹرول، ڈیزل اور گیس کی درآمد تک ملکی معیشت پر کس قدر تباہ کن اثرات مرتب کرے گی۔
جنریٹر کے استعمال سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجائے گا اور اشیائے صرف و خدمات ملکی و غیرملکی سطح پر مہنگی ہوجائیں گی اور بین الاقوامی سطح پر اُن کی مسابقت ختم ہوجائے گی جس کا نتیجہ ملکی زرمبادلہ میں نقصان کی صورت میں برآمد ہوگا۔ یہی نہیں ماحولی آلودگی جیسے مسائل بھی پیدا ہوں گے۔
حکومتی سطح پر بجلی کی فراہمی بہتر بنانے کی بجائے صنعتی اداروں کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ اپنی بجلی خود پیدا کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ جنریٹروں کا استعمال، گھریلو، کاروباری اور ملکی خوش حالی کا دشمن ہے جس سے تمام بچت دھواں بن کر ہوا میں اڑ جاتی ہے۔
مثال کے طور پر، ایک شخص اپنے گھر کے لیے جنریٹر پر، دیکھ بھال اور ایندھن سمیت، ماہانہ 10,000روپے خرچ کرتا ہے تو یہ سالانہ 120,000 روپے بنتے ہیں جب کہ جنریٹر کی متوقع زندگی کے اعتبار سے آئندہ پانچ برسوں میں 600,000 روپے بنتے ہیں، بشرطے کہ، اس عرصے میں، پرزوں اور ایندھن کی قیمت یکساں رہے۔
اِن میں اضافے کی صورت میں یہ رقم اور بڑھ جائے گی۔ اور یہ رقم بجلی بنانے والے ادارے کے بل کے علاوہ ہے۔ اگر یہ رقم بچ جائے تو اُس سے سرمایہ کاری سمیت کئی دوسرے مثبت کام کیے جا سکتے ہیں۔ اگر صنعتی اور تجارتی ادارے بھی سوچتے تو وہ اس بچت سے اپنے ادارے کو وسعت دے سکتے ہیں جس سے ملکی معیشت میں بہتری آنے کے ساتھ لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔
لوگوں کے موجودہ رویے سے بجلی کمپنی کے اعلیٰ اہل کاروں کو دوہرا فائدہ ہے۔ ایک جانب تو نقصان کے بہانے بجلی مہنگی بیچ کر منافع کمارہے ہیں تو دوسری طرف جنریٹروں کی فروخت پر بھی منافع کمارہے ہیں۔ کیا اِن سرمایہ کاروں کے ذہن میں یہ بات کبھی نہیں رہی ہوگی کہ اس شعبے میں بھی سرمایہ کاری کرکے نجی طور پر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟
اب شمسی توانائی کے معاملے میں بھی ہر شعبے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور نیٹ میٹرنگ کی صورت میں بجلی کے بل میں بچت لالچ دیا جا رہا ہے۔
لیکن شمسی توانائی کے اجزاء کی درآمد کی صورت میں ملکی زرمبادلہ پر اُس کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں، اس پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔
یہی نہیں، شمسی توانائی کے نظام کی لاگت وصول کرنے کی وجہ سے اشیائے صرف و خدمات کے مہنگے ہونے کے سبب ملکی معیشت اور غیرملکی مسابقت پر اثرات مرتب ہورہے ہیں وہ تو کسی کے بھی گمان میں نہیں ہیں۔
اس نظام کی مزید تباہ کاری یہ ہے کہ کھیتوں اور دیگر کھلی جگہوں پر شمسی پینلوں کی تنصیب کے بعد وہ زمین کسی دوسرے کام کے قابل نہیں رہتی ہے۔
مثلاً زرعی زمین پر تنصیب کی صورت میں کوئی بھی اونچے قد والی فصل مثلاً گندم، جوار، گنا، کپاس وغیرہ نہیں اُگائیں جاسکتی اور نہ زمین کے ساتھ یا کم قد والی ایسی فصل اُگائی جا سکتی ہے جسے بھرپور دھوپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک میں خوراک کے بحران کی ایک وجہ زرعی زمین کے رہائشی اور صنعتی استعمال میں تبدیلی کے علاوہ شمسی توانائی کے لیے استعمال بھی ہے۔
اس حوالے سے بادبانی توانائی ( wind power) کا نظام قدرے بہتر ہے لیکن اس کا انحصار قدرتی ہوا کے چلنے اور اس سے بننے والے دباؤ پر ہے۔ لہٰذا یہ پورے سال کے لیے کارآمد نہیں ہے۔
اگر اس دورانیے کے لیے، جب ہوا دست یاب نہ ہو یا چرخیوں کے لیے مناسب دباؤ نہ بن رہا ہو، بجلی ذخیرہ کرنے کے نظام کی لاگت مجموعی پیداواری لاگت میں اضافہ کرتی ہے۔ لہٰذا، اس طریقے سے پیدا کی گئی بجلی کی قیمت بھی صارف کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے اور اشیائے صرف و خدمات کی قیمتوں میں اضافے کا باعث ہے۔
شہری علاقوں کے لیے یہ دونوں نظام ناقابل عمل ہیں، کیوں کہ شہر کے گنجان آباد علاقوں میں نہ بڑے پیمانے پر شمسی پینل لگائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی بادبانی چرخیاں۔ اگر آبادی سے دور لگائے جائیں تو پھر بجلی کی اُن گنجان آباد علاقوں تک پہنچانے کی صورت میں کثیر سرمایہ کاری سمیت ترسیل و تقسیم کے دوران ہونے والے نقصانات اور بلوں کی وصولی جیسے مسائل سے نمٹنا اور پھر کم نقصان، زیادہ نقصان اور بہت زیادہ نقصان والے علاقوں میں مختلف دورانیے کی لوڈ شیڈنگ۔ یہ واضح رہے کہ پانی کی طرح بجلی بھی اب بنیادی انسانی ضرورت ہے!
دوسری جانب تاجر برادری، ہر نئی ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے پر، ممکن خریداروں کی کھال اتارنے پر تلی رہتی ہے۔ اس وقت، ایک سادہ نظام کی قیمت بھی لاکھوں روپے میں ہے، جس کا عذر درآمدی لاگت بیان کیا جاتاہے جو ڈالر کی قیمت سے منسلک ہے۔
بجلی کے بل میں کمی اور بجلی کمپنی کو بجلی کی فروخت سے ہونے والے فوائد ایک طرف، پہلا سوال یہ ہے کہ صارف اس قدر خطیر رقم کہاں سے لائے کہ شمسی توانائی کا نظام لگا سکے؟ لہٰذا، نہ نو من تیل میسر ہے اور نہ رادھا ناچ رہی ہے ورنہ متمول علاقوں میں ہر مکان کی چھت شمسی پینلوں اور چرخیوں سے اٹی ہوتی جیسا کہ ایک موقع پر ٹیلیویژن کی ڈشوں سے اٹی ہوتی تھیں!
ایک اور سوال: جب شمسی پینل، بیٹریاں، بادبانی چرخیاں اور دیگر مواد بڑی تعداد و مقدار میں ناکارہ ہونے لگے گا تو اس کچرے (garbage) کو ٹھکانے لگانے کا کیا بندوبست کیا جا رہا ہے؟ اِس کچرے کو گلا کر کھاد میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی صورت میں اس کی بازگردی (recycling) کا کوئی انتظام کیا جا رہا ہے؟
پانی: شہر کے بعض حصوں میں پائپ لائنوں کے ذریعے پانی کی عدم فراہمی چوتھائی صدی سے بھی زیادہ پرانا مسئلہ ہے، لیکن اب اس نے پورے شہر کو عفریت بن کر گھیر لیا ہے۔ یہ نوے کی دہائی تھی جب میرے ایک رفیق کار نے ملیر میں پانی کی دست یابی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے مجھے مبارک باد دی اور کہا کہ ’’ہمارے علاقے میں نامعلوم وقتوں سے پانی آتا ہی نہیں ہے اور ہمیں ٹینکر ڈلوانا پڑتا ہے۔‘‘ یہ صاحب ڈیفنس میں رہتے تھے۔
موجود ہ رفقائے کار میں سے بھی اکثر ایسی ہی صورت حال بتاتے ہیں لیکن اس بات پر خوش ہیں کہ اتھارٹی سے جو باؤزر ملتے ہیں وہ انتہائی سستے ہوتے ہیں گویا کہ وہ صرف گاڑی کے ایندھن کے پیسے لیتے ہیں۔
جب پانی کی قلت بڑھی تو لوگوں نے ٹینکر ڈلوانا شروع کردیے جس کے نتیجے میں ٹینکر کے ذریعے پانی فراہم کرنے والے افراد ایک مافیا کی صورت اختیار کرگئے۔ اور اب صورت حال یہ ہے کہ ٹینکر کی قیمت بھی بہت سے لوگوں کی دسترس سے باہر ہوچکی ہے۔
حال ہی میں ایک سماعت کے دوران عدالت عالیہ سندھ کے ایک معزز جج صاحب نے اپنے تبصرے میں واٹر بورڈ کے افسران سے سوال کیا کہ ’’ٹینکروں کے ذریعے فراہمی کے لیے پانی ہے تو لائنوں کے ذریعے پانی کیوں فراہم نہیں کیا جا سکتا؟‘‘
ٹینکر مہنگا ہونے کے بعد لوگوں نے بورنگ (boring)کی مدد سے زیرزمین پانی حاصل کرنا شروع کردیا لیکن موٹر کی قیمت سمیت بورنگ کے اخراجات بھی حد سے باہر ہو گئے ہیں۔
اس پر مستزاد یہ کہ ہر سال، دو سال بعد بورنگ کو گہرا کرانا پڑتا ہے اور اس پر بھی لاگت زیادہ آتی ہے جب کہ اس بات کی ضمانت نہیں ہوتی ہے کہ پانی کے مزید کتنے سال دست یاب رہے گا۔ پانی کھینچنے کے لیے موٹر چلانے کی صورت میں بجلی کے بل میں اضافہ الگ ہے۔ اب کیا کریں؟
دوسری طرف زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے ہو جانے سے شہر کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور ماہرین ارضیات نے اپنی تشویش کا برملا اظہار کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔
گیس: بجلی فراہم کرنے والے ادارے کو گرو مانتے ہوئے گیس فراہم کرنے والی کمپنی نے بھی وہ سب کچھ شروع کردیا ہے جو اُس کا استاد ادارہ کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے۔ پہلے شہر کے مختلف علاقوں میں گیس کی غیرمعینہ مدت کے لیے غیراعلانیہ بندش شروع کی گئی اور پھر اعلان کیا گیا کہ پاکستان میں گیس کی قلت ہے اور اس کے لیے غیرممالک سے گیس کی خریداری کے عندیے دیے گئے۔
اسی کے ساتھ گیس کمپنی کے بلوں پر سلنڈروں کی تصاویر چھپنے لگیں اور صارفین کو دعوت دی جانے لگی کہ وہ سلنڈروں کی خریداری کے لیے رابطہ کریں۔ جب یہ تصاویر چھپنے لگیں تو راقم الحروف نے اسی وقت اس بات کی نشان دہی کر دی تھی کہ اب گیس کی بھی طویل لوڈ شیڈنگ ہو گی تاکہ لوگ سلنڈر خریدنے پر مجبور ہو سکیں۔
یہاں بھی عدالت عالیہ کے جج صاحب کا سوال لاگو ہوتا ہے کہ جب سلنڈروں کے ذریعے فراہمی کے لیے گیس دست یاب ہے تو پائپ لائن کے ذریعے کیوں نہیں؟ جواب سیدھا سا ہے۔ سلنڈروں کے ذریعے گیس زیادہ مہنگی بیچی جا سکتی ہے لیکن پائپ لائنوں کے ذریعے نہیں۔ لہٰذا، عوام کی جیبوں سے پیسا نچوڑنے کے لیے یہ طریقہ نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اہم بات یہاں بھی وہی ہے کہ غیرقانونی طور پر سلنڈروں میں بھر کر گیس بیچنے والوں کے لیے گیس دست یاب ہے لیکن کمپنی کے براہ راست صارفین کے لیے نہیں۔ شہر میں غیرقانونی طور پر گیس فروخت کرنے والی کتنی دکانیں، گیس کی عدم دست یابی کے سبب بند ہوئی ہیں؟
ایک اور مضحکہ خیز (یا افسوس ناک) پہلو یہ ہے کہ چند برس قبل لوگوں کو ڈنڈے مار مار کر کاروں میں سی این جی سلنڈر لگوائے گئے، سی این جی پر چلنے والی بسیں درآمد کی گئیں اور سی این جی پر چلنے والے رکشوں کو فروغ دیا گیا اور پھر کہہ دیا گیا کہ گیس دست یاب نہیں ہے اور اس طرح سی این جی کٹس اور گاڑیوں پر اربوں روپے برباد کرنے کے ساتھ کٹ کی تنصیب پر عوام کے پیسے برباد کیے گئے۔ ملک میں جنگلات کی پہلے ہی کمی تھی جس کی وجہ سے لکڑی اور کوئلہ اپنی قیمتوں کے سبب عوام کی پہنچ سے دور ہو چکے ہیں۔ لہٰذا خوراک اور تجارتی مقاصد کے لیے ایندھن کہاں سے فراہم کیا جائے؟
صحت و تعلیم: قبل ازیں، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بھی ایسا ہی ہوا۔ سرکاری اسپتالوں سے مایوس ہو کر لوگوں نے نجی ڈاکٹروں اور اسپتالوں سے علاج کرانا شروع کردیا اور اب نوبت یہ ہے کہ نجی اسپتال بوچڑخانہ بن گئے ہیں اور معالجین قصاب۔ اسی طرح، شعبہ تعلیم میں سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی سے ناخوش ہوکر نجی تعلیمی اداروں میں بچوں کو بھیجنا شروع کردیا اور اب وہی نجی تعلیمی ادارے تجارتی اداروں میں تبدیل ہو کر والدین کو نچوڑ رہے ہیں۔
اگرچہ نجی تعلیمی اداروں کا معیار بھی گر گیا ہے لیکن اُن کی فیسیں اور مصارف تعلیم آسمان تک پہنچ گئے ہیں۔ بعض تعلیمی ادارے ایسے ہیں کہ والدین وہاں قدم رکھنے کا بھی نہیں سوچ سکتے۔
نقل و حمل: ذرائع نقل و حمل کا ذکر کیے بغیر بات مکمل نہیں ہوگی۔ ابتداً منی بس کے نام سے، چھوٹی لیکن زیادہ کرائے والی، گاڑیاں متعارف کرائی گئیں۔ بعدازآں، کوچ کے نام سے مزید زیادہ کرائے والی گاڑیاں متعارف کرائی گئیں اور اب اُنھیں سڑکوں سے غائب کرکے چنگچی رکشے متعارف کرادیے گئے ہیں اور پورے شہر میں اُن کو منی بسوں اور کوچوں کے متبادل کے طور پر لایا جاچکا ہے۔
منی بس اور کوچ کی سواری نسبتاً محفوظ اور آرام دہ تھی اور اُن میں طویل سفر کیا جا سکتا تھا لیکن چنگچی رکشوں میں طویل سفر نہ صرف نہایت تکلیف دہ ہے بلکہ خطرناک بھی اور سرد و گرم موسم میں بیماریوں کا سبب بھی۔ منی بسوں اور کوچوں میں سفر کی تکلیف اور وقت کے زیاں سے بچنے کے لیے لوگوں نے کاریں اور موٹرسائیکلیں خرید لیں لیکن اُس کا نتیجہ جہاں قومی خزانے پر بوجھ سمیت اُن کے ذاتی مصارف نقل و حمل میں اضافے کی صورت میں نکلا ہے وہیں حادثات کی شرح بھی بڑھ گئی۔
یہی نہیں، شہر کی تمام سڑکیں بھی ’’چوک‘‘ ہوگئی ہیں جن میں شارع فیصل جیسی کشادہ اور وی آئی پی سڑک بھی شامل ہے۔ اس سڑک پر بس والے بلوچ کالونی سے ڈرگ روڈ تک ریس لگایا کرتے تھے، اب موٹر سائیکل بھی پوری رفتار نہیں چلائی جا سکتی جب کہ ایمبولینسوں کے ہارن چیختے رہتے ہیں اور مریض اپنی جان ہار جاتے ہیں۔
سیاسی صورت حال: سیاسی جماعتوں نے بھی اِن مسائل کے لیے سنجیدہ کوششیں کر نے کی بجائے ان سے سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک مذہب پسند جماعت کو وقتاً فوقتاً دورہ اٹھتا ہے کہ وہ یہ مسائل حل کرائے گی اور پھر چند دنوں یا ہفتوں کے بعد، مسائل حل کرائے بغیر، بیٹھ جاتا ہے۔
مذکورہ بالا مسائل سمیت تمام مسائل کی پیدائش اور سنگینی کی وجہ لوگوں کی جانب سے ’پتلی گلی‘ پکڑ کر نکل جانے والا رویہ ہے۔ اگر لوگوں نے پتلی گلی پکڑنے کی بجائے حکومت پر زور دیا ہوتا اور اس کے لیے قربانی دی ہوتی تو یہ خود ان کے اور ملک کے لیے فائدہ مند رہتا۔
بجلی، گیس اور پانی فراہم کرنے والے اداروں نے جس طرح اور غیرمحسوس طریقے سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے اُس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، لیکن عوام کے بے وقوفانہ رویے نے ان کی کوششوں کو مہمیز کیا ہے۔ اس تمام صورت حال کا فائدہ صرف اُن اداروں کے کرتا دھرتا افراد کو پہنچا ہے جب کہ صارفین تباہ اور ملک برباد ہوا ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ تمام غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ ملک کے تمام صارفین متحد ہوکر، اور کسی سیاسی جادوگری کا شکار ہوئے بغیر، سنجیدہ کوشش کریں اور حکومت پر زور دیں کہ وہ بجلی، پانی، گیس، صحت اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق متعلق اداروں کے ذریعے اور ارزاں نرخوں پر فراہم کریں ورنہ اس ڈوبتے ٹائیٹنک کے ساتھ سب ڈوب جائیں گے اور کوئی اس پر بلاک بسٹر رومانوی فلم بنانے والابھی نہیں ہوگا۔
The post پتلی گلی کے لوگ appeared first on ایکسپریس اردو.