Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

بعض دوائیں کافی یا چائے کے ساتھ کیوں نہیں کھانی چاہئیں؟

$
0
0

ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے ایک کپ کافی یا چائے کے بغیر دن کا آغاز ناقابل تصور ہے۔ تاہم بعض صورتوں میں دوا کے ساتھ لیے جانے والے مشروب کے حوالے سے احتیاط برتنی چاہیے۔کچھ دوائیں دن کے مختلف اوقات میں لی جا سکتی ہیں لیکن یہ بھی ہدایت کی جاتی ہے کہ انھیں ایسی چیزوں کے ساتھ نہ لیں جن میں کیفین ہو۔

میڈرڈ کی یونیورسٹی میں فارماکولوجی کے پروفیسر انتونیو جیویئر کارکاس سنسوان نے بتایا: ’ تقریباً 60 ایسی دوائیں ہیں جن کا کیفین کے ساتھ منفی اثر نہیں ہوتا۔ جب ہم کوئی دوا لیتے ہیں، تو یہ ہمارے جسم سے گزرتی ہوئی ایک بار معدے یا آنت میں پہنچنے کے بعد خون میں جاتی ہے اور پھر پورے جسم میں تقسیم ہوجاتی ہے‘‘۔

ناوارا یونیورسٹی میں فارماکولوجی کی پروفیسر ایلینا پیوترا روئیز ڈی ازوا، نے بتایا کہ ادویات کے فارماکولوجیکل ہدف ہوتے ہیں، یعنی ان کا مثبت اثر تب شروع ہوتا ہے جب وہ جسم میں مخصوص حصوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ یہ ہدف کسی بیماری کے علاج کے لیے ایک سٹریٹجک پوائنٹ ہوتے ہیں۔ جبکہ دوا کا اثر شروع کرنے یا اسے بلاک کرنے کے لیے پروٹین کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے لیے دوا کو جسم میں پوری طرح جذب اور تقسیم ہونا پڑتا ہے۔

دوا کو میٹابولائز یعنی جسم سے خارج ہونا پڑتا ہے اور یہ کام جگر کا ہے۔ یہ جسم کے ان اعضا میں شامل ہے جو جسم کو پاک کرتا ہے لیکن اگر اس سارے سفر میں کافی کا اضافہ کر دیا جائے تو کیا ہوگا؟ یہ دوا اور اس کے مقصد پر منحصر ہے۔

کیفین اعصابی نظام کا محرک

یاد رکھیں کہ کیفین مرکزی اعصابی نظام کا محرک ہے، جو گھبراہٹ اور ہائی بلڈ پریشر کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر ہم ایسی دوا کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس کا مقصد دماغ کے لیے سکون بخش اثر پیدا کرنا ہے تو اسے کافی یا کیفین والے مشروب میں ملانا نقصان دہ ہوگا کیونکہ یہ دوا کے اثرات کو کم کر دے گا۔ علاج میں استعمال ہونے والی ان میں سے کئی دوائیں ’بینزو ڈیازپین‘ کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، جو بے چینی اور بے خوابی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔

پیوترا کا کہنا ہے کہ ’دوا کے ساتھ ساتھ کیفین بھی دماغ تک پہنچ جائے گی، پھر ایک طرف آپ کا اعصابی نظام کیفین سے محرک ہوگا اور دوسری طرف دوا کا اثر ہوگا۔ ان دوائیوں کو کیفین سے بھرپور مشروبات کے ساتھ لینے کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کیونکہ آپ کافی یا کولا کے ذریعے جو مالیکیول لے رہے ہیں وہ دواؤں کے بالکل برعکس کام کرتے ہیں۔‘

جگر میں ضرورت سے زیادہ دوا جمع ہوجانا

اس کے علاوہ کچھ ادویات جگر میں میٹابولائز ہونے کے لیے کیفین کی طرح انزائمز اور پروٹینز کا استعمال کرتی ہیں ۔ اس لیے اس میں ایک قسم کی مداخلت ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ دوا جسم میں ضرورت سے زیادہ جمع ہو جاتی ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ’کچھ دوائیوں کے لیے پلازما میں اضافہ غیر متعلقہ ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے پاس حفاظتی گنجائش زیادہ ہے۔’ لیکن دیگر بہت ہی مخصوص ادویات کے لیے، جیسے کہ شیزوفرینیا کے لیے تجویز کردہ ادویات، جن کے علاج میں یہ ضروری ہے، کا ایک جگہ جمع ہونا خطرناک ہوسکتا ہے۔ وہ ایسی دوائیں ہیں جن کی کچھ زیادہ مقدار سے تو فرق نہیں پڑتا لیکن اگر یہ طے شدہ مقدار سے بڑھ جائے تو اس سے خطرہ بڑھ سکتا ہے۔‘

کارکاس کہتے ہیں کیفین کچھ ادویات کے اثر کو بڑھا کر یا کم کر کے اس میں ترمیم کر سکتی ہے۔ ایسی دوائیں بھی ہیں جو کیفین کے میٹابولزم کو روک کر مذکورہ عمل کے ذمہ دار انزائم کے عمل کو روکتی ہیں۔ اس کی ایک مثال کوئنولونز جیسی کچھ اینٹی بائیوٹکس ہیں۔ پروفیسر کا کہنا ہے کہ ’ایسا ہو سکتا ہے کہ یہ دوا کیفین کے میٹابولزم کو دباتی ہے یا کم کرتی ہے اور اس وجہ سے جسم میں کیفین کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔‘

ہاضمے کا مسئلہ

یہ بھی ہدایت کی جاتی ہے کہ کچھ دوائیں، جیسے کہ ہائپوٹائرائڈزم کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوائیں، خالی پیٹ لی جائیں۔ پیوترا کا کہنا ہے کہ ’یہ ضروری ہے کہ تھائروکسین کو خالی پیٹ لیا جائے، بغیر کوئی کھانا یا کافی پیئے، اور یہ کہ ناشتہ کرنے سے پہلے کچھ دیر انتظار کیا جائے تاکہ آنتوں کی سطح پر دوائی پوری طرح جذب ہو اور اس طرح ہمارے جسم میں ہارمون کی بہترین سطح حاصل ہوسکے۔‘

اور یہ ہے کہ معدے اور آنت میں خوراک کی موجودگی بعض ادویات کے جذب ہونے میں ممکنہ طور پر رکاوٹ بن سکتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ تجویز کردہ خوراک لیتے ہیں اور اگر اس کا ایک حصہ جذب نہیں ہوتا ہے، تو اس کا طبی اثر نہیں پڑے گا۔‘ تاہم دوسری دوائیوں کے لیے، خوراک بہترین اصول ہے۔ سوزش والی کچھ دوائیں گیسٹرک میوکوسا کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ اس وجہ سے بعض اوقات تجویز کیا جاتا ہے کہ اسے کھانے کے ساتھ کھایا جائے تاکہ اس سے گیسٹرو کے نقصان دہ اثر کو کم کیا جا سکے۔‘

کافی میں دودھ کا عنصر

پیوترا کا کہنا ہے کہ ’بڑی مقدار میں دودھ والی کافی سے دھوکہ نہ کھائیں۔ ’ٹیٹراسائکلائنز، جو کہ ایک قسم کی اینٹی بائیوٹک ہیں، دودھ کے ساتھ مل کر پیچیدگی پیدا کرتی ہے اور اسے جذب ہونے سے روکتی ہے۔‘ بعض ادویات کو ڈیری اشیا کے ساتھ لینے سے فرق نہیں پڑا تاہم کچھ اینٹی بائیوٹکس کا اثر اس سے ضائع ہوسکتا ہے۔

پیوترا کا کہنا ہے کہ اگر مرکزی اعصابی نظام کو متاثر کرنے والی دوائیں، جیسے اینٹی ڈپریسنٹس لی جاتی ہیں، تو ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے، کیونکہ کیفین خود اس نظام کا ایک بڑا محرک ہے۔ یہ ضروری ہے کہ دوائیں اسی طرح لی جائیں جیسا کہ ماہرین صحت کی طرف سے کہا گیا ہے۔

’گھریلو نسخوں کو بھول جائیں۔ اگر یہ ایک تھیلی ہے اور اسے پانی میں تحلیل کرنا ہے تو اسے اس طرح کریں، نہ کہ جوس یا دوسرے مائع میں کیونکہ یہ دوا کے اثر کو مکمل طور پر تبدیل کر دیتے ہیں۔‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سی دوائیں ہیں جن کو کافی کے ساتھ لینا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

کارکاسکا کہنا ہے کہ ’آپ کو ہر کیس کو الگ طرح سے دیکھنا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانے کا بہترین طریقہ اس بارے میں اپنے فارماسسٹ یا ڈاکٹر سے پوچھنا ہے۔ ’عام طور پر اعتدال میں کافی پینا اچھا ہے۔‘

 

The post بعض دوائیں کافی یا چائے کے ساتھ کیوں نہیں کھانی چاہئیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>