دوسری قسط
افغان صدر سردار داؤد نے ایک بار پھر امن کی خواہش کا پیغام پاکستان کے نئے فوجی حکمران کو بھیجا ، جنرل ضیاء الحق اقتدار سنبھالنے کے محض تین ماہ بعد افغان دارالحکومت کابل جا پہنچے اور مفاہمت کی کوششوں کا آغاز ہوا۔
سردار داؤد مخالف جہادی گروہوں کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا گیا۔ سردار داؤد نے بھی کیمونسٹ گروہوں کے خلاف سخت کارروائیاں کا آغاز کر دیا۔
روس کے لئے یہ صورتحال قابل قبول نہ تھی لہذاء کے جی بی نے سردار داؤد خاں سے چھٹکارا پانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی ۔ 27 اپریل 1978 کو سردار داؤد خاں اپنے خاندان کے دیگر 30 افراد سمیت صدارتی محل میں مارے گئے۔
افغانستان میں نور محمد ترکئی نئے صدر بن گئے۔ پاکستان کے فوجی حکمران نے افغانستان سے مفاہمتی کوششوں کو جاری رکھا اور بات چیت پھر شروع ہو گئی۔
ماسکو اس تازہ پیشرفت پر تلملا اُٹھا اور نور محمد ترکئی کا اقتدار بھی ڈولنے لگا۔ پاکستان سے دوستی کا یہ قدم انہیں بھی مہنگا پڑا ، وہ بھی جان سے گئے۔ 14 ستمبر 1979 کو حفیظ اللّٰہ امین نے اقتدار سنبھالا تو جنرل ضیاء الحق نے ان سے بھی مراسم بڑھانا شروع کر دئیے۔ پاکستانی وزیر خارجہ آغا شاہی کے دورہ کابل کی تاریخ طے ہو گئی۔
ادھر آغا شاہی کابل روانگی کے لیے پشاور ہوائی اڈے پر پہنچ چکے تھے اور اُدھر سوویت روس کی افواج دریائے آمو پار کرکے کابل کی جانب پیش قدمی کر رہی تھیں۔ 27دسمبر 1979 کو سویت افواج نے کابل پہنچ کر حکومتی معاملات براہ راست اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ اسے ” آپریشن طوفان ” کا نام دیا گیا۔
سردار داؤد کے بعد آئے دونوں کامریڈ بھی پاکستان دوستی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ سوویت کیمونسٹ افواج کے کابل کے ایوان اقتدارمیں براہِ راست داخل ہونے کے بعد پاکستان کے پاس مزاحمت کے سوا اب کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے سوویت افواج کے خلاف افغان جنگ میں منظم انداز میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔
افغانستان میں سوویت افواج کے خلاف ابتدائی مزاحمت شروع ہونے کے بعد ایک سال سے زائد مدت تک صدر جمی کارٹر کی امریکی حکومت افغان مذہبی عسکریت پسندوں کی چھاپہ مار کارروائیوں سے لاتعلق رہی۔ سوویت افواج کی افغانستان آمد پر افغان شہریوں کی بڑی تعداد نے پاکستان کا رْخ کیا۔
افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کے لئے اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین کا ادارہ متحرک ہوا امریکی حکومت نے بھی اس مقصد کے لئے چالیس لاکھ ڈالر کی مالی امداد کی پیشکش کی جسے ضیاء الحق نے اسے “یہ اپنی مونگ پھلی اپنے پاس رکھو “کہہ کر مسترد کر دیا ، یاد رہے جمی کارٹر ذاتی طور پر مونگ پھلی کے کاروبار سے وابستہ تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ، کابل میں سوویت افواج کی مزاحمت امریکی شمولیت سے قبل ہی شروع کر چکا تھا۔ اس دوران امریکہ میں صدارتی انتخابات کے نتیجے میں رونالڈ ریگن برسراقتدار آ گئے۔ انہیں پاکستانی سرپرستی میں افغان جہاد کی کامیابی کے امکانات دکھائی دینے لگے لہذا امریکہ سعودی عرب کی نظریاتی اور مالی امداد کو ہتھیار بنا کر ویتنام میں شکست کا بدلہ لینے کے لیے افغان جنگ میں کود پڑا۔
پاکستان نے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں پر واضح کر دیا کہ جہاد کی فیصلہ کن حکمت عملی اور قیادت صرف پاکستان کے ہاتھ میں رہے گی، اسلحہ اور مالی امداد کی تقسیم صرف پاکستان کے ذریعے ہوگی۔
جنرل محمد ضیاء الحق نے افغانستان میں مزاحمت کے درجہ حرارت پر کڑی نظر رکھی اور اتنا نہیں بڑھنے دیا کہ ماسکو غصے میں پاکستان پر چڑھ دوڑے۔ افغان جنگ میں مزاحمت کے باوجود روس نے پاکستان میں اسٹیل ملز جیسے منصوبوں پر کام جاری رکھا تھا اور سفارتی سطح پر بھی دونوں ملکوں کے رابطے نہیں ٹوٹے۔
ایک بار امریکی سفیر نے پشاور میں کچھ افغان جنگجوؤں سے براہ راست ملاقات کا پروگرام بنا لیا۔ اس مقصد کے لیے وہ سڑک کے راستے پشاور روانہ ہو گئے لیکن متعلقہ پاکستانی حکام نے انہیں اٹک پل پر جا لیا اور انہیں احترام سے بتا دیا گیا کہ انہیں پشاور جا کر افغانوں سے براہ راست رابطے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ مزاحمتی جنگ 1988 میں ہوئے معاہدے تک جاری رہی۔
جنیوا امن معاہدے کی پاکستان کی جانب سے تمام تر جزئیات مکمل طور پر وزیر اعظم پاکستان محمد خاں جونیجو کی سیاسی قیادت نے اپنے ہاتھ میں لے لیں۔
صدر ضیاء الحق کی کہی گئی ہدایات کو یکسر انداز کیا گیا تو انہیں افغانستان میں لڑی گئی جنگ کے تمام ثمرات ضائع ہوتے دکھائی دیئے تو ضیاء الحق نے اپنے صدارتی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد خاں جونیجو کی حکومت کو مالی بدعنوانیوں کے الزامات پر برطرف کر دیا اور تمام اختیارات خود سنبھال لیے۔ جنیوا معاہدے نے جنگ کے فاتحین کے درمیان اس کے ثمرات سمیٹنے اور خطرات سے نمٹنے کی ایک اور محاذ آرائی کی بنیاد رکھ دی۔
آگے بڑھنے سے پہلے ماسکو میں جاری صورتحال کا جائزہ بھی ضروری ہے۔ 80کی دہائی کے وسط میں جب افغانستان میں گوریلا کارروائیاں اپنے عروج پر تھیں، ماسکو میں ایک اہم تبدیلی رونما ہوئی۔ میخائل گورباچوف نے سوویت یونین میں طاقت کے اہم مرکز کیمونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھال لیا۔
اگلے ہی سال 1986 میں روس کے چرنوبل ایٹمی پلانٹ کا حادثہ رونما ہو گیا۔ دنیا بھر میں ایٹمی تنصیبات کے غیر محفوظ ہونے پر تحفظات کی آوازیں بلند ہوئیں۔ میخائل گورباچوف نے اب اپنی تمام تر توجہ کا مرکز داخلی استحکام اور اصلاحات کو بنا لیا۔ میخائل گورباچوف نے رونلڈ ریگن کے ساتھ ایٹمی پھیلاؤ کو محدود کرنے اور دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان جاری کولڈ وار کو ختم کرنے پر اتفاق کر لیا۔ ماسکو کے طاقتور لیڈر گورباچوف گلاسناسٹ ( کھلے پن ) اور پریسٹرائکا ( تعمیر نو ) کی اصلاحات کی راہ پر گامزن ہو گئے۔
یہیں سے افغانستان میں روسی فوج کو واپس بلانے کی سوچ نے فروغ پانا شروع کر دیا۔ دوسری جانب اسلام آباد میں منتخب جمہوری وزیراعظم محمد خاں جونیجو افغان وار کی عسکری ترجیحات سے لاتعلقی کا رجحان رکھتے تھے ، گویا ایک طرح سے افغانستان کی صورتحال سے وہ بیزار تھے۔
وہ ہر قیمت میں ناپسندیدہ معاملے سے اپنا پلو جلد از جلد چھڑانا چاہتے تھے۔ پاکستانی سیاست جمہوریت کے نام پر سرپرستی اور آسودگی کی خواہش میں امریکی ذہن کے اگلے منصوبوں کو جاننے اور ان کے درست ادراک میں ناکام رہی۔ ماسکو ، واشنگٹن اور اسلام آباد میں رابطے شروع ہوئے۔
ماسکو نے کابل سے اپنی افواج کی پر امن واپسی کی راہ مانگی۔ سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں امریکہ ، سوویت یونین ، افغانستان اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ پاکستان کے وزیر مملکت خارجہ امور جنابِ زین نورانی نے اپنے سیاسی قائد وزیراعظم جنابِ محمد خاں جونیجو کی ہدایت پر 14اپریل 1988 کے روز جنیوا معاہدے پر دستخط کر دیئے۔
معاہدے کے مطابق پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی رضا کارانہ واپسی اور تین ماہ میں سوویت افواج کی پچاس فیصد تعداد اور نو ماہ میں افغانستان سے ان کا مکمل انخلاء اور سوویت افواج کی واپسی کا آغاز 15مئی 1988 سے اور اسے 15فروری 1989 کو مکمل ہونا طے پایا۔ یہ افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان دوطرفہ باہمی معاہدہ تھا۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر اتفاق کیا۔ امریکہ اور سوویت یونین جنیوا معاہدے کے گواہ ٹھہرے۔
کیا المیہ ہے کہ سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی کا فقدان اب بھی جاری تھا ، ستر کی دہائی میں وقتی سیاسی مفاد کی سوچ نے بھیانک نتائج دکھا دئیے مگر اسی کی دہائی کے مظالم سے سیاست نے پھر بھی کوئی سبق نہ سیکھا ، اب اس نے جنیوا معاہدے میں نوے کی دہائی کے لئے پہلے سے بھی زیادہ خونریزی کی بنیاد رکھ دی۔ کہتے ہیں سیاست معاملہ فہمی ، افہام و تفہیم اور فراست و ادراک سے پرامن ماحول کو یقینی بناتے ہوئے آگے بڑھنے کا نام ہے مگر یہاں سیاست کی کم فہمی اور عاقبت نااندیشی ، نئی تباہی کی بنیاد رکھنے کی راہ پر گامزن تھی۔
نو سال سے افغانستان میں سوویت افواج کی مسلح مزاحمت کرتے افغان جنگجو گروہ اصل فریق کی حیثیت سے اس میں شامل ہی نہ تھے۔ جنیوا معاہدے کی فریق پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں تھیں ، سوویت یونین اور امریکہ اس میں گواہان کے طور پر تھے۔جہادی گروہوں نے جنیوا معاہدے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ ماسکو کی سرپرستی میں قائم کابل حکومتی سربراہ محمد نجیب اللہ اب بھی افغان حکمران تھا۔
جنیوا معاہدے میں سوویت افواج کا انخلا تھا ، نجیب اللہ پابند تھا کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہ کرے ، انتقالِ اقتدار کی کوئی شق شامل ہی نہ تھی۔
سیاست نے کم فہمی میں ریاست پاکستان کی جانب سے لڑی جنگ کے سبھی ثمرات کو ضائع کرنے کی دستاویز پر دستخط کر دیئے تھے۔ بعد میں وقت نے ثابت کیا کہ روسی افواج کا چھوڑا خطرناک ترین اسلحہ جس کے ہاتھ لگا وہ مقامی وار لارڈ بن گیا۔
کوئی ملا راکٹی مشہور ہوا تو کوئی سڑکوں پر دہی لینے کے لیے ٹینک کو اپنی مقامی سواری بنائے پھر رہا تھا۔افغان مزاحمتی جنگ کے اصل منصوبہ ساز ، پاکستان کے فوجی حکمران کو افغانستان ، مذہبی شدت پسند جنگجو گروہوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش کے شعلوں میں جلتا دکھائی دیا۔
اسی لئے جونیجو حکومت کو فارغ کر دیا گیا۔ حیران کن طور پر پاکستانی فوجی حکمران نے کابل کے تخت پر براجمان نجیب اللہ کو افغان جنگجو گوریلا گروہوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا عندیہ بھی دے دیا مگر نجیب اللہ نے اس امکان کو مسترد کر دیا۔
اسلام آباد کو نجیب اللہ کی حکومتی گرفت کا پورا احساس تھا سو اس نے نجیب اللہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی اور دوستانہ مراسم کی خواہش کا اظہار جاری رکھا ، حتی کہ اسلام آباد نے بعد میں نجیب اللہ کے اکھڑتے قدموں کے ہنگام بھی اسے پناہ کی پیشکش کر دی تھی۔
برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیئچر سے کسی نے پوچھا، سوویت کیمونسٹ خطرات کے ختم ہونے کے بعد امریکہ اور مغربی یورپ کے لیے اب خطرے کی کوئی بات نہیں رہی تو پھر نیٹو کا اب جواز ہی کیا رہ گیا ہے ، جواب ملا” ابھی اسلام باقی ہے “اب افغان مذہبی جنگو گوریلا گروہوں کو پاکستان میں داخل کرنے اور ایٹمی طاقت کے حصول کی راہ پر چلتے پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر عدم استحکام کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا، مگر ضیاء الحق کے ہوتے یہ ممکن نہ تھا، لہذا انہیں بہاول پور کے قریب فضائی حادثے میں راستے سے ہٹا دیا گیا۔
افغانسان ، افغان وار لارڈز کے ہاتھوں میں آ کر ایسی خوفناک داخلی جنگ سے دوچار ہوا جس کی تباہ کاری سوویت افواج کے حملوں سے بھی زیادہ تھی اور اس کے شعلوں نے پاکستانی سماج کو بڑے پیمانے پر ایک بڑی مدت تک جھلسائے رکھا۔
1988 میں پاکستان میں آئی نئی منتخب سیاسی حکومت جشنِ جمہوریت کی خوشیاں منانے میں مصروف تھی۔ سیاست نے افغانستان کی صورتحال سے باخبر رہنے کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کر رکھا تھا۔ عالمی اجارہ داروں کی جانب سے جنیوا معاہدے میں جان بوجھ کر متبادل افغان حکومت کے قیام کو نظر انداز کرنے کے نتائج نکلنا شروع ہو گئے۔
روسی افواج کے خلاف مزاحم افغان جنگجو مجاہد گروہوں میں شامل پشتون اور شمالی اتحاد کے ازبک ، تاجک متحد نہ رہ سکے۔سوویت اتحادی افغان صدر نجیب اللہ سوویت افواج کے کابل سے انخلا کے بعد بھی 1992تک کابل کے مزید چار سال حکمران رہے۔
ان کے بعد اقتدار افغان مجاہدین کے ہاتھ آیا ۔ صبغت اللہ مجددی 28 اپریل 1992 کو افغان صدر قرار پائے ، بعد میں برہان الدین ربانی نے صدارت کا عہدہ سنبھال لیا۔ وزارتِ اعظمیٰ کے لئے اہم پشتون کمانڈر حکمت یار کا نام 17 جون 1993 کو فائنل ہوا۔ کابل میں مگر طاقت و اختیار کی ایک ایسی خوفناک محاذ آرائی شروع ہو گئی جس نے اسے سوویت افواج کے لگائے زخموں سے بھی زیادہ لہو لہان کیا۔
پشتون حکمت یار کے ازبک جنگجو کمانڈر رشید دوستم اور تاجک جنگجواحمد شاہ مسعود کی متحدہ فوجوں سے خونریز تصادم ہوئے۔
پاکستان نے افغان گوریلا گروہوں کے درمیان صلح کی بھرپور کوششیں کیں ،انہیں سرزمین حجاز لے جایا گیا ، مذہبی مقدس مقامات کے اہم ترین مرکز میں بٹھا کر آپس میں صلح سے رہنے کے وعدے لئے گئے مگر سبھی کوششیں بے سود رہیں۔ سوویت افواج کے چھوڑے اسلحے سے ملک بھر میں مقامی وار لارڈز طاقت پکڑ گئے ، افغانستان اپنی تاریخ کی شدید ترین خانہ جنگی اور بحران کا شکار ہوگیا۔
(جاری ہے)
The post افغان جہاد کے دور میں بھی روس نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبے جاری رکھے appeared first on ایکسپریس اردو.