پتا نہیں یہاں کوئی محاورہ صادق آتا ہے یا نہیں کہ اس پروگرام میں وہ یک دم ثمر کی اگلی نشست پر آکر بیٹھ گئی تھی۔۔۔
وہ کون تھی۔۔۔؟ بس شاید ایک حسین اتفاق۔۔۔
ہاں، اسے آپ ایک اتفاق ہی کہہ لیجیے کہ ثمر نے کچھ دیر پہلے ہی تو اسے لڑکیوں کے جُھرمٹ میں پہلی بار دیکھا اور پھر اس کی نگاہ ٹھیر گئی یا یوں کہیے کہ ہٹ ہی نہ سکی۔۔۔ دراز قد، سادہ سے نقوش پر بے ساختگی کا حُسن بکھرا ہوا تھا۔۔۔ ہم جولیوں سے ہنستے بولتے کبھی کنجوسی نہیں دکھاتی، شاید اسے اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔
اس لیے کہ میک اَپ کے نام پر لگی ہوئی ہلکی ہلکی لپ اسٹک سے آراستہ ہونٹوں سے ترتیب سے جمے ہوئے دانت اس کے حُسن کی کسی کمی کا خیال پاس پھٹکنے بھی نہ دیتے تھے۔
تصنع اور بناوٹ کا اس کے ہاں جیسے کوئی گزر ہی نہ ہو۔۔۔ اور اس کی رنگت۔۔۔؟ رنگت دیکھ کر اُسے پچھلی کئی بار کی طرح سانولی اور گندمی رنگت کی کشش کا قائل ہونا پڑا اور ایسے کہ بس اُجلی اور گوری رنگت سے اس کا تقابل کرتے ہوئے دونوں کا فرق ایسا معلوم ہوا کہ جیسے دودھ اور چائے یا دودھ اور کافی میں جو فرق ہوتا ہے، تو بس یہی اس کی رنگت کی چُستی یا خوبی جان لیجیے۔
مگر اب یہ ثمر کو کیا پتا تھا کہ یہ ہوگا کہ یہ ’’اتفاق‘‘ اتفاقاً اس کی ہی اگلی کرسی پر آکر بیٹھ جائے گی۔ پتا نہیں قصے کہانیوں اور افسانوں میں تو اس کے بعد دل چسپ موڑ آتے ہیں، مگر حقیقت کی دنیا میں بھلا یہ سب کہاں ہوتا ہے، ہاں بس اتنا ضرور ہوا کہ ثمر نے تقدیر میں اس کی ایک ہاتھ بھر فاصلے کی قربت ضرور پالی تھی۔۔۔!
اس کے نیم کھلے ہوئے سیاہ، بلکہ بہت غور سے دیکھا، تو قریب گہرے کتھّئی مائل۔۔۔ بالکل ایسے کہ جیسے ثمر کے سر کے بال ہیں۔۔۔ ان میں نئے ریتی رواج کے مطابق بالوں کی ایک موٹی گندھی ہوئی لَٹ پیچھے کو بال پن سے جمائی گئی تھی۔۔۔ اس کے اوپر دو، تین بال پن اور لگا کر گرفت اور مضبوط کی گئی تھی۔
وہ اپنے برابر میں بیٹھی ہوئی سہیلیوں میں اپنی قامت کے سبب زیادہ نمایاں تھی۔۔۔ باقی سب صاف رنگت میں اس پر واضح برتری رکھتی تھیں، لیکن حُسن، معصومیت اور بے ساختگی کا معاملہ ثمر کی آنکھ سے جو دیکھیے، تو جو یہاں تھا، وہ باقی کسی میں بھی نہیں پایا جاتا تھا، بلکہ کم کم ہی یہ ساری چیزیں کسی میں یک جا ہوا کرتی ہیں۔۔۔ ورنہ ثمر ایسا دل پھینک تو کبھی رہا ہی نہیں۔
گاہے گاہے وہ اپنے باجُو میں بیٹھی ہوئی سہیلی سے بات کرتی، تو ایک رخ سے اس کا حُسن ثمر کی آنکھوں کو خیرہ کرتا، کبھی بائیں والی کے کان میں سرگوشی کرتی، تو چہرے کی دوسری سمت کے بھی درشن ہوجاتے۔۔۔ مسکراہٹ اس پر مستزاد تھی، ایسے میں اس کی نگاہ بار بار اسٹیج سے ہٹ کر اس کی جانب مرکوز ہوتی، جی چاہتا کہ اس سے نگاہیں چار ہوں۔
اسے پتا چلے کہ ثمر اسے دیکھ رہا ہے، مگر ایسا ہو نہیں پایا، یوں بھی اس کی کھلی زلفوں سے سجا ہوا سر ثمر اور اسٹیج کے آڑے آتا تھا، مگر صاحب، اس کے لیے یہ کوئی مہنگا سودا تو نہ تھا۔۔۔تھوڑی ہی دیر پہلے ثمر نے جب اسے پہلی بار دیکھا، تو جھٹک دیا تھا، مگر اب تو وہ خود یہاں اس کے پاس آگئی تو وہ اس کا خیال اور کتنا جھٹکتا۔
پھر سے ایک واردات قلبی خواب بننے لگی۔۔۔ اپنی ’تکمیلیت‘ کا وہی حسین خواب جو ہر بشر ہی دیکھتا ہے۔۔۔! جو ہر خواہش کی طرح ’کاش‘ سے شروع ہوتا ہے اور اکثر کاش ہی تک رہ بھی جاتا ہے۔۔۔!
ہائے۔۔۔! مگر یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔؟ سب سے پہلے تو یہ کیسے پتا چلے کہ وہ کون ہے، کیا ہے، نام کیا ہے، کیا کرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ نہ جان، نہ پہچان اس سے بات کیوں کر کی جائے۔۔۔ پھر اپنے جذبات اور خواہشات کا اظہار تو بہت بعد کے مراحل ہیں۔
اس پروگرام میں تاریخ کے موضوع پر ایک ہندوستانی مصنف سے اس کی کتاب پر گفتگو جاری تھی اور اس کے جُثے کی حرکت اور سر کی جنبش سے واضح طور پر یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس کے کچھ نوٹس بھی لے رہی ہے۔
کبھی موبائل اوپر کر کے سامنے مَنچ کی تصویریں بھی لیتی۔۔۔ یکایک ثمر کو بھی یہ خیال آیا کہ کیوں ناں وہ بھی تصویر بنائے۔۔۔ اسٹیج کی نہیں، بلکہ دانستہ اسی کی، یعنی کہ اس کے سر اور بالوں ہی کی۔ اب چہرہ نہ سہی کم از کم ثمر اس کی قربت کے صدقے اس کی زلفوں کے عکس کا یہ ’تبرک‘ ہی سمیٹ لے۔۔۔ سو، ثمر نے اس کام میں دیر نہیں کی، تصویر کے لیے درکار روشنی کی کمی کے باوجود تین چار تصویریں لے ہی لیں۔
موبائل اونچا کر کے انداز یہی کرتا کہ گویا وہ بھی باقی حاضرین کی طرح مقررین کو عکس بند کر رہا ہے، لیکن اصل بات اس کی بالکل الٹ تھی۔۔۔ اسی دوران یکایک مغرب کی اذان گونجی اور اس نے جلدی سے گلے میں پڑا ہوا دوپٹہ اپنے سر پر اوڑھ لیا۔
’’واہ۔۔۔!‘‘ ثمر کے منہ سے تعریف نہ رک سکی۔
یوں بھی ثمر کو یہ سر کو آنچل سے آراستہ کرنے کی ادا نہایت خوب صورت معلوم ہوتی تھی، لیکن یہاں اس ادا کے سونے پہ سہاگہ ہونا آپ بس شاید تصور ہی کر سکتے ہیں۔۔۔ اور خوش قسمتی سے ثمر کے کیمرے نے اس حسین ’’تاریخی‘‘ منظر کو بھی محفوظ کرلیا اور اس کے دوپٹہ اوڑھے ہوئے سر کو بھی۔۔۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اذان ہونے پر اس کے ساتھ کی کسی بھی دوسری لڑکی نے ایسا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی!
یہ ادا فقط ادا ہی تو نہ تھی، اس کے خاندانی رکھ رکھاؤ، وضع داری اور تربیت کی ایک مکمل خبر تھی، جو اس کی شخصیت کو اور بھی خوب صورت بنا رہی تھی۔
پھر ثمر کی اسی شش و پنج اور سوچ بچار میں یہ پروگرام اختتام پذیر ہوگیا۔ اب بھلا ثمر کو کیا سوچنا تھا کہ اب اِس پروگرام کی کس بیٹھک میں جانا ہے، ہاتھ میں موجود ’پروگرام‘ سے راہ نمائی لیے بغیر وہ سیدھا اسی کے پیچھے ڈولتا چلا گیا، لیکن اس بار جس جگہ وہ جا کر بیٹھی، ثمر کو اس کے قریب کی نشست نہ مل سکی۔
سو چند ثانیوں بعد ہی وہ اٹھ آیا، اور ایک دوسری بیٹھک میں شریک ہوا، جب یہاں سے باہر نکلا، تو بے ساختہ دوبارہ آکر اسے تلاش کرنے لگا۔ حاضرین اور اتنے لوگوں میں اس کی نگاہ بہت تیزی سے لوگوں کے سروں میں اُس مخصوص طریقے سے گُندھے ہوئے بالوں والے سر کو ڈھونڈ رہی تھیں، مگر شاید وہ یہاں نہ تھی، ثمر کو ایسا لگا کہ جیسے وہ اپنی ’سنڈریلا‘ کو ڈھونڈ رہا ہو۔ پھر ثمر کو اپنے اس بے تکے خیال پر خود ہی ہنسی آگئی، اور یونہی بے وقوفی میں، اس نے خود سے کہا کہ دیکھو میاں، اگر وہ نصیب میں ہوگی، تو دوبارہ ضرور مل جائے گی، ورنہ نہیں!
سو بس اسی خیال سے تیزی سے نگاہیں دوڑاتا ہوا نیم مایوس قدموں سے وہ باہر نکل رہا تھا کہ لوگوں سے بھرے ہوئے ’فورڈ کورٹ‘ میں یکایک وہ پھر دکھائی دے گئی۔۔۔!
’’واہ ماشاء اللہ۔۔۔۔!‘‘ ثمر کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
اسی لمحے وہ بھی اپنی ایک سہیلی کے ساتھ شاید واپس روانہ ہونے کو تھی، وہ جھجھکا، کچھ رکا اور ٹھیرا بھی۔۔۔ کہ شاید وہ بھی اسی جانب چلے، جہاں وہ جا رہا ہے، مگر ثمر کوئی فیصلہ نہیں کر سکا، بس پھر جلدی سے وہاں سے ہٹ گیا۔۔۔!
اور ثمر نے دانستہ اس لمحے جلدی سے اپنے ایک خواب کا ’خون‘ کر دیا۔۔۔ اس پری وَش کو اس ہجوم میں بغیر کسی سراغ کے پھر سے کھو دیا۔۔۔ شاید پھر دوبارہ کبھی نہ ملنے کے لیے۔۔۔!
کیوں کہ ثمر کو لگتا تھا کہ کچھ مہینے، سال دو سال بعد ہونے سے بہتر ہے کہ یہ بات یہیں چند گھنٹوں ہی میں ختم ہو جائے۔۔۔!
جب کہ ثمر نے تو دل ہی دل میں اس سے بات کرنے کا ایک بہانہ بھی ڈھونڈ لیا تھا کہ وہ اسے اپنا ’کارڈ‘ دے کر یہ کہتا کہ ’ذرا مہربانی فرما کر یہ تصاویر مجھے بھی ’واٹس ایپ‘ کر دیجیے، میرے کیمرے میں تصاویر اچھی نہیں آئیں۔۔۔! یا یہ کہ آپ اپنے نوٹس مجھے بھی بھیج دیجیے گا، اس طرح شاید رابطہ ہوجائے، کوئی تعارف ہو جائے اور شاید سب کچھ ویسے ہی ہوتا جائے جیسے وہ سوچ رہا ہے۔
مگر یہ تو صرف ثمر سوچ رہا تھا، ہوتا تو کچھ اِس طرح۔۔۔کہ وہ کہتی دراصل ابھی وہ ایسے کسی ’’چکر‘‘ میں نہیں پڑنا چاہتی۔۔۔! یا یہ کہ ثمر اسے قطعی پسند نہیں۔۔۔!
شاید دونوں کا دین، عقیدہ، مسلک، قوم، ذات، برادری، زبان اور وغیرہ وغیرہ کڑے رواج باہم ٹکرا جاتے۔۔۔ کہیں نہ کہیں ایسا اختلاف نکل آتا کہ جس پر سمجھوتا ناممکن ہوجاتا۔۔۔ شاید اسے ثمر میں گُھٹن محسوس ہوتی۔۔۔ شاید ثمر اسے اپنے روشن کیریئر، تاب ناک مستقبل اور شان دار زندگی میں ایک رکاوٹ سے زیادہ کچھ نہ لگتا۔۔۔ کیا پتا وہ ثمر کے اتنے قریب ہو ہی نہیں پاتی، اور نظرانداز کرتی، کیا خبر ایک دن اچانک سے وہ ’’لاپتا‘‘ ہوجاتی۔۔۔ کیا پتا اس کے ابا نہیں مانتے، ممکن ہے کہ وہ کسی اور کی منگیتر ہو، یا کسی اور کو پسند کرتی ہو۔۔۔۔ شاید اُسے اس وقت دو چار بہتر ’’آپشن‘‘ دست یاب ہوں، یا ایسا نہ بھی ہو تو چند دنوں بعد کوئی اور اُسے پسند آنے لگے۔۔۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ ساری جمع تفریق میں ثمر کو اپنی زندگی میں ’جمع‘ ہی نہیں کر پاتی۔۔۔ایک امکان یہ بھی تو تھا کہ اُسے ثمر کا سماجی رتبہ، شرافت، یا محدود آمدنی، ناکافی وسائل، بارش میں ٹپکتا ہوا گھر، پتلی گلی اور ایک گم نام خاندان کے رکھ رکھاؤ پسند ہی نہ ہوں۔
’’تو یہ اچھا نہیں ہے کہ جو چند مہینوں بعد یا ایک سال کے بعد برپا ہونا ہے، وہ آج اور ابھی ہوجائے۔۔۔! رہا درد، تو صاحب، وہ آج تو شاید بہت کم ہوگا، بعد میں ہوا، تو وبال جان ہو جائے گا۔۔۔‘‘ ثمر سوچتا چلا گیا۔
یہ تو اب ہو نہیں سکتا، کیوں کہ صبح تو کبھی کی گزر بھی گئی، اب تو ’دن‘ سرکتے سرکتے ’شام‘ آنے کو ہے۔۔۔ یہ بات کوئی حسین افسانہ بنے، تو ثمر بات کرتا، اسی بہانے تعارف ہوتا، راہ و رسم بڑھتی، کہے بغیر ہی وہ سب کچھ جان جاتی، یا شاید بہت ’’متاثر‘‘ ہو کر وہ یہ سب کہنے کو بے قرار سی ہوتی۔۔۔ اُسے یوں لگتا کہ یہ خلوص اس کی اصل منزل ہے، اب بس وہ ٹھیر جائے گی، سماں جائے گی، سج جائے گی اور بَس جائے گی۔
اس کے بعد عمر بھر، اگلے جہاں، اگلے جنم، بلکہ ہر جنم میں ساتھ نبھانے کا عہد ایک مثال بنا جاتی، اور سارے راستے رکاوٹوں سے جیسے کبھی آشنا ہی نہ رہے ہوتے، پانی کی لہروں کی طرح رواں، سارے کے سارے مفروضہ ’مسئلے‘ ایسے ہوا ہوئے جاتے، جیسے کوئی مذاق رہے ہوں۔۔۔ الٹا وہ ثمر کے ’خوامخواہ‘ چِھن جانے اور بچھڑ جانے کے خوف میں ہلکان ہوا کرتی، اِس تعلق کو دائمی کرنے تک بہت بے کل رہتی۔۔۔ لمحے بھر کی دوری پر گن گن کر ساری گھڑیاں بِتاتی۔۔۔ یوں لگتا ہی نہیں کہ جیسے ثمر نے اسے پایا ہے، بلکہ ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے اُس نے کہیں سے ثمر کو بہت مشقت کے بعد ڈھونڈ نکالا ہے۔ محبت ہونا کیا ہوتی ہے۔۔۔؟
ثمر کو یہ تب ہی پتا چلتا۔۔۔ ایسا لگتا کہ جیسے وہ دونوں ہمیشہ ہی سے ساتھ تھے۔۔۔ یا یہ کہ کم تنخواہ، چھوٹا سا گھر اور زندگی کے سارے آڑے ترچھے مراحل اور دشواریاں۔۔۔ پتا بھی نہیں چلتا کہ اس کے ہاتھ تھام لینے سے کیسے ختم ہوئے چلے جاتے۔۔۔ وہ تو اَزل سے مَن پر لگنے والے سارے کے سارے گھاؤ پر مرہم کا پھایا بن گئی۔۔۔ اور الٹا ثمر پر جتاتی کہ اس نے نہیں، بلکہ ثمر نے اس کو محبتوں سے مالا مال کر دیا ہے۔ ثمر کے تھوڑے سے پیسوں کو وہ کیسے بہت زیادہ بنا کر رکھتی، یہ تو واقعی کبھی فلموں یا افسانوں ہی میں دیکھا تھا۔
ثمر سوچتا ہے کہ اگر اُس روز وہ ہمت نہ کرتا، بار بار بکھر جانے اور ٹوٹ جانے کے ڈر سے پہلا قدم ہی نہ بڑھاتا۔۔۔ اچانک اس کے اپنے پاس آکر بیٹھ جانے کو قدرت کا ایک اشارہ یا ایک موقع دینے جانے کے بہ جائے بس اتفاق سمجھ کر اپنی منفی ذہنیت ہی میں کھویا رہتا، تو شاید اب جانے کہاں مارا مارا پھر رہا ہوتا، مگر ثمر نے اپنے خلوص پر بھروسا کیا، اپنے شفاف دل اور سچے جذبوں کو اپنا ہتھیار اور طاقت بنایا اور اسے ایسے پا لیا، جیسے وہ ہمیشہ ہی سے اس کی تھی۔
اس کی سہارا۔۔۔ کھٹنائیوں بھری اِس دنیا میں ’آسان جیون‘ کے لیے سہارا۔۔۔!
The post ’’سہارا۔۔۔!‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.