پرانے محلے کی ایک ساجھے دار ’آواز‘۔۔۔!
خانہ پُری
ر ۔ ط ۔ م
یوں تو کسی بھی ماحول کے لیے اکثر ہم اپنی نگاہوں ہی سے کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن کچھ چیزوں کا تعلق ہماری حس شامہ (سونگھنے) سے بھی ہوتا ہے، تو کچھ کا تعلق سماعت سے ہوتا ہے، اور جوں ہی وہ صدائیں ہمارے کان میں پڑتی ہیں۔
یکایک ہمارے لیے ایک ماحول سا بنا جاتا ہے، سننے والوں کو کسی چیز کی خبر ہو جاتی ہے، کچھ پتا چل جاتا ہے، کوئی خیال ذہن میں آ جاتا ہے وغیرہ۔ یہ آواز اذان کی بھی ہو سکتی ہے۔
کسی کی پکار، کسی پرندے کی چہچہاہٹ اور کبھی کسی پھیری والے کی صدا، کوئی گیت یا کوئی سُر یہاں تک کے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی چرچراہٹ وغیرہ بھی ہو سکتی ہے۔ کبھی کسی گاڑی کی آواز یا اس کا ہارن بھی ہمارے لیے نمایاں یا اہم ہو جاتا ہے۔ اگر ہمیں کسی کا انتظار ہو یا ہم بہت خاموشی کے ماحول میں ہوں تو یہ سب ہمیں بہت زیادہ محسوس ہوتا ہے۔
بالکل ایسے ہی ہم نے کراچی کی سمندری ہواؤں کی زد پر آباد ہونے والی ایک ایسی ’کچی بستی‘ میں آنکھ کھولی، جو شہر کے مرکزی ’ریلوے اسٹیشن‘ عرف ’کینٹ اسٹیشن‘ سے لگ بھگ کوئی ایک کلو میٹر سے کچھ زیادہ کے فاصلے پر واقع رہی۔۔۔ درمیان میں لگ بھگ ایک کلو میٹر کی یہ دوری ایک وسیع چٹیل میدان کی صورت میں حائل تھی۔
جس کی وجہ سے اکثر ’کینٹ اسٹیشن‘ پر آتی جاتی ریل گاڑیوں کی ہارن کی ’صدائیں‘ اس بستی کی گلیوں میں خوب گونجا کرتیں۔۔۔ گویا یہ اس محلے کے مکینوں کی زندگی کا ایک غیر محسوس سا حصہ بن گئی ہوں۔
ہمیں شاذ ہی کبھی ’کینٹ اسٹیشن‘ جانے کا اتفاق ہوا، لیکن بچپن سے اپنی بستی میں اس منفرد سی آواز کو جا بجا ’پھیرے لگاتے‘ ہوئے ضرور سنا۔۔۔ بالخصوص جاڑوں کی خاموش فضا اور خشک ہواؤں میں تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہم ہر آنے اور جانے والی ریل گاڑی کی آواز سے اس کی آمدورفت کا خوب اندازہ لگا سکتے ہوں۔
یوں لگتا تھا کہ یہ آواز کہیں تاک میں رہتی ہے کہ جوں ہی یہاں کچھ سوفتہ ہو اور فضا میں یہ ایک لایعنی سا بگل بج جائے۔۔۔ اور یہاں سے واں تک سارے میں، ایک دھیمی سی نیم سمع خراش سی آواز پھیلتی چلی جائے۔۔۔!
بستی کے ہزاروں لوگوں نے ہوش سنبھالتے ہی یہ آواز ضرور سنی، لیکن شاید زیادہ تر نے کبھی خاص غور کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ہوگی۔۔۔ تاہم یہ بے معنی ’ساز‘ ہمارے لیے ہماری پرانی حویلی، پرانی گلیوں، پرانے یاروں اور پرانے محلے کی طرح اپنے میں ایک خاصے کی چیز لگتی ہے۔۔۔ کہ ہماری گلی اسی میدان کی دیوار پر جا کر ہی تو بند ہوتی تھی، جس میدان کے اُس پار ریل کی یہ پٹریاں بچھی ہوئی تھیں۔
یوں تو یہ آواز کبھی کسی خاص وقت کی پابند نہیں۔۔۔ ظاہر ہے ملک بھر سے رواں دواں ریل گاڑیوں کی آر جار بھلا کب رکی ہے، لیکن یہ آواز ہماری بستی تک پہنچنے کے لیے ہوا کے رخ اور اس کے مخصوص خشک مزاج کی محتاج رہی۔۔۔ عموماً یہاں سمندری اور سیلی ہوا راج کرتی تھی اور وہ بھی ایسی کہ کبھی تو گلی کوچے تر بہ تر ہوئے جاتے تھے، ہوا کی اس مستقل خنکی سے پریشان اور بیمار ہو کر تو بہتیرے مکین بھی دوسرے علاقوں میں منتقل ہوئے۔
لیکن جوں ہی سردیوں کی آمد ہوتی اور ہوا میں نمی کا تناسب گھٹنے لگتا، اور دوردراز کی مساجد کی اذانیں بھی یہاں خوب سنائی دیتیں اور ساتھ ساتھ ریل گاڑیوں کے یہی ہارن اس موسمی تبدیلی کی خبر دیتے۔۔۔ یوں معلوم ہوتا کہ بس یہیں کہیں بغل میں ہی ریل کی پٹری ہے، جہاں سے یہ ریل گاڑی چھکا چھک گزری چلی جا رہی ہے۔
لیکن یہ مسافت اچھی خاصی تھی۔ درمیان میں عمارتوں کے بہ جائے میدان ہونے کے سبب بہ آسانی یہ صدا ہماری بستی کی گلیوں اور گھروں کے آنگن میں گویا اِتراتی پھرتی۔۔۔ بہت سے پرانی وضع کے گھروں میں کھڑکی، دروازوں سے اندر آئی چلی جاتی، جاڑوں کے سبب دریچے بند ہوتے، تو یہ صدا گھروں کی انگنائی اور برآمدوں میں اٹکھیلیاں کرنے لگتی۔۔۔
صبح و شام جب خشک ہوا کے جھکڑ چلتے، تو ہمارے گھر کی بالائی منزل کے خالی گھر کے دروازوں کے کواڑ اور کھڑکیوں کے پٹ بھی دھائیں دھائیں کر کے پٹخے چلے جاتے تھے۔۔۔ فضا میں سردیوں کا سناٹا ہوتا اور ایسے میں کینٹ اسٹیشن سے کوئی گاڑی روانہ ہوتی یا یہاں پہنچتے ہوئے اپنی آمد کا یہ ’اعلان‘ کرتی، تو ہماری اس بستی تک اس کی ’پکار‘ صاف سنائی دیتی۔۔۔ اور یہ تاثر بہ یک وقت گہرے سناٹے میں مخل بھی ہوتا اور ماحول پر ایک عجیب قسم کی افسردگی یا پراسراریت سی پھیلا دیتا۔۔۔
رات کے پہر بستی میں کہیں بہت پرے کتے بھونکتے یا نزدیک کسی کونے کھدرے میں جھینگر جھنگارتا۔۔۔ ایسے میں دو چار سیکنڈ کو یہ بلند آہنگ سا ہارن ساری صداؤں کو پس پَا کر کے فضا میں پھیل جاتا۔۔۔ اگرچہ اس بستی سے باقاعدہ ریل کے سفر کرنے والے کم ہی لوگ رہے ہوں گے، اس لیے یہاں یہ آواز وصل وہجر کے احساس کے علاوہ ایک مستقل عادت سی بھی تھی۔
کراچی میں سال میں شاید دو تین ماہ کے دوران ہی کچھ خشک ہوا کا راج ہوتا ہے، اور یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب یہ بستی سارا سارا دن اس ہارن کی آواز سے گونجتی رہتی ہے۔۔۔ کبھی کبھی تو معلوم ہوتا ہے کہ ریل کے ڈرائیور کو جانے کیا سمائی ہے کہ وہ بار بار ہارن بجائے جا رہا ہے، اور یہاں ہوا کے دوش پر ہر ہارن کی صدا باری باری اترے چلی جا رہی ہے۔۔۔ دن کے پہر تو اِدھر اُدھر کے شور غالب رہتے، لیکن جوں ہی شام ڈھلتی یا رات گہری ہوتی، تب بارہا فضا میں اس ہارن کی آوازیں نمایاں ہوجاتیں۔
اگرچہ یہ صدا خوشی یا افسردگی کے کسی احساس سے پرے ہے، لیکن فطری بات ہے کہ جب ہم اداس، خاموش، تنہا یا پریشان ہوئے بیٹھے ہوتے ہیں، تب لامحالہ ہمارا دھیان ایسی معمولی اور ایسی چیزوں کی طرف جاتا ہے۔
جنہیں عام مصروفیت اور بھاگا دوڑی میں ہم شاید ٹھیک سے سن بھی نہیں پاتے۔۔۔ رات کے کسی پہر یا دن میں کبھی آپ ذرا اداس اور تنہا ہوں، تو ایسا محسوس ہوتا کہ گویا یہ آواز آپ پر طاری ماحول کو مزید پُراثر اور گہرا کر رہی ہے۔
گویا کبھی یہ ہمارے موڈ کے ساتھ شاداں وفرحاں محسوس ہوتی، تو کبھی کسی افتاد اور کہرام میں کسی ’بین‘ کی طرح سنائی دیتی۔۔۔!
ایک بار ساون کے دنوں میں جب چھاجوں برسات برس چکی تھی، لیکن آسمان پر گہرے ابر ابھی مزید مینہ کی خبر دے رہے تھے، گھٹائیں گہری ہو رہی تھیں، دن کا وقت ہونے کے باوجود شام کا سا سماں تھا، اور ماحول میں ایک عجب خامشی سی تھی، کیوں کہ اب بچے کیا اور بڑے کیا، سب کا دل بارش میں بھیگ بھیگ کر بھر چکا تھا، یا وہ اس موسم سے لطف اٹھا لینے کے بعد اب ذرا دیر کو گھروں میں پڑے سستا رہے تھے۔
ایسے میں گھنگھور گھٹاؤں کی ہلکی گرج کے ساتھ ریل گاڑی کا یہ انوکھا سا ’ساز‘ بالکل ایک نئی طرح کا تجربہ دے رہا تھا۔۔۔ جیسے یہ زندگی کے کسی خاص اور اہم لمحے کی کوئی بھولی بسری سی یاد ہو، ایسی یاد جو ٹھیک طرح یاد بھی نہ آرہی ہو اور بھولی بھی نہیں ہو۔۔۔ جیسے ماضی کے دھند لکوں سے کچھ دھندلے مناظر پکار رہے ہوں۔۔۔ اور پھر یوں ہوتا کہ چشمِ تصور میں رفتگان کے کچھ چہرے خیالات کے ہیولوں میں ہمکتے نظروں کو دھندلا دیتے۔۔۔! مسکراتے مسکراتے بھی پلکیں ڈبڈبا جاتیں۔
کچھ پرانے مکین اور بے فکری کی عمریں دل میں اب اپنے نہ ہونے کی کسک جگا جاتیں۔۔۔ پھر نہ جانے کب تلک خیالات کے سیلِ رواں میں عہدِ گم گشتہ کی بادیں اور باتیں آتی چلی جاتیں اور ہم کبھی نہ پلٹنے والے زمانے کے سحر میں جکڑے رہتے، تاآں کہ حال کی کوئی صدا ہمیں موجودہ زمانے میں واپس لے آتی۔۔۔
۔۔۔
چــــراغ تلـــے۔۔۔
مریم شہزاد، کراچی
توبہ ہے! کتنی گندگی ہے، کیسے اطمینان سے بیٹھ کر کھا رہے ہیں، حد ہے۔‘‘
اماں اپنے گھر کے برآمدے سے نیچے بنی ہوئی ’فوڈ اسٹریٹ‘ کو دیکھ رہی تھیں، جہاں سڑک پر جا بہ جا میزکرسیاں لگی ہوئی تھیں اور تعطیل ہونے کی وجہ سے سب ہی پُر تھیں اور کتنے ہی لوگ انتظار میں کھڑے تھے اور کیوں نہ ہوتے یہاں کے کھانے کی تعریف ہر کسی سے سننے میں آ رہی تھی۔ جب ریستوراں میں اندر بیٹھ کر کھانے پر پابندی عائد ہوئی تھی، تب سے جگہ جگہ ہوٹلوں کے باہر کھلی جگہوں پر میز کرسیاں لگا کر ان کو فوڈ اسٹریٹ بنا دیا گیا تھا۔
ایسا ہی کچھ ملیحہ کی بلڈنگ کے نیچے بھی ہوا تھا اور موسم مناسب ہو تو اماں کو اپنا فارغ وقت برآمدے میں کھلی ہوا میں بیٹھ کر گزارنے کا شوق تھا، وہ کہتی تھیں جو مزا کھلی فضا میں ہے وہ اے سی والے بند کمروں میں کہاں۔
پہلے تو وہ اسی بات پر کُڑھتی رہتی تھیں کہ ذرا موٹرسائیکل والوں کو تو دیکھو کیسے خطرناک طریقے سے ادھر سے ادھر نکال لیتے ہیں۔۔۔ سانس ہی رک جاتی ہے !‘‘
سب سے زیادہ تکلیف تو ان کو سڑکوں پر جمع پانی اور کچرے کو دیکھ کر ہوتی تھی، جسے اب ان ریستوران والوں نے ڈھک ڈھکا کر وہیں لوگوں کو کھانا کھلانا شروع کردیا تھا اور اماں لوگوں کو یہاں مزے سے کھاتا دیکھتیں، تو ان کا جی متلانے لگتا، یوں تو ان کو ایک نیا شغل مل گیا تھا، مگر ان کی نفیس طبیعت پر یہ ماحول بہت گراں تھا۔
’’ارے کیا ان کے گھروں میں کھانا نہیں پکتا؟ یا ان عورتوں کو پکانا نہیں آتا؟‘‘ اماں ایک بار پھر غصے سے بربڑائیں۔
’’کیا ہوا اماں؟‘‘ کس پر غصہ کر رہی ہیں؟‘‘ ملیحہ برآمدے میں آئی، تو اماں کو دیکھ کر پوچھا۔
غصب خدا کا، ان مردوں کے دیدوں کا پانی مرگیا ہے، اپنی بیوی، بیٹیوں کے ہمراہ کھلی سڑک پر بیٹھ کر کھانے آ جاتے ہیں،کوئی خیال ہی نہیں ہے اور پھر ادھر شامیانہ لگا دیا، تو کیا ہوا ذرا اس کے پیچھے بھی تو جھانک کر دیکھو۔۔۔کیسے کتے بلیاں لوٹ رہے ہوتے ہیں۔۔۔ کیسا زمانہ آگیا ہے۔۔۔!
اماں آپ کو غصہ کس بات پر ہے؟ گندگی پر یا عورتوں کو سڑکوں پر کھانا کھلانے پر؟ ملیحہ نے پوچھا۔
’’اے دفع کرو، مجھے کیا پڑی ہے، کسی پر غصہ کرنے کی۔۔۔ ہمیں تو بچپن ہی سے یہ سکھایا جاتا تھا کہ کھانا ڈھک کر لاؤ، چھپا کر کھاؤ، یہاں تک کہ کچرا کونڈی میں کچرا تک چھپا کر پھینکتے تھے کہ کسی کا دل خراب نہ ہو، مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، کسی کو کوئی ڈھنگ ہی نہیں ہے۔‘‘ اماں نے دل کی بھڑاس نکالی۔
اماں اب رواج ہی بن گیا ہے کہ ’ویک اینڈ‘ پر باہر ہی کھانا کھایا جائے۔
’’لیکن بہو!! ذرا کوئی سوچے تو چاروں طرف اونچی اونچی بلڈنگیں ہیں اور اس میں یقیناً ایک آدھ گھر تو ایسا ہو سکتا ہے ناں جس میں گھر والوں کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہ ہو رہا ہو یا ایسے سفید پوش بھی تو آباد ہوں گے، جو اپنا بھرم نہ جانے کس طرح رکھے ہوئے ہوں گے۔
ان کے دل پر کیا گزرتی ہوگی، یا چلو ایسا کوئی بھی نہیں ہو، مگر کوئی تو ایسا ہوگا، جسے اپنے بچوں کی تربیت اس طرح کرنی ہوگی کہ میانہ روی کیا ہے یا کھانے کے ادب وآداب کیا ہیں۔‘‘ اماں دکھ سے بولتی چلی گئیں۔
’’ٹھیک کہہ رہی ہیں اماں! مگر اب تو لگتا ہے کہ کوئی سدھر ہی نہیں سکتا۔‘‘ ملیحہ بولی۔
’’اور یہ دیکھا ہے تم نے، یہ جو مسجد کے بیت الخلا کی دیوار ہے، اس کے ساتھ ہی اب کھانا لگا ہوا ہے ، استغفر اللہ، کسی بات کا کوئی احساس ہی نہیں۔‘‘
’’بس اماں کیا کہہ سکتے ہیں۔۔۔ اچھا اماں وہ۔۔۔‘‘ ملیحہ کچھ کہتے کہتے رکی۔
’’کیا ہوا کچھ کہہ رہی تھیں؟‘‘ اماں نے پوچھا۔
’’اماں وہ عرفان کہہ رہے ہیں کہ ہم کچھ دیر کے لیے بچوں کو لے کر باہر جا رہے ہیں۔‘‘ ملیحہ نے نگاہیں چراتے ہوئے کہا۔
’’اچھا اچھا ٹھیک ہے، چلے جاؤ۔ بس جلدی آجانا۔‘‘ اماں نے جواب دیا۔
’’اماں وہ۔۔۔‘‘ ملیحہ نے مزید کچھ کہنا چاہا، مگر اس کی زبان لڑکھڑا گئی، وہ کمرے میں آ گئی اور برقع پہن کر تیار ہوگئی۔
’’اماں کو بتا دیا کہ ہم کھانا باہر کھا کر آئیں گے؟‘‘ عرفان نے پوچھا ۔
’’نن۔۔۔نہیں۔۔۔ میں بچوں کو لے کر نیچے اترتی ہوں آپ بتا آئیں۔‘‘ وہ جلدی سے بولی اور بچوں کو لے کر باہر نکل گئی۔
’’ٹھیک ہے، تم اترو، میں آتا ہوں۔‘‘ عرفان اماں کے پاس آیا اور کہنے لگا:
’’اماں آپ کھانا کھا لیجیے گا اور آرام سے سو جائیے گا، ہمارے پاس چابی ہے، ہم کھانا ذرا باہر سے کھا کر آئیں گے، اس لیے دیر ہو جائے گی۔‘‘ عرفان نے کہا اور اس سے پہلے کہ اماں کچھ کہتیں وہ ان کو سلام کر کے باہر نکل گیا۔
اماں ہکا بکا رہ گئیں، کبھی بند دروازے کی جانب دیکھتیں، تو کبھی نیچے بیٹھے ہوئے لوگوں کو، جہاں کا شور انھیں زہر لگ رہا تھا: ’’کٹا کٹ۔۔۔ چکن کڑاہی۔۔۔ مٹن کڑاہی۔۔۔گولا کباب۔۔۔ سیخ کباب پراٹھے۔۔۔!‘‘
اور وہ بجھے دل کے ساتھ اندر کمرے میں آ گئیں۔
۔۔۔
گر ایسا ہو
محمد عثمان جامعی
تو کیسا ہو؟
ہر کام محبت جیسا ہو
سب ہاتھ رنگوں میں بھیگے ہوں
پانی میں دھنک کے ڈوبے ہوں
اور نو سے پانچ کے سارے پَل
تتلی ہوں
جگنو جیسے ہوں
نمکین
نمک پارے جیسے
گُڑ، شہد کے جیسے میٹھے ہوں
روئی کے اُڑتے گالوں سے
گوری کے کالے بالوں سے
چولھے پر میٹھا جل جائے
کچھ ایسے بھینے بھینے ہوں
جب اٹھے دکان کا بند شَٹر
یا کھلے چمک کر کمپیوٹر
جنت کے دریچے کھل جائیں
یوں لگے کھلا ہو دھیرج سے
کسی پریم بھری کا من، بھیتر
کھرپی یا ہتھوڑا مٹھی میں
بن جائیں کلائی سجنی کی
مٹی میں یار کی خوشبو ہو
کھٹ کھٹ میں کھنک ہو چوڑی کی
سب جیون چاہت ہوجائے
ہر سانس مہکتا جھونکا ہو
آنند، مشقت ہوجائے
گر ایسا ہو
تو کیسا ہو؟ ہر کام محبت ہوجائے
۔۔۔
صد لفظی کتھا
شناخت
رضوان طاہر مبین
’’انگریزوں کے ہاں پیدا ہونے والا انگریز ہوتا ہے اور جرمنوں میں پیدا ہونے والا جرمن۔۔۔!‘‘
ثمر نے گویا انکشاف کیا۔
’’تو کیا انگریز والدین کے ہاں جرمن اور جرمن والدین کے ہاں بھی کوئی انگریز پیدا ہوسکتا ہے۔‘‘
میں حیران ہوا۔
ثمر بولا:
’’ہوتا تو یہی ہے، والدین ہی سے آپ کی قوم بنتی ہے، جو آپ کی شناخت ہوتی ہے، مگر ایک قوم ہے، جس کے کچھ لوگ مُصر ہیں کہ ان کی قومیت ان کے والدین سے نہیں۔۔۔!‘‘
’’اب ایسی کون سی قوم دریافت ہوگئی۔۔۔؟‘‘ میں نے اکتا کر پوچھا۔
’’مہاجر۔۔۔!‘‘
ثمر نے جواب دیا۔
The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.